محنت کش خواتین کے مسائل اور انکا حل

سعیدہ بی بی

یکم مئی کا دن ہمیں مزدوروں کی اس جدوجہد کی یاد دلاتا ہے جو انہوں نے اپنے حقوق کے تحفظ کی خاطر سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف کی تھی۔ یہ دن خالص مزدور مردوں کا نہیں بلکہ محنت کش عورتوں کا دن بھی ہے جو مردوں کے برابر معاشی میدان میں اپنے حصے کا کردار ادا کررہی ہیں اور اپنی گھریلو ذمہ داریاں خوش اسلوبی سے انجام دے رہی ہیں۔ یہ دن مزدوروں کے حوالے سے نہ صرف جانا جاتا ہے بلکہ آج کے دور میں ان مردوں اور عورتوں کو خراج تحسین پیش کرتا ہے جنہوں نے اپنے حقوق کے تحفظ کے لئے ظالمانہ نظام کے خلاف کل بھی آواز اٹھائی اور آج بھی اٹھا رہے ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ عورت کو ماں، بیٹی، بہن، بہو اور بیوی کے روپ میں اہم کردار ادا کرنا پڑتا ہے۔ آج کے دور میں اسے معاشی کفالت میں شوہرکا ساتھ دینا پڑتا ہے۔ اسلام نے عورتوں کا اصل مقام ان کا گھر ٹھہرایا مگر اس پر پابندی عائد نہیں کی کہ وہ ضرورت کے تحت بھی باہر نہیں جا سکتی بلکہ ضرورت کے تحت وہ گھر سے باہر جاسکتی ہے۔ جہاں تک عورت کا معاشی میدان میں نکلنے کا تعلق ہے تو یہ حقیقت ماننی پڑے گی کہ بہت کم تعداد ان خواتین کی ہے جو شوق سے مزدوری کرتی ہیں بلکہ بہت سی مجبوریاں، لاچاریاں اور پریشانیاں ہوتی ہیں جو عورت کو محنت مزدوری اختیار کرنے پر آمادہ کرتی ہیں۔ کئی وجوہات ہیں جو عورت کو گھر سے باہر معاشی میدان میں بھی حصہ لینے پر مجبور کرتی ہیں مثلاً موجودہ دور میں مہنگائی کی وجہ سے عورت کام کرنے پر مجبور ہے۔ ایک مرد دس افراد پر مشتمل کنبہ کو پالتا ہے اس صورت حال میں آسائشات تو درکنار بنیادی ضروریات زندگی کی دستیابی بھی مشکل سے ہوتی ہے۔ چنانچہ اکثر گھر میں عورتیں پڑھی لکھی ہوں یا کوئی ہنر جانتی ہوں تو ان کو مردوں کے لئے Helping Hand بننا پڑتا ہے تاکہ پورا خاندان خوشحال اور اچھی زندگی گزار سکیں۔

بعض اوقات عورت کے گھر سے باہر کام کرنے کی ایک یہ بھی وجہ ہے کہ سرپرست یا ولی نہیں ہوتا تو عورت کو گھر سے باہر ملازمت اختیارکرنی پڑتی ہے۔ بیوہ کو اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کے لئے کام کرنا پڑتا ہے۔ چاہے اس کے لئے اسے لوگوں کے گھروں میں کام کرنا ہو یا باہر دفتروں میں ملازمت اختیار کرنی ہو، عورت سب کچھ کرتی ہے۔ نوجوان لڑکیوں کو جہیز کی لمبی لمبی لسٹ کو مکمل کرنے کے لئے ملازمت اختیار کرنی پڑتی ہے تاکہ وہ ماں باپ پر بوجھ نہ بنیں۔ پاکستان کی آبادی کا 52فیصد سے زائد حصہ عورتوں پر مشتمل ہے۔ مردوں کی نسبت عورتوں کی تعداد زیادہ ہونے سے جہاں دوسرے مسائل نے جنم لیا۔ وہاں ایک عورت کی معاشی کفالت نے بھی لہذا ملک کی ترقی میں مردوں کے ساتھ عورتوں کی شمولیت بھی ضروری قرار پائی لہذا عورت مردوں کا ہاتھ بٹانے کے لئے ملازمت اختیار کرتی ہے۔

آج عورت فیکٹریوں، دفتروں، ہسپتالوں اور ہر قسم کے نجی اداروں حتی کہ دکانوں، پٹرول پمپوں اور سڑکوں پر پولیس وردی میں نظر آتی ہے۔ جتنی زیادہ عورت مصروف عمل ہے اسی قدر عورت کو اذیت دی جاتی ہے مثلاً لڑکیوں کو چھیڑنا اور تنگ کرنا، دفاتر میں انتظامی امور و خدمات سرانجام دینے والی خواتین کی تعداد اگرچہ تھوڑی ہے مگر ان کے مسائل کی نوعیت کئی طرح کی ہے۔ عورت اپنی اعلیٰ صلاحیتوں کے باوجود اپنے ساتھی مرد ملازمین چپڑاسی سے لے کر اعلیٰ افسران تک مقام و مرتبہ نہیں حاصل کرسکتی جو اس کے اپنے ساتھی مرد حضرات کو حاصل ہوتا ہے۔ عورتوں کو کمزور سمجھنا، کمتر گرداننا، جنسی طور پر ہراساں کرنا، دیگر اور کئی مسائل درپیش ہوتے ہیں۔

سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ عورت مرد کے برابر کام کرتی ہے مگر تنخواہ کم دی جاتی ہے ملازمت پیشہ خواتین میں شادی شدہ عورت کا اہم مسئلہ شوہر سے ذہنی ہم آہنگی پیدا کرنا اور بچوں کی تربیت کے حوالے سے درپیش ہے۔ ہمارے معاشرے میں ملازمت اختیار کرنے پر شوہر اور دیگر افراد جو عورت سے تعلق و رشتہ داری رکھتے ہیں عدم تعاون کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ عورت جب باہر کی ذمہ داری انجام دیتی ہے تو اسے خاندانی ذمہ داریوں کی عدم ادائیگی کی صورت میں کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ حجاب میں عورت کی ملازمت پر تو اکثر کو اعتراض ہے کیونکہ عورت کو حجاب کے اندر دہشت گرد سمجھا جاتا ہے۔ جیسے مرد حضرات کی لمبی داڑھی سے خطرہ محسوس کیا جاتا ہے۔

عورت کو اشیائے ضرورت کی فروخت کے لئے اشتہارات کی زینت بنانا، اس کی تمام تر نسوانیت، عصمت و پاکیزگی کو داؤ پر لگانا اور مزید اس کو روشن خیالی کا نام دینا یہ مسائل ہی تو ہیں۔ کیا ایسی عورت جو روشن خیالی کے نام پر اپنی صنف نسوانیت کی انفرادیت اور قدر و منزلت کھو بیٹھے اچھی ماں کہلاسکتی ہے؟ نہیں! کبھی نہیں۔

عورت کو طرح طرح سے تنگ کیا جاتا ہے مثلاً ایک پرائیویٹ Survey کے مطابق گورنمنٹ ہسپتالوں کی نرسوں سے لئے گئے انٹرویو میں 58فیصد نرسوں نے کہا کہ ساتھ کام کرنے والے ملازمین اور مریضوں کے ساتھ ان کے رشتہ دار تنگ کرتے ہیں۔ یہ خواتین باعزت طور پر ملازمت کرنا چاہتی ہیں۔ اسی طرح تشدد کے بارے میں سوال کرنے پر 93فیصد خواتین نے بتایا کہ ان کے ساتھ کام کرنے والے مرد یا ان کے Boss ان کو پریشان کرتے ہیں۔ ان کو ذاتی تعلقات قائم کرنے پر مجبور کرتے ہیں Demand پوری نہ کرنے پر نوکری ختم کردینے کی دھمکی دیتے ہیں۔

مزدور خواتین جو کھیتوں میں کام کرتی ہیں یا بھٹیوں میں اینٹیں بناتی ہیں یا پھر گارا، مٹی کا کام کرتی ہیں وہ سب سے زیادہ مشقت اٹھاتی ہیں۔ان کی حالت تمام خواتین کے مقابلے میں خراب ہوتی ہے، سارا دن مردوں کے ساتھ دھوپ اور گرمی میں کام کرنے کے بعد بیگار بھی کم دی جاتی ہے اور چھوٹی چھوٹی غلطیوں پر بے عزتی الگ کی جاتی ہے۔ ملازمت پیشہ خواتین کا سب سے بڑا مسئلہ سفری سہولتوں کا فقدان بھی ہے۔ جو تھوڑی بہت سہولتیں اگر ہیں تو وہ غیر محفوظ ہیں۔ کنڈیکٹر اور ڈرائیور حضرات کی بدتمیزی تو ناقابل برداشت ہوتی ہے۔ بس سٹاپ پر عورتوں اور خاص طور پر لڑکیوں سے راہ چلتے لڑکوں کی بدتمیزی تو آئے دن دیکھنے میں آتی ہے۔ کام کرنے کی جگہوں پر یا عوامی مقامات پر خواتین کے لئے بیت الخلاء کی سہولتوں کا فقدان بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔

سماجی دباؤ، غیر مناسب رویوں، آنے جانے کی پابندی کے باعث عورتیں تعلیم و ہنر مندانہ تربیت کی سطح پر بھی ناانصافی کا شکار ہوتی ہیں۔ خواتین کے لئے ملازمت کا کوئی خاص کوٹہ بھی نہیں ہوتا جو ایک طرح سے ناانصافی ہے۔ ایسی خواتین جو دیہاتوں، گاؤں یا دوسرے شہروں سے ملازمت کے لئے آتی ہیں ان کے لئے ایک اہم مسئلہ سستے اور صاف ہوسٹلز کی کمی ہے جس کی وجہ سے اچھی ملازمت ملنے پر بھی وہ ملازمت اختیار نہیں کرسکتیں۔ مخلوط ادارے بھی عورتوں کی ملازمت کی راہ میں کئی مشکلات پیدا کرتے ہیں۔

عورتوں کو درپیش مسائل کا حل بہت ضروری ہے تاکہ عورت کو اس کے حقوق میسر ہوں اور وہ اپنے ذمہ داریوں کو بہترین طریقے سے پوری کرسکے۔ عورتوں کے مسائل کو حکومت کی پالیسیوں اور اسکیموں کے ذریعے حل کیا جاسکتا ہے۔ عورتوں کی ترقی کے لئے جو حکومتی سطح پر اقدامات کئے جاتے ہیں ان کو صحیح معنوں میں روشن خیالی پر مبنی ہونا چاہئے۔ عورتوں کی ترقی اور حقوق کے حصول کے لئے مثبت راہ اختیار کی جائے۔ مسلمان عورت کو اسلام نے جب معاش کے میدان میں آنے کی اجازت دے کر حوصلہ افزائی کی ہے تو پھر ایک اسلامی ملک کی گورنمنٹ کو بھی حوصلہ افزائی کرنی چاہئے تاکہ دختر اسلام جو ذمہ داری اپنے نازک کندھوں پر اٹھائے اس کی تکمیل میں پورا معاشرہ اس کی مدد کرے اور اسے اذیت و تکالیف سے دوچار نہ کرے۔

ماضی میں مسلمان عورتوں نے نہ صرف اپنی ذمہ داریاں ادا کیں بلکہ شوہر، بھائی، باپ اور بیٹوں کے ساتھ کسب معاش میں بھی ساتھ دیا تو پھر جب آج کی وہی بیٹی، بہن، بیوی یا ماں کام کرتی ہے تو پھر کیا قباحت ہے لہذا آج کی عورت کو جو ہر میدان میں پیش پیش ہے مردوں کی طرح اس کے مسائل کو بھی حل کرنا چاہئے۔ لہذا ملازمت پیشہ خواتین کے مسائل اور مشکلات کے حل کے لئے سرکاری و غیر سرکاری سطح پر درج ذیل اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔

  1. عورت کی ملازمت کا مناسب کوٹہ مقرر کیا جائے۔
  2. خواتین کی عزت و حرمت کو تحفظ دیا جائے۔
  3. پردہ کے بارے میں مختلف مکتبہ ہائے فکر کے الگ الگ نظریات ہیں۔ ان تمام مکتبہ ہائے فکر کو قرآن و حدیث سے مدد لینی چاہئے تاکہ پردہ کے بارے میں احکامات خداوندی کا پورا پورا اہتمام ہو۔ پردے کی وجہ سے عورت کو تنگ کرنا یا پردہ ترک کرنے پر مجبور کرنا چھوڑ دیا جائے۔ اگر حالات کی خرابی یا دہشت گردی کا خوف ہے تو پھر جدید آلات کی مدد سے سیکورٹی کو سخت کیا جائے۔
  4. اساتذہ کی عزت کی جائے اور ان کی ملازمت کو مناسب تحفظ فراہم کیا جائے۔
  5. اسلام کے نظام کفالت کو متعارف کروایا جائے۔
  6. بے سہارا دیہی خواتین کی کفالت کے لئے چھوٹے منصوبوں کی تیاری کا ادارہ بنایا جائے جو انہیں چھوٹی سطح کے کاروبار میں مہارت فراہم کرسکے اور چھوٹے بلاسود قرضے دیئے جائیں۔
  7. سرکاری شعبے میں کام کرنے والی خواتین کی حقیقی صورت حال کا جائزہ تیار کیا جائے تاکہ مختلف اداروں اور سطحوں پر کام کرنے والی خواتین کو مناسب سہولتیں فراہم کی جائیں۔
  8. پرائیویٹ اداروں میں خواتین کی بہتری کے لئے ملازمت کی شرائط، تنخواہ یا مراعات کی کیفیت طے کی جائے اور عورت کے استحصال کو ختم کیا جائے۔
  9. مقام ملازمت پر عورت کو ہراساں کئے جانے والے افعال کو جرم Declare کیا جائے۔
  10. بڑے شہروں اور قصبوں میں ملازمت پیشہ خواتین کے لئے مفت یا ارزاں نرخوں پر ہوسٹل فوری طور پر بنوائے جائیں۔
  11. پبلک ٹرانسپورٹ کو بہتر بنانا اور عورتوں کے لئے خاص ٹرانسپورٹ کا انتظام کرنا، پڑھے لکھے یا تہذیب یافتہ ڈرائیور اور کنڈیکٹرز کو بھرتی کیا جائے۔
  12.  شادی شدہ خواتین اور خاص طور پر جن کے بچے چھوٹے ہوں ان کے ساتھ خصوصی رعایت برتنا۔
  13. گنجان آباد علاقوں میں خواتین کے لئے الگ عام بیت الخلاء بنائے جائیں۔ اسی طرح بڑی شاہراہوں اور ایسے تمام دفاتر میں جہاں عورتیں ملازمت کرتی ہیں ان کے لئے الگ بیت الخلاء بنائے جائیں۔
  14. عورتوں کی بنائی ہوئی مصنوعات کی مارکیٹنگ کے لئے ایسے اداروں کی مدد حاصل کی جائے جو انہیں بہتر مشورے اور تعاون فراہم کرسکیں۔
  15. ادارہ برائے ملازمت خواتین قائم کیا جائے۔
  16. موجودہ لیبر قوانین اور دیگر معمولات پر نظر ثانی کی جائے تاکہ خواتین کو غیر امتیازی اور برابر کے موقع حاصل ہوں۔
  17. عورتوں کے لئے مناسب روزگار کے مواقع بڑھائے جائیں۔
  18. غربت سے جنم لینے والے مختلف النوع مسائل مثلا بھٹہ پر مزدوری کرنے والی خواتین کارکنوں کے جنسی استحصال کو ختم کیا جائے۔
  19. عورت کی سربراہی میں چلنے والے گھرانوں کی حیثیت کو تسلیم کیا جائے۔
  20. ملازمت پیشہ عورتوں کو تمام بنیادی سہولتیں بروقت فراہم کی جائیں۔
  21. اسلامی روایات اور اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے شروع سے ہی مردوں کے دلوں میں عورتوں کی تقدیس کا جذبہ اجاگر کیا جائے اور انہیں نظریں نیچی رکھنے کی ترغیب دی جائے۔
  22. خواتین کو چاہئے کہ وہ اپنی تقدیس کو خود پامال نہ کریں، پردہ کریں اور اسلامی روایات کو اپنائیں اور اپنے مقام کو پہچانیں۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ مردوں کی طرح اسلام نے عورت کو بھی خاص مقام دیا ہے۔ معاش کی ذمہ داری تو مردوں کی ہے لیکن اگر کسی مجبوری سے عورت یہ ذمہ داری بھی اپنے کندھوں پر اٹھاتی ہے تو بجائے اس کے کہ پریشانیوں اور مسائل کا مزید بوجھ اس کے کندھوں پر ڈالا جائے۔ اس کے بھی معاشی مقام و مرتبہ کو تسلیم کیا جائے اور مردوں کی طرح عورتوں کے حقوق کی بھی حفاظت کی جائے۔ اسلام نے تو ہمیشہ عورت کو عزت دی ہے چاہے کوئی بھی میدان ہو۔ آج ہم اگر مزدوروں کے عالمی دن کے موقع پر صرف مرد مزدوروں اور ملازمت پیشہ افراد کے حقوق کی حفاظت کے لئے کوشش کریں گے توہم خود غرض معاشرے کے فرد کہلائیں گے لہذا اگر عورت مرد کے ساتھ آج معاشی ذمہ داریاں انجام دے رہی ہے تو پھر ہمیں ان کے حقوق کی جنگ میں بھی حصہ لینا چاہئے اور کبھی مزدوروں کی طرح بنت آدم اور دختر اسلام کو بھی خراج تحسین پیش کرنا چاہئے۔ جہاں تک ہوسکے اپنے وطن کی ترقی و خوشحالی کے سفر میں اپنی نصف آبادی سے زائد کو بھی لے کر چلیں اور ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن رہیں۔ سید علی عباس اسی دختر اسلام کے بارے میں یوں کہتے ہیں:

اے قوم کی بیٹی تجھے اک گیت سناؤں
جینے کی زمانے میں تجھے ریت سناؤں

سدا حق کے رستے پر تو چلتے رہنا
اندھیروں میں سورج طلوع کرتے رہنا