حضرت سیّدہ زینب رضی اللہ عنہا

سیّدہ زینب شرافت کی کلی
نوری آغوشِ شجاعت میں پلی

استقامت کی وہ شمع تاجدار
درمیانِ معرکہئِ کارزار

کربلا کی سرزمیں پہ خیمہ زن
بنتِ حیدر نورِ چشمِ پنجتن

طیبہ و طاہرہ اِن کا وجود
خاص حریم قدس میں دائم سجود

صائمہ و صابرہ عالی نسب
ذاکرہ و شاکرہ اولیٰ حسب

خطبۂ زینب سے لرزاں ہے یزید
لعنۃ اللہ علی حال پلید

کاروانِ سیّدہ ماہِ منیر
’طالبان را رہنما ودستگیر‘‘

’’نظم‘‘

اب کے برس کچھ ایسا کرنا
پچھلے بارہ ماہ کے اپنے

دکھ سکھ کا اندازہ کرنا
سارے دوست اکٹھے کرنا

سارے دشمن یکجا رکھنا
دھیان سے یہ حساب لگانا

اگر سب خوشیاں بڑھ جائیں
آنے والا سال مبارک

اگر بڑھ جائیں غم یہ تمہارے
مت بیکار تکلف کرنا

اپنے غم مجھے دینا
میری خوشیاں تم لے لینا

اب کے برس کچھ ایسا کرنا

(ریحانہ مجید، لاہور)

سیدہ زینب سے لیں نور ہدیٰ

مغربی تہذیب سے نفرت کریں
دین ابراہیم پر جئیں، مریں

سیدئہ زینب سے لیں نورِ ہدیٰ
غیر مسلم سے رہیں بالکل جدا

وقف کردیں زندگی اسلام پر
مصطفی(ص) کے عزت واکرام پر

راہِ حق سے ڈگمگائیں نہ کبھی
معصیت سے جی لبھائیں نہ کبھی

تا اَبَد لیتی رہیں میرے خدا
حضرت خاتون جنت سے ضیاء

یہ شفیق ان کے لئے لایا دعا
ہو اِسے شرفِ قبولیت عطا

(دعاگو : شفیق الرحمن شفیق بھنگالی شریف گوجر خان)