تعارف و تبصرہ کتاب ’’ ذبح عظیم‘‘

عائشہ شبیر

ماہ محرم کی آمد کے ساتھ ہی ایک عظیم قربانی کی یاد تازہ ہو جاتی ہے جس نے اپنے خون سے اسلام کی آبیاری کی، امت مسلمہ کو عزت کا تاج پہنایا اور انسانیت کو امن سے روشناس کرایا، اس قربانی کی عظمت کو جاننے کے لئے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمدطاہر القادری کی کتاب ’’ذبح عظیم‘‘ پر نظر پڑی تو دل و نگاہ خانوادہ نبوت کی شان میں جھک گئے۔

تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی حق وباطل کا معرکہ ہوا تو حق نے ہمیشہ قربانی کی عظیم داستان رقم کی۔ اس کلمہ حق کی صدا کبھی آتش نمرود سے آتی ہے تو کبھی فرعون کے محل سے، کبھی وادی سینا سے تو کبھی مکہ کے غاروں سے اور کبھی کربلا کے ریگزاروں سے الغرض

غریب و سادہ و رنگیں ہے داستان حرم
نہایت اس کی حسین ابتدا ہے اسماعیل

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمدطاہر القادری نے اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے اس ابدی حقیقت شعر کو علمی و تحقیقی قالب میں ڈھالا جس کی ترجمانی یہ کتاب ’’ذبح عظیم‘‘ کر رہی ہے۔ پہلا باب ذبح اسماعیل کی عظیم داستان کو پوری شرح و بسط کے ساتھ بیان کرتا ہے کہ جس پیکر تسلیم و رضا نے ابتدا کی اس کی انتہا سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کے صبر پر ہوتی ہے، یہ کتاب سیدنا اسماعیل علیہ السلام اور شہادت امام حسین رضی اللہ عنہ کا باہمی ربط قائم کر کے ’’ذبح عظیم‘‘ کا مفہوم واضح کرتی ہے۔

خانوادہ نبوت جس عظمت و رفعت پر فائز ہیں۔ اسکا اندازہ لگانا مشکل ہے، یہ گلشن نبوت جس کا سرچشمہ حضرت علی رضی اللہ عنہ و حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا ہیں، جن پر ساری کائنات فدا ہے، جو منظور نظرِ محبوب خدا ہیں، تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ بیشک اللہ تعالی نے مجھے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا حضرت علی رضی اللہ عنہ سے نکاح کرنے کا حکم دیا۔ یہ شادی امر الٰہی سے سرانجام پائی اس لئے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ولایت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سلسلے کو قائم ہونا تھا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کو تکمیل دعائے ابراہیم علیہ السلام کا ذریعہ بنانا تھا۔ اسی مقصد کے لئے تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ان کی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے ذریعہ ایک مضبوط اور پاکیزہ نسبت بھی قائم ہوئی، مولائے کائنات حضرت علی کرم اللہ وجہ الکریم اور خاتون جنت حضرت سیدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا اور ان کی اولاد اطہار رضی اللہ عنہم جمہور اہل اسلام کے ہاں محترم و مکرم اور قابل عزت و تکریم ہیں، یہ نہ تو کسی خاص فرقے کا مشرب و مسلک ہیں اور نہ کسی کی خاص علامت ہیں اور ایسا ہو بھی کیوں؟ کیونکہ یہ خانوادہ نبوت ہیں اور جملہ مسلمانوں کے ہاں معیار حق اور مرکز و محور ایمان و عمل ہیں۔

’’ذبح عظیم‘‘ کتاب کے باب دوم میں فضائل مولائے کائنات اور مناقب سیدہ فاطمۃ الزہراء کا تفصیلی بیان ہے جس سے اہل بیت اطہار کی فضیلت اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نزدیک ان کے مقام و مرتبہ کا اندازہ ہوتا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاهُ (جامع الترمذی، 2 : 213) ’’میں جس کا مولا ہوں اس کا مولا علی رضی اللہ عنہ ہے‘‘۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمان نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شان بڑھا دی۔ سیدہ کائنات رضی اللہ عنہا کے بارے میں حضورعلیہ السلام کا یہ فرمان آپ کی عظمت و رفعت میں بے پناہ اضافہ کر دیتا ہے کہ جس میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے مخاطب ہوکر فرمایا : لِفَاطِمَةَ اَنَّ اللّٰهَ يَغْضِبُ لِغَضْبِکَ وَيَرْضٰی لِرَضَاکِ (المستدرک لحاکم، 3 : 154) ’’اے بیٹی! اللہ تیری ناراضگی کو دیکھ کر ناراض ہوتا ہے اور تیری خوشی کو دیکھ کر خوش ہوتا ہے‘‘۔

تیسرے باب میں شہسوار دوش رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مناقب بیان ہیں اسی میں خاندان رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لہو سے تحریر ہونے والی داستان حریت و ایثار کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس عظیم قربانی کی تکمیل بتائی گئی ہے جس کی ابتدا سیدنا اسماعیل علیہ السلام نے کی۔ سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ جنت میں نوجوانوں کے سردار ہیں۔ جن کی محبت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت ہے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت اللہ کی محبت ہے۔ وہ جو دوش پیغمبر پر سواری کرتے تھے، وہ جن کے لئے سرور دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سجدے طویل کر دیئے۔ وہ جو چمنستان نبوت کے مہکتے ہوئے پھول ہیں، وہ حسین رضی اللہ عنہ جس کی محبت اللہ کی محبت ہے، وہ حسین رضی اللہ عنہ جنہوں نے سر کٹا کر دین مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پرچم کو بلند کر دیا، وہ حسین رضی اللہ عنہ جن کے خون کے قطرے آج بھی نعرہ حق بلند کر رہے ہیں، وہ حسین رضی اللہ عنہ جو حق کی علامت بن گئے۔ الغرض شہادت حسین رضی اللہ عنہ کے بعد کائنات انسانی کو دوکردار مل گئے، یزیدیت بدبختی، ظلم و استحصال کا استعارہ بن گئی جبکہ حسینیت عدل، امن، وفا اور تحفظ دین مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی علامت بن گئی۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمدطاہر القادری نے امام حسین ابن علی رضی اللہ عنہ کے مناقب اس انداز میں بیان کئے ہیں کہ پڑھنے والا خود کو حسینی لشکر کا سپاسی بنانے پر آمادہ ہو جاتا ہے اور اس کا دل مچل جاتا ہے کہ کاش خدا اس کو بھی امام حسین رضی اللہ عنہ کے غلاموں میں شامل کر دے۔ یزیدیت پستی اور ذلت کا نام ہے اور حسینیت انسانیت کی نفع بخشی کا نام ہے، حضور شیخ الاسلام حسینیت کو روشنی قرار دیتے ہوئے اور یزیدیت کو اندھیرے کا نشان بتاتے ہوئے یہ پیغام دیتے ہیں کہ آیئے اپنے اندر حسینی کردار پیدا کریں اور کربلائے عصر میں ایک نیا معرکہ بپا کر دیں۔

آؤ! ایک نئی وادی فرات کو اپنے لہو سے رنگین بنا دو، اپنی جان اور اپنے اموال کی قربانی دے کر مصطفوی انقلاب کی راہ ہموار کر دو، تاکہ افق عالم پر مصطفوی انقلاب کا سویرا طلوع ہوجائے۔ آؤ ہم ایک بار پھر اس خطے کو اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی محبتوں کا مرکز و محور بنا دیں، فتنہ و فساد، جنگ، قتل و غارتگری کی آگ کو بجھا کر امام حسین رضی اللہ عنہ کے جلائے ہوئے چراغ امن سے اپنے ظاہر و باطن کے اندھیرے دور کریں، آؤ شیخ الاسلام کے اس عظیم پیغام کو عام کر دیں جو بزبان اقبال رحمۃ اللہ علیہ دے رہے ہیں کہ

قتل حسین اصل میں مرگ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد

آؤ عالم کفر کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جاؤ، اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو کہ یہی شعور کربلا ہے اور یہی پیغام کربلا ہے۔