صاحبزادہ مسکین فیض الرحمن درانی

مرکزی امیر تحریک منہاج القرآن

درس نمبر 15

آفاق و انفس کی تخلیق سے پہلے خالق کائنات نے اپنے ارادئہ محبت سے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نور کو پیدا فرمایا۔ مصوّر ازل نے جس محبت سے اس بے مثال شاہکار کو تخلیق کیا، اس سے یہ ایک ایسا منبع محبت بنا کہ اللہ عزوجل نے اس کو عالمین کے لئے اپنی رحمت قرار دیا، رحمت، شدید محبت کا اظہار ہوتی ہے، اللہ سبحانہ وتعالی کی رحمت کی وسعت ایسی لامحدود، بے انتہا اور بے کنار ہے کہ ہر لمحہ وسعت پاتی ہوئی کائنات عالم اس کے ایک معمولی ذرے سے نمو اور افزائش پا رہی ہے، اللہ سبحانہ وتعالی کے ارادئہ محبت کے پرتو سے شاہکار محبت کی تو تخلیق ہی محبت اور رحمت کے لئے ہوئی تھی، لہذا وہ اپنے خالق جل مجدہ کی محبت میں ایسا ڈوبا کہ اللہ سبحانہ وتعالی نے بارہ ہزار برس اس کو اپنے خاص مقام قرب اور پھربارہ ہزار سال کے لئے مقام محبت میں رکھا، محب اور محبوب آمنے سامنے رہے، خالق محبت کی تجلیات کائنات حسن صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر پڑتی رہیں، نجم محبت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نور سے عرش، کرسی، حاملین عرش، لوح، قلم، جنت، فرشتے، شموس، قمور، عقل، علم، حکمت، عصمت، توفیق اور ارواح پیدا ہوتے رہے، امرکن سے نجم کا ئنات بنا، عمل فیکون سے مخلوقات آفاق و انفس مسلسل بن رہی ہیں، جو خالق کل سبحانہ و تعالی مخلوق کے ساتھ اعلیٰ ترین مظاہر محبت ہیں۔ تخلیق اول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے خالق عزوجل سے شدید محبت ہے، اللہ تعالی جل شانہ کو محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کی یہ ادا اتنی پسند ہے کہ اس کو اپنی اور اپنے محبوب کی ذات پر ایمان لانے کی شرط قرار دیا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے :۔

وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا اَشَدُّ حُبَّا لِلّٰهِO  (البقرہ، 2 : 165) ’’اور اہل ایمان اللہ سبحانہ و تعالی سے شدید محبت کرتے ہیں۔‘‘

سلوک، تصوف اور احسان کی ابتدا بھی ’’شدید محبت‘‘ یعنی ایمان باللہ اور ایمان بالرسالت کے تقاضائے اول سے ہوتی ہے۔

اللہ سبحانہ و تعالی سے مومنین کی شدید محبت کی وضاحت کرتے ہوئے قاضی محمد ثناء ا للہ پانی پتی رضی اللہ عنہ، تفسیر مظہری فرماتے ہیں کہ ’’کسی چیز کو سمجھ کر اس انداز میں اس کی جانب میلان رکھنا کہ نفس اس چیز کے قرب پر برانگیختہ ہو۔‘‘

قاضی صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ’’محبت کرنے والے کے دل کا محبوب کے ساتھ اس حد تک مشغول ہو جانا ہے، کہ اسے محبوب کے سوا دوسروں کی طرف توجہ کرنے سے مکمل روکے اور اسے فطرتی طور پر (By Potential nature) محبوب کی جانب ہر وقت توجہ اور التفات رکھنے کے سوا کوئی چارہ کار نہ ہو۔‘‘

عرفاء کاملین محبت کے بارے میں یوں وضاحت فرماتے ہیں کہ۔

’’اَلْعِشْقُ نَارٌ يُحْرَقُ مَا سِوَا الْمَحْبُوْبِ‘‘

’’عشق ایک ایسی آگ ہے جو دل سے محبوب کے سوا سب کچھ جلا دیتی ہے۔‘‘

اللہ تعالی جل شانہ نے اپنے ارادہ محبت سے نور اول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پیدا فرمایا اور پھر اس عظیم الشان توانائی رکھنے والے نور سے آفاق و انفس کی تخلیق فرمائی، حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عالمین کے لئے اپنی رحمت بنایا، چونکہ آفاق و انفس کا ذرہ ذرہ نور محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جزو ہے، اس لئے ہر جزو میں اللہ سبحانہ و تعالی اور اس کے پاک محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت فطرت بالقوہ کے طور پر موجود ہے۔

محبت انسانی فطرت کی ایک وجدانی کیفیت ہوتی ہے، ایک ایسی کیفیت کہ الفاظ میں اس کے بیان سے اصل حقیقت کا مکمل اظہار ناممکن ہو جاتا ہے، بس یہ ایک احساس ہے، محسوس کرنے کی یہ حس لطیف کسی میں کم اور کسی میں زیادہ ہوتی ہے، کہ اللہ پاک سبحانہ و تعالی اور اس کے محبوب پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کے جذبہ کو کوئی شخص بالفعل اپنے قلب میں زیادہ سمو لیتا ہے اور کوئی نفس امارہ کے چکر میں پھنس کر اس طرف محنت کرنے پر توجہ نہیں دے پاتا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ بقول عارف :

شاید بزم ازل نے اک نگاہ ناز سے
عشق کو اس انجمن میں مسند آرا کر دیا

کار زار محبت میں ابتدا ئی جدوجہد کا آغاز میلان سے ہوتا ہے، جو اگر جاری رہے توشو ق اور اشتیاق کی کیفیات سے ہوتا ہوا یہ شدید محبت تک جا پہنچتا ہے، اور پھر یہ شدید محبت وہ آگ بن جاتی ہے کہ جو دل میں محبوب کے سوا سب کچھ جلا دیتی ہے۔

شاید اسی کا نام محبت ہے شیفتہ
اک آگ سی ہے سینہ کے اندر لگی ہوئی

محبت کے منبع و مصدر رحمت للعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نور سے پیدا ہونے والے کائنات و انفس کے ذرے ذرے میں محبت کا یہ مادہ موجود ہے، فطرتی طور پر ہر جنس میں اپنے ہم جنس کی طرف کشش اور میلان موجود ہے، شرط منبع و مصدر سے فاصلے کی ہے کہ کون سی شئے اس سے کتنی قریب اور کتنی دور ہے، ظاہر ہے، جو شئے جتنی قریب ہو گی اس میں کشش (Attraction) کا میلان اتنا ہی زیادہ ہو گا، جیسے لوہے کے باریک ٹکڑے اور ذرات مقناطیس (Magnet) کے جتنے زیادہ قریب ہوں گے، وہ مقناطیس کی طرف اسی تیزی سے لپکیں گے اور مقناطیس ان کو اسی تیزی سے اپنی طرف کھینچے گا۔ محبت کی شدید خواہش رکھتے ہوئے ایک بچہ دوڑ کر جب ماں کے سینہ سے چمٹنے کی کوشش کرتا ہے، تو ماں بھی اسی جذبے سے اسے بھینچتی اور اپنے سینہ کے ساتھ لگاتی ہے۔ بیشک اللہ سبحانہ و تعالی کی محبت اپنے مخلص بندوں کے ساتھ ستر (70) ماؤں کی محبت سے زیاد ہ ہے۔

اللہ تعالی جل مجدہ کے ساتھ حضور پرنور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شدید محبت کی کیفیت نماز میں یہ ہوتی تھی کہ بقول حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ ان کے طویل سجدوں کے دوران انہیں اکثر یہ خیال گزرتا کہ جیسے سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال ہو چکا ہو، روایت ہے کہ اس خاص کیفیت کے ساتھ حضور پرنور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب نمازادا کرتے تھے تو ان کے سینہ اقدس سے ذکر کی ایسی آواز آیا کرتی تھی جیسے کہ چولہے پر رکھی ہانڈی کی حالت جوش کھاتے وقت ہوتی ہے۔ اللہ تعالی جل مجدہ سے ایمان والوں کی شدید محبت کیسے ہوتی ہے؟ اس کی وضاحت کرتے ہوئے امام بغوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ’’مومنوں کی اللہ سبحانہ تعالی سے محبت اس کے حکم کی اتباع، اطاعت اور اس کی خوشنودی کی جستجو میں ہر وقت رہنا ہوتا ہے، جب کہ اللہ جل مجدہ کی مومنین سے محبت اللہ سبحانہ و تعالی کا ان کی تعریف کرنا اور انہیں اکرام و انعام سے نوازنا ہوتا ہے۔‘‘

اپنے محبوب مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تصدق اور توسل سے رب العالمین عزوجل نے مومنین کو ایمان سے نوازا، اور ان کے قلوب میں اپنی اور اپنے محبوب مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت ڈال دی، ایک صحابی نے حضور نبی محتشم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سوال کیا کہ ایمان کیا ہے؟ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ

’’اللہ سبحانہ و تعالی اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام ماسوا کے تمہارے نزدیک محبوب ہو جائیں۔‘‘ (بخاری)

مسلم شریف میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے ایک حدیث مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، جس شخص میں تین خصلتیں ہوں گی وہ ایمان کی مٹھاس کو پالے گا۔ اللہ سبحانہ و تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کو باقی تمام چیزوں سے زیادہ محبوب ہوں، جس شخص سے بھی اسے محبت ہو، وہ محض اللہ تعالی کی وجہ سے ہو، کفر سے نجات پانے کے بعد دوبارہ کفر میں لوٹنے کو اس طرح ناپسند کرتا ہو، جیسے آگ میں پھینکے جانے کو ناپسند کرتا ہو۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کوئی شخص مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کے اہل، اس کے مال اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔ (مسلم)

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں۔

قَالَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صلی الله عليه وآله وسلم لَا يُؤْمِنُ اَحَدُکُمْ حَتّٰی اَکُوْنَ اَحَبَّ اِلَيْهِ مِنْ وَّلَدِهِ وَوَالِدِه وَالنَّاسِ اَجْمَعِيْنَ

’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہوسکتا، جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کی اولاد، اس کے والدین اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔‘‘ اور ایک روایت میں من نفسہ بھی آیا ہے یعنی اس کی جان سے بھی زیادہ۔

اللہ سبحانہ و تعالی قرآن حکیم کی سورہ توبہ کی آیت نمبر 24 میں فرماتا ہے۔ ’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرما دیجئے کہ اگر تمہارے ماں باپ، اولاد، بھائی، بیویاں، دیگر رشتہ دار، کمایا ہوا مال، وہ تجارت جس میں تم نقصان سے ڈرتے ہو، اور تمہارے پسندیدہ مکان تم کو اللہ اور اس کے رسول اور اس کی راہ میں جہاد کرنے سے زیادہ محبوب ہوں، تو اللہ تعالی کے حکم کا انتظار کرو اور اللہ تعالی فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا۔

حقیقی ایمان والے مومن کو عشق حقیقی ضرور حاصل ہوتا ہے، ایمان نام ہی اس شدید محبت یعنی عشق کا ہوتاہے، جس سے کوئی مومن خالی نہیں ہوتا اور جو کوئی اس شدید جذبہ محبت سے خالی ہو گا، اس کا ایمان ناقص ہو گا۔ حقیقی مومن کی نگاہ اس کے قلب اور نیت پر ہوتی ہے اور وہ ہر وقت ان کا محاسبہ کرتا ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالی، نبی محتشم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، دین اسلام اور اللہ جل شانہ کی مخلوق کے ساتھ ان کا سلوک کیسا ہے؟ کیا یہ سلوک متصوف ہے یا ہمارا سلوک اس درجے کا نہیں ہے کہ جس اللہ سبحانہ و تعالی اور اس کا رؤف و کریم محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم راضی ہوں، اگر ایک مومن کے اعمال و افعال اور سلوک و خصائل اس درجہ مصفُّی نہ ہوں، تو وہ خلوص نیت سے اتباع نبی محتشم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کر کے اپنے سلوک کو مصفّٰی کر سکتا ہے، اور اللہ سبحانہ و تعالی سے شدید محبت کرنے کے مقام پر پہنچ سکتا ہے۔