محترمہ فاطمہ قرۃ العین

مرتبہ : کوثر رشید، خالدہ رحمٰن

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے آخری خطبے میں ایسے New world order کے قیام کا اعلان کرتے نظر آتے ہیں جس نے استحصالی نظام کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دیا، جو عالم انسانیت کے لئے پہلا باقاعدہ انسانی حقوق کا چارٹر (Charter of Human Rights) اور اقوام عالم کے لئے نیا عالمی نظام تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ (خبردار) دور جاہلیت کا سارا نظام میں نے اپنے پاؤں سے روند ڈالا ہے۔ آج سے نظام جاہلیت کے سارے خون، قصاص، دیت اور انتقام کالعدم قرار دیئے جاتے ہیں۔ ورلڈ آرڈر کے اہم پہلوؤں میں سے سب سے پہلے عالمی امن کے قیام (Establishment of world peace ) کا اعلان تھا۔ مساوات انسانی کا وہ عالمی اصول پیش نظر تھا جس پر بعد میں بین الاقوامی سطح پر جمہوری اور عادلانہ انسانی معاشرے کی بنیاد رکھی گئی اور یہی اصول آگے چل کر عالمی جمہوریت کے قیام (Establishment of world democracy) کا باعث بنا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے معاشی و اقتصادی استحصال (Erodication of Economic Explaoitation) کے خاتمے کے لئے سود کو استحصالی نظام قرار دیتے ہوئے اسے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم کرنے کا اعلان بھی کردیا۔ عورتوں کے حقوق کے تحفظ (Protection of women rights) کی خاطر نئے قوانین کا اعلان کیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس دنیا کے بادشاہ تھے۔ ایسا بادشاہ جسے اپنے سے زیادہ رعایا کی فکر رہتی۔ رعایا کی اکثریت چونکہ غریب تھی لہذا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زیردست اور افلاس زدہ انسانیت کے حقوق کے تحفظ کی خاطر یہ عظیم انقلابی اعلان کرتے ہوئے فرمایا (لوگو!) زیردست انسانوں کا خیال رکھنا، انہیں وہی کچھ کھلاؤ جو خود کھاتے ہو اور ایسا ہی پہناؤ جیسے خود پہنتے ہو۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایسی عظیم انقلابی شخصیت کے مالک تھے۔ جس نے صدیوں پرانے نظام جبر کو نیست و نابود کردیا۔ لبوں پر تالا لگانے والوں کو زبان عطا کردی۔ مجبوروں کو Line of action فراہم کی۔ طویل عرصہ گزارنے کے بعد آج پھر دنیا کو خصوصاً ہمارے ملک کو اسی انقلابی سوچ کی ضرورت ہے۔Line of action کے لئے قرآن مجید پر غور کرنے، ہر پہاڑی کو سر کرتے وقت اپنے آپ کو داؤ پر لگانے کی ضرورت ہے۔ تب ہی آسمان کو چھوتی چوٹیوں پر اسلام کا جھنڈا لہرائے گا۔ چہروں پر پاکستان کا روشن مستقبل مسکرائے گا۔

خصائص مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہ نبی ہیں جن کی خاطر کائنات کو تشکیل دیا گیا، باغ کو بسایا گیا، جنہیں باغ کا نگہبان بنایا گیا، جن کی پیدائش والے دن برائی کے دیوتاؤں کو پاش پاش کردیا گیا۔ سسکتی انسانیت کو علم و فکر کے خزانے عطا کردیئے گئے۔ ختم نبوت کا تاج سر پر سجایا گیا۔ جن کا نام پیدائش سے پہلے ہی تجویز کردیا گیا۔ جن کو فتح و نصرت اور جنت کی چابیاں تھمادی گئیں۔ جن کو حضرت آدم علیہ السلام کی صفات، حضرت نوح علیہ السلام کی رقت و گریہ زاری، حضرت ابراہیم علیہ السلام کی خلافت و دوستی، حضرت اسماعیل علیہ السلام کی زبان، حضرت داؤد علیہ السلام کی آواز، حضرت ایوب علیہ السلام کا صبر، حضرت یعقوب علیہ السلام کی بشارت، حضرت یوسف علیہ السلام کا حسن، حضرت یحییٰ علیہ السلام کا زہد، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی سخاوت عطا کردی گئی۔ آپ کسی خشک وادی سے گزر جاتے تو وہ سر سبز ہوجاتی۔ جدھر سے بھی گزرتے، راستے بدن کی خوشبو سے مہک اٹھتے، ارد گرد کی چیزیں احتراماً سر جھکا دیتیں، پتھر سلام کرنے لگتے۔ کنکریاں سبحان اللہ کا ورد شروع کر دیتیں۔ کڑوے کنویں کا پانی شیریں ہوجاتا، خشک کنویں میں پانی چڑھ آتا۔ جنات آپس کی لڑائیوں کو بھول کر با ادب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں پیش ہوجاتے۔ ملائکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عیادت کے لئے جوق در جوق تشریف لاتے۔ یوں بچپن لڑکپن میں، لڑکپن جوانی میں، جوانی فکر و عمل میں، اور فکر و عمل نبوت میں بدل گیا۔

سلسلہ نبوت ایک رابطہ تھا، جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اللہ تعالیٰ کے درمیان قائم تھا۔ ایک Direct line تھی جو زمان و مکاں کی پابندیوں سے آزاد تھی۔ لائن کے ایک سرے پر چاہت اور دوسرے سرے پر چاہنے والا تھا ایک طرف سوچ اور دوسری طرف عمل، ایک طرف تڑپ اور بے قراری اور دوسری طرف سکون تھا۔ محب اور محبوب کے تعلق کو آشکار کرنے کے لئے کائنات کی تشکیل کا فیصلہ کیا گیا اور چاروں طرف نت نئی دنیائیں بسا دی گئیں۔

مدینۃ النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شہروں کا سرتاج

محبوب کی جس شے سے بھی نسبت ہو وہ شے محبوب ہوجاتی ہے۔ شہر مدینہ کا نام زبان پر آتا ہے تو زبان پر صل علیٰ کے نغمے جاری ہو جاتے ہیں۔ دل بیقرار ہو جاتا ہے کہ یہی وہ قریہ محبوب ہے جسے حضور رحمت کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی لازوال نسبت حاصل ہے۔ یہی وہ شہر دل نواز ہے جس کے در و دیوار لمس مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فیض یاب ہوئے۔ جو ایسا بے مثال ہے کہ اس کے گلی کوچوں میں تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خرام ناز فرمایا۔ جو کبھی یثرب تھا مگر محبوب خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدموں کی برکت سے طیبہ، دارالشفاء اور دارالامن بنا۔ جس کا ذرہ ذرہ آفتاب نبوت کے نور سے روشن ہے۔ جس کا گوشہ گوشہ خوشبوئے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مہک رہا ہے۔ یہاں گنبد خضریٰ ہے جو اہل ایمان کے دلوں کی دھڑکن اور آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔ جس کی محبت در حقیقت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کی محبت ہے۔ جس کے بغیر ایمان کامل نہیں ہوتا۔ مدینہ منورہ شہر محبت، قریہ کرم و عطا، خطہ بخشش اور وسیلہ مغفرت ہے۔ ایک مقام پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

حَرَمُ اِبْرَاهيْم مَکَّةٌ وَحَرَمِیْ الْمَدِيْنَةُ.

’’حضرت ابراہیم علیہ السلام کا حرم پاک مکہ ہے اور میرا حرم مدینہ شریف ہے‘‘۔ (طبرانی)

دوسرے مقام پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

اِنَّهَا تَنْفِی الرِّجَالَ کَمَا تَنْفِی النَّارُ خَبَثَ الْحَدِيْدِ.

(صحيح بخاری، ابواب فضائل المدينة، ج : 2، ص : 666، رقم : 1780)

’’یہ (مدینہ طیبہ) خراب لوگوں کو (ایسے) باہر پھینکتا ہے جیسے آگ لوہے کے میل کو پھینک دیتی ہے‘‘۔

اللہ رب العزت نے حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جائے ولادت و سکونت مکہ مکرمہ کی قسم کھائی اور جب مدینہ منورہ نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قدم بوسی کی سعادت حاصل کی تو یہ شہر دلنواز بھی خود بخود اللہ تعالیٰ کی قسم کے دائرہ رحمت میں آگیا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :

لَا اُقْسِمُ بِهٰذَا الْبَلَدْo وَاَنْتَ حِلٌّ م بِهٰذَا الْبَلَدْo.

(البلد، 90 : 1 - 2)

’’میں اس شہر (مکہ) کی قسم کھاتا ہوں (اے حبیب مکرم) اس لئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس شہر میں تشریف فرما ہیں‘‘۔ (ترجمہ عرفان القرآن)

پیکر مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تخلیق خاک مدینہ سے کی گئی۔ مدینہ منورہ کو فتنہ دجال اور طاعون سے محفوظ رکھا گیا۔ یہ شہر کائنات ارض و سماوات کا نگینہ ہے۔ جہاں ہر لمحہ روح کونین جھوم اٹھتی ہے۔ ساکنان مدینہ سائبان کرم میں رہتے ہیں۔ تاجدار مدینہ نے فرمایا کہ

عَنْ سَعْدِ بْنِ اَبِی وَقَّاصِ رَضِیَ اللّٰهُ عَنْهُ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صلی الله عليه وآله وسلم : وَلَا يُرِيدُ اَحَدٌ اَهْلَ الْمَدِيْنَةِ بِسُوْئٍ اِلَّا اَذَابَهُ اللّٰهُ فِی النَّارِ ذَوْبَ الرُّصَاصِ، اَوْ ذَوْبَ الْمِلْحِ فِی الْمَاءِ.

(صحيح مسلم، کتاب الحج، ج : 2، ص : 922، رقم : 1363)

’’حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو شخص اہل مدینہ کو تکلیف دینا چاہے گا تو اللہ تعالیٰ دوزخ میں اسے اس طرح پگھلائے گا جس طرح آگ میں سیسہ پگھلتا ہے یا جس طرح نمک پانی میں پگھلتا ہے‘‘۔

مدینہ منورہ میں موت کی بڑی فضیلت ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس خطہ نور میں وفات پانے والوں کو اپنی شفاعت کی نوید سنائی ہے۔ ارشاد فرمایا :

مَنِ اسْتَطَاعَ اَنْ يَمُوتَ بِالْمَدِيْنَةِ فَلْيَمُتْ بِهَا فَاِنِّی اَشْفَعُ لِمَنْ يَمُوتُ بِهَا.

(جامع الترمذی، ابواب المناقب، ج : 5، ص : 719، رقم : 3917)

’’جس کے لئے ممکن ہو کہ وہ مدینہ منورہ میں موت کو گلے سے لگائے، اسے چاہئے کہ وہ یہاں موت کی سعادت حاصل کرے، اس لئے کہ جس کا انتقال مدینے میں ہوگا، میں اس کی شفاعت کروں گا‘‘۔

ہم سراپا زبان ہیں کہ اے خطہ محبوب خدا! اور اے شہر مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! تو اللہ کا محبوب ترین شہر ہے۔ اے شہر نبی الحرمین! تو تمدن کی آبرو ہے، تو ثقافت کی جان ہے۔ اے شہر رحمۃ اللعالمین! انسان دوستی تیری ہی فصیلوں کی خشت اول ہے۔ اے شہر رسول ہاشمی! پوری کائنات میں تجھے یہ منفرد اعزاز حاصل ہے کہ گنبد خضریٰ تیرے دامن منور میں موجود ہے، اے شہر خاتم الانبیاء! تیری عظمتوں، رفعتوں اور بلندیوں کو سلام۔ تیرے مکینوں، باسیوں، مسکینوں، ضعیفوں، گداؤں اور فقیروں کی صداؤں کو سلام۔ تیرے در و دیوار، پاکیزہ ہواؤں، معطر فضاؤں، میدانوں، مرغزاروں اور پہاڑوں کو سلام۔

کائنات کے حسن و جمال کا ہر ہر ذرہ دہلیز مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ادنیٰ سا بھکاری ہے

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالیٰ کے سب سے محبوب اور مقرّب نبی ہیں۔ اسی لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم افضلیت و اکملیت کا معیارِ آخر قرار پائے۔ اس لحاظ سے حسن و جمال کا معیار آخر بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہی ذات مبارکہ ہے۔ کائنات کے حسن کا ہر ہر ذرہ دہلیز مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ادنیٰ سا بھکاری ہے۔ رب کائنات نے وہ آنکھ تخلیق ہی نہیں کی جو تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسن و جمال کا مکمل طور پر مشاہدہ کر سکے، اقلیم رسالت کے تاجدار حضور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسند محبوبیت پر یکتا و تنہا جلوہ افروز ہیں۔ جہاں نقطۂ کمال کی انتہاء ہوتی ہے وہاں سے حسن وجمال مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ابتدا ہوتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسن و جمال کو بے مثل ماننا ایمان و ایقان کا بنیادی جزو ہے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جدھر سے گزرتے وہ راستے بھی مہک اٹھتے، راہیں قدم بوسی کا اعزاز حاصل کرتیں اور خوشبوئیں جسم اطہر کو اپنے دامن میں سمیٹ لیتیں۔ مدینے کی گلیاں آج بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشبوؤں سے معطر ہیں۔ اظہار عشق کے انداز بھی مختلف ہوتے ہیں۔ خوشبوئے وفا کے پیرائے بھی جدا جدا ہوتے ہیں، کبھی کوئی صحابی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے چادر مانگ لیتے ہیں کہ میں اس سے اپنا کفن بناؤں گا۔ (بحوالہ بخاری، الصحیح،1 : 429، کتاب الجنائز، رقم : 1218) اور کوئی حصول برکت کے لئے جسم اطہر کے پسینے کو شیشی میں جمع کرلیتا ہے۔ (بحوالہ مسلم، الصحیح، 4 : 1815، کتاب الفضائل، رقم : 2331)

عاشقان مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

عشق کا مکمل نام محبت ہے، محبت ’’م‘‘ سے شروع ہوتی ہے۔ میدان بھی ’’م‘‘ سے اور محسن مخلوقات کا نام نامی بھی ’’م‘ سے ہی شروع ہوتا ہے تو محبوب اور منزل کے الفاظ بھی ’’م‘‘ سے ہی شروع ہوتے ہیں اور مومن وہ ہے جو محبت کے میدان والے پر سلام پڑھے کیونکہ سب کچھ اس ’’م‘‘ میں سے ہے۔ مولا علی شیر خدا رضی اللہ عنہ نے ایک دن اپنے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا کہ یا نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کی سنت کیا ہے؟ جواب ملا اے علی محبت میری بنیاد ہے اور نماز میری آنکھوں کی ٹھنڈک۔

اک بوند عشق کی اگر ہوسکے نصیب
ورنہ رکھا ہی کیا اس جہان خراب میں

خوب دیکھ لو بارگاہ مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فیض یاب ہونے والے سب کے سب صرف عاشق ہی ہیں۔ چاہے حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ اور حضور سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ (شہنشاہ بغداد) جیسے بادشاہ، نجاشی جیسے نامور حکمران یا حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ اور حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہ جیسے گمنام عاشق میدان محبت کے سند یافتہ ہر حال میں ہیں۔ عاشق ہمیشہ ہر معرکہ میں اول ہی آتا ہے۔ اس کی تقدیر اس کی جیب میں ہوتی ہے یہ عشق کا رتبہ تھا یا محبت کے میدان کا معجزہ کہ امام عالی مقام حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اول آگئے۔ باقی سب شہداء پیچھے رہ گئے۔ یہ کونسا عشق تھا جس نے جینے کا ڈھنگ سکھادیا اور فلسفہ شہادت کو چار چاند لگادیئے۔

موت کے سیلاب میں ہر خشک و تر بہہ گیا
ہاں اک نام حسین ابن علی البتہ رہ گیا

عاشق اللہ تعالیٰ کا کمال اور جمال دونوں ہی دیکھتا ہے۔ عشق و محبت کی ہواؤں کا گزر صرف درویشوں کے دلوں سے ہوتا ہے۔ یہ پاک صاف ہوائیں نور کی کرنوں کی طرح بخشش و کرم کے باغوں سے آکر عاشقوں کے قلب پر سکونت پذیر ہوتی ہیں اور ان کے قلب کو نور کی روشن شعاعیں گھیر لیتی ہیں تو وہ خود، سرا سر نور بن جاتے ہیں۔ جیسے جمعہ کا دن سب دنوں کا سردار ہے، رمضان المبارک سارے مہینوں کا سلطان ہے ایسے ہی ایک سو اسمائے گرامی جو آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منسوب ہیں ان سب کا سردار اسم محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔

وظیفہ کیوں نہ کروں ان کے نام کا پیہم
کہ ان کا اسم گرامی ہی اسم اعظم ہے

یہ نام ہے خود خدا کی مصوری
یا خطاطی جس میں ہے راز دلبری

دین مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا امام برحق

آج سے 57 سال قبل ایک ولی اللہ، عاشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، حبیب کبریا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سچے غلام، اہل بیت اطہار کے سچے خادم اور سرکار غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ کے سچے شیدائی نے بارگاہ الوہیت میں سرگوشی کی کہ دین مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو شرق تا غرب ہر سو لہرانے والا امام برحق بشکل فرزند عطا کر دے۔ تب اہل بیت اطہار کے قلزم طہارت میں تموج آگیا اور مولا نے اپنے قلزم طہارت کی موجوں میں سے ایک خاص موج بحر نفاست کی ایک لہر اور دریائے نزاکت و طہارت میں غوطہ زن رہنے والی ایک خاص روح کو بصورت ’’محمد طاہر‘‘ عنایت کردیا جو جسمانی تھکاوٹ سے بے نیاز، ایک ہی جلوے میں مست، راحت و سکوں سے بے پرواہ، سلوک و تصوف کی بے شمار دنیائیں لمحوں میں عبور کرگیا اور مولا نے محمد طاہر کو عشق محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، تقریب صدیقی، شکوہ فاروقی، عجز عثمانی، جرات علوی، انکسار مجتبائی، شجاعت شبیری، عشق بلالی، جذب قرنی، زہد بصری، شوق رومی، جہد غزالی، استغنائے ادہم، کرامت ہجویری، بیان جیلانی، تحقیق دہلوی اور اجتہاد مجددی سے ایسا فیض لیکر دیا کہ محمد طاہر ان تمام خصائص سے چمک دمک کر حسن نگر کا شہزادہ محمد طاہرالقادری بن گیا۔ جو آج ہزاروں، لاکھوں اور کروڑوں انسانوں کا محبوب بن گیا۔ لطف و کرم کی بارش آپ کے وجود کو بھگونے لگی، دیکھتے ہی دیکھتے آپ سونے سے کندن، پتھر سے پارس، پودے سے درخت، قطرے سے سمندر اور پیاسے سے کنواں بن گئے ہیں۔ یہ سب اللہ کا کرم، محبوب کی عطا، دوست کی عنایت، شہ رگ کے پاس رہنے والے کی کرشمہ سازی، عرش پر مسکرانے والے کی وفا ہے۔ آپ نے تحریک منہاج القرآن کی صورت میں ایک عظیم پلیٹ فارم عطا کیا ہے۔ ایک ایسی بستی آباد کی ہے جس کا سودا ذکر الہٰی اور عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ تحریک منہاج القرآن رجوع الی القرآن کی دعوت دیتی ہے، ہمارے دلوں میں اتباع رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، اطاعت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، محبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور نصرت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دیپ جلا رہی ہے۔

جاگ اے آج کے انسان!

حضور شیخ الاسلام کے سامنے Great Pakistan کا خوبصورت تصور مسکرا رہا ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ اب بھی وقت ہے سب کچھ ٹھیک ہوسکتا ہے۔ صرف عمل کی ضرورت ہے۔ مگر افسوس کہ آج معاشرے میں ہر طرف ظلم کا بازار سجا ہوا ہے۔ جس میں سسکی، فغاں، دھواں، خوف، وحشت، آنسو، لہو، کرب، کہرام، قہر، طوفان، مردہ افکار، جیسی چیزیں بک رہی ہیں۔ سچائی، صبر اور استقامت اپنی منزلیں کھو بیٹھے ہیں۔ عدل، امن اور انسان لاپتہ ہیں۔

جہاں ہر روز اٹھتے ہیں جنازے میرے بھائیوں کے
یہاں بازار لگتا ہے مری ماؤں کی عظمت کا

یہاں پر خون ہوتا ہے میری بہنوں کی عصمت کا
تماشا اپنی عزت کا میں کیسے دیکھ پاؤں گی

میں کیسے تار تار عصمت لحد تک لے کے جاؤں گی
مرے کاندھے نہیں قابل مجھے تم ایسے کاندھے دو

ہم نے صدیوں پہلے تشکیل پانے والے قوانین جنہوں نے دنیا کو جہالت کے اندھیروں سے نکال کر نئے راستوں پر گامزن کیا، ان کی طرف نظر اٹھا کر دیکھنا تک چھوڑ دیا ہے۔ آج کہنے کو ملک اپنا مگر قوانین دوسروں کے، پڑھنے لکھنے کو تعلیم اپنی مگر slaybus دوسروں کے، کاٹنے کو فصل اپنی مگر بیج دوسروں کے۔ آخر کب تک یہ سسٹم اسی طرح چلتا رہے گا؟ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قیمت گرتی رہے گی؟ غیر ملکی قرضوں کا سود بڑھتا رہے گا؟ مہنگائی کا بھوت غریب عوام کی گردنیں مروڑتا رہے گا؟ نفرت کی دیوی زہر اگلتی رہے گی؟ تعصب کی چڑیل گرم خون سے حلق تر کرتی رہے گی؟ پھولوں جیسے بچے ہاتھ کالے کرتے رہیں گے؟ نوجوان نسل بے روزگاری کے جنگل میں درخت کاٹتی رہے گی، بیٹیاں اپنے ارمانوں کے تکیوں کو آنسوؤں سے بھگوتی رہیں گی، پیٹ کی آگ بجھانے کی خاطر عزتوں کے سودے ہوتے رہیں گے؟ اس بے رحم سسٹم کو آگ لگا کر راکھ کردینا چاہئے جس نے محبت کی دیوی کو جکڑ کر رکھا ہوا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات مبارکہ نے انسانیت کو مذہبی حقائق سمجھنے اور امن و محبت کا پیغام عام کرنے کے لئے غور و فکر کی دعوت دی ہے۔ یہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی انقلابی سوچ کا اثر تھا کہ آنے والے وقتوں میں اسلامی تہذیب و ثقافت (Islamic Culture and Civilization) پوری دنیا میں پھیل گئی۔ آج بھی ایسا انقلاب برپا ہو سکتا ہے مگر اس عظیم قیادت کے ذریعہ جس نے مایوس ہونا سیکھا ہی نہ ہو۔ وہ عظیم قائد شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری ہیں جو فرماتے ہیں کہ میں مستقبل میں اسلام کے عروج کو مقدر سمجھتا ہوں۔ آنے والی صدی اسلام کی صدی ہوگی۔ لیکن وہ وقت آنے سے پہلے ہم مسلمانوں کو مصیبتوں کی چکیوں سے گزارا جائے گا۔ اسلام کے پیروکاروں کو نفرتوں کی آندھیوں سے لڑایا جائے گا۔ امت مسلمہ پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جائیں گے، امت مسلمہ پر عرصہ حیات تنگ کرنے کی کوششیں کی جائیں گی۔ جب ظلم حد سے بڑھ جائے گا تب پوشیدہ صلاحیتیں بیدار ہوجائیں گی۔ جسم طاقت کا سرچشمہ بن جائیں گے اور مصطفوی انقلاب کے مجاہد و مجاہدات کے اندر والا انسان، یعنی ضمیر جاگ اٹھے گا، باہر والے بھاگ جائیں گے۔ انتشار، اتحاد میں، کمزوری، طاقت میں، تخریب، تعمیر میں، تحریر، عمل میں زوال، عروج میں اور عروج Islamic block میں بدل جائے گا۔

عروج دیکھنے کے لئے آج محنت کرنا ضروری ہے۔ کل کا دن جو گزر گیا، وہ آج آ نہیں سکتا آج کا دن بھی گزرنے والا ہے، جو گیا سو گیا۔ جو جا کے سویا وہ اب اٹھ نہیں سکتا، فوراً فکر کرو ورنہ تو خالی ہاتھ نامراد اور ناکام رہ جائے گا، تو اشرف المخلوقات ہے اور تیرا ذکر قرآن مجید میں ہے، تو جلد از جلد اس کا ثبوت دے اور اس محبت کے مقدس میدان میں اپنی حاضری لگا دے اور سب کچھ پالے۔

متاع لوح و قلم چھن گئے تو کیا غم ہے
اک میدان عشق میں جمالئے قدم میں نے

آج ہی سے یہ آپ کا نغمہ، یہی آپ کا ساز اور یہی آپ کی آواز ہونی چاہئے۔

یارسول اللہ خاتم الانبیاء
سیدالمرسلین رحمت اللعالمین

وقت آیا کڑا ہے اندھیرا بڑا
راہ کوئی کہیں کچھ سجھائی تو دے

تیرا نقش قدم اب دکھائی تو دے
ہم ہیں بہکے ہوئے، ہم ہیں بھٹکے ہوئے

حکم خیرو عطا اب سنائی تو دے
رحمت عالمین سیدالمرسلین