تیری خودی سے ہے روشن تیرا حریم وجود

سلمیٰ ناہید۔ جہلم

علامہ اقبال (رح) کے یوم وصال کے موقع پر ایک تحریر

تجھے معلوم بھی ہے کچھ کہ صدیوں کے تفکر سے
کلیجہ پھونک کر کرتی ہے فطرت ایک بشر پیدا

نابغہ عصر ہستیاں روز روز پیدا نہیں ہوتیں، قدرت برسوں پرورش کرتی ہے تب خاک کے پردے سے ایک ’’انسان‘‘ نکلتا ہے جو فخر انسانیت بنتا ہے اور نیابت خدا کا حق ادا کرتا ہے۔ وہ اپنے نور بصیرت سے مستقبل کے دھندلکوں میں وہ کچھ دیکھتا ہے جو عام انسانوں کی سمجھ سے بالا تر ہوتا ہے۔ زمانہ ان کی سوچوں کی پرواز کا ساتھ نہیں دے سکتا، وہ صاحب فضل ہوتا ہے اس لئے محسود ہوتا ہے۔ اس کے ہم عصر تو بہت سے ہوتے ہیں لیکن ہم سفر مقدر والے بنتے ہیں۔ انہیں نابغہ روزگار ہستیوں میں ایک نمایاں نام علامہ ڈاکٹر محمد اقبال کا ہے۔

اس ارض پاک کا ذرہ ذرہ صوفی نور محمد کے گلشن میں کھلنے والے پھول کی مہک سے عطر باز اور اس کے حسین خوابوں کا عکاس ہے۔ کلیوں کی چٹک اور پھولوں کی مہک، دھنک کے رنگ اور بارش کے جلترنگ اس کی فکر کے امین ہیں اور جب تک اس کی فکر اور خواب زندہ رہیں گے یہ پھول مہکتے رہیں گے، یہ کلیاں کھلتی رہیں گی، دھنک کا حسن قائم رہے گا اور بارش کا جلترنگ ابر رحمت کی طرح اس دھرتی پر برستا رہے گا۔ کیونکہ جس فکر اور جس سوچ نے، جس خواب اور پیغام نے ہمیں یہ جنت ارضی عطا کی، وہی اس کی روشنی، اس کے رنگوں اور خوشبوؤں کی بقاء کا ضامن ہے۔

اوروں کا ہے پیام اور میرا پیام اور ہے
عشق کے درد مند کا طرز کلام اور ہے

اقبال کے اس پیغام اور فکر کا مرکزی نقطہ ان کا تصور خودی ہے۔ اسی تصور کی وضاحت کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ

خودی کیا ہے راز درون حیات
خودی کیا ہے بیداری کائنات

خودی کا نشیمن میرے دل میں ہے
فلک جس طرح آنکھ کے تل میں ہے

اسی تصور خودی نے ان کی شخصیت کو بقاء دوام عطا کیا اور یہی تصور بقاء پاکستان اور ملت اسلامیہ کے عروج کا ضامن ہے۔ بقول اقبال

خودی کے ساز سے ہے عمر جاوداں کا چراغ
خودی کے سوز سے روشن ہیں امتوں کے چراغ

اقبال کا یہ پیغام خودی درحقیقت اس حدیث نبوی کی تفسیر ہے:

مَنْ عَرَفَ نَفْسَه فَقَدْ عَرَفَ رَبَّه.

’’جس نے اپنے آپ کو پہچان لیا۔ اس نے اپنے رب کو پہچان لیا‘‘۔

گویا خودی کا یہ تصور خود شناسی سے شروع ہوکر خدا شناسی پر ختم ہو جاتا ہے۔ انسان کا احساس نفس یعنی اپنی معرفت اور پہچان کا سفر جتنا آگے بڑھے گا اسے اتنا ہی اپنے رب کی معرفت اور محبت ملے گی۔ اسی احساس نفس کی اہمیت کو واضح کرنے کی کی غرض سے اقبال کہتے ہیں:

تو کہ از نور خودی تابندہ
گر خودی محکم کنی پایندہ

چوں خبر دارم ز ساز زندگی
با تو گویم چیست راز زندگی

انسان جتنا اپنی ذات پر غور کرتا ہے، اپنی حقیقت کو پہچانتا ہے اتنا ہی اسے اپنے رب کی معرفت حاصل ہوتی ہے۔ اپنی کوتاہیاں، غلطیاں اور کمزوریاں اسے رب کی عظمت، رفعت اور رحمت سے آشنا کرتی ہیں۔ بندہ خدا جب رب کے حضور حالت قیام میں ہوتا ہے تو اس کی پاکیزگی اور بلند مرتبہ کا اعتراف کرتا اور اس کی حمد کرتا ہے۔ جب اسے رب تعالیٰ کے مقام و مرتبہ کا ادراک ہوتا ہے تو وہ عاجزی کے طور پر رکوع میں جھک جاتا ہے اور سبحان ربی العظیم کہہ کر اس کی عظمت کا اقرار کرتا ہے۔ جب وہ جھکتا ہے تو اسے اپنے تذلل اور کمزوری کے اعتراف کے ساتھ ہی رب تعالیٰ کی بلندی و عالی مرتبت ہونے کا شعور حاصل ہوتا ہے اور وہ سراپا عجز و نیاز بن کر سجدے میں گر جاتا ہے اور سبحان ربی الاعلیٰ پکارتا ہوا اس کی رفعتوں کی گواہی دیتا ہے۔

گویا بندہ خدا اپنی کمزوری و عاجزی سے آگاہ ہوکر جتنا جھکتا ہے، رب تعالیٰ اپنی عظمت و رفعت اور شان کی معرفت و ادراک کے دروازے اس پر کھولتا ہے اور اس معرفت شان معبودیت کے صدقے رب تعالیٰ اپنے بندے کو مقام عبدیت پر فائز کرتا ہے۔

جب بندے کو رب کی شان معبودیت اور اپنے مقام عبدیت کا پتہ چل جاتا ہے، رب کی عظمت اور بندے کی عاجزی کا ادراک ہوجاتا ہے تو وہ اپنی رضا، رب کی رضا میں گم کردیتا ہے۔ وہ اپنے ہر عمل میں رب تعالیٰ کی رضا، اس کی منشاء اور اس کے اذن کا طالب رہتا ہے۔ جب بندہ اس مقام پر پہنچتا ہے تو رب تعالیٰ اس کو شان عبودیت عطا کرتا ہے پھر وہ بندے کو وہ بھی عطا کرتا ہے جو اس کی رضا ہوتی ہے اور وہ بھی عطا کرتا ہے جو بندے کی رضا ہوتی ہے۔ بقول اقبال رحمۃ اللہ علیہ

خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے

اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ یہ خود آگاہی اور رضا الہٰی کیسے ملتی ہے؟ تو اقبال کے نزدیک عشق ہی ایک ایسا جذبہ ہے، ایسی دہن ہے، ایک ایسا سودا ہے جو انسان کو جملہ آلائشوں سے پاک کرکے اس کی خودی کو جلا بخشتا ہے۔ یہ سودا اس کی خودی میں تازگی اور بالیدگی پیدا کرتا ہے۔

چہ خوش سودا کہ نالد از فراقش
ولیکن ہم ببالد از فراقش

یہ جذبہ عشق زندگی کو حسین بناکر اس میں زیرو بم پیدا کرتا ہے۔

عشق سے پیدا نوائے زندگی میں زیرو بم
عشق سے می کی تصویروں میں سوزد مبدم

اقبال کے نزدیک یہی جذبہ عشق انسان کو خود آگاہی و خود شناسی کا زیور عطا کرتا ہے جس سے معرفت و محبت خدا اور رضائے مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے راز کھلتے ہیں۔

جب عشق سکھاتا ہے آداب خود آگاہی
کھلتے ہیں غلاموں پر اسرار شہنشاہی

یہ جذبہ عشق ہی تو اصل میں روح ایمانی ہے۔

اگر ہو عشق تو ہے کفر بھی مسلمانی
نہ ہو تو مرد مسلماں بھی کافر و زندیق

یہ جذبہ وجود انساں کو ایک دلکش نغمہ بنا دیتا ہے۔

عشق کے مضراب سے ہے نغمہ تار حیات
عشق سے نور حیات، عشق سے نار حیات

یہ ایک نفسیاتی کیفیت ہے کہ طالب کو جب اس کی مطلوبہ شے مل جائے تو جذبہ طلب سرد پڑ جاتا ہے اور وہ سوز عشق سے محروم ہوجاتا ہے۔ اقبال خودی کے عروج کے لئے ایسے عشق کے داعی ہیں جس کا مدعا حصول غرض نہیں بلکہ جس کا منتہا سوز عشق ہو کہ

نہ چھین لذت آہ سحر گاہی مجھ سے
نہ کر نگہ سے تغافل کو التفات آمیز

یہی وجہ ہے کہ اقبال سفر حیات کو ختم کرنے کے بعد بھی پر سکون زندگی کے طلبگار نہیں۔

متاع بے بہا ہے دردو سوز آرزو مندی
مقام بندگی دے کر نہ لوں شان خداوندی

جب بندے کو یہی مقام عبدیت اور معرفت شان خدواندی ملتی ہے تو وہ مقام عبودیت پر فائز ہوکر اقبال کے فلسفہ خودی کا عملی پیکر بن جاتا ہے۔ یہی فلسفہ اور تصور اقبال کی زندگی، ان کے پیغام، ان کے خوابوں، ان کی شاعری کا مرکزی نقطہ ہے اور اس فلسفہ اور تصور کی بدولت ان کی ذات آج بھی اس تاریک دور میں مثل شمع روشن ہے۔ ان کے خواب، تعبیروں سے زیادہ حسین اور تصورات حقائق سے زیادہ منور اور واضح ہیں کہ اپنے اور غیر سب ان کے معترف نظر آتے ہیں۔ مشہور مستشرق ولیم اے ڈی وِٹ اپنی کتاب ’’سو بڑے آدمی‘‘ میں اقبال کو ان الفاظ میں خراج عقیدت پیش کرتا ہے کہ

’’عالم اسلام کے سب سے بڑے شاعر اور فلسفی جنہوں نے فلسفہ خودی کی تشریح کی‘‘۔

اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ ہمیں اس مرد قلندر کی تعلیم کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے، اس تصور کو زندہ کرکے سوز عشق میں جلنے اور معرفت حق کا جام پینے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین