ایک بے مثال تنظیمی قیادت

صبا فاطمہ داؤ مشہدی

صدر منہاج القرآن ویمن لیگ

قیادت اگرچہ ایک فن ہے جسے تربیت، تعلیم اور عمل سے حاصل کیا جا سکتا ہے لیکن مثالی قیادت قدرت کا ایک عطیہ ہوتی ہے جو کسی کو ودیعت کی جاتی ہے جبکہ بے مثال قیادت کا جوہر کسی انسان کو وہبی طور پر عطا ہوتا ہے۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کو اﷲ تعالیٰ نے قیادت کا جوہر ودیعت فرمایا اور اس جوہر کا مرحلہ وار ارتقاء وہبی طور پر ہوتا رہا ہے۔

ایسا اس لئے کہنا پڑ رہا ہے کہ ان کی قیادت بیک وقت ہمہ جہتی قیادت ہے۔ وہ ہمارے روحانی پیشوا بھی ہیں اور دینی رہنما بھی۔ انقلابی قائد بھی ہیں اور ایک زیرک سیاسی لیڈر بھی جبکہ علم و فکر کے میدان میں وہ اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ ایک میڈیکل کالج میں ڈاکٹرز سے خطاب کے بعد میزبانوں نے آپ سے کہا کہ ہم آپ کو پی ایچ ڈی ڈاکٹر ہی سمجھتے رہے لیکن آج آپ کا خطاب سن کر معلوم ہوا ہے کہ آپ میڈیکل ڈاکٹر ہیں۔ تب آپ نے ان پر واضح کیا کہ میں پی ایچ ڈی ڈاکٹر ہی ہوں میڈیکل ڈاکٹر نہیں۔ پھر تو وہ ورطہ حیرت میں پڑ گئے کہ آپ نے جو خطاب فرمایا ہے وہ کوئی میڈیکل ڈاکٹر ہی کر سکتا ہے۔ یہ ہے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی علمی شان۔ قرآن و حدیث اور فقہ کے علاوہ وہ متعدد دیگر علوم پر دسترس رکھتے ہیں جس کی وجہ سے وہ علمی و فکری میدان میں لاثانی ہیں۔

ان کی قیادت کی ان مختلف جہتوں کا احاطہ کرنے کے لئے تو ایک لمبا عرصہ چاہئے ضرورت اس امر کی ہے کہ ان کی قیادت کے ہر پہلو پر مقالات لکھے جا ئیں اور ایسا ہر مقالہ کتابی صورت اختیار کرتا چلا جائے۔ اس مضمون میں شیخ الاسلام کی قیادت کے ایک گوشے کو منتخب کیا گیا ہے تاکہ ہم یہ جان سکیں کہ آپ نے تنظیمی میدان میں جو بے مثال کامیابیاں حاصل کیں ان میں قیادت کا کیا راز پوشیدہ ہے اور ہم اس سے کیا کچھ سیکھ سکتے ہیں؟

ہم دیکھتے ہیں کہ 17 اکتوبر 1980ء کو تحریک منہاج القرآن کا قیام عمل میں لایا جاتا ہے اور اس پلیٹ فارم سے دروس قرآن اور دیگر دعوتی سرگرمیوں کا سلسلہ جاری کیا جاتا ہے۔ اسی روز تحریک کا دستور بنایا جاتا ہے اور باقاعدہ ممبر شپ کا آغاز کیا جاتا ہے۔ ہر دن مصروف ترین دن ہے اور ہر لمحہ کامیابیوں کے مژدے سنانے لگتا ہے۔ 1982ء میں حکومت ایران کی دعوت پر ایران کا تبلیغی دورہ کرتے ہیں۔ تہران، قم اور مشہد میں خطابات کرتے ہیں اور اعلیٰ شخصیات سے ملاقاتیں کرتے ہیں۔ اور 1984ء میں آپ کی آواز اتفاق مسجد لاہور سے باہر نکل کر عرب عمارات اور اوسلو ناروے کی فضاؤں میں گونجنے لگتی ہے۔ اور پھر عیسائی کثیر تعداد میں مشرف بہ اسلام ہونے لگتے ہیں۔ پھر ازبکستان جاتے ہیں ڈنمارک جاتے ہیں، امریکہ میں نیویارک، واشنگٹن، لاس اینجلس، بالٹی مور اور لارل میں خطابات کرتے ہیں اور یوں دنیا کے مختلف تہذیبی مراکز میں نہ صرف آپ کی دعوت پہنچتی ہے بلکہ تحریک کے مراکز قائم ہونے لگتے ہیں۔ 1985ء میں آپ نے برطانیہ کا پہلا تبلیغی دورہ کیا اور لندن میں پہلی تنظیم وجود میں آئی اور تحریک کا پیغام برطانیہ کے کونے کونے میں پہنچا اور چند ہی سالوں میں ناروے، ڈنمارک کے علاوہ فرانس اور برطانیہ میں تحریک کی تنظیمات وجود میں آئیں۔ ان ممالک میں تحریک کو جو پذیرائی نصیب ہوئی اس کا واضح ثبوت جون 1988ء کو منعقد ہونے والی ویمبلے انٹرنیشنل کانفرنس ہے جس پر پوری دنیا حیران رہ گئی۔ بیرون ملک غیر سرکاری سطح پر منعقد ہونے والی یہ پہلی کانفرنس تھی جس میں پورے عالم اسلام کے اعلی سطحی وفود نے شرکت کی، لندن کی تاریخ میں مسلمانوں کا ریکارڈ نمائندہ اجتماع منعقد ہوا۔ بیرونی ممالک رفقاء اور وابستگان کی مشن کے ساتھ والہانہ محبت کے بے مثال مظاہرے ہوئے اور ایثار و قربانی اور شب و روز کی محنت کے وہ کارنامے رقم ہوئے جن کی نظیر نہیں ملتی۔ اسی کے ساتھ ان ممالک میں بھرپور تنظیم سازی ہوتی رہی اور دعوت کا عمل تیزی سے آگے بڑھتا رہا۔ حتیٰ کہ 1988ء تحریکی دعوتی اور تنظیمی سرگرمیوں کے حوالے سے بہترین سال گزرتا ہے اور جنوری 1989ء میں شیخ الاسلام ضلعی اور صوبائی مشاورت کا مشترکہ اجلاس بلا کر دعوتی، تربیتی اور تنظیمی مراحل کے ساتھ تحریکی مرحلے کا اعلان بھی کر دیتے ہیں اور 5 مئی 1989ء کو موچی دروازے کے مشہور جلسہ گاہ میں تحریک کے لاکھوں سرفروشوں کی موجودگی میں پاکستان عوامی تحریک کے قیام کا اعلان بھی فرما دیتے ہیں۔ اور اس کے فورًا بعد ہم دیکھتے ہیں کہ امریکہ، کینیڈا اور یورپی ممالک کے طوفانی دورے بھی کئے جاتے ہیں اور تنظیم سازی کے عمل کو مزید آگے بڑھایا جاتا ہے۔ اور اسی سال اگست تک ہم دیکھتے ہیں کہ صرف برطانیہ میں ہیلی فیکس، بریڈ فورڈ، اولڈ ہم، نیلسن، گلاسگو، سکاٹ لینڈ، مانچسٹر، ہائی ویکمب، یارک شائر، بلیک برن، بولٹن اور بوٹن کے شہروں میں تحریک کی مضبوط تنظیمات کام کر رہی ہوتی ہیں۔ جبکہ ایسی ہی صورتحال ہمیں سویڈن، ہالینڈ، ایمسٹرڈم، روٹرڈم، بیلجیئم، ناروے، ڈنمارک اور فرانس میں نظر آتی ہے۔ عالم عرب میں دیکھتے ہیں تو دبئی میں، ابو ظہبی میں العین، راس الخیمہ، بدع زید، فجیرہ، شارجہ، عجمان اور سلطنت اومان میں مسقط، سمائل، سلالہ میں اور کویت میں تنظیمات کام کرتی نظر آتی ہیں۔ صرف کویت میں 1989ء میں تحریک کے رفقاء کی تعداد 2056 تھی۔

چند ہی سالوں میں بیرون ملک تنظیمی کامیابیوں کا یہ اجمالی ذکر صرف اس لئے کیا گیا ہے کہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی لاثانی تنظیمی قیادت کی ایک جھلک دیکھی جا سکے۔ اور اندرون ملک کامیابیوں کا اندازہ تو اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 1980ء میں تحریک کا قیام عمل میں آتا ہے اور 1989ء میں پاکستان عوامی تحریک کے قیام کا اعلان کیا جاتا ہے تاکہ 1990ء کے انتخابات کے لئے تیاری کی جا سکے۔ ملک میں یونین کونسل کی سطح سے لیکر تحصیلی، ضلعی اور صوبائی سطح پر انتہائی فعال تنظیمی نیٹ ورک ان کی بیمثال تنظیمی قیادت کا بین ثبوت ہے۔

یہاں یہ بات ذہن نشین رہے کہ ان کامیابیوں کے حصول پر پورے دس سال بھی ابھی محنت نہیں ہوئی اور آج کی صورت حال یہ ہے کہ دنیا کے 93 ممالک میں تحریک کا تنظیمی نیٹ ورک موجود ہے جبکہ تحریک کٹھن سیاسی تجربے سے گزر کر اپنی جدوجہد کی سمت کے از سر نو تعین کے بعد مکمل واضحیت کے ساتھ مصروف عمل ہے۔

یہاں یہ بھی یاد رہے کہ دنیا بھر میں کسی بھی ملک کی کوئی تحریک یا تنظیم یا جماعت ایسی نہیں خواہ وہ مذہبی تنظیم ہو یا سیاسی تنظیم جو بین الاقوامی سطح پر اپنا مضبوط تنظیمی نیٹ ورک رکھتی ہو اور ببانگ دہل اعلان کرتی ہو کہ آؤ آ کر دیکھو کہ ہم کیا کام کر رہے ہیں۔ ہم عالمی امن کے قیام اور بحالی کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔ امن، محبت، توقیر انسانی، حقوق انسانی کی بحالی، حقوق نسواں کی بحالی، عدل و انصاف کا حصول اور انسانی اخوت اور مساوات ہماری منزل ہے یہی ہمارے اہداف ہیں یہی ہمارا ایجنڈا ہے اور ہم اﷲ رب العزت کے ہر لمحہ شکر گزار ہیں کہ اس جدوجہد کے لئے ہمیں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی شکل میں بہترین قیادت سے نوازا ہے۔

اب ہم دیکھتے ہیں کہ تنظیمی میدان میں ہمیں جس سرعت کے ساتھ کامیابیاں نصیب ہوئیں وہ یقینًا ایک لاثانی قیادت کی مرہون منت ہیں تو اس کا راز کیا ہے؟ تنظیم کیا ہے؟ یہ کیسے وجود میں آتی ہے اور کیسے کامیابی سے ہم کنار ہوتی ہے؟ یہ ایک فنی سوال ہے جس کا سائنسی اور ٹیکنیکل جواب ہے بلکہ یہ مینجمنٹ کے subject کا ایک اہم موضوع ہے جس پر کتابوں کے انبار لکھے گئے ہیں، مگر یہاں صرف اس قدر جان لیں کہ یہ ہمارے سامنے کی بات ہے اور ہم نے دیکھا ہے کہ یہ ٹیم ورک ہی کا ایک عمل ہے جو فطری تحرک سے وجود میں آتا ہے مگر اس کی ڈور ایسے ہاتھ میں ہوتی ہے جو ایک اجتماعی کاوش کو کسی بھی عملی درجے پر رکھنے، اس میں تیزی لانے، کمی کرنے، اسے جاری رکھنے یا اس عمل کی سمت بدلنے پر کلیتًا اور کاملًا قادر ہوتا ہے۔ اس قادر ہاتھ کا طریقہ کار مشاورتی ہوتا ہے، وہ سب کو ساتھ لے کر چلتا ہے اور اس کی ہر حرکت ایک حکمت (strategy) پر مبنی ہوتی ہے۔

اس عمل کا آغاز دعوت سے ہوتا ہے اور اس دعوت کی کامیابی کا پہلا راز پیغام دعوت ہوتا ہے۔ کہ دعوت کس طرح انسانوں کو ان کی مشکلات سے نجات عطا کر سکے گی، پیغام کتنا قابل عمل اور حسب حال ہے اور اس پر عمل درآمد کے راستے میں جو مشکلات درپیش ہیں ان سے عہدہ برآ ہونے کے لئے کیا کوئی محفوظ میکانزم موجود ہے؟

دعوت کی کامیابی جہاں پیغام دعوت پر منحصر ہے وہاں یہ کامیابی اس بات پر بھی منحصر ہے کہ داعی کون ہے؟ وہ کون سی شخصیت ہے جو دعوت دے رہی ہے؟ اس شخصیت پر کتنا اور کیوں کر انحصار کیا جا سکتا ہے؟ اس کی ساکھ (Credibility) کا معیار کیا ہے؟ اس کی قد و قامت کیا ہے اور وہ قیادت کے کس مقام پر فائز ہے؟

جبکہ عمل دعوت کی حکمت جو کہ داعی کی کامیابی کا اصل راز ہے برابر اہمیت کی حامل ہے کامیابی کے یہ پیمانے قرآن حکیم میں مقرر کئے گئے ہیں، لہٰذ ان کی حقانیت اٹل ہے اور منزل تک رسائی کی ضمانت، یہ تینوں عوامل اگرچہ کامیابی کے حصول کے لئے یکساں اہمیت کے حامل ہیں مگر فاعل ہی پر فعل کا انحصار ہوتا ہے لہٰذا داعی کی اہمیت دو چند ہے اگر دعوت کا پیغام قرآن ہے تو داعی اﷲ کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں اب ان دونوں میں تو اہمیت کا تقابلی جائزہ جائز ہی نہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اﷲ پاک کے محبوب ہیں اور آپ کا مقام انسان کی حدِ ادراک سے ماوراء ہے۔

اسی طرح تحریک منہاج القرآن کی دعوت کا منہاج قرآن حکیم ہے اور قرآن حکیم ایک نظام ہے جو نبی کریم رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عالم انسانیت میں برپا کیا لہٰذا تحریک منہاج القرآن نظام مصطفی کی داعی ہے۔ اس کی دعوت دینی اقدار کے احیاء کی دعوت ہے یہ تجدید دین کی دعوت ہے یہ غلبہ دین حق کی دعوت ہے، یہ اصلاحِ احوال امت کی دعوت ہے، یہ اتحاد امت کی دعوت ہے، یہ ظلم و استبداد اور ناانصافیوں کے خاتمے کی دعوت ہے، یہ دہشت گردی اور بربریت کے خاتمے کی دعوت ہے، یہ امن کی منزل کے حصول کی دعوت ہے، یہ حقوق انسانی کے حصول کی دعوت ہے، محبت اور صلح جوئی کی دعوت ہے، احترامِ آدمیت کی دعوت ہے اور دنیوی اور اخروی نجات کے حصول کی دعوت ہے۔ کون ذی شعور انسان ہے جو اتنی پیاری دعوت کو ٹھکرا دے اور اس کی مخالف سمت میں کوئی اور راستہ اختیار کر لے جو اسے جنت کی بجائے جہنم میں لے جائے؟

مگر بات داعی کی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ کیا دعوت داعی کے تن من میں رچی بسی ہے؟ خود داعی کا اپنا عمل کیا ہے؟کیا اس کا عمل اس کی دعوت کے سارے پیمانوں پر پورا اترتا ہے کہ یہ اس کے اندر دعوت کی چکاچوند ہے جس کے نور میں وہ اپنا راستہ دیکھتا ہے اور سفر دعوت پر کبھی گام گام چلتا ہے کبھی دیوانہ وار دوڑتا ہے۔ اس کا فکر و عمل کس حد تک اسوۂِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں گندھا ہوا ہے اورحب الٰہی اور محبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سلسبیل سے وہ کس حد تک سرشار ہے، کہ یہی محبت تو اس کی دعوت کا اصل جادو ہے جو انسانوں کے دلوں میں دھڑکن بن کر اترتا چلا جاتا ہے اور آنسو بن کر آنکھوں سے چھلکتا چلا جاتا ہے۔ اگر اسے یہ جادو ودیعت کیا گیا ہے تو یہ جادو تو سر چڑھ کر بولتا ہے۔ نتیجہ خیزی اس کے قدموں پر نچھاور ہوتی ہے اور کامیابی اس کی ادنیٰ غلام ہوتی ہے۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری عشق کے جس مقام پر فائز ہیں اس کا ادراک ہماری سوچ سے ماوراء ہے ہم تو اس کا اندازہ صرف ان کرامات سے لگا سکتے ہیں جو ان کے مقام کی مظہر ہیں۔ ایک انسان علم و آگہی کا سمندر ہے اور وہ بھی ایسا کہ ہزار کتابوں کا مصنف، اور لا تعداد موضوعات پر 6000خطابات دنیا بھر میں لوگوں کے قلوب و اذہان کو منور کر رہے ہیں۔ دنیا کے 93 ممالک میں ان کی تحریک کی تنظیمات سرگرم عمل ہیں۔ تعلیم کے میدان میں 572 سکولوں کا نیٹ ورک ہے، ایک چارٹرڈ یونیورسٹی ہے اور ہزارہا طلبہ محض وظائف سے تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ ویلفیئر کا نیٹ ورک پوری دنیا میں سرگرم عمل ہے۔ میڈیکل کی سہولت، ایمبولینس سروسز کی سہولت، فری آئی کیمپس، فطری آفات سونامی، زلزلے، سیلاب اور وبائی امراض کی شکار دکھی انسانیت کے مداوے کے لئے امداد، یتیموں کے لئے Orphan houses، خواتین کی بیداری، تربیت اور حقوق کے حصول کے لئے دنیا بھر میں منہاج ویمن لیگ کا نیٹ ورک، دنیا بھر میں امن کی بحالی کی منزل کے حصول کے لئے بین المذاہب یگانگت کے لئے جدوجہد اور دنیا کے کونے کونے میں اسلام کے خلاف یلغار کو روکنے اور ناکام کرنے کے لئے ایک حکیمانہ جوابی طرز عمل جس سے مخالفین پریشان ہیں۔

یہ سب کامیابیاں عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جس خمار کا پتہ دیتی ہیں وہی خمار ہم سب کے لئے منبۂ فیض ہے اور اسی سے ساری کامیابیوں کے دھارے پھوٹتے ہیں۔ جب یہ سب کچھ ہو تو ہر بدنظمی از خود نظم میں بدل جاتی ہے۔ اِدھر ایک صدا دی جاتی ہے اور اُدھر تنظیمیں وجود میں آنے لگتی ہیں۔ دلوں میں دین حنیف کے لئے ایثارو قربانی کا سمندر ٹھاٹھیں مارنے لگتا ہے، اﷲ اور اس کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت میں تجوریوں کے منہ کھل جاتے ہیں اور آنًا فانًا سب کچھ ہونے لگ جاتا ہے۔ قائد کے ایک تبسم پر لوگ نچھاور ہونے لگتے ہیں۔ یہی وہ جادو ہے جو سحرِ عشقِ رسول ہے، جو شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی تنظیمی قیادت کی اصل روح ہے۔ اور جس تنظیم کی بنیاد عشقِ رسول پر رکھی جائے وہ ابدی اور جاوداں ہوتی ہے، اس کی پرواز میں کوتاہی نہیں ہوتی، اس کے راستے میں آنے والی مشکلات عارضی ہوا کرتی ہیں اور اس کی کامرانیاں حیاتِ دوام کی حامل ہوا کرتی ہیں۔

اے حرمِ قرطبہ ! عشق سے تیرا وجود
عشق سراپا دوام اس میں نہیں رفت و بود

ہمارے لئے آپ کی اس قیادت سے سیکھنے کے لئے کتنا کچھ ہے یہ ایک الگ مطالعہ ہے مگر اتنا تو واضح ہے کہ ہمیں تنظیمی کامیابیوں کے لئے صفائے قلب کی منزل سے گذرنا ہوگا، دل میں عشق مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شمع روشن کرنا ہوگی، ذاتی مفادات اور اختلافات کو خیر باد کہنا ہوگا اور اپنے عمل کی بنیاد حب الٰہی، حب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور دین کے لئے ایثار و قربانی کے جذبے کو بنانا ہوگا۔ اگر ہم ذات سے بالا ترہو کر اپنی ذات کے حصار سے باہر نکل کر سوچنا شروع کر دیں، رضائے الٰہی اور رضائے نبی کو اپنی منزل جان کر ہر تلخ و شیریں کو قبول کرنے لگیں، احترام آدمیت کو اپنے تعلقات کی بنیاد بنا کر ایک دوسرے کے ساتھ اﷲ کی خاطر محبت کو دل میں جاگزیں کر لیں تو آج بھی ہمیں وہی تنظیمی کامیابیاں نصیب ہوں گی جس کی ایک جھلک اسی تحریر میں پہلے دکھائی گئی ہے کہ 1980ء کی دہائی تنظیمی کامیابیوں کی دہائی ہے۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی تنظیمی قیادت یقینًا ایک لاثانی قیادت ہے کہ آپ کی کامیابیوں کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ تحریک منہاج القرآن کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ اس تحریک کے ایجنڈے کی کوئی نظیر نہیں ملتی اور آئیے آج یہ کہنے نکلیں کہ اس کے کارکنوں کی بھی کوئی نظیر نہیں ملتی اور ان کی وابستگی، وفاداری اور ایثار و قربانی بھی بے نظیر و بے مثال ہے۔