اقوال و فرموادت شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری

تمہیں معلوم ہے کچھ کہ صدیوں کے تفکر سے
کلیجہ پھونک کرتی ہے فطرت اک بشر پیدا

ترتیب و تدوین : کوثر رشید

زیر نظر تحریر شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے ان فرمودات کا ایک خوبصورت مجموعہ ہے جو تمام تر ان کے خطابات سے ہی ماخوذ ہے۔ بلاشبہ شیخ الاسلام مدظلہ کا علم سمندر کی مانند ہے۔ اس کی وسعت کا احاطہ کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ تاہم صاحب علم اور ندرتِ کلام کی تشنگی رکھنے والوں پر مخفی نہیں ہے کہ شیخ الاسلام مدظلہ کی زبان سے ادا ہوا ہر جملہ اپنے اندر ایک مضمون سموئے ہوئے ہے جو اس دور فتن میں دعوت الی اللہ، عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، خدمت دین، احیاء اسلام، اصلاح امت، امن عالم او ر شعور و بیداری کا موثر ترین ذریعہ ہے، جو صدیوں تک اصحاب فکر و شعور کی رہنمائی کرتا رہے گا۔ فرمودات کا انتخاب کرتے ہوئے اس بات کا خصوصی طور پر خیال رکھا گیا ہے کہ اقتباس کے سیاق و سباق سے علیحدہ ہونے پر مفہوم میں کوئی تبدیلی واقع نہ ہو۔

جامع الاذکار

جس طرح حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات جامع الاوصاف ہے اسی طرح حضور علیہ الصلوۃ والسلام کا ذکر جامع الاذکار ہے۔ ذکر مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ذکر خدا، ذکر اہلبیت اطہار رضی اللہ عنہم، ذکر صحابہ رضی اللہ عنہم و خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم اور ذکر اولیاء و صالحین رحمہم اللہ بھی ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے ذکر کو وہ جامعیت، ہمہ گیریت اور کُلیّت عطا کی ہے کہ اگر حضور علیہ السلام کا ذکر کرلیا جائے تو سارے اذکار کا اجر بیک وقت مل جاتا ہے۔

دولتِ عشق

دولتِ عشق محض دیدار سے ہی نہیں ملتی بلکہ کبھی کبھی محبوب کا دیدار کرنے والوں سے ان کا ذکر سن کر بھی آتش عشق بھڑک اٹھتی ہے اس لئے دیدار والوں کے پاس بیٹھا کرو اور ان سے ذکر محبوب سنا کرو۔

محبت کا تقاضا

حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی محبت کا دم بھرنے والو! محبت کا تقاضا یہ ہے کہ تم دائمی غلامی میں آجاؤ۔ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی اطاعت و اتباع کو زندگی کا شیوہ بنالو۔ نماز، تقویٰ، پرہیزگاری، اللہ کی بندگی کو حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی سنت سمجھ کر زندگی کا اوڑھنا بچھونا بنالو۔ وہ کیسا مومن ہے جو محبت کا دعویٰ کرے مگر اپنے عمل کو مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عمل سے جدا رکھے۔ آؤ ظاہر میں بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غلام بن جاؤ اور باطن میں بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غلام جاؤ۔ ظاہر میں بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کا دم بھرو اور باطن میں بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کے نور کو اتارو۔

قرب الہٰی کا راز

اگر تم چاہتے ہو کہ تمہیں قرب الہٰی مل جائے تو تم رب والوں کے بن جاؤ۔ پھر اپنے آپ کو ان کی صحبت میں لے جاؤ۔ ان کے ساتھ اپنے دل لگاؤ جن کا ہر لمحہ یاد محبوب میں گزرتا ہے، جن کا تعلق اللہ سے کبھی نہیں ٹوٹتا، جن کے فکرو خیال اور دھیان و وجدان کی ڈوری اللہ سے جڑی ہوئی ہے، جو جاگتے ہیں تب بھی مولا سے باتیں کرتے ہیں اور سوتے ہیں تب بھی مولا کی یاد میں ہوتے ہیں۔

نفع کا سودہ

مشن کے لیے صَرف کئے ہوئے لمحات اور ایام خسارے کے نہیں بلکہ نفع کا سودہ ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن حکیم میں اس حقیقت سے آگاہ فرمایا ہے کہ اے انسان! اگر تو اس حقیقت کو یاد نہ رکھے اور اس سے غافل ہوکر زندگی گزارے گا تو تیری ساری زندگی گھاٹے اور خسارے میں رہے گی۔ آج ہر انسان اس حقیقت کو نظر انداز کر کے خسارے اور گھاٹے کی زندگی گزار رہا ہے۔

یقین

جب آپ دل کی زمین میں ایمان کا بیج بوتے ہیں تو بیج کی حفاظت کرنا پڑتی ہے ایسا نہیں ہوتا کہ پودے خود بخود اُگ کر تیار ہو جائیں بلکہ پودے دھوپ، ہوا اور پانی مانگتے ہیں، انہیں کھاد دینا پڑتی ہے۔ ان کی نگرانی اور دیکھ بھال کرنا پڑتی ہے۔ اگر ان پانچ چیزوں کا اہتمام نہ ہو اور جملہ تقاضے پورے نہ کئے جائیں تو پودے جل جاتے ہیں۔ اسی طرح دین کے پانچ ارکان ہیں جن کی بنیاد غیب پر ایمان لانا اور شک کو اپنے اندر سے نکالنا ہے اسی کو یقین کہتے ہیں۔

کامل ایمان

ایمان یقین کی حالت کے بغیر کامل نہیں ہوتا۔ ہم ایمان کو ایک رسمی پروسیس سمجھتے ہیں۔ زبان سے کچھ چیزوں کا اقرار کر لیا اور کہا کہ دل بھی ا سکی تصدیق کرتا ہے حالانکہ وہ ابھی پورے طور پر دل ودماغ پر نہ اترا ہو اور نہ ہی اس کا یقین حاصل ہوا ہو تو ایسی حالت میں وہ ایمان کامل نہیں ہوتا۔ ایمان کامل اس وقت ہوتا ہے۔ جب اس کی یقینی کیفیت بھی حاصل ہو جائے کیونکہ کوئی چیز اثر رکھنے والی ہو تو اس کا اثر بھی کوئی اثرات، علامات اور نتائج ظاہر کرتا ہے۔

ایمان کی علامت

ایمان کی علامت یہ ہے کہ وہ ا حکام، اوامر و نواہی پر عملدرآمد بھی کرے اور باطن کی علامات بھی ظاہر کرے۔ کاملین، مرشدین جو ہدایات مریدین کو دیتے ہیں ان پر عمل انسان کے اندر کی کیفیات، علامات اور نتائج پیدا کر دیتے ہیں اور پوری زندگی کو بدل کے رکھ دیتے ہیں۔ انسان کے اندر کی یہ تبدیلی ہی ایمان کی علامت ہے۔

خلقِ حسن اور خلقِ عظیم

ہر خلقِ حسن، خلقِ عظیم نہیں ہوتا۔ اخلاق حسنہ کی پوری کائنات ہے، جب خلق حسن اخلاق کی بلندیوں اور آخری حد تک پہنچتا ہے تو خلق عظیم کہلاتا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خلقِ عظیم کی آخری حد کے اوپر متمکن ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ اخلاق حسنہ کی خیرات آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ میں ہے جس کو چاہتے ہیں صاحب خلق کر دیتے ہیں۔

دو محبتیں

جس طرح ایک گھر میں دو سوکنیں اکٹھی نہیں ہو سکتیں اسی طرح ایک دل میں دو محبتیں اکٹھی نہیں ہو سکتیں۔ یعنی آپ دنیا میں رہیں مگر دنیا آپ میں نہ رہے۔

دو غم

دو غم ایک دل میں جمع نہیں ہو سکتے۔ ایک غمِ مولا، دوسرا غمِ دنیا۔ اگر دنیا کی محبت، طمع اور رغبت دل میں پیدا ہوگئی تو پھر اللہ کی محبت دل میں رچ بس نہیں سکتی۔

خوف و غم

جس طرح غمِ دنیا اور غمِ آخرت ایک دل میں جمع نہیں ہوتے اسی طرح خوفِ اہل دنیا اور خوفِ الہٰی ایک دل میں نہیں سما سکتے۔ اللہ تعالیٰ اپنے اولیاء کے دل کو دنیا کی محبت سے پاک کرنا چاہتا ہے اور چاہتا ہے کہ وہ میرے بن کر رہیں اور میں ان کا بن کر رہوں۔ یہی وجہ ہے کہ ایک دل میں دو خوف او ر دو غم اکٹھے نہیں ہو سکتے۔

اللہ کی محبت کا مسکن

جو دل اس قابل اور لائق ہوں کہ وہ اللہ کی محبت کا مسکن بن سکیں انہیں دلوں کو اللہ کی محبت کے لئے چن لیا جاتا ہے، باقی دلوں کو رد کر دیا جاتا ہے۔ معلوم ہوا کہ جب وہ اپنے محبوب بندوں کی محبت کو ہر دل میں نہیں رکھتا تو پھر وہ اپنی محبت کو ہر دل میں کیسے رکھے گا؟

سخاوت نفس

نیکی اور بھلائی کر کے بھول جانا، مصائب و آلام پر صابر و شاکر رہنا، دل میں کدورت کا نہ آنا، اپنے پرائے سب سے بھلائی کرنا، کچھ نہ بھی ملے تو غم نہ کرنا سخاوت نفس ہے۔ کسی کو دینے میں اللہ تعالیٰ کی رضا کو پیش نظر رکھنا، احسان نہ جتانا، خانوادہ اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہم کی طرح تین دن کے روزے کی افطاری کا سامان مسکین، یتیم اور قیدی کو دیکر خود پانی سے روزہ افطار کرنا سخاء نفس کی اعلیٰ ترین مثال ہے۔

سلامة الصدور

کسی کے خلاف دلوں میں بغض، عناد بڑائی، تکبر، رعونت نہ رکھنا، اپنے اندر کی میں کو مارنا، محفل میں اونچی نیچی جگہ بیٹھنے سے دل تنگ نہ ہونا سلامۃ الصدور یعنی سینوں کی سلامتی کی نشانیاں ہیں۔

میلاد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

لوگو! میرے محبوب کی ولادت کے دن بارہ ربیع الاول کو جشن منایا کرو، جی چاہے تو میلاد سمجھ کے مناؤ، جی چاہے تو سنت آمد مدینہ سمجھ کر مناؤ مگر جشن مناؤ۔ اگر ربیع الاول کے مبارک مہینے میں میلاد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھرپور طریقے سے منایا جائے تو جتنی عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہمارے دلوں سے کم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے‘ اتنی ہی الفت و محبت اور جوش وجذبہ مزید بڑھے گا۔

محبت اور ادب

دنیا میں ادب اور تعظیم و تکریم کا اصول کوئی نہیں سکھاتا بلکہ محبت خود بخود ادب کرنا سکھاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ہاں تعظیم رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، ادب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور تکریمِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جتنے پیمانے ملتے ہیں اُن کا کوئی حکم نہ قرآن مجید میں تھا نہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث میں تھا۔ امت اُس وقت تک زندہ رہے گی جب تک اُس کا ایمان زندہ ہو گا۔ اور ایمان اُس وقت تک زندہ رہے گا جب تک تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عشق و محبت اور ادب و تعظیم و تکریم کو امت اپنے ایمان کا سہرا بنائے گی۔

زندگی جنت کیسے بنے؟

اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کی زندگی جنت بن جائے تو پانے کا دروازہ بند کر دیں اور سب کچھ کھونے کا دروازہ کھول لیں۔ جب اس پر پریشانی ختم ہو جائے کہ نہ ملنے اور کھو جانے پر بھی راحت ملے تو سمجھ جائیں یہی جنت کی زندگی ہے۔

دعوت دین میں حکمت

دین کی خدمت میں مصائب و آلام کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس وقت صبر و برداشت اور حکمت کے ساتھ کام کو آگے بڑھانا ہوگا۔ موقع و محل کا خیال رکھتے ہوئے اپنی بات منوانی ہوگی۔ اگر آپ کے بھائی یا والدین غصے میں ہوں تو فی الوقت خاموش ہو جائیں۔ ان کی بات سن لیں۔ جب دیکھیں کہ اب غصہ ٹھنڈا ہوگیا ہے تو نہایت ادب سے، بڑی حکمت کے ساتھ بات کریں اور بیچ کی راہ اختیار کریں۔ دعوت دین کا کام کریں مگر حکمت اور صبر کے ساتھ۔ یعنی تبلیغ بھی ہو، کام بھی، مگر ظاہر اور باطن کے حسن کے ساتھ۔

سیکھنے کا عمل

ہر چیز سیکھنے سے آتی ہے از خود نہیں آجاتی اور سیکھنے کے لئے کوئی نسبت، کوئی بارگاہ، کوئی مجلس، کوئی صحبت، کوئی استاد اور کوئی تعلق ہونا ضروری ہے۔ گھر بیٹھے اگر کوئی سیکھ لیتا تو پھر اللہ تعالیٰ کو انبیاء علیہم السلام بھیجنے کی ضرورت نہ ہوتی۔

تربیت

تربیت وہ ہوتی ہے جو بچپن میں ہو جائے کیونکہ ایک سٹیج پر جب شخصیت پختہ ہو جاتی ہے تو پھر آپ اس کو اتنا نہیں بدل سکتے جتنا بدلنا چاہتے ہیں۔ ماں باپ کمہار کی طرح ہوتے ہیں جس طرح چاہیں تربیت سے بچوں کو ڈھال لیں لیکن اگر وقت لاڈ پیار میں برباد ہو جائے اور بچے جوان ہو جائیں تو پھر صرف رونا دھونا اور پچھتاوا ہی باقی رہ جاتا ہے۔

مذہب اور دین میں فرق

مذہب صرف بندے اور اللہ کے تعلق، موت کے بعد آخرت کے معاملات اور انسان کی شخصیت کے روحانی پہلوؤں سے بحث کرتا ہے جبکہ دین آپ کی زندگی کے سیکولر پہلو، معاشی و سیاسی معاملات، انفرادی، اجتماعی، قومی، بین الاقوامی زندگی سے بھی بحث کرتا ہے۔

وسیلہ نبوتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

سب انبیاء کی نبوتیں نبوتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وساطت سے ہیں۔ سب رسولوں کی رسالتیں رسالتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا واسطہ اور وسیلہ ہیں۔ کائنات میں یہ جو نظام نبوت و رسالت شروع ہوا وہ بھی وسیلہ و واسطہ نبوتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔

سیدہ کائنات رضی اللہ عنہا

دختران اسلام! سیدہ کائنات رضی اللہ عنہا محبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، نسبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، تعلق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور عطاء رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مرکز و محور ہیں۔ کثرتِ عبادت، شرم و حیا، عصمت و عفت اور جودو سخا کا نام حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا ہے۔ ان سے جتنا محبت و ادب کو استوار کیا جائے اتنا ہی ایمان اور آقا علیہ الصلوۃ والسلام کی نسبت بھی پختہ ہوتی ہے۔

زوجہ سے حسنِ سلوک

تمہاری بیوی بھی تمہاری جیسی انسان ہے۔ اس کو برے نام نہ دو، اس کی تذلیل نہ کرو، اس کو گالی گلوچ نہ دو، اس کو شرمسار نہ کرو، اس پر ظلم نہ کرو، اس کو کوئی قباحت والی بات نہ کہو۔ یہ عورت کے حقوق ہیں اور اس کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنا مرد کا فرض ہے۔ جو اپنی بیویوں سے سلوک میں اچھا ہے اس کا ایمان اچھا ہے۔

زوجہ کے معاشی حقو ق

قرآن و حدیث میں شوہر کی کمائی میں بیوی کا حق رکھا گیا ہے۔ بیوی اور گھر پر خرچ کرنا شوہر کا فرض قرار دیا گیا ہے۔ نان و نفقہ وغیرہ کے سب خرچ شوہر کی کمائی میں ڈالے گئے ہیں۔ اگر بیوی بھی کماتی ہو۔ تو اس کی کمائی میں شوہر کا کوئی حق نہیں۔ لیکن اگر بیوی تعاون کرے اور کمائی دے دے تو یہ اس کی نیکی ہے۔ شوہر کو چاہئے کہ اس کی نیکی کا احترام و اعتراف کرے۔ اگر کسی کو اللہ نے 10,000 یا 15,000 یا 20,000 روپے ماہانہ کمائی دی ہے تو وہ کم از کم بیوی کو 2000 جیب خرچ دے۔ اور اگر کسی کی 50,000 روپے کمائی ہے تو بیوی کو 5000 روپے دے۔ کوئی مہینے کا لاکھ کماتا ہو تو بیوی کو 10 ہزار دے اس پر اعتماد کرے اور جو دے دے اس کے متعلق نہ پوچھے تاکہ وہ اپنی نجی ضروریات کو پورا کرے۔ جیب خرچ دینا مرد کے فرائض میں سے اور بیوی کے حقوق میں سے ہے۔

مشن کا مرکزی نکتہ

تحریک منہاج القرآن کا مرکزی نکتہ نسبت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی معرفت اور پختگی ہے۔

کارکنان کے لئے نصیحت

پوری زندگی عبادت، خدمت اور نیک اعمال کریں، گوشہ درود اور تحریک منہاج القرآن کی خدمت کریں۔ اللہ کی مقدس کتاب قرآن حکیم کی دعوت پھیلائیں، پوری زندگی قرآن، اتباع سنت اور اتباع اعمال صالحہ میں گزاریں، صدقہ و خیرات کریں، اللہ کے گھر کا سفر کریں۔ مشن اور دین کی اقامت، احیائے دین، تجدید دیں، اصلاح احوال امت اور خیرو فلاح کے لئے جتنے کام کریں ان میں سے کسی ایک پر بھروسہ نہ کریں، بھروسہ صرف اللہ تعالیٰ کی طرف سے قبولیت پر کریں تاکہ یہ عمل کسی قابل بن جائے۔

مے رواں

  • حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال خدا سے ملاقات کے لئے تھا اور میلاد امت کے لئے تھا۔
  • باطن کی علامات روحانی تربیت سے سامنے آتی ہیں۔
  • ایمان اس وقت تک کامل نہیں ہوتا جب تک اس کا یقین نہ ہوجائے اور یقین اس وقت تک نہیں بنتا جب تک اس کی علامات ظاہر نہ ہوں۔
  • جب ایمان یقین کامل بن جائے اور یقینی کیفیت حاصل ہوجائے تو پھر اعمال صالحہ کریں۔
  • حسد بھی ایک بلا ہے جو سارے اعمال کو آگ کی طرح جلا کر راکھ کر دیتی ہے یہ باطنی گناہ ہے۔ اس سے بچا جائے۔
  • جو عمل، محبت کی نیت سے کیا جائے اس میں کبھی غفلت نہیں آتی۔
  • جو انسان غیر کا خیال اور لالچ دل سے نکال دے تو اللہ کی محبت اس کا باطن بن جاتی ہے۔ وہ ہمیشہ خسارے سے بچ جاتا ہے اور آئندہ بھی خسارے سے بچا رہتا ہے۔
  • جو لوگ اعمال کو حسن و خوبی کے ساتھ اپنالیں وہ ہمیشہ حق کی وصیت کرتے رہیں گے۔
  • اگر آپ اپنی زندگی کو اعمال صالحہ کی ظاہری اور باطنی خوبیوں سے پختہ کر لیں تو آپ کی ذاتی زندگیاں سنور جائیں گی۔
  • جب کسی ملک یا دنیا کے حکام، سلاطین، ریاستوں اور مملکتوں کے وجود میں آنے کی خوشیاں دھوم دھام سے منائی جا سکتی ہیں تو محبوب خدا مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کو سب جشنوں سے بڑھ کر کیوں نہیں منایا جا سکتا؟
  • ساری مخلوق کا خلاصہ انسان ہے۔ انسان کا خلاصہ نبوت اور نبوت کا خلاصہ رسالت ہے۔
  • تین سو چودہ رسول ایک ذات محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں گُم ہیں۔ لہذا جس نے ذکرِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کرلیا اس نے ذکر رسل، ذکر انبیاء، ذکر خلائق، ذکر ملائک اور ذکر کُل کر لیا۔
  • حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذکر کی دو جہتیں ہیں ایک یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر خود اللہ کا ذکر ہے اور دوسری یہ کہ حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر اللہ کے ذکر کا ذکر ہے۔
  • اللہ کا ذکر ایک ہی ہے اور وہ ذکرمصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔
  • میلاد کو خود خدا تعالیٰ نے منایا اسی لئے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد کا ذاکر خود خدا ہے۔
  • انسان کے ایمان کی ابتداء ہی ان دیکھی حقیقتوں کو ماننا ہے
  • جب کوئی کسی شی کے اوپر متمکن ہوتا ہے تو شے اس کے تصرف میں دی جاتی ہے۔ پہلے وہ ہدایت لیتا تھا اب جس کو چاہتا ہے دیتا ہے اور بانٹتا ہے۔
  • جو لوگ صوفیاء کرام کا انکار کرتے ہیں وہ اپنی کم علمی کی بناء پر ایسا کرنے پر مجبور ہوتے ہیں جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔
  • تصوف میں غوث سب سے اونچا درجہ ہے اسی طرح علم الحدیث میں امیرالمومنین سب سے اونچا درجہ ہے۔
  • احکام شریعت کی پابندی عین تصوف ہے۔
  • شریعت پر عمل کے بغیر کوئی صوفی اور ولی نہیں بن سکتا۔
  • بخیل شخص کبھی بھی خدا کا ولی نہیں ہو سکتا۔
  • جہاں درود پڑھا جائے وہاں نور پیدا ہوتا ہے، پس جہاں نور پیدا ہوتا ہے‘ وہاں اندھیرا ختم ہو جاتا ہے۔
  • درود وسلام پڑھنے والے اہلِ نور ہوتے ہیں اور درود نہ پڑھنے والے اہل ظلمت ہوتے ہیں۔
  • حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر انفرادی اور اجتماعی طور پر درود و سلام پڑھنا اﷲ تعالیٰ اور فرشتوں کی سنت ہے۔
  • زمانے کے بدلنے کے ساتھ ساتھ نشیب و فراز آتے رہتے ہیں۔ سورج کبھی مشرق کی طرف جاتا نظر آتا ہے کبھی مغرب کی طرف‘ یہ انسانی زندگی کے بالکل مطابق ہے۔
  • ہمارا اسلوب وہ ہے جو آقاعلیہ الصلوۃ والسلام اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عطا فرمایا ہے۔
  • وہ نہیں ہے جس سے پوری امت مشکل میں گرفتار ہو جائے۔
  • آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام، آخر الانبیاء ہونے کے باوجود ذکر میں اول ہیں۔
  • بدقسمت ہیں وہ لوگ جو امت میں ہو کر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت و معرفت سے محروم ہیں۔
  • حسد سے محسود کا کچھ نہیں بگڑتا بلکہ حاسد کا ہی بگڑتا ہے۔
  • آپ کو جو گوشہ درود، حلقات ذکر اور تربیت کی ان مجالس، شب بیداری اور روحانی اجتماع میں بلایا جاتا ہے اس کا مقصد آپ کو ربانی بنانا ہے تاکہ حسن طریق اور نسبت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نصیب ہو۔
  • یاد رکھیں اگر میاں بیوی کو ایک دوسرے پر اعتماد نہیں تو محبت کا رشتہ استوار نہیں ہوگا۔
  • خوش نصیب ہیں وہ لوگ جن کو اللہ نے نیک بیوی دی۔
  • ایک دوسرے کی نیکی کا اعتراف کرنا بھی نیکی ہے۔
  • باطن کی علامات روحانی تربیت سے سامنے آتی ہیں،
  • اللہ کی محبت اور خوف و خشیت میں دیوانگی کی حد تک رونا سارے نامہ اعمال کو پاک و صاف کردیتا ہے۔
  • غفلت کے پردے کو چاک کرنے کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ عشق و محبت الہٰی اور خوف و خشیت الہٰی ہے۔
  • ادنیٰ سے اعلیٰ ہونے کا سفر مجاہدہ ہے۔
  • تقویٰ کا ظاہر عبادت اور باطن ادب ہے۔
  • جو رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ادب نہیں کرتا وہ خدا کا بھی ادب نہیں کرتا۔
  • حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت و عشق ہی حاصل ایمان ہے۔
  • ہماری کامیابی، فتح و نصرت اللہ ہی سے وابستہ ہے کیوں دنیا کی ہر شے میں اللہ ہی کے جلوے پوشیدہ ہیں۔
  • جب کبھی قبولیت مل جائے گی تو لٹکا ہوا عمل اوپر اٹھالیا جائے گا لہذا اس خیال سے عمل کبھی نہیں چھوڑ دینا چاہئے کہ قبولیت نہیں ہوتی۔
  • بات خالی نسب سے نہیں بنتی بلکہ نسب کے ساتھ حسب ہونا بھی ضروری ہوتا ہے۔
  • دنیا کا ہر شخص اولاد کو جو سکھانا چاہے سکھا سکتا ہے۔
  • دین، دین والوں سے ادب، ادب والوں سے اور بندگی بندگی والوں سے سیکھی جاتی ہے۔
  • اللہ تعالیٰ جس بندے کے لئے خیر، لطف و کرم، عنایت و بخشش اور مغفرت کا ارادہ فرما دے تو پھر اس بندے کا بیڑا پار ہو جاتا ہے۔
  • کُن سے پہلے صرف اللہ تھا اور جب کُن ہوگیا تو کُن کے بعد جو بھی کچھ ہے وہ مخلوق ہے۔
  • اللہ کا ذکر ایک ہی ہے اور وہ ذکر مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔
  • حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انسان ہیں مگر سب انسانوں جیسے نہیں۔
  • جب عقیدہ علماء کے ہاتھ سے نکل کر واعظین کے ہاتھ میں آجائے تو پھر اس میں ڈھکوسلے اور مبالغے شامل ہوجاتے ہیں۔
  • اصل عقیدہ متقدمین، متاخرین، اکابر اور ائمہ کا ہے اور قرآن و حدیث پر مبنی ہے۔
  • انبیاء کرام، صالحین کے مبارک اماکن کو جائے نماز بنانا سنت ہے۔
  • اولیاء اللہ خالی اللہ کے محب نہیں بلکہ محبوب بھی ہوتے ہیں۔ بندہ اللہ کا محبوب پہلے اور محب بعد میں بنتا ہے۔ جسے اللہ تعالیٰ اپنی محبت کے لئے چن لیتا ہے وہ محبوب ہوجاتا ہے۔
  • آج پھر دین پر عمل، اخلاق، محبت و اتباع رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور میں زندہ کرنے۔ علم کو سب سے اولین
  • ترجیح دینے، اس کے حصول اور فروغ کے لئے تمام وسائل خرچ کرنے کی ضرورت ہے۔
  • ایک قاعدہ اور کلیہ ہے کہ جس جگہ اور مٹی سے ولادت ہوتی ہے وہیں مدفن بنتا ہے۔ اور اگر کسی جگہ کسی کی قبر بنے تو سمجھا جاتا ہے کہ اس کا بشری خمیر بھی اسی مٹی سی بنایا۔