حافظ محمد سعید رضا بغدادی

عرفان القرآن کورس
درس نمبر 18 آیت نمبر 29، 30 (سورۃ البقرہ)

تجوید

سوال : ادغام کی کتنی اقسام ہیں مع تعریفات و امثلہ بیان کریں؟

جواب : ادغام کی تین قسمیں ہیں :

1. اِدغَامِ مِثلَين 2. ادغامِ مُتَجَانِسَين 3. ادغامِ مُتقَارِبَينْ

اِدغامِ مِثلَين کی تعریف

دو ’’ہم نام اور ہم شکل‘‘ حروف اگر یکے بعد دیگرے اکٹھے آجائیں جبکہ پہلا حرف ساکن اور دوسرا حرف متحرک ہو تو اس وقت ادغام کا قاعدہ استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً : إِذْذَّهَبَ، قَدْ دَّخَلُوا

2. اِدغامِ مُتَجَانِسَين کی تعریف

دو ’’ہم مخرج‘‘ حروف اگر ایک لفظ میں یا الگ الگ کلمہ میں پائے جائیں، پہلا حرف ساکن ہو اور دوسرا حرف متحرک ہو تو اس وقت بھی ادغام کا قاعدہ استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً : قَالَتْ طَّآئِفَةٌ / عَبَدْتَّ

ترجمہ

هُوَ الَّذِي خَلَقَ لَكُم مَّا فِي الأَرْضِ جَمِيعاً

متن هُوَ الَّذِي خَلَقَ لَكُم مَّا فِي الأَرْضِ جَمِيعاً
لفظی ترجمہ وہی ہے جس نے پیدا کیا واسطے تمہارے جو میں زمین سب کچھ
عرفان القرآن وہی ہے جس نے سب کچھ جو زمین میں ہے تمہارے لئے پیدا کیا۔

ثُمَّ اسْتَوَى إِلَى السَّمَاءِ فَسَوَّاهُنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ

متن ثُمَّ اسْتَوَى إِلَى السَّمَاءِ فَ سَوَّا هُنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ
لفظی ترجمہ پھر متوجہ ہوا طرف  بالائی حصے پس درست کیا ان کو سات آسمان
عرفان القرآن پھر وہ (کائنات کے) بالائی حصوں کی طرف متوجہ ہوا تو اس نے انہیں درست کر کے ان کے سات آسمانی طبقات بنا دیئے۔

وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌO وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلاَئِكَةِ

متن وَ هُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ وَ إِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلاَئِكَةِ
لفظی ترجمہ اور وہ ہر چیز جاننے والا ہے اور جب فرمایا آپکے رب فرشتوں
عرفان القرآن اور وہ ہر چیز کا جاننے والا ہےo اور (وہ وقت یاد کریں) جب آپ کے رب نے فرشتوں سے فرمایا

إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً قَالُواْ أَتَجْعَلُ فِيهَا

متن إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً قَالُواْ أَ تَجْعَلُ فِي هَا
لفظی ترجمہ میں بنا رہا ہوں میں زمین نائب انہوں نے کہا کیا تو بنائے گا میں زمین
عرفان القرآن میں زمین میں اپنا نائب بنانے والا ہوں، انہوں نے عرض کیا: کیا تُو زمین میں کسی ایسے شخص کو (نائب) بنائے گا

مَن يُّفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ

متن مَن يُّفْسِدُ فِيهَا وَ يَسْفِكُ الدِّمَاءَ وَ نَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ
لفظی ترجمہ جو فساد انگیزی کریگا زمین میں اور بہائے خون اور ہم تسبیح کرتے ہیں ساتھ تیری حمد
عرفان القرآن جو اس میں فساد انگیزی کرے گا اور خونریزی کرے گا؟ حالانکہ ہم تیری حمد کے ساتھ تسبیح کرتے رہتے ہیں۔

وَنُقَدِّسُ لَكَ قَالَ إِنِّي أَعْلَمُ مَا لاَ تَعْلَمُونَO

متن وَ نُقَدِّسُ لَكَ قَالَ إِنِّي أَعْلَمُ مَا لاَ تَعْلَمُونَ
لفظی ترجمہ اور پاکیزگی بیان کرتے ہیں تیرے لئے فرمایا بیشک میں جانتا ہوں جو نہیں تم جانتے
عرفان القرآن اور (ہمہ وقت) پاکیزگی بیان کرتے ہیں، (اللہ نے) فرمایا: میں وہ کچھ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتےo

تفسیر

هُوَالَّذِیْ خَلَقَ لَکُمْ. . . الخ

قرآن حکیم میں ہے اللہ تعالی نے آسمانوں اور زمینوں کو چھ دن میں پیدا فرمایا جیسے قرآن کہتا ہے کہ

هُوَالَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ فِی سِتَّةِ اَيَّامٍ.

(الحديد، 57 : 4)

حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں پہلے زمین کی پیدائش ہوئی پھر آسمانوں کی پیدائش کے بعد زمین کو درست کیا۔ حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مروی ہے کہ اللہ تعالی کا عرش پانی پر تھا اور کسی چیز کو پیدا نہیں کیا تھا اور جب مخلوق کو پیدا کرنا چاہا تو پانی سے دھواں بلند کیا وہ اونچا چڑھا اور اس سے آسمان بنائے، پھر پانی خشک ہوگیا اور اس کی زمین بنائی، پھر اسی کو الگ الگ کر کے سات زمینیں بنائیں۔ اتوار اور پیر کے دو دنوں میں یہ سات زمینیں بن گئیں، پہاڑ، زمین کی پیداوار درخت وغیرہ زمین کی کل چیزیں منگل اور بدھ کے دو دنوں میں پیدا کیں۔ پھر آسمان کی طرف توجہ فرمائی جودھواں تھا اسی سے آسمان بنایا پھر اس میں سے سات آسمان بنائے۔ جمعرات اور جمعہ کے دو دنوں میں ساتوں آسمانوں اور زمینوں کو جمع کیا گیا۔ (جمعہ کے دن کو اسی لئے جمعہ کہا جاتا ہے کہ اس میں زمین و آسمان کی پیدائش جمع ہوگئی)۔ ہر آسمان میں اس نے فرشتوں کو پیدا کیا اور ان چیزوں کو بھی جن کا علم اس کے سوا کسی کو نہیں۔ آسمان دنیا کو ستاروں سے زینت بخشی اور ان کو شیطان سے حفاظت کا ذمہ بنایا۔ ان تمام چیزوں کو پروردگار نے پیدا کر کے عرش عظیم پر قرار پکڑا۔ (تفسیر ابن کثیر)

حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ : فرماتے ہیں کہ جمعہ کے آخری وقت بين العصر والمغرب سیدنا آدم علیہ السلام کی پیدائش ہوئی۔

صفات الٰہیہ کا بیان

1۔ زمین و آسمان کی تخلیق 2۔ سات سماوی طبقات کی تخلیق 3۔ باری تعالیٰ کا احاطہ علمی (تفسیر منہاج القرآن)

وَإِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلٰئِکَةِ. . . الخ

اس مقام پر لفظِ ’’رب‘‘ مضاف ہے۔ ک ضمیر کی طرف جس کا مرجع ذات مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ اس اضافت میں جو لطف ہے اس کا صحیح ادراک اہل محبت وعرفان کا خاصہ ہے، علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات مقدس ہی حقیقت میں خلیفہ اعظم ہے اور اگر یہ ذات گرامی پیدا نہ ہوتی تو آدم علیہ السلام ہی پیدا نہ ہوتے۔

اگر نام محمد رانیاوردے شفیع آدم
نہ آدم یا فتے توبہ نہ نوح از غرق نجّینا

ملائکة : اس کا واحد ملک ہے جو الوکۃ سے نکلا ہے جس کا معنی ہے ’’ پیغام رسانی‘‘ علماء کے نزدیک ان کی حقیقت یہ ہے کہ یہ وہ لطیف اور نورانی جسم ہیں جو مختلف شکلیں بدل سکتے ہیں اور ان کو ان کی اصل شکل میں صرف اولیاء کا ملین ہی دیکھ سکتے ہیں اور ہونا بھی یہی چاہیے کیونکہ مختلف اشیاء کا شعور و ادراک ایک ہی قوت سے نہیں ہوتا بلکہ مختلف قوتیں مختلف چیزوں کا ادراک کرتی ہیں۔ رنگت کا ادراک آنکھ سے اور حرارت کا چھونے سے ہوتا ہے۔ نابینا اگر سرخ وسفید کو نہ سمجھ سکے تو معذور ضرور ہے لیکن اسے یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ سرخ و سفید کا انکار ہی کر دے۔ اسی طرح ملائکہ بھی پاکیزہ ارواح ہیں اور انہیں پاکیزہ روحیں ہی دیکھ سکتی ہیں۔ ۔ (تفسیر ضیاء القرآن)

تخلیق آدم علیہ السلام اور خلافت ارضی

(الف) کلمہ اِذ کے ذریعے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تخلیق آدم سے پہلے کا واقعہ یاد دلایا جا رہا ہے۔ یاد دلانے کے لئے اَصلاً اس واقعہ کا پہلے سے علم ہونا ضروری ہے ورنہ یاد دلانا درست نہیں۔ اس سے تخلیق آدم علیہ السلام سے پہلے کا علم بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے ثابت ہوتا ہے۔ یہ آپ علیہ السلام پر اللہ تعالی کا فضل عظیم ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ابتدا سے انتہا تک کے احوال کی اطلاع فرمائی گئی۔

(ب) انسانی سرشت میں خونریزی کا جوہر ہی شجاعت اور انقلابیت کے باعث بنائے قیادت و خلافت بنتا ہے

(ج) محض تسبیح و تحمید الٰہی استحقاق خلافت کی بنیاد نہیں

فرشتوں کی تسبیح و تقدیس

فرشتوں کی تسبیح و تقدیس سے مراد اللہ تعالی کی پاکی بیان کرنا، نماز پڑھنا، بے ادبی سے بچنا، اللہ تعالیٰ کی بڑائی و عظمت بیان کرنا، نافرمانی نہ کرنا (سُبُّوْحٌ قُدُّوْسٌ) وغیرہ پڑھنا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سوال ہوتا ہے کہ کونسا کلام افضل ہے ؟آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا وہ جسے اللہ تعالی نے اپنے فرشتوں کے لئے پسند فرمایا ہے۔ اور وہ یہ ہے ’’سُبْحَانَ اللّٰهِ وَبِحَمْدِه‘‘ (تفسیر ابن کثیر)

قواعد

فعل مضارع کا بیان

مضارع وہ فعل ہے جس سے یہ معلوم ہو کہ کوئی کام اب ہو رہا ہے یا زمانہ مستقبل میں ہو گا۔ اس لحاظ سے مضارع میں دوزمانے پائے جاتے ہیں، ایک زمانۂ حال اور دوسرا زمانۂ مستقبل جیسے يَضْرِبُ (وہ مارتا ہے یا مارے گا) يَکْتُبُ (وہ لکھتا ہے یا لکھے گا) يَشْرَبُ (وہ پیتا ہے یا پیئے گا)

مضارع بنانے کا طریقہ

مضارع بنانے کے لیے کچھ حروف ماضی کے شروع میں اور کچھ آخر میں بڑھائے جاتے ہیں۔

(1) شروع میں بڑھائے جانے والے حروف کا مجموعہ ’’ اَتَيْن‘‘ ہے، یعنی ہمزہ، تا، یا اور نون۔ ان حروف کو علامات مضارع کہتے ہیں۔

دعا

بیت الخلاء سے نکلتے وقت کی دعا

اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِی اَذْهَبَ عَنِّی الْأَذٰی وَعَافَانِی

’’ سب تعریفیں اس اللہ کے لئے جس نے مجھ سے اذیت کو دور کیا اور مجھے عافیت بخشی‘‘