بیوی کے ساتھ حسن سلوک کی اہمیت بزبان سید الابرار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

ڈاکٹر محمد طاہر القادری

ترتیب و تدوین : کوثر رشید، ناقلہ، مریم کبیر

بسم اللہ الرحمن الرحیم

بیوی کے حقوق جاننے سے قبل حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کے بارے جاننا ضروری ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کے وصال کے بعد دوسری ازواج مطہرات رضی اللہ عنھنّ کی موجودگی میں بھی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا کے حسن سلوک اور نیکیوں کو یاد رکھتے تھے۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :

’’آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج مطہرات رضی اللہ عنھامیں مجھے کبھی کسی پر رشک نہیں آیا مگر حضرت خدیجۃ الکبری رضی اللہ عنہا پر ہمیشہ رشک آتا تھا۔ حالانکہ میں نے انہیں دیکھا بھی نہیں تھا۔ میرے آنے سے پہلے ہی مکہ مکرمہ میں ان کا وصال ہوگیا تھا۔ مجھے ان پر ہمیشہ رشک اس لئے آتا تھا کیونکہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ میں اکثر حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کا ذکر کرتے تھے۔ حدیث صحیح میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے ایک مرتبہ یہاں تک عرض کر دیا کہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم اب آپ کے رشتہ زوجیت میں ہیں مگر آپ آج تک اس سرخ گالوں والی کو نہیں بھولے۔ کیا ہم آپ کی زوجیت میں نہیں؟ تو آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : عائشہ (رضی اللہ عنہا) تمہیں کیا پتہ جب اعلان نبوت ہوا تو وہ مشکلات کا وقت تھا تب خدیجہ (رضی اللہ عنہا) نے میرا کتنا ساتھ دیا۔ میں اس کو کیسے بھول سکتا ہوں؟‘‘ (ترمذی، ابواب المناقب)

یہ بیوی کے حقوق میں سے ہے کہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وصال کے بعد بھی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی نیکیاں نہیں بھولے۔ ایک مقام پر ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :

’’خدا کی قسم! جب بھی کوئی بکرا، بکری ہم نے گھر میں ذبح کیا یا صدقہ و قربانی کی اور گوشت کاٹ لیا جاتا تو آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سب سے پہلے گوشت حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی سہیلیوں کے گھر میں بھیجتے تھے‘‘۔ (ترمذی، ابواب البروالصلہ)

قربان جائیں ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی صداقت ایمانی پر کہ وہ اپنی کی ہوئی باتیں امت کی تعلیم کے لئے خود سنا رہی ہیں اور بتا رہی ہیں کہ ایسی ایسی باتیں میں زوجہ مطہرہ ہوکر خاتم الانبیاء، سیدالمرسلین، تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہہ دیتی تھی مگر وہ ناراض نہیں ہوتے تھے۔ یہاں آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ تو نہیں فرمایا کیا کہہ رہی ہو عائشہ؟ خاموش ہو جاؤ۔ ایسی بات نہیں کیوں کرتی ہو؟۔ ایک مقام پر آپ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں کئی بار آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں کہتی یارسول اللہ! آپ کا تو یہ عالم ہے جیسے ساری دنیا میں سوائے خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کے کوئی نہیں‘‘۔ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسکراتے رہتے۔ یہ تو ہے سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ہمارے ہاں شوہر کس کس بات پر ناراض ہو جاتے ہیں؟ ان کی شوہریت گرمی میں آجاتی ہے، شوہریت کو جلال آجاتا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ باتیں میاں بیوی کے لئے اسوہ ہیں۔

قربان جائیں آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت و سیرت اور شفقتوں پر حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : ’’ایک روز ہم بیٹھے ہوئے تھے کہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی ہمشیرہ ہالہ بنت خویلد آگئیں ان کی آواز حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا سے ملتی تھی۔ آقا علیہ السلام کو ایسے لگا جیسے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا اندر آگئی ہوں۔ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کا احترام کیا۔ ان کے لئے چادر بچھائی اور جب وہ اندر آگئیں تو فرمایا ’’اللّهم هاله‘‘ (خدایا یہ ہالہ ہیں) یعنی خدیجہ کی بہن ھالہ آگئی ہیں‘‘۔ (ترمذی، ابواب البروالصلۃ) یہ صلہ رحمی اور حقوق زوجیت تھے جو آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت سے ہمیں ملتے ہیں۔

حقوق زوجین میں آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیوی کے حقوق جو شوہر پر واجب ہیں اور شوہر کے حقوق جن کا ادا کرنا بیوی پر واجب ہے بیان فرمائے۔ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

وَعَاشِرُوْهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ. (النساء،4،19) ’’اور ان کے ساتھ اچھے طریقے سے برتاؤ کرو‘‘۔ (ترجمہ عرفان القرآن)

خطبہ حجۃ الوداع کے موقع پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’اپنی بیویوں کے ساتھ احسان، نیکی اور بھلائی کا سلوک کیا کرو۔’تمہارے لئے تمہاری بیویوں پر تمہارے حق ہیں اور تمہاری بیویوں کے لئے تمہارے اوپر ان کے حق ہیں۔ پوچھا گیا وہ کیا ہیں : فرمایا : زوجیت کی وجہ سے بیویوں پر فرض ہے کہ شریعت نے جو انہیں حق دیا ہے اس حق میں کسی اور کو شریک نہ کرے‘‘۔

ایک اور مقام پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : دو حق مردوں کے اور دو ہی حق بیویوں کے ہیں۔ خبردار تمہارے اوپر ان کے دو حق ہیں ایک یہ کہ تم ان کے ساتھ نیکی اور احسان کا سلوک کرو اور دوسرا یہ کہ جو کمائی کرو اس میں ان کو کھلا خرچ دو، اپنی کمائی میں سے کھلا خرچ دینا بیوی کا حق ہے اور شوہر کا فرض ہے‘‘۔

یہاں یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ قرآن و حدیث میں شوہر کی کمائی میں بیوی کا حق رکھا گیا ہے۔ بیوی اور گھر پر خرچ کرنا شوہر کا فرض قرار دیا گیا ہے۔ نان و نفقہ وغیرہ کے سب خرچ شوہر کی کمائی میں یہ ڈالے گئے ہیں تاکہ وہ اپنی کمائی سے کھلے ہاتھوں، فراخ دلی سے بیوی پر خرچ کرے، کنجوسی و بخیلی نہ کرے۔ اگر Same Time بیوی کماتی ہو۔ اس کے بزنس کی لاکھوں یا کروڑوں کی کمائی ہو اور وہ اپنی مرضی سے گھر میں خرچ کر دے یا اپنے شوہر کو دے دے تو یہ اس کی نیکی ہے۔ اگر ایک پائی بھی نہ دے تو وہ اللہ کے ہاں گنہگار نہیں ہوگی۔ کیونکہ اس کی کمائی میں شوہر کا کوئی حق نہیں۔ لیکن اگر بیوی تعاون کرے اور کمائی دے دے تو اس کی خوشی، مرضی اور نیکی ہے اس کا اجر وہ آخرت میں پائے گی۔ شوہر کو چاہئے کہ اس کی نیکی کا احترام و اعتراف کرے۔ اسے Appreciate کرے۔ اتنا تو کہے ہاں یہ اس کا احسان اور نیکی ہے۔ ہمارا تو یہ حال ہے کہ ہم ایک جملہ بھی اس کے احسان میں نہیں بولتے۔ اگر اس کے لئے لفظ ’’احسان‘‘ کہنا پڑ جائے تو سمجھتے ہیں کہ ہماری شوہریت ہی ذبح ہوگئی اور ہم شوہر ہی نہ رہے۔ شوہر کو چاہئے کہ وہ بیوی کے احسان کا بدلہ حسن سلوک کے ساتھ دے۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کی۔ یارسول اللہ! ہماری بیویوں کا اپنے شوہروں پر کیا حق ہے؟ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’تمہاری بیویوں کا تمہارے شوہروں پر یہ حق ہے کہ جب تم کماؤ اور کھاؤ تو اسی طرح اپنی بیویوں کو اچھا کھلاؤ، بھوکا نہ مارو اور جب تم کماؤ اور پہنو تو اچھا پہناؤ۔ ان کو مارو نہیں بطور خاص چہرہ کا ذکر فرمایا‘‘۔

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا گیا کہ قرآن مجید میں فَضَرَبَهُنَّ  کے لفظ سے کیا مراد ہے؟ آپ رضی اللہ عنہا نے مسواک لگاکر بتایا کہ بیوی کو مارنے کی اتنی اجازت ہے‘‘۔ ہمارے شوہروں کا یہ حال یہ کہ ہم اس کو پکڑ کر نیچے دبالیتے ہیں پھر اس پر مکوں کی بارش کرتے ہیں اور خون و خون کر دیتے ہیں۔ میں نے اپنی آنکھوں سے کئی بیویوں کے منہ اور ناک پر نیل پڑے اور سوجے ہوئے دیکھا ہے۔ ایک بار مجھے اچانک کسی کے گھر جانے کا اتفاق ہوا۔ بیوی اسی حال میں بیٹھی رو رہی تھی۔ اس کا شوہر پنجگانہ نمازی ہے۔ شریعت کا پابند ہے۔ بیوی کو شریعت سناتا ہے۔ بھلا یہ کون سی شریعت ہے۔ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس تو یہ شریعت نہیں ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تو منع فرمایا ہے کہ اس پر ہاتھ نہ اٹھاؤ، اس کو مارو نہیں، لیکن وہ مار مار کر حلیہ خراب کردیتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں یہی حق ہے۔ ارے ظالمو! یہ حق نہیں یہ ظلم ہے۔ ایک ایک ضرب کا قیامت کے دن جواب دینا پڑے گا۔ تمہاری بیوی بھی تمہاری جیسی انسان ہے۔ اس کو برے نام نہ دو، تذلیل نہ کرو، گالی گلوچ نہ دو، اس کو شرمشار نہ کرو، اس پر ظلم نہ کرو، کوئی قباحت والی بات نہ کہو یہ عورت کے حقوق ہیں اور اس کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنا مرد کا فرض ہے۔ ہزاروں، لاکھوں شوہر ایسے ہیں جو اپنی بیوی کو گالی دیتے ہیں اور گالی کے بغیر بولتے ہی نہیں ہیں۔ اس کو پاؤں کی جوتی جانتے ہیں۔ بیوی کو مارنا حق سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں ہمارے باپ بھی مارتے تھے ہم بھی مارتے ہیں۔ بھلا کیا کوئی حیوانوں جیسا سلوک کرتا ہو توتم بھی حیوانوں کی پیروی کرو گے یا پھر آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت اور فرمان کی پیروی کرو گے۔ کیا کسی نے تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی ازواج مطہرات رضی اللہ عنھن میں سے کسی کو مارتے ہوئے دیکھا تھا؟ ایک مرتبہ ایک زوجہ محترمہ کے گھر آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی باری تھی جس گھر میں قیام ہوتا وہی کھانا پکاتیں۔ اسی دن کسی دوسری زوجہ کے گھر اچھا کھانا پکا تھا تو اس نے اپنے شوق سے کھانا ادھر بھیج دیا۔ وہ خادمہ کھانا لے کر آئیں تو ان زوجہ محترمہ کو ناراضگی ہوئی کہ دوسری زوجہ نے کھانا کیوں بھیجا؟ انہوں نے اس خادمہ کو ہاتھ مارا اور پلیٹ نیچے گر کر ٹوٹ گئی۔ مگر قربان جائیں آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت طیبہ پر ان کا یہ عمل بھی دیکھ کر برا کلمہ سختی سے نہیں فرمایا اور ناراض نہیں ہوئے۔

ایک مقام پر ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

’’عائشہ! تم میرے ساتھ خوش ہو تو اسکا بھی مجھے پتہ چل جاتا ہے اور ناراضگی ہو تو اس کا بھی‘‘۔ آپ رضی اللہ عنہا نے پوچھا : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کو کیسے پتہ چل جاتا ہے؟ فرمایا : ’’جب خوش ہوتی ہو تو ربّ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کہہ کر قسم اٹھاتی ہو اور جب ناراض ہوتو رب ابراہیم علیہ السلام کہہ کر قسم اٹھاتی ہو۔ میں سمجھ جاتا ہوں آپ مجھ سے ناراض ہیں‘‘۔ اس حدیث مبارکہ میں آقا علیہ السلام ازدواجی زندگی کے انسانی مظاہر بتا رہے ہیں اور ناراض نہیں ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیوی کو کس قدر حق دیئے ہیں تاکہ خوش گوار زندگی کا ماحول ہو۔ ایک روایت ہے کہ ایک صحابی کی بیوی گرم مزاج تھی، وہ اونچا بول رہی تھی۔ اس کے شوہر سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے پاس شکایت لے کر آئے کہ وہ میری زوجہ کو بلا کر سمجھائیں۔ جب سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنھا کا دروازہ نوک کیا تو اندر سے ان کی زوجہ مطہرہ اونچا اونچا سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنھا سے بول رہی تھی۔ جب یہ منظر سنا تو چپکے سے واپس پلٹ گئے۔ انہوں نے سوچا۔ اب سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنھا کو کیا شکایت کرنی ہے۔ اتنے میں آپ رضی اللہ عنہ باہر آگئے۔ باہر جاکر اس شخص کو آواز دی، فرمایا : آؤ بھائی کس لئے آئے تھے؟ اس نے کہا آیا تو شکایت کرنے تھا مگر جب اندر آپ رضی اللہ عنہ کا وہی حال دیکھا تو واپس مڑ گیا، کہنے یہ آیا تھا کہ میری بیوی مجھ سے ناراض ہوتی ہے، مجھ سے اونچی بولتی ہے۔

سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنھا نے کہا سنو! ’’اس نے کتنی تکلیفوں کے ساتھ میرے بچے پیدا کئے، وہ میرے بچوں کو پالتی ہے، میرا کھانا پکاتی ہے، میری خدمت کرتی ہے، میرے گھر میں میری امانتوں کی حفاظت کرتی ہے، سارا دن مجھے خوش کرتی ہے، یہ اس کی اضافی نیکیاں ہیں۔ وہ میرے لئے اتنا کچھ کرتی ہے تو اگر کسی بشری تقاضے کے پیش نظر غصہ میں آکر اس نے بول لیا تو کیا میں اس کے غصے کو بھی برداشت نہ کروں۔ اس کے لئے اتنا بھی صبر نہ کرسکوں‘‘۔ میں اللہ کی عزت کی قسم کھاکر بتا رہا ہوں۔ پورے قرآن و حدیث میں مجھے آج تک ایک بھی حدیث نہیں ملی کہ کھانے پکانا کچن دھونا، برتن دھونا، کپڑے دھونا، استری کرنا، گھر صاف کرنا وغیرہ امور بیوی کے فرائض شرعی میں سے ہیں۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’سب سے اعلیٰ اور اکمل ایمان اس شخص کا ہے جس کا اخلاق سب سے بہتر ہے اور جس کا سلوک اپنی بیوی کے ساتھ اچھا ہے‘‘۔ بیوی کے ساتھ حسن سلوک آقا علیہ السلام نے ایمان کے کمال میں داخل کردیا ہے۔ اگر کوئی شخص صحیح معنوں میں عاقل ہو دین کا صحیح شعور رکھتا ہو، اللہ کے حضور سچا ساجد ہو، جنت میں الرحیق المختوم لینا چاہتا ہو، حی القیوم کا بندہ ہو۔ اسے چاہئے کہ اپنی بیوی سے حسن سلوک سے پیش آئے۔ جو اپنی بیویوں سے سلوک میں اچھا ہے اس کا ایمان اچھا ہے۔

حضرت عبداللہ بن عمر والعاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’دنیا متاع ہے اور ساری دنیا کی سب سے بہتر متاع نیک عورت ہے‘‘۔ خوش نصیب ہیں وہ لوگ جن کو اللہ نے نیک بیوی دی۔ آپ لوگ دن بھر پاکستان میں اللہ کے دین کا جھنڈا سربلند کرنے کے لئے اور مصطفوی انقلاب کے لئے دعوت دیتے ہیں۔ کئی کئی ہفتے مصروف رہتے ہیں۔ بیویاں پوچھتی تک نہیں بلکہ خوش رہتی ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دین کی اقامت اور مصطفوی انقلاب میں میرے شوہر مصروف ہیں۔ اس پر خوش ہونے کا اجر اپنی جگہ مگر بیوی کو دوگنا اجر گھر میں بیٹھ کر ملتا ہے کیونکہ وہ اپنے شوہر سے تعاون کرتی ہے۔

بیٹیاں، بہنیں ہمیشہ اس چیز کا خیال رکھیں کہ اپنے شوہروں سے Smiling Face کے ساتھ ملا کریں، انہیں خوش آمدید کہا کریں، ان کی خدمت کیا کریں، ان کی Support کیا کریں تاکہ اس کا اجر دوگنا بڑھ کر آپ کو ملیں۔ جو مرد اپنی بیویوں پر خرچ کرتے ہیں ان کو فضیلت دی گئی ہے اور جو خرچ نہیں کرتے، کنجوسی کرتے ہیں، کمائی ساری جیب میں رکھتے ہیں یا گن گن کر دیتے ہیں اور پھر اس کا حساب لیتے ہیں ان کو فضیلت کیسے ملے گی؟ وہ کسی فضیلت کے علم بردار نہیں بن سکتے کیونکہ وہ ہر روز سالن روٹی کا پیسہ گن کر دیتے ہیں اور بیوی کو ہمیشہ محتاج رکھتے ہیں۔ Extra اخراجات و ضروریات کے لئے کچھ نہیں دیتے اگر کسی کو اللہ نے 10,000 روپے یا 15,000 روپے یا 20,000 روپے ماہانہ کمائی دی ہے تو وہ کم از کم بیوی کو 2000 جیب خرچ دے۔ جیب خرچ دینا مرد کے فرائض میں سے اور بیوی کے حقوق میں سے ہے اور جو دے دے اس کے متعلق نہ پوچھے تاکہ وہ اپنی نجی ضروریات کو پورا کرے اور اگر کسی کی 50,000 روپے کمائی ہے تو بیوی کو 5000 روپے دے۔ کوئی مہینے کا لاکھ کماتا ہو تو بیوی کو 10 ہزار دے اس پر اعتماد کرے، وہ چور تو نہیں ہے، آپ کے گھر اور امانت کی رکھوالی کرتی ہے، اولاد کی پرورش کرنے والی ہے۔ ہمارے معاشرے میں بہت سارے ایسے مرد ہیں جو کماتے بھی ہیں اور گھر بھی خود چلاتے ہیں۔ بیوی پائی پائی کی محتاج بیٹھی ہوتی ہے حتی کہ علاج کے لئے بھی شوہر سے مانگ رہی ہوتی ہے۔ یاد رکھیں اگر میاں بیوی کو ایک دوسرے پر اعتماد نہیں تو محبت کا رشتہ استوار نہیں ہوگا۔ مرد کا یہ حق ہے کہ عورت اس کی تعظیم کرے۔ اس کی ہر جائز ضرورت کی تعمیل کرے، بلا عذر اس کی طلب کو پورا کرے، اس کی امانت کی حفاظت کرے۔ یہ مرد کے چار بنیادی حقوق ہیں باقی اس کے اندر ہیں۔ اس کے علاوہ بیوی جو کچھ کرے گی ان کا اس کو اجر ملے گا یہ اس کی نیکی ہے۔ اگر شوہر ان کو اپنا حق سمجھ کر جبراً لینا چاہے تو یہ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بھی نافرمانی ہوگی اور گھر کا ماحول بھی خراب ہوگا۔ ایک دوسرے کی نیکی کا اعتراف کرنا یہ بھی نیکی ہے، شوہر بیویوں کی اضافی، نیکیوں کا اعتراف کرے۔ کتنے گھروں میں تنخواہ زیادہ نہ ہونے کی وجہ سے ملازمائیں نہیں رکھی جاتیں، ان کی بیویاں گھر میں جھاڑو خود دیتی ہیں واش روم خود صاف کرتی ہیں۔ حالانکہ قرآن و حدیث میں کسی مقام پر نہیں ملتا کہ جھاڑو بھی بیوی خود دے۔ یہ ان کے فرائض میں نہیں ہے۔ مرد کو چاہئے کہ اس کی ساری نیکیوں کو جانے کہ یہ ازروئے شریعت اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرائض نہیں بنائے تھے لیکن گھر کا نظام چلانے کے لئے یہ اس کا تعاون ہے۔ اس کے تعاون کے بدلے میں اس کو خرچہ ضرورت سے زیادہ دے، اس پر اعتماد زیادہ کرے، محبت دے، جب Weekend آئے تو بیوی کو بھی اچھا کھانا کھلائے گھر جاتے ہوئے گلاب کے دو چار پھول لے جائے۔ کوئی عطر لے جائے، اس کی پسند کا لباس لے جائے، تحفہ لے جائے۔ یہی احسان کا بدلہ احسان سے ہوتا ہے۔ اگر آپ شوہر حضرات Job سے تھکے ہوئے جاتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ بیوی مسکراتے چہرے سے ملے۔ کبھی اس بیچاری بیوی کا حال دیکھا جو صبح سے اٹھی ہے اس نے چار پانچ بچوں کو تیار کیا۔ سکول بھیجا، سارے گھر والوں کا ناشتہ بنایا اور سب کو روانہ کیا پھر Lunch تیار کیا پھر عشاء کے Dinner کے لئے تیاری کی اور ہمارا حال یہ ہے کہ کبھی نمک مرچ زیادہ پڑ جائے تو فوراً آگ بگولہ ہوجاتے ہیں۔ جھنگ کا واقعہ ہے میں نے ایک مرد کو دیکھا بیوی سے سالن میں نمک زیادہ پڑ گیا اس نے ہنڈیا اٹھا کر دیوار پر دے ماری اور کہا کام کرکے ہم مرجاتے ہیں تو عزت کا کھانا ہی نہیں پکا سکتی۔ ارے ناداں! یہ اس کا احسان ہے۔ اس سے نمک زیادہ پڑ گیا، لذیذ سالن نہیں پکا سکی۔ نمک مرچ تیز ہوگئی تو کیا ہوا؟ کچھ تو اپنے نفس کا بھی علاج کریں۔ اگر سارا دن کام کر کے تھکے ہوئے آتے ہیں تو کبھی اس کے بھی گھنٹے Count کئے کہ سارا دن وہ گھر میں کتنا کام کرتی ہے۔ بچوں کو گھر میں دیکھنا، گھر کی صفائی۔ مہمانوں کی Dealing سارے کام اس کی ڈیوٹی ہیں اور اگر دونوں کی Position برابر ہے تو دونوں کا فرض برابر ہے کہ اگر شوہر آئے تو بیوی کا فرض ہے کہ چڑ چڑے پن سے اس کو نہ ملے۔ ورنہ قیامت کے دن اس کا مواخذہ ہوگا۔ مسکراتے ہوئے ملے۔ پوچھے کیا حال ہے؟ شوہر بھی آتے ہوئے محبت سے ملے اور پوچھے کیسا دن گزرا؟ میاں بیوی ایک دوسرے کو Smile Exchange کریں کیونکہ نفرت کرنے سے گھر جنت نہیں بنتا بلکہ محبت سے بنتا ہے۔ شوہر محبت و سلوک کرے اور بیوی اس کی عزت و احترام کرے اگر دونوں اس طریقے سے رہیں گے تو گھر جنت بن جائے گا۔

حضرت ابوعبداللہ ابی رحمن رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’سب سے بہتر خرچ جس کا سب سے زیادہ اجر ہے وہ جو شوہر اپنے بیوی بچوں پر کرے اور اس کے بعد فرمایا : جو خرچ اللہ کی راہ میں جہاد پر کیا جائے‘‘ جس کا درجہ بیوی بچوں کے خرچ کے بعد آتاہے۔ اگر یہ بات سمجھ میں آجائے تو 50 فیصد جھگڑے ختم ہو جائیں کیونکہ جو بچوں اور بیوی پر خرچ ہوتا ہے یہ احسان نہیں ہے۔

حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : ’’میں نے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا کہ بنو سلمہ کا جو خاندان ہے وہ میری اولاد میں میرے بیٹے ہیں‘‘ میں ان پہ خرچ کروں کیا تو کیا مجھے اجر ملے گا؟ فرمایا : ’’ہاں جو پائی پائی خرچ کروگی اس کا اجر اللہ کے ہاں ملے گا۔ یہ سب سے بڑی خیرات ہے‘‘۔ ایک حدیث مبارکہ میں آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’کہ تم جو خرچ اللہ کی راہ میں اس کی رضا کے لئے کرتے ہو، اس کا اجر ملتا ہے حتی کہ پیار محبت کے طور پر ایک لقمہ اپنے ہاتھ سے اپنی بیوی کے منہ میں ڈالو‘‘۔

لوگ سمجھتے ہیں یہ عمل عاشق معشوق کا ہے، کوئی ایسے عمل کو رن مرید کہتا ہے اگر کوئی ایسا کہتا ہے کہ یہ رن مرید کا عمل ہے تو اس پر خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی لعنت ہے۔ یہ کہہ کر اس نے اللہ کے احکام کو ٹھکرا دیا۔ یہ صرف ہندوستان کا کلچر ہے جس نے انہیں دین اور ایک دوسرے کے حقوق کی پہچان سے دور کر رکھا ہے۔ اگر وہ رن مرید نہیں تو کیا نفرت مرید ہے، تکبر مرید ہے، کفر مرید ہے، جہالت مرید ہے۔ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو بیوی کے منہ میں لقمہ ڈالنے سے محبت کے طریقے سکھا رہے ہیں۔

حضرت ابو مسعود البدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’آدمی اپنے بیوی بچوں پر جو خرچ کرتا ہے۔ اللہ کے ہاں اس کے نامہ اعمال میں صدقہ و خیرات لکھا جاتا ہے‘‘۔ قیامت کے دن وہ اللہ کے ہاں نیکیاں بن جائیں گی۔ ایک اور مقام پر آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! کون سا صدقہ بہتر ہے؟۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : سب سے بہتر صدقہ یہ ہے کہ اپنی ضرورت کا خرچ کرو مگر بعد میں بھوکے ہو کر مانگتے نہ پھرو‘‘۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ آقا علیہ السلام نے فرمایا : ’’ایک وہ دینار پیسے، ڈالر، پونڈ اور درہم ہیں جو تم اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہو، دوسرا وہ پیسہ ہے جو کسی غلام کو آزاد کرتے ہوئے خرچ کرتے ہو، تیسرا وہ دینار و پیسہ ہے جو تم کسی غریب، مسکین پر خرچ کرتے ہو اور چوتھا وہ پیسہ ہے جو اپنی بیوی اور بچوں پر خرچ کرتے ہو، یہ چار قسمیں بیان کرکے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ان ساری اقسام میں سب سے بڑا اجر اس خرچ کا ہے جو بیوی بچے پر کیا جائے‘‘۔ غلام کو آزاد کرانے کا صدقہ بھی بعد میں آتا ہے۔ اللہ کی راہ میں کئے ہوئے جہاد کا خرچہ بھی بعد میں حتی کہ مسکین محتاج کو دیا ہوا پیسہ بھی بعد میں جبکہ بیوی بچے پر خرچ کئے ہوئے پیسے کا اجر اللہ کے ہاں زیادہ ہوگا‘‘۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں صدقہ و خیرات کرنے کا حکم دیا اور فرمایا : ’’صدقہ خیرات کیا کرو۔ ایک صحابی شخص کھڑا ہوا۔ اس نے عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! میرے پاس ایک دینار ہے اسے میں کہاں خرچ کروں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : پہلے اپنی جان پر خرچ کر، باعزت لباس پہن۔ اس نے پوچھا میرے پاس دوسرا دینار بھی ہے وہ کس پر خرچ کروں فرمایا : اپنی اولاد پر خرچ کر۔ اس نے کہا میرے پاس تیسرا دینار بھی ہے وہ کس پر خرچ کروں فرمایا : اپنی بیوی پر خرچ کر۔ فرمایا : اگر یہی پیسہ بیوی کے پاس ہو اور خیرات کرنے کی ترتیب پوچھے تو جو ترتیب اس کے شوہر پر ہے اگر شوہر کے وسائل کم ہیں تو بیوی اپنے شوہر پر خرچ کرے۔ یہ اس کے لئے صدقہ ہوگا اس کو اجر ملے گا۔ اس نے کہا میرے پاس چوتھا دینار ہو تو پھر آقا علیہ السلام نے فرمایا : پھر سوچ سمجھ کر جہاں بہتر سمجھو خرچ کردو‘‘۔