عالم ارواح کے میثاق اور عظمت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

ڈاکٹر محمد طاہر القادری

ترتیب و تدوین : محمد حسین آزاد الازہری

بخاری، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ کی صحیح حدیث ہے جو حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ ما سے مروی ہے:

عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اﷲِ رضي اﷲ عنهما أَنَّ امْرَأَةً مِنَ الْأَنْصَارِ، قَالَتْ لِرَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم، يَا رَسُوْلَ اﷲ، أَلَا أَجْعَلُ لَکَ شَيْئًا تَقْعُدُ عَلَيْهِ، فَإِِنَّ لِي غُلَامًا نَجَّارًا. قَالَ: إِنْ شِئْتِ قَالَ: فَعَمِلَتْ لَهُ الْمِنْبَرَ، فَلَمَّا کَانَ يَوْمُ الْجُمُعَةِ، قَعَدَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم عَلَی الْمِنْبَرِ الَّذِي صُنِعَ فَصَاحَتِ النَّخْلَةُ الَّتِي کَانَ يَخْطُبُ عِنْدَهَا، حَتَّی کَادَتْ أَنْ تَنْشَقَّ، فَنَزَلَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم حَتَّی أَخَذَهَا فَضَمَّهَا إِلَيْهِ، فَجَعَلَتْ تَئِنُّ أَنِيْنَ الصَّبِيِّ الَّذِي يَُسَکَّتُ، حَتَّی اسْتَقَرَّتْ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَالتِّرْمِذِيُّ وَالنَّسَائِيُّ وَابْنُ مَاجَه. وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ. (المنهاج السوی ص667، حديث5)

’’حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اﷲ عنہما فرماتے ہیں کہ ایک انصاری عورت نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا میں آپ کے تشریف فرما ہونے کے لئے کوئی چیز نہ بنوا دوں؟ کیونکہ میرا غلام بڑھئی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اگر تم چاہو تو (بنوا دو)۔ اس عورت نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے ایک منبر بنوا دیا۔ جمعہ کا دن آیا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسی منبر پر تشریف فرما ہوئے جو تیار کیا گیا تھا لیکن (حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے منبر پر تشریف رکھنے کی وجہ سے) کھجور کا وہ تنا جس سے ٹیک لگا کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خطبہ ارشاد فرماتے تھے (ہجر و فراق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں) چِلاَّ (کر رو) پڑا یہاں تک کہ پھٹنے کے قریب ہو گیا۔ یہ دیکھ کر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر سے اتر آئے اور کھجور کے ستون کو گلے سے لگا لیا۔ ستون اس بچہ کی طرح رونے لگا، جسے تھپکی دے کر چپ کرایا جاتا ہے، یہاں تک کہ اسے سکون آ گیا۔‘‘

حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ ا فرماتے ہیں پوری مسجد میں اُس کے رونے کی آواز پہنچ گئی اور اگر آقا علیہ السلام اسے سینے سے نہ لگاتے تو وہ قیامت تک روتا رہتا۔ حضور علیہ السلام نے اس سے پوچھا اگر تو چاہتا ہے تو تجھے دوبارہ تر و تازہ کردوں اور تو پھلوں سے لد جائے اور اگر تو چاہے تو تجھے جنت میں لگا دوں اور وہاں تجھ پہ پھل لگیں۔ حدیث کے الفاظ یہ بھی ہیں جسے امام دارمی نے روایت کیا ہے کہ جنت میں اولیاء اللہ تیرا پھل کھائیں۔ کھجور کے تنے نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! مجھے جنت میں لگا دیں تو آقا علیہ السلام نے حکم دیا کہ اس کو یہیں میرے منبر کے نیچے دفن کر دیا جائے۔

لوگ سوال کرتے ہیں کہ عیسیٰ علیہ السلام نے تو مردے زندہ کیے، اگر سب انبیاء سے آقا علیہ السلام کی افضلیت ہے تو آقا علیہ السلام نے کیا کوئی مردہ زندہ کیا؟ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کا جواب دیا۔ جسے امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے رقم کیا اور امام دارمی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی روایت کیا ہے کہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے تو وہ انسان جو مردہ ہوگئے تھے ان کو زندہ کیا اور آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مردے زندہ کرنے کے علاوہ خشک لکڑی کے تنوں کو بھی زندگی عطا کر دی۔ اب دونوں میں فرق کی تفصیل کرتا ہوں۔ جیسے انسان کی سماعت اور بصارت بھی ہے، قوت گویائی اور نطق بھی ہے۔ انسان سنتا، بولتا، عقل رکھتا اور سمجھتا بھی ہے، اُس کا احساس اور حواس خمسہ بھی ہیں اس کی عقل و شعور بھی ہے مگر جب روح قفس عنصری سے پرواز کر جاتی ہے تو انسان کے سارے قوا اور ساری حِسیں معطل ہو جاتی ہیں۔ نتیجتاً جب عیسیٰ علیہ السلام نے مردے زندہ کئے تو ان کا احیائے موتی فقط اتنا تھا کہ نکلی ہوئی روح کو قُمْ باذن اﷲ کے ذریعے اس جسم میں دوبارہ لوٹا دیا جبکہ اس انسان میں قوتِ گویائی پہلے تھی۔ عقل و فہم اور شعور بھی تھا۔ نطق اور سماعت و بصارت بھی تھی احساس اور اُس کے اندر تمام جذبات بھی تھے۔ سب کچھ تھا روح نکل گئی ہر چیز کا function ختم ہوگیا تھا فقط روح پلٹا دی اور ہر چیز Functional ہوگئی اور مردہ بولنے لگ گیا۔ مگر تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مردے بھی زندہ کیئے مگر اُستن حنانہ کا مردہ جو زندہ کیا وہ تو انسان ہی نہ تھا۔ اس کی تو آنکھیں ہی نہ تھیں، اس کی عقل و شعور، زبان اور منہ تھا نہ اس کی قوتِ گویائی سماعت و بصارت تھی وہ تو ایک خشک تنا تھا جس میں کچھ بھی نہ تھا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فقط انسان کے مردہ جسم میں روح لوٹائی باقی سب کچھ پہلے سے موجود تھا جبکہ تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب اپنا جسم اس سے مس کیا تو آنکھ نہ تھی مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آنکھیں بھی عطا کر دیں اُس نے دیکھ لیا کہ آج حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھ سے نہیں منبر پہ ٹیک لگا کے خطبہ ارشاد فرما رہے ہیں۔ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کان بھی عطا فرمائے کہ اُس نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خطبہ بھی سن لیا اور پھر وہ رو پڑا تو اُس میں احساس بھی آگیا۔ اُس میں ہجر و فراق اور جدائی کا غم بھی آگیا، اُس میں عشق و محبت اور درد و سوز بھی آگیا، اسے سسکیاں بھی سکھائیں۔ آقا علیہ الصلوۃ والسلام نے اسے سارے احساسات دے کر پھر اُس سے پوچھا کہ کہاں دفن کردوں؟ اس سے معلوام ہوا کہ کلام کرنا بھی سکھایا۔ حضرت عیسیٰ کا معجزہ فقط رَدِّ روح (روح کا لوٹانا) ہے باقی سب کچھ جسم انسانی میں پہلے سے موجود تھا۔ تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے روح لوٹائی نہیں بلکہ روح ڈالی ہے اور سارے حواس بھی دیئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آقا علیہ السلام کا احیائے موتیٰ کا تصور کائنات میں سب انبیاء سے بلند ہے۔ امام ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ، امام ابو یعلی رحمۃ اللہ علیہ، امام طبرانی رحمۃ اللہ علیہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کرتے ہیں کہ آقا علیہ السلام کے پاس بنی عامر میں سے ایک کافر شخص نے آکر کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عجیب قسم کے دعوے کرتے ہیں۔ اور ایک نئے دین کے بارے میں بتاتے ہیں اگر اجازت دیں تو میں آپ کا علاج نہ کروں۔ آقا علیہ السلام نے اس کی بات سن لی اور غصہ نہیں کیا۔ یہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت طیبہ ہے۔ آقا علیہ السلام نے اس کو اسلام کی دعوت دی۔ اس نے کہا اگر اپنے دین کی دعوت دیتے ہیں تو مجھے کوئی معجزہ دکھائیں۔ ایک روایت میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود فرمایا کہ اگر میں کھجور کے اس درخت پر لگے ہوئے اس گھچے کو پلاؤں تو کیا تو گواہی دے گا کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟ روایت کے الفاظ ہیں:

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنهما قَالَ: جَاءَ أَعْرَابِيٌّ إِلَی رَسُوْلِ اﷲِصلی الله عليه وآله وسلم فَقَالَ: بِمَ أَعْرِفُ أَنَّکَ نَبِيٌّ؟ قَالَ: إِنْ دَعَوْتُ هَذَا الْعِذْقَ مِنْ هَذِهِ النَّخْلَةِ، أَتَشْهَدُ أَنِّي رَسُوْلُ اﷲِ؟ فَدَعَاهُ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فَجَعَلَ يَنْزِلُ مِنَ النَّخْلَةِ حَتَّی سَقَطَ إِلَی النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم ثُمَّ قَالَ: ارْجِعْ. فَعَادَ، فَأَسْلَمَ الْأَعْرَابِيُّ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالْحَاکِمُ وَالطَّبَرَانِيُّ. وَقَالَ أَبُوْعِيْسَی: هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ. (المنهاج السوی ص682 حديث20)

’’حضرت عبداللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ ایک اعرابی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: مجھے کیسے علم ہو گا کہ آپ اﷲ تعالیٰ کے نبی ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اگر میں کھجور کے اس درخت پر لگے ہوئے اس کے گچھے کو بلاؤں تو کیا تو گواہی دے گا کہ میں اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں؟ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے بلایا تو وہ درخت سے اترنے لگا یہاں تک کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدموں میں آگرا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے فرمایا: واپس چلے جاؤ۔ تو وہ واپس چلا گیا۔ اس اعرابی نے (نباتات کی محبت و اطاعتِ رسول کا یہ منظر) دیکھ کر اسلام قبول کر لیا۔‘‘

معلوم ہوا آقا علیہ السلام نے جس طرف انگلی کا اشارہ کر دیا اُسی کو حیات اور زندگی دے دی درختوں اور ٹہنیوں کو معرفت دے دی اور پھر یہ معرفت کا ئنات کی ہر شئے کو عطا کی۔ یہی معرفت سمجھانے کے لیے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کو حکم دیا۔

فَالَّذِينَ آمَنُواْ بِهِ وَعَزَّرُوهُ وَنَصَرُوهُ وَاتَّبَعُواْ النُّورَ الَّذِي أُنزِلَ مَعَهُ أُوْلَـئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَO

(الاعراف، 70 : 7)

’’پس جو لوگ اس (برگزیدہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لائیں گے اور ان کی تعظیم و تکریم کریں گے اور ان (کے دین) کی مدد و نصرت کریں گے اور اس نور (قرآن) کی پیروی کریں گے جو ان کے ساتھ اتارا گیا ہے، وہی لوگ ہی فلاح پانے والے ہیں‘‘۔

جس طرح تمام انبیاء کا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لانا اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دین، مشن اور نبوت و رسالت کی مدد کرنے کے علاوہ تیسرا حق اپنی اپنی امتوں کو اس کی ترغیب اور حکم دینا قرار دیا گیا اِسی طرح آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت پر جو حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی معرفت کے باب میں حق دیئے گئے وہ یہ کہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت وہی قابلِ فلاح اور وہی قابلِ نجات ہو گی جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت اور تعظیم و تکریم اور اتباع کا حق ادا کرے گی اور نصرت کرے گی۔

گفتگو کے اختتامی حصے میں کچھ شواہد اور چند نمونے احادیث سے دینا چاہتا ہوں۔ جن کا تذکرہ غالباً پہلے نہیں ہوا۔ بعض لوگ اگر یہ سوال کریں کہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ادب اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم و تکریم کے پیمانے، اصول اور معیار کیا ہیں؟ تو یاد رکھ لیں کہ قرآن مجید میں جابجا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم و تکریم کے پیمانے موجود ہیں۔ یہ آداب خود اﷲ نے سکھائے ہیں سورہ الحجرات کا پہلا پورا باب ہی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ادب و تعظیم و تکریم کے پیمانے سکھانے پر ہے۔

ایک نکتے کی بات بتا دوں کہ دنیا میں ادب اور تعظیم و تکریم کا اصول کوئی نہیں سکھاتا بلکہ محبت خود بخود ادب کرنا سکھاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے ہاں تعظیم رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، ادب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور تکریمِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جتنے پیمانے ملتے ہیں اُن کا کوئی حکم نہ قرآن مجید میں تھا نہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث میں تھا۔ اس سے متعلقہ چند احادیث کا ذکر کرکے پھر چند نئی چیزوں کی طرف آتے ہیں۔ صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی متفق علیہ حدیث ہے جو انس ابن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ جس میں سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آخری ایام میں نماز پڑھا رہے ہیں اور آقا علیہ السلام پردہ اُٹھا کے دیکھتے ہیں تو سب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی نگاہیں دورانِ نماز چہرہ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف پھر جاتی ہیں۔ اب دوران نماز چہروں کا پھیرنا اُن کو کس نے سکھایا۔ یہ بھی بتادوں کہ امت اُس وقت تک زندہ رہے گی جب تک اُس کا ایمان زندہ ہو گا۔ اور ایمان اُس وقت تک زندہ رہے گا جب تک تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عشق و محبت اور ادب و تعظیم و تکریم کو امت اپنے ایمان کا سہرا بنائے گی۔ محبت اور تعظیم کے بغیر کبھی ایمان نہیں بنتا اور اس ادب اور تعظیم و تکریم کے لیے محبت ہی خود اس کے آداب سکھاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پردہ ہٹایا تو صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو کس نے کہا کہ حالتِ نماز میں چہرے پھیر کر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تک لو؟ یہ محبت تھی اور جب آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرۂ انور کی ایک جھلک پڑی تو اس خیال سے کہ شاید حضور باہر تشریف لا رہے ہیں۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو کس نے کہا کہ عبادت کے دوران مصلّٰے چھوڑ کر نماز کی حالت میں پیچھے آجائیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ محبت نے سکھایا۔ دوسری حدیث حضرت سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ کی روایت ہے جو بخاری اور مسلم میں متفق علیہ ہے کے مطابق سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نماز پڑھا رہے ہیں اور آقا علیہ السلام کسی قبیلے میں صلح کا معاملہ کروا کے پہنچے ہیں تو جماعت کھڑی تھی۔ حضور علیہ السلام صفیں چیرتے ہوئے آگے پہنچے تو صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو بتانے کے لیے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لے آئے ہیں تالیاں بجانے لگ گئے۔

اس طرح حالتِ نماز میں تالیاں بجا کر حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی آمد کی امام کو اطلاع دینا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو کس نے سمجھایا؟ اور سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے جب مُڑ کر دیکھا کہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لے آئے ہیں تو مصلیٰ چھوڑ کے پیچھے ہٹنے لگے۔ یہ ادب کس نے سکھایا؟ حالتِ نماز کا سماں ہی بدل گیا تو آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

’’ابو بکر اپنی جگہ پر کھڑے رہو‘‘ انہوں نے دعا کی اے اﷲ تیرا شکر ہے کہ تیرے محبوب نے مجھے اس قابل جانا۔ یہ دعا کرکے پھر مصلّٰی چھوڑ کر پیچھے آگئے اور آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آگے بڑھ کر نماز مکمل کرادی۔ بعد میں حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے پوچھا اے ابو بکر! تمہیں کس چیز نے منع کیا کہ تو اپنی جگہ پہ کھڑا رہے جب میں نے حکم بھی دیا تھا تو اس پر سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے جو جواب دیا اس نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے حد سے بڑھ کر ادب اور تعظیم و تکریم کو سکھا دیا۔ انہوں نے عرض کی ’’ابو قحافہ کے بیٹے ابوبکر کی کیا مجال کے مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پیچھے ہوں اور وہ آگے کھڑا رہے‘‘۔

بتائیں، ادب کا یہ قرینہ کس نے سکھایا؟ قرآن کی کس آیت میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پیچھے نہیں رہ سکتے اور کوئی جماعت نہیں کرا سکتا، قرآن میں کہیں حکم نہیں ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کب منع کیا تھا؟ حدیث میں کہیں منع نہیں ہے تو کس حکم کے تحت انہوں نے ایسا کیا اس کا ایک ہی جواب ہے کہ یہ وہ قرینہ اور ادب تھا جو محبت نے خود سکھا دیا تھا۔ اسی طرح صحیح بخاری میں حضرت مسور بن مخزمہ رضی اللہ عنہ کی روایت کے مطابق جب عروہ اہل مکہ کا نمائندہ بن کر حدیبیہ کے میدان میں جاتا ہے یہ دیکھنے کے لئے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنھم اور لشکر اسلام کی کیفیت کیا ہے آیا جنگ کریں یا نہ کریں۔ اس نے دیکھا کہ آقا علیہ السلام نماز کے لئے وضو فرمارہے ہیں اور حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے جسم اقدس سے مَس ہونے والا مستعمل پانی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نیچے نہیں گرنے دیتے بلکہ اسے اپنے ہاتھوں میں لے کر چہرے اور سینے پر مَل رہے ہیں اور جسے وہ پانی میسر نہیں آتا وہ دوسرے صحابہ رضی اللہ عنہم کے ہاتھ رگڑ کر چہرے پر مل لیتا ہے اسی طرح اگر آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی حجامت کرواتے ہیں تو بال نہیں گرنے دیتے بلکہ انہیں اٹھا کے سنبھال لیتے ہیں۔ نگاہیں جھکائے رکھتے ہیں اور بارگاہ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اس طرح بیٹھتے ہیں جیسے سر پہ پرندے بیٹھے ہوں۔ اس نے اندازہ لگایا کہ جب اُن کے ادب کا یہ عالم ہے تو اُن کے جذبہ ایمانی کی کیفیت کیا ہو گی؟ لہذا اس نے یہ صورت حال اہل مکہ کو بتاکر کہا کہ ان کے ساتھ کبھی جنگ لڑنے کی کوشش نہ کرنا۔ اسی طرح حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ کو حدیبیہ کے موقع پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کفار مکہ کے ساتھ مذاکرات کے لیے بھیجا ہے تو کفار مکہ نے کہا کہ تم کعبہ کا طواف کرلو مگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اجازت نہیں وہ کعبہ کے صحن میں کھڑے تھے اور 6 سال بعد آئے تھے مگر حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ طواف کئے بغیر صحن کعبہ سے مڑ آئے اور فرمایا جب تک محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم طواف نہیں کرے گا میں بھی نہیں کروں گا۔ کیا طواف کرنا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بغیر منع تھا؟ پھر یہ ادب کس نے سکھایا؟ اسی طرح حضرت علی شیر خدا رضی اللہ عنہ نے عصر کی نماز ابھی تک نہیں پڑھی اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی جھولی میں سرِ انور رکھ کر لیٹے ہیں۔ نماز جا رہی ہے سورج غروب ہو رہا ہے۔ انہوں نے آرام مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نماز قربان کر دی۔ یہ کس نے سکھایا کہ نماز قربان کر دو مگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بے آرام نہ کرو؟ یہ سارے آداب اور تعظیم و تکریم صرف محبت و عشق سکھاتا تھا۔ امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے دلائل النبوۃ میں روایت کی ہے کہ ایک صحابی سے پوچھا گیا کہ أَنْتَ اَکْبَرُ اَمُ رَسُوْلُ اﷲِ ’’ آپ عمر میں بڑے ہیں یا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بڑے ہیں‘‘ عمر میں وہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام سے بڑے تھے مگر صحابی جواب دیتے ہیں کہ ’’بڑے تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی ہیں میں صرف بوڑھا ہوں۔‘‘

اب سوچئے کہ سالوں کی زبان میں بات ہو رہی ہے کہ بڑا کون ہے اور کون پہلے پیدا ہوا؟ مگر اُس میں بھی اپنے لئے لفظ بڑے کا استعمال کرنا اُن کا ادب اجازت نہیں دیتا تھا یہ سلیقہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سکھا رہے ہیں۔

امام ابن عساکر اور امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہم حضرت عبد اﷲ ابن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہما (حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے چچا) سے بھی پوچھا گیا کہ بڑا کون ہے؟ تو فرمایا: ’’بڑے وہی ہیں میری تو بس پیدائش پہلے ہو گئی تھی‘‘ مختلف صحابہ رضی اللہ عنہم سے ایک سوال مختلف مواقع پر ہوا مگر کوئی ایک صحابی رضی اللہ عنہم بھی لفظ ’’اکبر‘‘ (عمر میں بڑا ہونا) اتنی بات کی نسبت بھی اپنی طرف حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقابلہ میں گوارہ نہیں کرتا۔ یہ کتنا لطیف ادب ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اُن کے ایمان کا عالم کیا تھا؟

اس سے لطیف اور بات سنن ابی داؤد کی حدیث میں ہے جسے حضرت عبد بن فیروز رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ قربانی کے جانوروں میں سے وہ کون کون سے ہیں جو جائز نہیں؟ اب وہ جواب دیتے ہوئے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث سنا رہے ہیں کہ منبر پہ قیام فرما تھے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس طرح 4 انگلیوں کا اشارہ کر کے فرمایا کہ یہ چار جانور فلاں فلاں ہیں ان کی قربانی جائز نہیں وہ حدیث Repeat کر رہے ہیں اور ساتھ اپنی انگلیوں کا اشارہ کرنے سے پہلے کہنے لگے ’’میری انگلیاں چھوٹی ہیں‘‘ یہ جملہ بول کر کہا کہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا کہ یہ چار جانور ناجائز ہیں۔

اب یہ کہنا میری انگلیاں چھوٹی ہیں یعنی اُن جیسی نہیں ہیں۔ ادب کی انتہا ہے حالانکہ کوئی مماثلت بیان نہیں ہو رہی صرف واقعہ کا بیان تھا بے ادبی اور گستاخی نہ تھی مگر اس بیان میں بھی اس قدر احتیاط کہ جہاں مساوات اور مماثلت کا شائبہ بھی نظر آتا اسے بھی سوء ادب سمجھتے تھے۔ (جاری ہے)