خوشی و غم کا اسلامی و مغربی تصور

نورین سعید

زندگی کو اگر سطحی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو ایسا لگتا ہے یا تو یہ صرف دکھ درد کا نام ہے یا چند خوش فہمیوں کا یا پھر خوش قسمتوں کی نظر میں محض سکھ اور سلامتی پر قائم ایک احساس ہے یا پھر زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ بیک وقت دکھ سکھ کی دھوپ چھاؤں ہے۔ یہ سب خیالات ایک سطحی نظر سے دیکھنے کی وجہ سے ہیں لیکن اگر یہ سب کچھ طے کر بھی لیا جائے تو زندگی کے ایک بنیادی فلسفہ پر نظر ضرور پڑتی ہے اور وہ ایک سوال ہے کہ آخر خوشی اور غم ہے کیا؟ ان میں غم و تکلیف سے کیسے بچا جا سکتا ہے اور خوشی و راحت کی تحصیل کس طرح ممکن ہے؟ تاہم اگر ہم اپنے ضمیر کو نیکی کی افراط سے مطمئن رکھیں تو ہم غم کی تفریط پر چھا سکتے ہیں۔ ورنہ بقول میر تقی میر کیفیت کچھ یوں رہے۔

زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے
ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلے

لہذا غم کے وجود کو کئی طریقوں سے زندگی سے ختم کیا جا سکتا ہے۔

غم کو زندگی سے نکالنے کے طریقے

1۔ دکھوں کو زندگی کی جدوجہد یا بقا کے لئے لازمی (Compulsary) قرار دیا جائے تاکہ اس کی اچانک یلغار سے ہم ذہنی طور پر متوازن رہ سکیں۔

2۔ دکھوں کی شدت میں کمی کا احساس اجاگر کرنے کے لئے ان کے ساتھ سمجھوتہ (Compromise) کر لیا جائے۔

3۔ غم کے وجود کو ہر لمحہ پوری قوت سے Reject کرتے رہیں تاکہ وہ سر نہ اٹھا سکے۔

4۔ غم کو بطور غم تسلیم کرنے کے باوجود اسے مصلحت خداوندی کہہ کر برداشت کریں اور یہی طریقہ کار اس مسئلے کا مثبت ترین اور قابل ترین حل ہے کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ابتلاء یا دکھ میں رب غفور و رحیم کی کوئی نہ کوئی مصلحت ضرور پوشیدہ ہوتی ہے۔

5۔ ہمارے %90 دکھ اور غم بے جا توقعات اور غلط نظریات کی وجہ سے ہوتے ہیں جیسے ہی توقع ٹوٹتی ہے یا کوئی نظریہ غلط ثابت ہوتا ہے ہم دکھ اور پریشانی کی شدید ترین کیفیت سے گزر جاتے ہیں اس کا علاج اور حل یہ ہے کہ کبھی بھی کسی قسم کی کوئی بے جا توقع نہ رکھی جائے جس سے ہم اچانک رو پذیر ہونے والے صدمات اور دکھوں سے بچ سکتے ہیں۔

6۔ ہمیں مکمل یکسوئی سے یہ سوچنا چاہئے کہ غم ایک سوچ اور محض احساس ہے جس پر ہر صورت قابو پانا ہے تو نتائج مثبت برآمد ہو سکتے ہیں۔ دراصل آج کل ہر انسان کے دل و دماغ میں کثیر تعداد میں چھوٹے چھوٹے خوف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں کہ وہ خوف زدہ ہو کر اپنے تمام فیصلوں کو دکھوں کے حوالے کرنے لگا ہے۔ اس غلبہ کی بناء پر وہ اس بات کو تسلیم نہیں کرتا کہ اس کی زندگی میں سکھ بھی ہیں۔

7۔ دیکھا جائے تو اس دنیا کی ہر چیز اپنی انتہا تک پہنچ کر ہی اپنی ابتداء کی طرف لوٹتی ہے اسی طرح شدید دکھ بھی سکھ میں تبدیل ہو سکتے ہیں بشرطیکہ صبر پر قائم رہا جائے بلکہ کائنات کا صدیوں سے قائم اور جاری رہنا خود اس بات کا ثبوت ہے کہ ایسا ہی ہے ورنہ ممکن تھا کہ دنیا کی پوری آبادی کسی نہ کسی شدید دکھ کا شکار ہو کر اچانک ختم ہو جاتی۔ اگر ایسا نہیں ہوا تو یقین رکھنا چاہئے کہ کوئی بھی شدت چاہے وہ غم ہی کیوں نہ ہو کبھی اپنی جگہ قائم نہیں رہتی۔

حقیقت یہ ہے کہ خوشی اور غم ایک دوسرے سے مختلف اور متضاد ہیں۔ خوشی نام ہے لطیف ذہنی کیفیت، سکون و راحت کا جبکہ غم نام ہے اضطراب و انتشار کا۔ خوشی عبارت ہے اپنی ذات سے بلند ہوکر ابدی حقائق تلاش کرنے سے جبکہ غم عارضی اشیاء کے حصول سے عبارت ہے۔

خوشی سے فیاضی کا حصول

خوشی سے فیاضی جنم لیتی ہے۔ یوں وسعت فکر و قلب سے مسرت اور مسرت سے مزید وسعت قلب وقوع پذیر ہوتی ہے۔ خوشی سے کیا جانے والا کام زیادہ بامعنی درست اور خوش اسلوبی والا ہوتا ہے۔ اس کے برعکس غم کے معروضی یا موضوعی رویے سے انسان صرف اپنی ذات کے خول میں محدود ہو جاتا ہے یوں خود غرضی پیدا ہوتی ہے۔ تنہائی اور لاتعلقی اس کی ناخوشی اور دکھ کا باعث ہوتی ہے۔

خوشی اور غم کے درمیان منطقی توازن

اللہ تعالیٰ نے خوشیوں اور دکھوں کے درمیان منطقی اعتبار سے ایک توازن قائم رکھا ہوا ہے۔ جس کی وجہ سے اس کرہ ارض پر زندگی رواں دواں ہے جس طرح دنیا میں ہر چیز دو پہلوؤں پر مشتمل ہوتی ہے۔ اسی طرح خوشی و غم بھی انسانی حیات کے لئے لازم و ملزوم ہیں۔

سکون اور سکوت میں حرارت

اگر منزل پر پہنچ کر انسان خوشی سے پرسکون ہو کر بیٹھ جائے تو زندگی کے باقی راستے طے کرنے کے لئے اس کے دل میں خواہش کیسے پیدا ہوگی گویا رب غفور و رحیم نے سکون اور سکوت میں حرارت پیدا کرنے کے لئے غم کا شعلہ رکھا ہوا ہے تاکہ انسان پر جونہی کوئی صدمہ پڑے اس کی تمام تر خوابیدہ اور خفیہ طاقتیں اور صلاحیتیں اس کو بچانے کے لئے مستعد ہو جائیں یوں اسے زندگی کا مقابلہ کرنے کے لئے توانائی اور بالیدگی مل جاتی ہے۔

غم ہمیں کمزور نہیں کرتے

دکھ اور غم ہمیں کمزور نہیں کرتے بلکہ روحانی اعتبار سے مضبوط اور توانا کرتے ہیں ان کی وجہ سے انسان میں پیش آمدہ بہت سے مسائل سے نبٹنے کا شعور پیدا ہوتا ہے۔ ایسے تجربات کا سہارا ملتا ہے جس کے بارے میں اس نے سوچا بھی نہیں ہوتا اور بہترین زندگی گزارنے کا سلیقہ آتا ہے۔

خوشی ناپائیدار ہوتی ہے

حزن و ملال زندگی کا حسن ہے کیونکہ المیہ ہی ابدیت کی کہانی بتاتا ہے جبکہ خوشی ناپائیدار ہوتی ہے۔ یوں کہنا تو یہ چاہئے کہ دکھ سکھ ہمیشہ ایک دوسرے کے آگے پیچھے چلتے ہیں۔ اگر پوری کائنات ایک انچ کے ہیر پھیر کے بغیر قطعی طور پر درست ہے اور چاند سورج اور موسموں کی آمدو رفت میں بھی ایک حتمی ترتیب موجود ہے تو پھر انسانی زندگی جو اس کائنات کا جاندار اور حساس ترین حصہ ہے اس میں ترتیب و توازن کیسے موجود نہیں ہے۔

پریشانیاں کیوں آتی ہیں؟

اس کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ یہ تمام کیفیات کوئی درآمدی اشیاء نہیں ہیں یہ سب ہمارے اپنے غلط اعمال کا اور غیر ایماندارانہ سوچوں اور گناہوں کا نتیجہ ہوتی ہیں۔

دکھ ہمارا تجربہ وسیع کرتے ہیں

ایک اور اہم بات یہ ہے کہ دکھ ہمارا تجربہ وسیع کرتے ہیں۔ ہمیں ڈھال بننا سکھاتے ہیں بلکہ بجائے خود ہمارے بڑے بڑے دکھوں کے سامنے ڈھال بن جاتے ہیں۔ بنیادی طور پر دکھ درد کا باقاعدہ وجود ضرور موجود ہے مگر یہ زندگی کی چاشنی بھی ہے۔ زندگی کا رس بھی ہیں، یہ ہمیں راہ راست پر لے جانے کا حتمی ذریعہ ہیں۔ یہ از خود کوئی ٹھوس حیثیت نہیں رکھتے بلکہ یہ ہماری متضاد ذہنی کیفیت کا نام ہیں یہی دراصل زندگی کی نشانی ہے۔

دکھ نیا جذبہ پیدا کرتے ہیں

زندگی کسی بھی یکطرفہ انتہا پسند رویے کا نام نہیں ہے۔ غم و صدمات زندگی کے اس جمود میں حرکت پیدا کرنے آتے ہیں۔ انسان کو ایک نئی سوچ اور نیا اور بہتر جذبہ دیتے ہیں۔

خوشی و غم میں مرد و عورت کا رویہ

خوشی و غم کی کیفیات میں مرد و عورت مختلف رویے کا اظہار کرتے ہیں۔ عورت کے جذبات بہت نازک ہوتے ہیں وہ بہت سے مقامات پر حساس (Sensitive) ہوتی ہے ہر بات کو بہت محسوس کرتی ہے اور بعض اوقات خوشی و غم دونوں مواقع پر جذباتی رویے کا اظہار کرتی ہے اس چیز کا بنیادی محرک یہ ہے کہ وہ بے جا توقعات لگاتی ہے اور خواہشیں پالتی رہتی ہے یہ فطری طور پر ہوتا ہے۔ اس کے برعکس مرد خوشی و غم میں ایک مختلف کیفیت کا حامل ہوتا ہے بالعموم وہ صبر کا دامن نہیں چھوڑتا اور مضبوط اعصاب کا مالک ہونے کی بناء پر جذباتی نہیں ہوتا اور اپنے آپ کو Balance رکھتا ہے جس سے زندگی کی گاڑی رواں دواں رہتی ہے۔

خوشی و غم زندگی کو متوازن رکھتے ہیں

خوشی و غم ہمیں کائناتی سوچ بھی مہیا کرتے ہیں یہ تبدیلی کا احساس دیتے ہیں۔ خوشی اور غم انسانی زندگی کو تبدیلی کا احساس دیتے ہیں اور متوازن زندگی کی ضمانت فراہم کرتے ہیں۔ یہ زندگی کا لازمی جزو ہیں۔ شرط یہ ہے کہ غموں کے سامنے ہتھیار نہ ڈالے جائیں کیونکہ زندگی اس کوشش سے برتر احساس کا نام ہے۔

برتر از اندیشہ سود و زیاں ہے زندگی
ہے کبھی جاں اور کبھی تسلیم جاں ہے زندگی

خوشی اور غم میں فرق

بنیادی اور حقیقی خوشی کا انحصار اتنا اور کسی بات پر نہیں جتنا انسانوں اور اشیاء کے ساتھ دوستانہ رویے پر ہے۔ انسانوں کے ساتھ دوستانہ رویہ محبت ہی کی ایک صورت ہے بشرطیکہ یہ صورت لالچ و حرص اور شدت جذبات سے بلند ہو۔ تحریصی دوستانہ رویہ اکثر اوقات غم کا باعث بنتا ہے۔ مسرت کا ضامن وہ دوستانہ رویہ ہوتا ہے جو لوگوں کا مشاہدہ کرنے اور ان کی انفرادی خوبیوں میں خوشی محسوس کرتا ہے۔ ایسا رویہ ان لوگوں کی انفرادی دلچسپیوں اور خوشیوں کو وسعت فراہم کرتا ہے جن سے ہمارا رابطہ ہوتا ہے۔ ان پر کسی دباؤ یا ان سے کسی تعریف و توصیف کے حصول سے بے نیاز ہوتا ہے۔ جس شخص کا بھی دوسروں کے ساتھ ایسا مخلصانہ رویہ ہوتا ہے اسے بے پناہ مسرت نصیب ہوتی ہے۔ وہ دوسروں کی بے وفائی سے تلخی کبھی محسوس نہیں کرتا۔

خوشی و غم کا اسلامی و مغربی تصور

خوشی و غم کا اسلامی نظریہ (Islamic Concept of Happiness and Sorrow)

اسلام میں خوشی و غم کا بڑا وسیع ترین تصور پایا جاتا ہے۔ اس کے تصور میں صبر و شکر، خوش امیدی و قناعت و رضا جیسے تصورات حصہ لیتے ہیں جس کے نتیجے میں لا محالہ خوشی کے جذبات جنم لیتے ہیں اسی کے مطابق انسانی زندگی میں رد عمل سامنے آتا ہے۔ ایک مسلمان اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے حصول میں خوشی محسوس کرتا ہے جو پوری کائنات میں پھیلی ہوئی ہیں اور اسی خوشی کے نتیجے میں شکر کے جذبات پیدا ہوتے ہیں یہی خوشی ایک سچی اور روحانی خوشی ہوتی ہے جو اللہ کی نعمتوں کے درست استعمال کے نتیجے میں سامنے آتی ہے۔ اس کا اثر دیرپا ہوتا ہے اور اسی سے ہی Self satisfaction ہوتی ہے کیونکہ یہ ایک روحانی خوشی ہوتی ہے جو خدا کے شکر کا باعث بنتی ہے اور یہ شکر خدا کا حق ہے۔

گویا اسلام میں خوشی کا تصور مختلف ہے جو حقیقی مگر ازلی ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ایک مسلمان پریشانی و غم سے دوچار ہی نہیں ہوتا۔ ایک مسلمان پر بعض اوقات کچھ کیفیات غم کی بھی وارد ہوتی ہیں یہ آزمائشوں کی شکل میں سامنے آتی ہیں جو اللہ تعالیٰ ایک مسلمان سے امتحان کی صورت میں لیتا ہے۔ یہ جان و زندگی اللہ ہی کی دی ہوتی ہے اور اس پر اللہ ہی کا حق ہے وہ اس کو مختلف آزمائشوں اور غم کی کیفیات میں مبتلا کرتا ہے۔ جس پر اللہ تعالیٰ نے انسان کو صبر کا حکم دیا ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے۔

’’اور کتنے ہی انبیاء ایسے ہوئے جنہوں نے جہاد کیا ان کے ساتھ بہت سے اللہ والے (اولیاء) بھی شریک ہوئے، تو نہ انہوں نے ان مصیبتوں کے باعث جو انہیں اللہ کی راہ میں پہنچیں، ہمت ہاری اور نہ وہ کمزور پڑے اور نہ وہ جھکے اور اللہ صبر کرنے والوں سے محبت کرتا ہے‘‘۔ (آل عمران، 3 : 146)

اسی طرح دوسری جگہ ارشاد ہے :

’’اے ایمان والو! صبر اور نماز کے ذریعے (مجھ سے) مدد چاہا کرو، یقینا اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ (ہوتا) ہے‘‘۔ (البقرہ : 153)

یہی صبر و شکر ایک مسلمان کے اندر خوشی و غم کے جذبات پیدا کرتا ہے۔ اس کے علاوہ جہالت و اخلاقی قدروں کی پامالی بھی انسانی فطرت یا مسلمان کی فطرت میں دکھ و غم کا باعث بنتی ہے اور یوں وہ خدا تعالیٰ کی طرف رجوع کرتا ہے جو اصل پناہ گاہ ہے اور جس کی بندگی اصل مقصد حیات ہے۔ ارشادباری تعالیٰ ہے :

’’اے ایمان والو! ان پاکیزہ چیزوں میں سے کھاؤ جو ہم نے تمہیں عطا کی ہیں اور اللہ کا شکر ادا کرو اگر تم صرف اسی کی بندگی بجا لاتے ہو‘‘۔ (البقرہ : 172)

خوشی و غم کا مغربی نظریہ (Western Concept of happiness and sorrow)

مغربی نظریہ کے مطابق خوشی و غم کا حصول خواہشات کی تکمیل اور افادے کا حصول ہے۔ وہ زیادہ تر مادیت پسندی کا شکار ہیں اور خواہشات کی تکمیل کو خوشی سمجھتے ہیں۔ جس سے ان کو نفع حاصل ہوتا ہے اگر تکمیل نہ ہو تو یہ چیز ان کے لئے غم کا باعث بنتی ہے ان میں صبر و شکر کے جذبات نہیں پائے جاتے بلکہ ان میں مختلف ہیجانی کیفیات پائی جاتی ہیں ایک چینی کہاوت ہے۔ جس کا ترجمہ یہ ہے کہ

’’آدمی شراب پینے کے لئے شراب نہیں پیتے بلکہ خود فراموشی کے لئے ایسا کرتے ہیں‘‘۔

اس حوالے سے غالب کیا خوب کہتے ہیں :

مے سے غرض نشاط ہے کس روسیاہ کو
اک گونہ بے خودی مجھے دن رات چاہئے

امریکہ میں نوجوان نسل اوائل دور سے ہی یہ محسوس کرتی ہے کہ صرف روپیہ ہی ایک اہم چیز ہے اس لئے وہ ایسے کسی علم کو قابل اعتماد نہیں سمجھتے جو مالی منفعت میں معاون نہ ہو کبھی تعلیم کا یہ تصور تھا کہ حصول مسرت کے لئے اہلیت پیدا کرنے کی تربیت ہے۔ وہ زیادہ سے زیادہ پانے کی خواہش رکھتے ہیں۔ شیکسپئیر کی غزلوں میں فطرت کا رنگ غالب آتا ہے جو خوشی کی Presentation کرتا ہے۔ اس کے بقول پرسکون ماحول اور خاموش فضا میں یہی سچی خوشی زندہ رہ سکتی ہے۔

آج ہمارا معاشرہ خوشی و غم کے مغربی نظریہ کا عملی پیرو کار ہے۔ جہاں ہم اپنے بچوں کی حفظ قرآن پر اتنی خوشی نہیں مناتے ہیں جتنا بچوں کے سکول یا کالج میں یا کسی میوزیکل پروگرام میں جیتنے کی خوشی مناتے ہیں۔ یا ہمیں آج سفر کے دوران کسی بزرگ یا خاتون کو اپنی سیٹ پیش کرنے کی خوشی محسوس نہیں ہوتی اس کے برعکس اس خاتون کو تکلیف میں مبتلا کرنے میں خوشی محسوس ہوتی ہے۔ یا غم کی کیفیات کا اگر جائزہ لیا جائے تو ہمیں اپنے بگڑتے ہوئے احوال اور مٹتی ہوئی اخلاقی اقدار کا بالکل غم نہیں اگر غم ہے تو اپنے ہی مفاد کے لئے لگائے گئے پیسوں کے ڈوب جانے کا، روزی کے ختم ہوجانے کا، اپنی جھوٹی تعریف اور خوش فہمیوں کے ماحول میں اپنی اصل حقیقت اور وقعت کے آشکار ہونے کا خدشہ اور اس جیسے نہ جانے کتنے ہی خوف اور کتنی ہی غیر حقیقی خوشیوں کے جال میں ہم پھنسے ہوئے ہیں۔ آج ضرورت ہے کہ ہم اپنے خوشی و غم کے معیارات کا حقیقی معنوں میں جائزہ لیں اور انہیں اسلامی نقطہ نظر کے مطابق ڈھالیں۔

بے عمل دل ہو تو جذبات سے کیا ہوتا ہے
دھرتی بنجر ہو تو برسات سے کیا ہوتا ہے

ہے عمل لازمی تکمیل تمنا کے لئے
ورنہ رنگین خیالات سے کیا ہوتا ہے