شہاب دہلوی

از ازل تا ابد خدا تو ہے ابتداء تو ہے، انتہا تو ہے ایک جگنو سے لے کر سورج تک چشمۂ نور ہے، ضیا تو ہے تیری قدرت سے روز و شب کا ظہور ہر نظارے میں رونما تو ہے بحر و بر ہوں کہ آسمان و زمیں ہر طرف تو ہے، جابجا تو ہے ہے مناظر میں تیرا عکس جمال سب میں رہ کر بھی ماورا تو ہے ہر دلِ مضطرب میں ہے موجود مرکزِ عرض و التجا تو ہے تجھ سے رحم و کرم کی سب کو امید سر بسر بخشش و عطا تو ہے سب میں تحریک زندگی تجھ سے انقلابات کی ہوا تو ہے کس کے در پر شہاب دے دستک بے سہاروں کا آسرا تو ہے