از ازل تا ابد خدا تو ہے
ابتداء تو ہے، انتہا تو ہے
ایک جگنو سے لے کر سورج تک
چشمۂ نور ہے، ضیا تو ہے
تیری قدرت سے روز و شب کا ظہور
ہر نظارے میں رونما تو ہے
بحر و بر ہوں کہ آسمان و زمیں
ہر طرف تو ہے، جابجا تو ہے
ہے مناظر میں تیرا عکس جمال
سب میں رہ کر بھی ماورا تو ہے
ہر دلِ مضطرب میں ہے موجود
مرکزِ عرض و التجا تو ہے
تجھ سے رحم و کرم کی سب کو امید
سر بسر بخشش و عطا تو ہے
سب میں تحریک زندگی تجھ سے
انقلابات کی ہوا تو ہے
کس کے در پر شہاب دے دستک
بے سہاروں کا آسرا تو ہے