صلوٰۃ و سلام کے مفاہم اور فضائل و برکات

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری

ترتیب و تدوین : صاحبزادہ محمد حسین آزاد

إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًاO

(الاحزاب‘ 33 : 56)

آج کی علمی اور روحانی مجلس میں پہلے صلوۃ علی النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معنی‘ اس کی مراد‘ اسکی حکمت وفضیلت اور برکات وثمرات پر گفتگو ہو گی بعد ازاں مذکورہ آیت کریمہ کے تفصیلی نکات بیان کئے جائیں گے۔

اللہ تبارک وتعالی نے قرآن مجید میں فرمایا۔ إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ (بے شک اللہ اور اس کے تمام فرشتے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجتے ہیں) اور اس کے بعد ارشاد فرمایا۔ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا (اے ایمان والو! تم بھی اسی محبوب و مکرم نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجا کرو اور کثرت کے ساتھ سلام پڑھا کرو) یہ قرآن مجید کا اپنی نوعیت کے اعتبار سے واحد حکم ہے‘ جس میں اللہ تبارک وتعالی نے پہلے خبر دی ہے اور بعد میں امر دیا ہے‘ یعنی پہلے یہ بتایا ہے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر میں خود درود پڑھتا ہوں‘ اور میرے سارے فرشتے بھی میرے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود پڑھتے ہیں۔

یہ خبر دے کر اس کے بعد ہمیں حکم اور امر دیا ہے کہ آؤ تم ہمارے ساتھ شریک ہو جاؤ اور میرے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر تم بھی درود وسلام پڑھا کرو۔ یہ حکم قرآن مجید میں اپنی نوعیت کے اعتبار سے منفردحکم ہے کیونکہ نماز کا حکم آیا تو یہ فرمایا۔ اَقِيمُوْا الصَّلٰوةَ (البقرہ‘ 2 : 43)’’تم نماز قائم کرو‘‘ کبھی نہیں کہا کہ میں پہلے نماز پڑھتا ہوں تو تم بھی نماز پڑھا کرو۔ اس نے حکم دیا۔ وَاٰتُوْ الزَّکٰوةَ (البقرہ‘ 2 : 43)’’اورزکوۃ دیا کرو۔‘‘ یہ نہیں فرمایا کہ میں زکوۃ دیتا ہوں سو اے ایمان والو ! تم بھی زکوٰۃ دیا کرو۔

پھر حکم فرمایا۔ وَلِلّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلاً (آل عمران‘ 3 : 97) ’’ اور اللہ کے لئے لوگوں پر اس گھر کا حج فرض ہے جو بھی اس تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو۔‘‘ مگراس میں یہ نہیں فرمایا کہ میں حج کرتا ہوں سو تم بھی حج کیا کرو۔ اسی طرح فرمایا۔ يٰاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَيْکُمُ الصِّيَام (البقرہ‘ 2 : 183) ’’اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں۔‘‘ یہاں یہ نہیں فرمایا کہ میں روزے رکھتا ہوں سو تم بھی روزے رکھا کرو‘ توحید ورسالت کی شہادت کے بعد یہ پہلے چار ارکان اسلام ہیں جن پر ایمان کا ستون قائم ہے۔

ان مثالوں سے معلوم ہوا کہ اللہ تبارک وتعالی نے ہر جگہ حکم دیا ہے مگر کسی عبادت کے لئے یہ نہیں کہا کہ پہلے یہ خود میں بھی کرتا ہوں مگرد رودپاک وہ واحد حکم ہے جو پہلے اللہ کی اپنی سنت اور عمل ہے پھر اس کا حکم اور امر ہے۔

ثانیاً یہ کہ سارے دین کی تعلیم نفی شرک کی ہے۔ اس کے نام میں اور اس کے کام میں بھی کوئی شریک نہیں ہر جگہ اس نے شرکاء کی نفی کی ہے مگر صرف اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درودوسلام ایسا عمل ہے کہ اس میں اس نے ہر ایک کو اپنے ساتھ شریک کر لیا ہے۔ اس چیز نے اس کام کو ہر عمل سے جدا کر دیا ہے۔ اب مذکورہ بالا آیت کا بغیر تفصیل میں جائے تجزیہ کرتے ہیں۔ قرآن مجید کی یہ آیت کریمہ جملہ اسمیہ ہے‘ عربی زبان کا قاعدہ ہے کہ جو جملہ اسم (Noun) سے شروع ہو اس کو جملہ اسمیہ کہتے ہیں اور اگر جملہ کسی فعل (Verb) سے شروع ہو تو اسے جملہ فعلیہ کہتے ہیں۔ اب فعل کے لئے شرط ہے کہ وہ کسی ایک زمانے کے ساتھ مختص ہوتا ہے‘ فعل کبھی بھی زمانے سے خالی نہیں ہوتا‘ فعل یا تو ماضی ہو گا یا حال ہو گا یا مستقبل ہو گا۔ ایک فعل سارے زمانوں پر کبھی حاوی نہیں ہوتا۔ جیسے آپ کہتے ہیں کہ میں نے کھانا کھایا(I ate) اس کا مطلب ہے کہ آپ کھانا کھا چکے ہیں اب نہیں کھا رہے۔ اگر یہ کہیں کہ میں کھانا کھا رہا ہوں (I am eating) تو یہ حال ہے۔ یعنی اب کھا رہے ہیں‘ اس میں اس بات کی ضمانت نہیں کہ آپ نے کل یا صبح کھایا تھا یا نہیں اور شام کو کھائیں گے یا نہیں یا آپ کہتے ہیں۔ ’’میں کھیلوں گا۔‘‘ (I will play) اس میں بھی یہ ضمانت نہیں کہ آپ پہلے بھی کھیلے تھے یا نہیں۔ اور اب کھیل رہے ہیں یا نہیں بلکہ آپ مستقبل میں کھیلیں گے۔ معلوم ہوا جملہ فعلیہ کسی ایک زمانے کے ساتھ مشروط ہوتا ہے لیکن اگر جملہ اسم سے شروع ہو تو اس میں کسی ایک زمانے کے اندر بند ہونے کی شرط ختم ہو جاتی ہے وہ مستقل ہو جاتا ہے اور سارے زمانوں کو محیط ہوتا ہے۔

اب قرآن مجید میں یہ جو اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا۔ إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ۔ یہ جملہ اسمیہ ہے کیونکہ إِنَّ تاکید کے لئے ہے جو اسم پر آتا ہے اور لفظ اللہ اسم ہی نہیں بلکہ اسم اعظم ہے۔ جبکہ يُصَلُّونَ فعل بعد میں آیا۔ اب اس جملہ اسمیہ سے شروع ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی حضور علیہ الصلوۃ والسلام پر درود بھیجتا ہے‘ کب سے بھیجتا ہے؟ جب سے وہ بھیجنے والا ہے‘ یعنی وہ فرما رہا ہے کہ جب سے میں ہوں تب سے بھیج رہا ہوں۔ باری تعالی کب تک بھیجے گا؟ فرمایا جب تک میں رہوں گا تب تک بھیجتا رہوں گا۔

گویا آقاعلیہ الصلوۃ والسلام پر درود وسلام پڑھے جانے کے زمانے کی ابتدا کسی کو معلوم ہے اور نہ انتہا کسی کو معلوم ہے۔ جب حضور علیہ السلام پر درود و سلام کے پڑھے جانے کی ابتدا اور انتہاء متعین نہیں تو معلوم ہوا کہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام اس وقت تھے جب سے ان پر درود پڑھا جا رہا ہے کیونکہ حضور تھے تو حضور پر درود پڑھا جا رہا تھا۔ حضور علیہ الصلوۃ والسلام اب بھی ہیں تو آپ پر درود پڑھا جا رہا ہے۔ حضور رہیں گے تو آپ درود پڑھا جاتا رہے گا۔ اگر کسی زمانے میں (معاذ اللہ) حضور نہ رہیں تو گویا فعل الہی ختم ہو جائے گا‘ جو إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ کی شکل میں دوام پر دلالت کرتا ہے اس میں ایک اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ یہ اس طرح کا فعل نہیں ہے جس طرح فرمایا۔ خَلَقَ سَبَعَ السَمَوٰتٍ طِبَاقًا (الملک‘ 63 : 3) ’’اللہ نے سات آسمان طبق درطبق بنائے۔‘‘ یہ جملہ فعلیہ ہے‘ جب سات طبقات بنا دیئے تو ختم۔ اب یہ کام وہ ہر وقت جاری نہیں رکھتا۔ اسی طرح اللہ تعالی نے آدم علیہ السلام کو پیدا کر دیا۔ اب ہر وقت آدم پیدا نہیں ہوتے رہتے۔ اسی طرح اللہ تعالی نے فرشتوں کو پیدا کر دیا پس ہر وقت اب فرشتے پیدا نہیں ہوتے۔ اسی طرح قیامت اللہ تعالی لائے گا۔ نہ ماضی میں تھی نہ آج ہے‘ جب لائے گا تب آئے گی۔ معلوم ہوا کہ اللہ کے بہت سے فعل ایسے ہیں جو خاص زمانوں میں ہوئے اب نہیں جو اب ہیں وہ کل نہیں تھے اور جو مستقبل میں ہوں گے آج نہیں ہیں مگر اللہ تبارک و تعالی نے ایک فعل ایسا رکھا جسے سارے زمانوں سے بالا کر دیا اور سب زمانوں کو اس فعل کے تابع کر دیا وہ درود و سلام ہے۔ آقاعلیہ السلام پر اسی زمانے سے درود پڑھا جا رہا ہے جب زمانہ ہی پیدا نہ ہوا تھا اور ان جہانوں میں پڑھا جا رہا ہے‘ جب جہاں بھی پیدا نہ ہوئے تھے اور اس وقت تک پڑھا جاتا رہے گا جب وقت خود بھی نہ رہے گا۔ گویا ہر شئے کا خاتمہ ہے مگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود و سلام کا خاتمہ نہیں۔ نہ ابتدا معلوم ہے نہ انتہاء معلوم ہے۔ اگر معلوم ہے تو صرف اللہ کو معلوم ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ درو د پڑھا جا رہا ہے حضور علیہ الصلوۃ والسلام پر تو جس ذات پر پڑھا جا رہا ہے‘ جب وہی نہ رہے تو درود اس نے کس پر اور کیوں پڑھنا ہے؟ ذاکر تبھی ہوتا ہے جب مذکور بھی ہو۔ محب تبھی ہوتا ہے جب کوئی محبوب بھی ہو اور اگر محبوب ہی نہ ہو تو محبت کیسی اور محب کیسا؟ لہذا حضور علیہ الصلوۃ والسلام پر صلوۃ پڑھنے کے لئے لازم ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم موجود ہوں تبھی يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ کی صداقت بنتی ہے۔ قرآن مجید کی اس آیت سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی شخص حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ابتدا کا زمانہ متعین کرنا چاہتا ہے تو وہ بھی قرآن کے خلاف ہے اور اگر کوئی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی انتہاء کا زمانہ متعین کرنا چاہتا ہے۔ تو وہ بھی قرآن کے خلاف ہے‘ ہاں ابتدا وانتہا ہے ضرور چونکہ مخلوق جو ہوئے۔ مگر وہ ابتداء وانتہاء نہیں جس کو ہم سمجھتے ہیں۔ یہ ابتدا بلا ابتدا اور انتہا ء بلا انتہا ء ہے‘ کیونکہ اس کا انحصار إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ پر ہے جس میں دوام واستمرار ہے۔

اب اس میں دوسرا نکتہ یہ کارفرما ہے کہ اس آیت پر غور کیجئے اللہ تبارک و تعالی نے یوں نہیں کہا کہ اللہ اور فرشتے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود پڑھتے ہیں یعنی یوں نہیں فرمایا۔ اِنَّ اللّٰهَ يُصَلِّی عَلَی النَّبِیّ وَمَلَائِکَتَه کیونکہ اس سے مراد یہ بھی ہوسکتا تھا کہ کچھ فرشتے پڑھتے ہیں اور کچھ نہیں پڑھتے جبکہ نحو کا قاعدہ یہ ہے کہ جب اضافت آجائے اور مضاف‘ مضاف الیہ ہو اور مضاف جمع ہو جیسے مَلَائِکَتَه (اس کے فرشتے) تو اس کا معنی یہ ہوتا ہے کہ ہر وہ فرد جو اللہ کا فرشتہ ہے‘ وہ نبی پر درود پڑھتا ہے۔ گویا جو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود نہیں پڑھتا وہ فرشتہ ہی نہیں ہو سکتا۔ اس سے معلوم ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود وسلام نہ پڑھنے والا فرشتہ نہیں ہو سکتا تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود نہ پڑھنے والا سچا مسلمان اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سچا غلام کیسے ہو سکتا ہے؟

اس میں ایک اور نکتہ بھی کارفرماہے کہ اللہ کے بعض فرشتے ایسے ہیں جو اللہ کی صرف تسبیح کرتے رہتے ہیں۔ دوسرا ذکر نہیں کرتے‘ کچھ فرشتے ایسے جو تحلیل کرتے رہتے ہیں دوسرا ذکر نہیں کرتے‘ کچھ فرشتے تکبیر پڑھتے رہتے ہیں‘ دوسرا ذکر نہیں کرتے‘ کچھ فرشتے رکوع و سجود کرتے ہیں اور دیگر عبادت نہیں کرتے لہذا فرشتوں کی عبادت مختلف طور طریقوں میں منقسم ہے اسی طرح کچھ رکوع کرتے ہیں‘ کچھ دنیا کی تدبیر کرتے رہتے ہیں‘ کچھ اڑتے ہوئے ذکر کرتے ہیں‘ کچھ مجالس ذکر میں بیٹھتے ہیں‘ کچھ بیت اللہ کا طواف کرتے رہتے ہیں‘ کچھ اللہ کے عرش کے پایوں کو تھامے رہتے ہیں‘ اللہ کے جتنے فرشتے ہیں وہ مختلف قسم کے کاموں اور عبادتوں میں مشغول ہیں۔

فرمایا إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ اس میں واؤ مشرّکہ ہے مطلب یہ ہے کہ اللہ نے اپنے ساتھ فرشتے ملا کر ایک فعل يُصَلُّونَ میں شامل کر دیا اور فعل کا جمع کا صیغہ کر دیا‘ تاکہ یہ پتہ چل جائے کہ میرے فرشتوں کے مختلف گروہ اپنی الگ الگ عبادت میں مصروف ہیں‘ کوئی ایسی عبادت نہیں جس کو سارے فرشتے اس ایک کو انجام دیتے ہوں‘ سوائے درود مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے‘ جو سجود میں رہتے ہیں‘ وہ بھی مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود پڑھتے ہیں‘ جو بیت المعمور کا طواف کرتے ہیں وہ بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود و سلام پڑھتے ہیں‘ جو تسبیح کرتے ہیں وہ بھی درود پڑھتے ہیں‘ جو تکبیر کرتے ہیں وہ بھی درود پڑھتے ہیں‘ جو تحلیل کرتے ہیں وہ بھی درود پڑھتے ہیں‘ باقی تمام عبادتوں میں فرشتے منقسم اور منفرد ہیں مگر میرے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود وسلام پڑھنے میں مشترک اور مجتمع ہیں‘ کوئی فرشتہ اس امر سے خالی نہیں‘ یہ دو باتیں سمجھا کر اللہ تبارک و تعالی نے اپنی خبر دے کر اب حکم دیا کہ اے لوگو! میں نے اپنے حکم کے ساتھ فرشتوں کو خبر میں شریک کر لیا ہے‘ تمہیں صیغہ امر میں شریک کرتا ہوں‘ تم بھی میرے محبوب پر درود و سلام پڑھا کرو‘ تاکہ زمین و آسمان اور پست و بالا کی ساری کائنات میرے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے درود و سلام سے معمور ہو جائے۔ اور ایک چیز یہ بھی ذہن میں رکھ لیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود و سلام یہ اللہ کی سنت ہوئی۔ درود کے سوا اللہ کی کوئی اور عبادت اللہ کی سنت نہیں‘ وہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور انبیاء کی سنتیں ہیں۔ جیسے نماز حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پڑھی اللہ نے نہیں پڑھی لہذا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت ہوئی‘ روزہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رکھا اللہ نے نہیں رکھا‘ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت ہوا‘ حج و زکوۃ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ادا کئے اللہ نے ادا نہیں کئے‘ تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت ہوئے۔ مگر اللہ نے فرمایا میں درود پڑھتا ہوں محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر۔ لہذا درود اللہ کی سنت ہوا جبکہ بقیہ تمام احکام شریعت انبیاء کی سنت ہوئے۔

اب حکم اور سنت میں فرق سمجھا دوں‘ شریعت میں مطلق مجرد حکم اور سنت میں فرق یہ ہے کہ شریعت میں حکم ہمیشہ بدلتا رہا ہے۔ اللہ کے حکم وقت کے ساتھ ساتھ انبیاء کے ساتھ ساتھ رسولوں کے ساتھ ساتھ امتوں کے ساتھ ساتھ بدلتے رہے‘ مگر جس کو اللہ نے اپنی سنت بنا دیا وہ کبھی نہیں بدلتی۔ ایک وقت میں اللہ نے سب فرشتوں کو حکم دیا۔ ’’آدم کو سجدہ کرو۔‘‘ یوسف علیہ السلام کے ماں باپ سمیت ان کے بھائیوں کو اللہ نے حکم دیا کہ ’’یوسف کو سجدہ کرو۔‘‘ یہ دونوں تعظیمی سجدہ تھے عبادت کے لئے نہیں‘ مگر جب آقا علیہ السلام کی بعثت ہو گئی تو حضور علیہ السلام کی امت کے لئے تعظیمی سجدہ نبی کے لئے حرام کر دیا۔ حکم بدل گیا یا نہیں؟ کسی زمانے میں اللہ کا حکم تھا جس نے سجدہ نہیں کیا وہ مردود ہو گیا جس فرشتے نے حضرت آدم کو سجدہ نہیں کیا وہ مردود اور شیطان ہو گیا۔ مگر ہمارے لئے آقا علیہ السلام کو تعظیماً سجدہ کرنا حرام کر دیا‘ حکم بدل گیا۔

اس طرح پہلے آدم علیہ السلام کی اولاد میں جو پوتے پوتیاں اور نواسے نواسیاں ہوئیں ان میں ڈائریکٹ باہمی خونی رشتوں میں شادیاں ہوئیں جہاں سے نسل آدم آگے چلی‘ پہلے جو رشتے اللہ کے حکم سے جائز اور حلال تھے بعدازاں وہ حرام ہوگئے اور قرآن حکیم میں لسٹ آگئی کہ فلاں فلاں سے رشتہ جائز نہیں حکم بدل گیا اسی طرح پہلے حکم تھا کہ مال غنیمت حرام ہے‘ مگر حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی شریعت میں مال غنیمت حلال ہو گیا۔ پہلے نماز کے لئے مخصوص مقامات متعین تھے مگر حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ ساری زمین مسجد ہے‘ حکم بدل گیا۔ ہزارہا احکامات ایسے تھے جو پہلی امتوں میں اور تھے اور بعد کی امتوں میں اور ہو گئے۔ کئی احکامات جو تورات میں تھے وہ قرآن میں بدل گئے‘ کئی احکام زبور میں تھے وہ بعد میں بدل گئے‘ کئی انجیل میں تھے وہ بھی بعد میں بدل گئے‘ رسولوں کے بدل بدل کر آنے سے بھی شریعتوں کے احکام بدلتے گئے‘ مگر ایک حکم اور کام اول وقت سے لے کر آج تک نہیں بدلا وہ سنت الہی ہے جس کے بارے میں فرمایا۔ وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّةِ اللّٰهِ تَبْدِيْلًا (الفتح‘ 48 : 23) ’’اور آپ اللہ کے دستور میں ہرگز کوئی تبدیلی نہیں پائیں گے۔‘‘

اللہ کے حکم بدلتے رہے مگر سنت کبھی نہیں بدلی‘ ہر عبادت کا حکم بدلتا رہا حتی کہ خود نماز بدلتی رہی بخاری شریف کی حدیث پاک کے مطابق اس کے ابتدائی زمانے میں صرف فرض تھے۔ پھر سفر کی قصر کے لئے دو فرض رہنے دیئے اور مقیم کے لئے چار کر دیئے۔ حکم بدل گیا پہلے وضو کے بعد آگ پر کوئی پکی چیز کھانے سے وضو ٹوٹ جاتا تھا۔ آقا علیہ الصلوۃوالسلام نے فرمایا حکم بدل گیاہے‘ اب کھا لیا کرو‘ وضو نہیں ٹوٹے گا۔ الغرض شروع میں شراب کو کلیۃً حرام نہیں کیاگیا تھا‘ 13 برس کے بعد مدینہ منور میں اسے حرام قرار دیا گیا۔ اسی طرح سود مکی زندگی میں حرام نہیں تھا جسے سولہ برس کے بعد مدنی زندگی میں حرام کیا گیا‘ شریعت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احکام بھی وقت کے ساتھ ساتھ بدلتے رہے مگر جسے اللہ تعالی نے اپنی سنت کا درجہ دے دیا۔ وہ کائنات کی ابتدا سے آج تک کبھی نہیں بدلی۔ اس لئے حضورعلیہ الصلوۃ والسلام پر درود وسلام کو اللہ نے صرف حکم نہیں رکھا بلکہ اپنی سنت بنایا تاکہ بتا دیا جائے کہ میری نماز کے احکام بدل سکتے ہیں‘ مگر میرے مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود کا حکم نہیں بدل سکتا۔

اس تمہیدی گفتگو کے بعد اب اصل موضوع کی طرف آتے ہیں۔ پہلی گفتگو لفظ صلوۃ پر ہو گی کہ اللہ تعالی جو مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر صلوۃ بھیجتا ہے تو اس صلوۃ کا معنی کیا ہے جسے بہت سی کتب میں ائمہ حدیث‘ ائمہ لغت‘ ائمہ علم اور ائمہ تفسیر نے لکھا ہے۔ جس کے بارے میں امام ماوردی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ اللہ تعالی جو اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر صلوۃ بھیجتا ہے اس کا معنی ’’العظیم‘‘ ہے۔ اور امام راغب اصفہانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں۔ صلوة اللّٰه عليه صلی اللّٰه عليه وآله وسلم اظهار عظمته وثناء ه عند الملائکة ’’اللہ کا حضور علیہ الصلوۃ والسلام پر صلوۃ بھیجنا ملائکہ کے سامنے آپ کی عظمت وثناء کا اظہار کرنا ہے‘‘۔ یہی معنی علامہ فخر الدین رازی رحمۃ اللہ علیہ سمیت باقی ائمہ نے بھی لیا ہے۔

علامہ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی جو حضورعلیہ الصلوۃ والسلام پر درود بھیجتا ہے۔ اس کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالی اپنے سارے فرشتوں کے اجتماع میں حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی شان بیان کرتا ہے۔ یہ بھی یاد رکھ لیں کہ اللہ کا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجنا یہ نہیں ہے جیسے ہم پڑھتے ہیں کہ اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰی سَيِّدِنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَعَلَی اٰلِه وَصَحْبِه وَبَارِکْ وَسَلِّمْ یا جو درود ابراہیمی ہم پڑھتے ہیں۔ اللہ تعالی ان کلمات کے ساتھ درود نہیں پڑھتا‘ جیسے ہم کہتے ہیں۔ اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰی۔ ’’ اے اللہ تو درود بھیج‘‘ اس نے کس کو کہنا ہے؟ پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو اللہ درود بھیجتا ہے وہ کیا ہے؟ اس کی شکل کیا ہے اس کے معنی اور طریقہ کار کیا ہے؟ وہ کوئی عبارت ہے جو پڑھتا ہے ؟ یا جس طرح ہم محفل میلاد کرتے ہیں یا عظمت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کانفرنس یا سیرت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کانفرنس کرتے ہیں‘ اور لوگوں کے سامنے آقا علیہ السلام کی عظمت و شان‘ رفعت و بلندی‘ فضائل و کمالات‘ شمائل و خصائل‘ حسن و جمال، عظمت و کمال‘ خدوخال‘ حسن سراپا‘ حمد و ثنا اور معجزات و کمالات‘ اپنی سمجھ‘ استطاعت‘ صلاحیت اور طاقت و قدرت کے مطابق بیان کرتے ہیں‘ کیونکہ ہم مخلوق ہیں یوں سمجھ لیں جیسے ہم مجمع عام میں حضور علیہ الصلوۃ و السلام کی توصیف کرتے ہیں۔ اسی طرح مالائے اعلیٰ میں عرش پر اور ماورائے عرش فرشتوں کا اجتماع ہوتا ہے‘ فرشتے سامعین ہوتے ہیں‘ خداخود خطیب ہوتا ہے‘ اللہ خطاب کرتا ہے اور خدا کے خطاب کا موضوع عظمت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہوتا ہے۔

یہ میرے الفاظ نہیں ہیں بلکہ میں نے فقط اس کی تشریح کی ہے۔ میں نے اس کو عام فہم کر کے پیش کیا ہے۔ یہ معنی جمہور ائمہ نے بیان کئے ہیں‘ امام رازی رحمۃ اللہ علیہ‘ امام اصفہانی رحمۃ اللہ علیہ‘ امام قرطبی رحمۃ اللہ علیہ‘ علامہ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ‘ امام سخاوی رحمۃ اللہ علیہ۔ امام ابن جریر طبری رحمۃ اللہ علیہ‘ امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ‘ امام ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ‘ امام قسطلانی رحمۃ اللہ علیہ‘ علامہ عینی رحمۃ اللہ علیہ‘ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ‘ سب شامل ہیں اور اس کے علاوہ ائمہ تفسیر کی جو کتاب بھی اٹھا لیں آپ کویہی معنی ملے گا۔ اگر کسی نے پڑھا نہیں تو اس میں میرا قصور نہیں۔

وہ فرماتا ہے میں جب سے ہوں اور جب تک ہوں میں عالم سموات میں ملائکہ کے سامنے ہر وقت اپنے مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گن گاتا رہتا ہوں۔ اس کے حسن و جمال‘ اس کی ندرت و عدم مثلیت کے تذکرے کرتا رہتا ہوں کہ میرا محبوب ایسا ہے جب سے زمانہ شروع ہوا ہے اور جب تک ہے‘ میں فرشتوں کے سامنے اپنے محبوب کی تعریف ہی کرتا رہتا ہوں‘ یہ ہے۔ اِنّ اللّٰه وَمَلاَئِکَتَه يُصَلُّوْنَ عَلٰی النَّبِیّ کا معنی امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے جلیل القدر تابعی عبدالعالیہ رحمۃ اللہ علیہ سے روایت کردہ معنی جامع الصحیح میں بیان کیا ہے۔

صلوة اللّٰه علی النبی هو ثناء ه عليه عند الملائکة وتعظيمه

’’ اللہ کا نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود پڑھنے کا معنی فرشتوں کے سامنے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ثناء کرنا اور عظمت بیان کرنا ہے۔‘‘ یہاں ایک نکتہ سمجھا دوں بعض احباب کو یہ بات سمجھ میں نہیں آتی اور وہ سوال کرتے ہیں آپ ہر وقت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان بیا ن کرتے ہیں۔ یہ شخصیت پرستی اور مبالغہ آرائی ہے (معاذ اللہ) اس کا جواب سمجھ لیں پوری زندگی کام آئے گا جو شخص یہ سوال یا اعتراض کرے ان کو جواب دیں بھائی یہ الزام ہم پر نہیں بلکہ خداپر لگائیں کیونکہ وہ خود فرماتا ہے۔

’’اللہ ہر وقت اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود پڑھتا رہتا ہے۔‘‘ اور الصلوۃ علی النبی کا معنی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ثنا‘ تعریف اور عظمت بیان کرنا ہے۔ لہذا عظمت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا موضوع ہمارا نہیں خودخدا کا ہے۔ ہم تو خدا کی سنت پوری کرتے ہیں جسے اس کی دلیل درکار ہو وہ صحیح البخاری میں کتاب التفسیر نکال کر دیکھ لے کہ  اِنّ اللّٰه وَمَلاَئِکَتَه يُصَلُّوْنَ عَلٰی النَّبِیّ کے تحت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کیا لکھاہے؟ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا عقیدہ یہ ہے کہ صلوۃ علی النبی کا معنی یہ ہے کہ اللہ ہروقت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حمدوثنا اور عظمت کے چرچے بیان کرتا رہتا ہے۔ یہی معنی امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ‘ امام سخاوی رحمۃ اللہ علیہ‘ امام خطابی رحمۃ اللہ علیہ اور امام ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ نے بیان کیا ہے کہ اللہ تعالی کا اپنے محبوب پر صلوۃ پڑھنے کی اصل تعظیم ہے کہ فرشتوں کے سامنے وہ ہر وقت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت بیان فرماتا ہے اسی لئے قرآن مجید میں فرمایا۔ وَرَفَعْنَالَکَ ذِکْرَکَ. (الانشراح‘ 94 : 4) ’’اے محبوب! ہم نے آپ کے لئے آپ کا ذکر بلند کر دیا ہے۔‘‘

آگے فرمایا۔ مَلاَئِکَتَه ’’اور اس کے فرشتے بھی پڑھتے ہیں‘‘ اور فرشتے جو صلوۃ پڑھتے ہیں‘ اس کا معنی اور جو ہمیں حکم دیا گیاکہ صَلُّوْا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِيْماً ’’ تم بھی صلوۃ وسلام پڑھو۔‘‘ اس کا معنی کیا ہے؟ اس کے دو معنی ہیں۔ ایک یہ کہ جب اللہ تعالی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حمد و ثنا فرماتا ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان بیان کرتا ہے تو فرشتے اللہ کی بارگاہ میں بیٹھ کر اللہ کا یہ کلام اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان سن کر ایک معنی یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں۔ ’’ واہ مولا اور بیان کر‘‘ یعنی وہ حضور کی شان میں اضافہ طلب کرتے ہیں اور دوسرا معنی ہے جس کو امام فخر الدین رازی رحمۃ اللہ علیہ اور امام راغب اصفہانی رحمۃ اللہ علیہ نے بیان کیا ہے کہ اللہ تعالی کی زبان سے حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی شان سن کر فرشتے سراپا پیکر تعظیم بن جاتے ہیں اور ان کے اندر خشوع و خضوع کی کیفیت آ جاتی ہے۔ جیسے اللہ کی عبادت کے لئے بندہ جھکتا ہے تو وہ خشوع و خضوع کا اظہار اور ادب و تعظیم کرتے ہیں۔

امام ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ اور امام ابوعالیہ رحمۃ اللہ علیہ نے بھی فرشتوں اور امت کے صلوۃ پڑھنے کا معنی یہ کیا ہے کہ ’’باری تعالی تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جتنی شانیں بیان کر رہا ہے اس میں اضافہ فرما اور بلند کراور بیان کر تاکہ ہمارے سینے ٹھنڈے ہوتے رہیں۔‘‘ سو جس کا سینہ دائمی طور پر عمر بھر شان و عظمت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘ حسن و جمال مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور معجزات و کمالات مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سن کر ٹھنڈا ہوتا رہے تو سمجھو وہ مثل ملائکہ یعنی فرشتوں کی طرح ہے اور جو یہ کہے کہ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان بہت زیادہ بیان کر دی ہے وہ مثل شیطان ہے کیونکہ شیطان پیغمبر کی تعظیم و تعریف سن کر اکتاگیا تھا۔

آگے امام ابن اثیر رحمۃ اللہ علیہ اور امام خطابی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ہمیں جو حکم دیا گیا کہ تم بھی درود وسلام پڑھو۔ صَلُّوْا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِيْماً تو اس کا معنی ہے کہ مولا دنیا میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان اور بلند فرما کیونکہ اللہ اس سے خوش ہوتا ہے۔ جب اس کے بندے کہتے ہیں کہ ’’محبوب کی شان اور بلند کر‘‘ وہ تو پہلے ہی اپنے شوق سے بلند کر رہا ہوتا ہے پھر وہ ہماری دعا سے بھی کرتا ہے۔ وہ جب سے ہے بلند کر رہا ہے اور جب تک نظام کائنات ہے‘ بلند کرتا رہے گا۔ اب سوال تو یہ ہے کہ جب آقا علیہ الصلوۃ والسلام کو اس نے تخلیق کیا تو اس وقت اس درجہ پر تخلیق کیا کہ اس سے بلند کوئی درجہ اور رتبہ تھا ہی نہیں تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تخلیق بھی سب سے اونچی عظمت کے درجے پر ہوئی اور تخلیق کے بعد تب سے وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت کو بلند کرتا جا رہا ہے اور بلند کرتا رہے گا۔ معلوم نہیں وہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عظمت کے کس درجہ پر تھے اور کہاں تک جا پہنچے؟ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان کیا تھی اور کہاں تک جاپہنچی؟ اس نے پیدا ہی سب سے زیادہ بلندی پر کیا تھا اور تب سے يُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیّ سے بلند سے بلند تر کرتا جارہاہے‘ اور وہ کرتا رہے گا۔ کوئی تصورکر سکتا ہے کہ اس نے نبی کو کتنا بلند کر دیا ہو گا‘ تو گویا آقا علیہ الصلوۃ والسلام پر مبالغہ نام کی کوئی شئے باقی نہ رہی۔ یہ پہلا معنی تھا جسے حضرت ابوالعالیہ رحمۃ اللہ علیہ‘ حضرت ربیع بن انس رحمۃ اللہ علیہ‘ حضرت دحاج رحمۃ اللہ علیہ‘ امام لغت امام مبرد رحمۃ اللہ علیہ‘، امام ماوردی رحمۃ اللہ علیہ‘ ابن العربی رحمۃ اللہ علیہ‘ امام فخر الدین رازی رحمۃ اللہ علیہ اور دیگر ائمہ تفسیر نے بیان کیا ہے۔

دوسرا معنی امام اصفہانی رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ الصلوۃ کا ایک معنی ’’التذکير‘‘ بھی ہے۔ یعنی کسی کی صفائی دینا اور یہ کہنا کہ اس میں کوئی نقص‘ عیب‘ کمی اور کجی نہیں‘ جیسے جب گواہ عدالت میں پیش ہوتا ہے تو عربی زبان میں تزکیۃ الشہود کہتے ہیں۔ ایک شہادت لی جاتی ہے کہ یہ سچا ہے‘ اس کو تزکیہ کہتے ہیں۔ اب الصلوۃ علی النبی کا دوسرا معنی ہے کہ وہ جانتا تھا کہ بعض لوگ ایسے ہوں گے جو میرے محبوب میں کمزوری‘ عیب اور کمی و کجی نکالیں گے۔ تو اس نے کہا۔ اِنَّ اللّٰهَ وَمَلَائِکَتَه يُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیّ لوگو!تم میرے محبوب کی کیا کمزوریاں نکالو گے ؟ جب سے میں ہوں خود محبوب کے تزکیہ یعنی اس کی ہر کمی اور کجی سے پاک ہونے کی قسم کھا رہا ہوں۔ لہذا ہر وقت حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی تقدیس کرتے رہنا‘ الصلوۃ علی النبی ہے۔ اس کے بعد کوئی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں نقص نکالے تو اس نے اللہ تعالی کو چیلنج کر دیا۔ (معاذ اللہ)

الصلوۃ علی النبی کا تیسرا معنی قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ نے الشفاء میں امام قشیری رحمۃ اللہ علیہ کی روایت سے بیان کیا ہے کہ صلوۃ اللّہ علی النبی کا معنی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا شرف‘ قدر و منزلت اور مقام و بزرگی میں ہر لمحہ اضافہ کرتے رہنا ہے اور فرمایا کہ یہ صرف تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے خاص ہے اورمومنین پر صلوۃ پڑھے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ مومنوں پر فضل و کرم‘ برکت و رحمت اور انعام و اکرام کرتا ہے‘ یعنی باری تعالی کا اپنے محبوب کے علاوہ دوسروں پر صلوۃ پڑھنے کا مطلب ہے‘ رحمت دینا اور مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر صلوۃ پڑھنے کا مطلب ہے‘ شرف و منزلت اور عظمت کو بلند کرتے رہنا اور فرشتوں کے سامنے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گن گاتے رہنا۔

یہ تو وہ معانی تھے جو ائمہ تفسیر نے بیان کئے‘ جن کا میں نے اختصار سے تذکرہ کر دیا۔ اس پر کوئی اختلاف نہیں‘ مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ امت میں جس معنی پر اختلاف نہیں اس پر بھی آج اختلاف کر دیا گیا ہے۔ اب اس معانی کا بیان شروع کرتا ہوں‘ جس پر زندگی میں‘ میں نے محنت کی۔ وہ معنی ان معانی کے ساتھ شامل ہے جو معانی میں نے بیان کئے‘ میں نے کوئی نیا معنی نہیں نکالا بلکہ یہ اس ساری کتب کے پردوں میں چھپا تھا۔

اس کو میں نے لغت کے پانچ مختلف مادوں سے ثابت کیا ہے۔ لفظ صَلٰوة‘ صَلّٰی يُصَلِّی سے ہے۔ عربی زبان کا طریقہ ہے کہ ہر لفظ کا ایک مادہ ہوتا ہے‘ اس کو Root word کہتے ہیں۔ جیسے بیج اور جڑ سے پودا اور درخت نکلتا ہے۔ دنیا کا کوئی صاحب علم اس اصول سے اختلاف نہیں کر سکتا کہ ہر لفظ جس مادہ سے نکلتا ہے اس مادہ کا خود ایک معنی ہوتا ہے جو اس مادہ سے نکلنے والے الفاظ میں بھی پایا جاتا ہے۔ یہ Basics عربی میں استعمال ہوتے ہیں‘ انگریزی میں نہیں مثلا ع ل م تین حرفوں سے علم بنا ہے‘ یہ مادہ ہے اب اس سے جو لفظ بنے گا اس میں علم کا معنی ضرور پایا جائے گا‘ وہ علم سے خالی نہیں ہو سکتا جیسے علم سے نکلا عالم‘ عالم کا معنی ہے علم رکھنے والا‘ اس علم سے نکلا معلوم۔ معلوم کا معنی ہے جس کے بارے میں علم ہو۔ اسی سے نکلا معلم سکھانے والا‘ اسی سے ہے متعلم علم سیکھنے والا۔ حتی کہ علم سے جتنے بھی لفظ نکالتے چلے جائیں‘ ہر ایک میں علم کا بنیادی معنی برقرار رہے گا۔ اسی طرح و ل د سے، ولدبنا۔ اس سے والد بنا‘ یعنی جس سے پیدا ہوا اسی سے مولود بنا یعنی جو پیدا ہوا۔ اسی سے مولد ہے یعنی جس جگہ ولادت ہوئی‘ اسی سے میلاد ہے یعنی ولادت وپیدائش‘ علی ہذا القیاس اس سے جتنے بھی لفظ نکلیں گے اس میں ول د کا معنی پایا جائے گا۔

یہی Position لفظ صلوۃ کی ہے۔ جس کے کئی مادہ اشتقاق ہیں جن میں سے لفظ صلوۃ کا پہلا مادہ ہے۔ ص ل ی (صلی ) اسی سے صلیا ہے‘ اس کا معنی ہے آگ کو ہاتھ سے ملا دینا‘ ہاتھ کو آگ میں ڈال دینا۔ اتنا Close کر دینا کہ آگ اور ہاتھ میں فاصلہ ہی نہ رہے۔ اگر ہاتھ اور آگ دونوں آپس میں مل جائیں تو اس کو کہیں گے۔ صلی یا صلیا جیسے قرآن مجید میں فرمایا گیا۔ تَصْلٰی نَاراً حَامِيَةً (الغاشیہ‘ 88 : 4) ’’دہکتی ہوئی آگ میں جا گریں گے‘‘ جن کافروں کو آگ میں ڈالا جائے گا۔ پہلے آگ سے باہر کھڑے ہوں گے جب حکم ہو گا ان کو آگ میںڈال دو۔ جب کفار اور آگ مل جائیں گے تو تَصْلٰی نَارًا حَامِیَۃً‘ ہوگا۔ دوسرے مقام پر قرآن کہتاہے‘ لَا يَصْلَهَا اِلَّا الْاشْقٰی (اللیل‘ 92 : 15) ’’جس میں انتہائی بدبخت کے سواکوئی داخل نہیں ہو گا۔‘‘۔

امام راغب اصفہانی المفردات میں کہتے ہیں کہ کافر کوآگ میں  ڈال دیا جاتاہے اور آگ میں مل جاتا ہے۔ اس میں اور آگ میں فاصلہ نہیں رہ جاتا۔ اس ملاپ کو صلی کہتے ہیں۔ اب اس مادہ پر عرب میں ایک لفظ مُصَلِّی بولتے ہیں۔ آپ یہ جانتے ہیں کہ اس سے مراد نمازی ہے مگر اس کا دوسرا معنی یہ ہے کہ جب گھوڑوں کی دوڑ اور ایک گھوڑا First اور دوسرا Second آئے اور وہ پہلے گھوڑے کے بالکل قریب ہو جائے یعنی پچھلے گھوڑے کا سر ا اگلے گھوڑے کی Back سے مل جائے تو اس مل جانے کو صلی کہتے ہیں اور دوسرے نمبر پر آنے والے کو مصلی کہتے ہیں۔ اذا جاء مصليا.  یہ لسان العرب میں بھی ہے اور اسے امام لغت امام ابوعبید اور امام کسائی نے بھی بیان کیا ہے۔ (جاری ہے)