شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری عالمی امن کے حقیقی داعی ہیں

صاحبزادہ حسین محی الدین قادری کا خصوصی انٹر ویو

پینل : محمد حسین آزاد، کوثر رشید، نازیہ عبدالستار

صاحبزادہ حسین محی الدین قادری شیخ الاسلام ڈاکٹر محمدطاہر القادری مدظلہ کے فرزند ارجمند ہیں۔ اُن کی شخصیت میں ایک عظیم والد گرامی کا علم ہی نہیں بلکہ سیرت وکردار بھی صاف جھلکتا نظر آتا ہے۔ آپ نے میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کی تعلیم پاکستان میں حاصل کی۔ اُن کا اس کے ساتھ ساتھ علوم اسلامیہ کی تدریس کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ پھر کینیڈا جا کر ٹورنٹو York University سے Economics & Political Science میں گریجویشن کیا۔ جس کے بعد فرانس تشریف لے گئے جہاں سے انٹرنیشنل بزنس کورس کرنے کے بعد پیرس کی معروف ترین یونیورسٹی Science Po سے ایم۔ بی۔ اے کیا۔ پاکستان تشریف لانے کے بعد LUMS یونیورسٹی لاہور میں بطور ریسرچ Fellow پڑھاتے رہے‘ آج کل آسٹریلیا سے اکنامکس میں ڈاکٹریٹ کر رہے ہیں۔ صاحبزادہ صاحب مختلف داخلی اور خارجی امور پر اردو اور انگریزی میں آرٹیکل لکھتے رہتے ہیں اور اب تک متعدد قومی اور بین الاقوامی میگزینز میں آپ کے آرٹیکلز اردو، انگریزی اور فرانسیسی زبان میں شائع ہو چکے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ان کی چھ کتب بھی شائع ہو کر منظر عام پر آچکی ہیں۔

پاکستان اور اسلامی دنیا کی سیاسی‘ معاشی اور معاشرتی ترقی و استحکام کے لئے ان کے مزید تحریری، علمی و تحقیقی کام جاری ہیں۔

ماہنامہ دختران اسلام کا انٹرویو پینل صاحبزادہ صاحب کی پاکستان میں موجودگی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے قائد ڈے کے موقع پر ان کا انٹرویو شائع کرنے کا اعزاز حاصل کر رہا ہے۔

مجلہ : آپ کو ایک قائد‘ عظیم مصلح اور مجدد وقت کے فرزند ہونے کا اعزازحاصل ہے۔ آپ اس حوالے سے کیسا محسوس کرتے ہیں؟

صاحبزادہ صاحب : سب سے پہلے میں آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ نے قائد ڈے کے موقع پر قائد محترم کے حوالے سے ماہنامہ دختران اسلام میں انٹرویو کا اہتمام کیا ہے۔ جہاں تک آپ کے سوال کا تعلق ہے کہ ایک عظیم شخصیت کا بیٹا ہونا تو جہاں پر یہ ایک رحمت اور نعمت ہے وہاں پر یہ ایک آزمائش بھی ہے کیونکہ اس طرح کی نسبت اور قربت کے اندر بے ادبی کا احتمال زیادہ ہوتا ہے اور ہمارے والد گرامی ہونے کے علاوہ وہ شیخ اور قائد بھی ہیں۔ جب دو طرح کی نسبتیں جمع ہو جائیں، والد اور شیخ یہ دو تعلق ایک ذات کے اندر جمع ہو جائیں تو دونوں میں فرق کر کے احترام کے ساتھ چلانا مشکل ہو جاتا ہے‘ والد کے ساتھ بے تکلفی ہوتی ہے جو شیخ کی بارگاہ میں بے ادبی تصور ہو سکتی ہے‘ اگر شیخ کے تعلق کو آگے رکھا جائے تو جو والد والی قربت میں فرق آتا ہے‘ اس صورتحال میں ہمارا شاید کردار ہے یا نہیں ہے۔ ہم اس کو ادا کر سکتے ہیں یا نہیں‘ شیخ الاسلام مدظلہ کی شخصیت کا اس کے اندر بہت بڑا کردار ہے۔ بہت مضبوط شخصیت ہیں‘ ہم بے ادبی سے ڈرتے ہوئے شیخ کے تعلق کو پیش نظر رکھیں اور والد کے تعلق کو پیچھے چھوڑ دیں‘ لیکن انہوں نے کبھی بھی بطور والد کمی واقع نہیں ہونے دی۔ یہ ان کی عظمت ہے‘ دوسری طرف میں سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالی کا فضل اور کرم ہے۔ اللہ رب العزت نے ان کی عظمت اور مقام کے متعلق ہماری سمجھ کے مطابق ادراک پیدا کیا اور ہمیں توفیق عطا فرمائی کہ ہم ان کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کر سکیں‘ اس میں بھی زیادہ کردار شیخ الاسلام مدظلہ کا ہے‘ اگر ہم تاریخ میں دیکھیں تو ہمیں بہت کم ایسی مثالیں ملتی ہیں‘ اتنی مضبوطی کے ساتھ کوئی شخصیت اپنے گھر والوں کو ایسے نقش قدم پر چلائے اس میں چلنے والے کا کمال نہیں سمجھتا بلکہ چلانے والے کا زیادہ کمال ہے کیونکہ بڑی بڑی شخصیات ہوئی ہیں‘ جو اپنی اولاد کو اپنے نقش قدم پر نہیں چلا سکیں‘ یہ حضور شیخ الاسلام مدظلہ کی شخصیت، ان کے کردار کی مضبوطی اور ان کے ظاہر و باطن میں ایک ہونے کاعنصر ہے‘ جس نے ہزاروں لوگوں کو اُن کے نقش قدم پر چلایا وہ اپنے گھر والوں کو بھی اپنے نقش قدم پرچلا رہے ہیں۔ ہم اللہ رب العزت سے دعا مانگتے ہیں کہ ہمیں ان کے نقش قدم پر چلتے رہنے کی توفیق اور استقامت عطا فرمائے۔

مجلہ : شیخ الاسلام مدظلہ نے اپنی اولاد کی شادیاں اپنے نسبی یا دنیاوی شان و شوکت والے خاندانوں کی بجائے تحریکی تعلق رکھنے والے خاندانوں میں کیں۔ کیا اس پر آپ روشنی ڈالنا پسند فرمائیں گے۔

صاحبزادہ صاحب : جس طرح آقا علیہ لصلوۃ والسلام نے اپنے خاندان سے نکل کر ایک بڑا اسلام کا خاندان تشکیل دیا آقا علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی نسبی رشتوں سے ماوراء ہوکر مہاجرین و انصار کو آپس میں بھائی بھائی بنا کر ایک بہت بڑے خاندان کی بنیاد رکھی۔ اسی انداز میں آقا علیہ الصلوۃ والسلام کی سنت پر عمل کرتے ہوئے شیخ الاسلام مدظلہ نے بھی جب تحریک منہاج القرآن کا آغاز کیا‘ تو تحریک کے اس بڑے خاندان کو نسبی خاندان اور دنیاوی شان و شوکت رکھنے والے خاندانوں پر فوقیت دی یہی وجہ ہے اس خاندان کو مضبوط کرنے کے لئے اپنی اولاد کی تمام شادیاں تحریکی خاندانوں میں کر رہے ہیں‘ وہ اس عمل کے ذریعے اپنے تحریکی ساتھیوں کی تربیت فرمانا چاہتے ہیں کہ اپنے ذاتی نسبی خاندان کے دائروں سے نکلیں اور تحریکی خاندانوں کو آپس میں مضبوط کریں، اس کو فروغ دیں اور آقا علیہ الصلوۃ والسلام کی سنت پر عمل کریں۔ انہوں نے شادیوں کے بارے میں تعلیم فرمائی ہے کہ یہ نہ دیکھو کہ جہاں بچوں کے رشتے کرنے جا رہے ہو ان کی ظاہری شان و شوکت کیا ہے یا وہ کتنے مالدار لوگ ہیں۔ بلکہ یہ دیکھیں کہ ان میں بچوں کی تربیت کیسی کی گئی ہے؟ ان تحریکی گھرانوں میں کردار کی پختگی کتنی ہے؟ انہوں نے ان عوامل کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی اولاد کی شادیاں کی ہیں۔ یہ سب کچھ انہوں نے تحریکی ساتھیوں کے لئے بطور ایک رول ماڈل کے کیا ہے۔

مجلہ : شیخ الاسلام مدظلہ خدمت دین کیلئے ہمہ وقت مصروف رہتے ہیں پھر اپنی اولاد کی تعلیم وتربیت کیلئے وقت کیسے نکالتے ہیں؟

صاحبزادہ صاحب : میں جب تاریخ میں مختلف شخصیات کو پڑھتا ہوں تویہ دیکھ کر حیران ہو جاتا ہوں کہ ان میں سے بعض مشہور شخصیات کی اولاد ان کے نقش قدم پر نہیں چلی، جس کی بڑی وجہ یہ ہوتی ہے کہ والد نے اپنے آپ کو خلق خدا کے لئے اتنا زیادہ مصروف کر لیا ہوتا ہے کہ وہ اپنی اولاد کی تربیت کے لئے وقت نہ نکال سکے۔ میں اس میں قصور وار اولاد کو نہیں سمجھتا بلکہ ان والدین کو سمجھتا ہوں کہ جو اپنی اولاد کی تربیت کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ شیخ الاسلام مدظلہ کی شخصیت کی مضبوطی ہے کہ جہاں ان کا روحانی فیض شامل حال رہا، وہاں اولاد کی تربیت بھی انہوں نے بخوبی فرمائی۔ اللہ رب العزت نے انہیں یہ صلاحیتیں دی ہیں۔ جن کا انہوں نے بہت بہتر انداز میں استعمال کیا ہے۔ انہوں نے باہر بھی اتنا وقت دیا ہے کہ دین اسلام کے لئے ساری زندگی وقف ہے اور گھر میں بھی کبھی کمی محسوس نہیں ہونے دی۔ میں 18,17 سال کا تھا جب میں کینیڈا چلا گیا‘ مگر یہ شیخ الاسلام مدظلہ کی کرامت اور روحانی نظر ہے کہ انہوں نے وہاں بھی اپنی کمی محسوس نہیں ہونے دی، جب کبھی اداسی ہوتی شیخ الاسلام مدظلہ کا فون آجاتا۔ یہ میرا ذاتی تجربہ ہے کہ ہمارے عظیم والد اولاد کے ذاتی معاملات پر گہری نظر رکھتے ہیں اور رہنمائی فرماتے ہیں حالانکہ وہ دیگر کئی مشاغل میں مصروف ہوتے ہیں۔ ہم ان کا مقام و مرتبہ سمجھنے سے قاصر ہیں۔ ہمیں اللہ رب العزت سے دعا کرنی چاہئے کہ وہ ان کے مقام کے مطابق ان کا ادب اور احترام بجا لانے کی توفیق عطا فرمائے۔

مجلہ : شیخ الاسلام مدظلہ کن باتوں پر ناراضگی اور کن امور پر مسرت کا اظہار فرماتے ہیں؟

صاحبزادہ صاحب : آپ ناراضگی کا اظہار بہت کم فرماتے ہیں سب سے زیادہ اس وقت ناراض ہوتے ہیں جب کوئی جھوٹ بولتا ہے۔ آپ دینی معاملات پرسمجھوتہ نہیں فرماتے۔ بچے کی شرارتوں اور چھوٹی باتوں کو وہ نظر انداز کرتے ہیں۔ آپ فرماتے ہیں کہ کوئی غلطی کرے‘ تحریک میں ہو یا تحریک سے باہر کبھی ناراضگی نہیں ہوتی‘ اگر میں کبھی کبھار ڈانٹ دوں تو وہ اس کی تربیت کے لئے ہوتا ہے تاکہ اس کی اصلاح ہو جائے لیکن گر کوئی دل سے منافقت کرے اور اندازہ ہو جائے کہ یہ باطن سے مخلص نہیں توان چیزوں پر جلال کا اظہار ہوتا ہے‘ ورنہ وہ ہمیشہ یہ فرماتے ہیں کہ میں بھول چوک کو معاف کرتا ہوں‘ ناراض کسی سے نہیں ہوتا۔ آپ کو خوشی ایسی چیزوں سے ہوتی ہے کہ اگر آپ کسی شخص سے امید رکھیں کہ وہ فلاں کام ایسا کرے اور وہ شخص آپ کے کہنے سے پہلے ہی ویسے کر دے تو آپ بہت خوش ہوتے ہیں۔ اس سے جو آپ کو خوشی ملتی ہے وہ کسی اور شئے سے نہیں ہوتی۔

مجلہ : کوئی ایسا یادگار واقعہ یا تربیتی پہلو جو ہمیشہ کے لئے آپ کے لوح ذہن پر مرتسم ہو گیا ہو؟

صاحبزادہ صاحب : میں چھ‘ سات سال کا تھا سکول میں پڑھتا تھا ایک مرتبہ ایک ایسا واقعہ ہوا کہ گرمی کی وجہ سے مجھے پسینہ نہیں آتا تھا جس سے تکلیف ہوتی تھی‘ تو میں کئی بار ٹھنڈا پانی اوپر ڈال لیتا تھا‘ ٹھنڈا پانی لانے کے لئے دو‘ تین بار ڈرائیور کو کہا تھا لیکن وہ روز بھول جاتا۔ ایک دن میں نے تھوڑا اونچا کہہ دیا کہ روز میں آپ کو کہتا ہوں آپ بات کو سنتے ہی نہیں‘ اس نے آ کر والد گرامی قدر مدظلہ کو شکایت لگائی۔ حضور شیخ الاسلام مدظلہ نے مجھے سٹاف کے سامنے فرمایا کہ اس سے معافی مانگو‘ میں نے اس سے معافی مانگی‘ یہ ان کی تربیت کاانداز تھا کہ انہوں نے فرق نہیں کیا کہ یہ ہمارے ملازم ہیں‘ اس واقعہ میں ہمارے تحریکی لوگوں کے لئے بھی تربیت کا پہلو ہے جو تحریک کے قائدین ہیں‘ ان سے بھی یہی کہوں گا کہ ان کے پاس جو لوگ کام کرتے ہیں، چاہے صفائی کرنے والا ہی کیوں نہ ہو‘ وہ اس لئے کام نہیں کر رہے کہ اللہ رب العزت نے آپ کو بڑا بنا دیا ہے‘ ان کو چھوٹا بنا دیا ہے بلکہ اس کام سے اللہ رب العزت نے ان کا روزگار جوڑا ہے‘ باقی وہ بھی انسان ہیں ان کے اندر بھی خودداری‘ حمیت‘ غیرت اور عزت ہے‘ ان کو بھی اس کے تحفظ کا اتناہی حق حاصل ہے جتنا بڑی کرسی پر بیٹھے ہوئے شخص کو حاصل ہے‘ اس لئے ان کے ساتھ اونچی آواز میں بولنا، برے انداز میں ان کو بلانا‘ بلاوجہ غصہ کرنا غیر اخلاقی افعال ہیں۔ اگر کسی شخص کو اس بات پر اعتراض ہو کہ دس بار میں اس کو کوئی بات کہتا ہوں وہ سمجھتا ہی نہیں ہے‘ تو ایک سادہ سی بات ہے‘ اگر وہ اتنا سمجھدار ہوتا تو آپ کی کرسی پر ہوتا‘ اپنی مثال میں نے اس لئے سنائی کہ والدین کو اولاد کی تربیت اس انداز میں کرنی چاہئے۔

شیخ الاسلام مدظلہ کی تربیت کے انداز کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اگر 5 سال کا بچہ بھی سوال کرے تو اسے وہی واقعہ اسی انداز میں اتنا ہی وقت لگا کر سمجھائیں گے‘ جتنا کسی بڑے کو یہ بات گھر میں بھی ہمیں دیکھنے کو ملتی ہے‘ جسے دیکھ کر ہم خود بھی کوشش کر رہے ہیں کہ ہم ایساہی کریں۔ ایک بڑا آدمی بچے سے ایک منٹ بات کر کے اکتا جاتا ہے‘ لیکن شیخ الاسلام مدظلہ کی شخصیت دیکھ کر ہمیں بہت حیرانی ہوتی ہے جس سے وہ بچوں میں خود اعتمادی پیدا کرتے ہیں، بچے کے مشورے کو بھی اتنی ہی اہمیت دیتے ہیں جتنا کسی بڑے کے مشورے کو دیتے ہیں۔ جب میں 6,5 سال کاتھا‘ تب شیخ الاسلام مدظلہ ایک جگہ تشریف لے گئے جہاں ایک معمر بزرگ محترم شیخ سید معبود جیلانی رحمۃ اللہ علیہ صاحب سے ملاقات کی اور ان کی عمر اس وقت 166 سال تھی۔ جب آپ واپس تشریف لائے تو میں نے پوچھا کہ ملاقات کیسی رہی‘ میری عمر کم تھی‘ اب وہ چاہتے تو یہ بھی فرما سکتے تھے‘ اچھی رہی‘ نیک بزرگ تھے‘ لیکن آپ نے ایک ایک لفظ بتایا ان سے کیا کیا بات رہی‘ کتنی نمازیں ہم نے ایک ساتھ پڑھیں‘ کتنی بڑی شخصیت ہے؟ پھر انہوں نے یہاں تک بتایا کہ وہ بول سکتے تھے‘ سن نہیں سکتے تھے‘ ہم ان سے سوال لکھ کر کر رہے تھے اور وہ جواب بول کر دے رہے تھے۔ وہ اس چیز پر بیٹھے ہوئے تھے‘ وہ اٹھ کیسے رہے تھے‘ چل کیسے رہے تھے؟ میں نے دو تین سال پہلے سارا واقعہ آپ سے عرض کیا تو فرمانے لگے آپ کو وہ سارا کچھ ابھی تک یاد ہے۔ میں نے عرض کیا آپ نے اتنی تفصیل سے بتایا تھا‘ تو میں بھول کیسے سکتا تھا‘ یہ ہے تربیت۔ میں والدین کے لئے یہی کہوں گا‘ ہم کئی بار سمجھتے ہیں کہ بچے پر وقت ضائع ہوتا ہے۔ اس سے بات کر کے کیا فائدہ ہوگا۔ حالانکہ بچہ بات کو اپنے ذہن میں زیادہ بٹھاتا‘ سیکھتا اور یاد رکھتا ہے، وہ عمر بچے کی سب سے زیادہ سیکھنے کی ہے‘ والدین کو اس پر توجہ دینی چاہئے‘ یہ چیز بچوں کواعتماد دینے میں بڑا اہم کردار ادا کرتی ہے۔

مجلہ : تحریک منہاج القرآن کے مقاصد کیا ہیں؟ اور وہ اس میں کس حد تک کامیاب ہو چکی ہے؟

صاحبزادہ صاحب : تحریک منہاج القرآن کے مقاصد میں ہمیشہ سے دو چیزیں رہی ہیں‘ ایک دینی اقدار کا تحفظ‘ احیائے اسلام‘ عقائد اور تصوف کی تعلیمات جس سے لوگوں کی ظاہری و باطنی اصلاح ہو۔ دوسرا نظام کی تبدیلی‘ خواہ ملک پاکستان کے اندر ہو خواہ پورے عالم اسلام کے اندر ہو‘ کوئی علمی تجدیدی تحریک و قیادت ایسی نہیں سوائے تحریک منہاج القرآن کے جو ان دو مقاصد کو اکٹھا لے کر چل رہی ہو۔ جہاں تک عقائد کے تحفظ اور احیاء اسلام کا تعلق ہے‘ ان میں تو پہلے سے ہی تبدیلی رونما ہو چکی ہے‘ شیخ الاسلام مدظلہ کی تعلیمات، خطابات اور کتب کے ذریعے پوری دنیا کے اندر ایک نئی دنیا آباد ہو گئی ہے‘ ہزاروں‘ لاکھوں لوگوں کے ایمان محفوظ ہو گئے ہیں‘ کئی گمراہ نوجوان تائب ہو کر واپس اسلام کی طرف آ گئے ہیں‘ دنیا کے اندر میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کلچر کو بڑا فروغ ملا ہے‘ دوسرے عقائد کے لوگ بھی دیگر عنوانات کے ساتھ اس Event کو منا رہے ہیں‘ اغیار کے عقائد کی یلغارجس میں اہلسنت اتنے گم ہو گئے تھے‘ کہ ایسا لگتا تھا کہ دوبارہ نہیں اٹھ سکیں گے۔ اللہ تعالی کی مدد سے تحریک منہاج القرآن سے ایسا انقلاب بپا ہوا کہ اہلسنت آج سر اٹھا کر چل سکتے ہیں۔ دوسری چیز نظام کی تبدیلی ہے جس کے لئے کوششیں جاری ہیں۔ ضروری نہیں ہوتا کہ آپ ایک حکمت عملی (Strategy) کو اپنائیں اور آخرتک اسی کو جاری رکھیں، حکمت عملی بدلتی رہتی ہے لیکن منزل نہیں بدلتی۔ انسان کا کام آخری دم تک کوشش کرتے رہنا ہے۔ اللہ رب العزت جب کسی کوہمہ جہت ملی ذمہ داری سونپتا ہے تووہ تمام خطوط پر کام کرنا شروع کر دیتا ہے‘ اس کا کام آخر دم تک جتنی اللہ رب العزت نے اسے صلاحیت دی ہے اسے بروئے کار لانا ہے‘ باقی ثمر اللہ رب العزت نے دینا ہے۔ رب العزت جب چاہے گا تو اس ملک کی تقدیر کو بدلے گا۔ یہ اس کا کام ہے‘ انسان کا کام محنت اور کوشش کرتے رہنا ہے۔

کسی بھی سکے کے دو رخ ہوتے ہیں ایک یہ کہ آپ کے پاس Working models ہوں‘ دوسرا یہ کہ نفاذ کی طاقت ہو۔ آج اگر تحریک منہاج القرآن کے پاس نفاذکی طاقت نہیں ہے تو وہ دوسرا فریضہ پورا کر رہی ہے وہ اپنے کام پر آج بھی کار بند ہے اور ماڈل تیار کر کے قوم کو دے رہی ہے۔

تحریک منہاج القرآن Quantity پر یقین نہیں کرتی بلکہ Quality کی بات کرتی ہے۔ اسلام یہ نہیں کہتا کہ آپ ایک ہی رات میں بہت زیادہ عمل کر جائیں بلکہ اسلام اس عمل کو پسند کرتا ہے جو اگرچہ تھوڑا ہو مگر مسلسل کیاجائے‘ یعنی اسلام Quantity کی بجائے Quality چاہتا ہے۔ مستقل مزاجی معیار دے رہی ہے‘ ہمارے لوگ پریشان ہو جاتے ہیں‘ یہ بات ہمیشہ ذہن میں رکھیں‘ ایک وقت آئے گا جب ذاتی مفادات کی پجاری قیادتوں سے لوگوں کا اعتماد اٹھ جائے گا۔ پھر عوام متحد ہو کر ایک قیادت کو تلاش کریں گے ایک جھنڈے تلے جمع ہوں گے‘ اس وقت تک تحریک منہاج القرآن ایسے ماڈل تیار کر چکی ہو گی‘ شعور کی بیداری دے چکی ہو گی ایسی سوچ تیار ہو چکی ہو گی جو حالات کو سنبھال سکے‘ قوم کونئے مستقبل کے لئے راہ دکھا سکے۔ یہ انقلاب کے راستے ہیں‘ ہم بہت حد تک اپنے مقصد میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ یہ ایسی Achievements ہیں جو Life time چلتی رہتی ہیں‘ ہر اگلی منزل ایک نیا سفر شروع کر دیتی ہے‘ الحمد للہ ہماری قیادت، حکمت اور فہم وفراست کے ساتھ تحریک کو مشکل وقت سے نکال کر آگے لے جا رہی ہے۔ شیخ الاسلام مدظلہ اس وقت عالمی امن، محبت و یگانگت، اخوت و بھائی چارہ اور اتحاد و اتفاق کے دنیا بھر میں حقیقی داعی ہیں اور وہ اس کے ساتھ ساتھ اپنی ذمہ داریوں کو پہچانتے ہوئے دیگر کام بھی کر رہے ہیں۔

مجلہ : تحریک منہاج القرآن اور دیر تنظیموں کے کام کی کیا نوعیت ہے اور ان میں کیا بنیادی فرق ہے؟

صاحبزادہ صاحب : ہمارے لوگوں میں ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہم تحریک منہاج القرآن کو دوسری تنظیمات کے ساتھ موازنہ کرنا شروع کر دیتے ہیں حالانکہ ان کا تنظیمی ڈھانچہ اتنا مضبوط نہیں ہے۔ ان کی تعداد کو دیکھ کر ہم لوگ پریشان ہو جاتے ہیں کہ ان کا اجتماع اتنا زیادہ ہوگیا۔ ہمارے ذہن میں ابہام نہیں ہونا چاہئے وہ کچھ بھی نہیں ہیں جو کام ہم لوگ کر رہے ہیں، میں آپ سے Organizational Structure کی بات کر رہا ہوں کہ پوری دنیا میں ایسی Religion Oriented Organization نہیں ہے، جو تحریک منہاج القرآن کے Size of Organization کا مقابلہ کر سکے۔ ایک بات ذہن میں رکھیں کہ وہ لوگ کیا کر رہے ہیں وہ لوگوں کو چار سادہ باتیں بتاتے ہیں، جو نہ ان کی زندگی کو متاثر کرتی ہیں، نہ وہ نظام کی تبدیلی میں مداخلت کرتی ہیں، نہ ان کا کوئی بڑا سیاسی نعرہ ہے، نہ سوچ ہے نہ نظریہ ہے۔ نہ کوئی فکر ہے، چار سنتیں بتا کر ان کو ثواب کی ترغیب دیتے ہیں، یہ دین نہیں ہے، وہ دین کے ایک جز کو پکڑ کر بیٹھیں ہیں وہ بہت آسان کام کر رہے ہیں، جس پر آپ کروڑوں لوگوں کو اکٹھا کر سکتے ہیں کیونکہ اس سے نہ لوگوں کے نظریات متاثر ہو رہے ہیں اور نہ Affiliation متاثر ہو رہی ہے، نہ وہ لوگوں کو ایک خاص منزل کی طرف لے کر جا رہے ہیں، جن تحریکوں کو آپ موازنہ میں لے آتے ہیں، ان کا کام بس یہی ہے، تحریک منہاج القرآن دین کا جز نہیں بلکہ کل سکھاتی ہے، تحریک منہاج القرآن سنتوں کا ثواب نہیں بلکہ دنیا بدلنے کے لئے Efforts کر رہی ہے، آقا علیہ الصلوۃ والسلام کی سنت کے مطابق دین کے نفاذ اور اسلام کی سربلندی کے لئے Efforts کر رہی ہے۔ باقی جن تحریکوں کو آپ تحریک منہاج القرآن کے ساتھ ملاتے ہیں، وہ تنظیمات تو کسی بھی موازنہ میں نہیں ہیں۔ آج اسلام کو Unity چاہئے اسلام مختلف فرقوں کے اندر بٹا ہوا ہے، اسی تناظر میں شیخ الاسلام مدظلہ نے ہمیشہ اتحاد (Unity) کی آواز بلند کی ہے، پوری دنیا نے اس کو تسلیم بھی کیا ہے۔ اس کو بھی تجدیدی کام کہنا چاہئے جس کی آج اسلام کو ضرورت ہے۔ وہ اتحاد کے لئے ہر مسلک کو اس پلیٹ فارم پر جمع کر رہے ہیں، یہی وجہ ہے کہ آپ کو ہماری تحریک میں ہر عقیدے کے لوگ ملتے ہیں بڑے بڑے کٹر عقیدوں کے لوگ بھی ہمارے پلیٹ فارم پر آتے ہیں، شیخ الاسلام مدظلہ سے محبت کرتے ہیں، یہ ہماری تحریک کی زرخیزی ہے، جو ہر چیز کو اپنے اندر جذب کرلیتی ہے، یہ اتحاد کے لئے بہت بڑا کام ہے، اسی کو سفیر امن کے حوالے سے پوری دنیا میں مانا گیا ہے۔

مجلہ : ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کو شیخ الاسلام کا جو Title ملا اس کا پس منظر کیا ہے؟

صاحبزادہ صاحب : اسلام مذہب نہیں ہے بلکہ دین ہے، دین کے اندر شریعت، تصوف، ظاہر و باطن، دنیاوی اور اخروی نظام بھی ہے، دین ہر چیز کا احاطہ کئے ہوئے ہے، جب کسی کو شیخ الاسلام کا Title دیتے ہیں، اس کا مطلب ہے کہ وہ نہ صرف قرآن و حدیث پر گہری نظر رکھتا ہے ہو بلکہ فقہ، اسلامی ایجوکیشن Modren School of thought، دنیا اور ملک چلانے کے طریقے اور فلسفہ و ماڈرن سائنس پر بھی اتنی ہی گہری نظر رکھتا ہو۔

جب عرب کے مشائخ نے شیخ الاسلام مدظلہ کو سنا خصوصاً شام کے بڑے مشائخ نے آپ کے خطابات مختلف Issue پر سنے تو وہ کہنے لگے کہ آپ دوسرے امیر عبدالقادر الجزائری ہیں جو بہت بڑی شخصیت ہوئے ہیں، وہ ایسی شخصیت تھے جہاں جدید ریاستی امور پر ان کو دسترس حاصل تھی وہاں پر وہ اتحاد بین المسلمین کے علمبردار بھی تھے، عیسائی بھی ان کو اتنا ہی مانتے تھے جتنا کہ مسلمان اور گورے بھی ان کے پاس جا کر ان سے اپنے انتظامی معاملات پر سوال کر رہے ہوتے تھے۔ علماء، شریعت پر پوچھ رہے ہوتے تھے، وہ ان کی تشفی کرتے تھے۔ کئی علماء کرام نے شیخ الاسلام مدظلہ کو سن کر کہا کہ آپ اس دور کے شیخ الاسلام ہیں۔ اسی طرح مشائخ نے متفقہ طور پر ایک جگہ پر نہیں بلکہ کئی مقامات پر آپ کے اس انداز کو دیکھ کر کہ دین کا کوئی پہلو ایسا نہیں جن پر آپ کی کامل نظر نہ ہو شیخ الاسلام کہہ کر پکارا۔ پاکستان میں تو علماء کرام کے اندر پیشہ وارانہ اتنا زیادہ حسد ہے کہ وہ کسی کو تسلیم ہی نہیں کرتے جبکہ دیگر ممالک میں ایسا نہیں ہے جو بڑا ہوتا ہے اس کو بڑا مان لیا جاتا ہے۔ عرب ممالک کے شیوخ نے کئی مقامات پر متفقہ طور پر شیخ الاسلام کا لقب دیا اور آوازۂ خلق کو نقارہ خدا سمجھیں، اللہ کی منشا ہوتی ہے کہ کسی کو کیا لقب دے تو وہ لقب، زبان خلق پر آجاتا ہے، اگر کسی کو اعتراض ہو تو اس کو کہیں کہ ان کی خصوصیات کو آپ Challenge کر لیں جب کوئی Challenge نہیں کر سکتا تو پھر وہ Title کو کیسے Challenge کر سکتا ہے؟

مجلہ : آخر میں آپ ماہنامہ دختران اسلام کے قارئین کو کیا پیغام دینا چاہیں گے؟

صاحبزادہ صاحب : میں قارئین کو یہ کہنا چاہوں گا اگر وہ نوجوان ہیں تو محنت کریں‘ علم حاصل کرنے میں زیادہ سے زیادہ وقت صرف کریں۔ آج مسلمانوں کو جو برے حالات درپیش ہیں۔ اس کا حل یہی ہے‘ جس ملک میں مسلمان سائنسدانوں کے نام ڈھونڈنے سے نہیں ملتے۔ وہاں سینکڑوں سکالرز‘ سائنسدان‘ اکنامسٹ‘ ڈاکٹرز مسلمانوں کے نام جب نظر آئیں گے تو پاکستان کا مستقبل اور اسلام کا مستقبل روشن ہو گا۔ ایک نئی راہ نظر آئے گی۔ اس وقت مسلمانوں کو ہمت ہارنے کی ضرورت نہیں ہے۔ تصوف انسان کی زندگی کا حصہ ہے‘ وہ زندگی کے ساتھ رہنا چاہئے بلکہ تصوف انسان کے علم کو علم نافع بناتا ہے‘ مگر اس کے ساتھ اس طرح گم ہونا کہ علم کی رغبت کو چھوڑ ا جائے آج کی ضرورت نہیں ہے بلکہ آج اپنی پہچان بنانی چاہئے۔ شیخ الاسلام مدظلہ سے محبت کرتے ہیں تو ان سے خالی محبت کافی نہیں بلکہ اس کے ساتھ ان کی شخصیت‘ فرمودات‘ تعلیمات اور ان کے انداز فکر کو ہمیشہ مد نظر رکھنا چاہئے۔ دوسرا پیغام جو ہر ایک کے لئے ہے وہ یہ ہے کہ آج ہمیں وسیع القلبی (open mind) کی ضرورت ہے۔ آج ہمیں تالاب سے نکل کر سمندر میں جانا چاہئے‘ کیونکہ دنیا سمندر ہے اس میں تنہائی سے کام نہیں چلے گا۔ اپنے مذہب‘ اپنے اصول و ضوابط اپنی اقدار کا تحفظ کرتے ہوئے اس کو اپنے ساتھ قائم و دائم رکھنا چاہئے۔ دنیا کے معاملات، اس کی approach، اس کے طریقہ کار کو سمجھیں کیونکہ مقابلہ آپ نے ان سے کرنا ہے۔ آپ الگ ہو کر نہیں چل سکتے۔ اگر آپ اپنے Subject میں ماہر ہو جاتے ہیں اور باقی دنیا کی آپ کو کوئی خبر نہیں تو پھر کیسے مقابلہ کریں گے؟ اس کے لئے آپ کو Up to date ہونا چاہئے‘ اچھے Vision کے ساتھ اپنی Field میں ماہر ہونا چاہئے۔ تیسرا پیغام تحریک کے وابستگان کے لئے ہے سب سے اہم بات جس کو وہ ہمیشہ ذہن میں رکھیں‘ شیخ اور قائد سے محبت کواول درجے پر رکھیں‘ قائد کی محبت کے بغیر تحریک نہیں چل سکتی۔ اگر کوئی اپنے آپ کو تحریکی کہتا ہے اور قائد سے اندھی محبت نہیں کرتا۔ اس کے اندر کمی ہے‘ اگر کوئی کہتا ہے کہ وہ تحریکی ہے اور قائد کے Issue کو تنقیدی نظرسے دیکھتا ہے تو یہ تحریک کے اندر وہابیت ہے کیونکہ وہ آقا علیہ الصلوۃ والسلام کی محبت کو پیچھے چھوڑ کر دین کے زیادہ ذمہ دار بن جاتے ہیں لہذا اگر تحریک کے اندر کوئی ایسی سوچ کا حامل ہے تو وہ تحریکی وہابی ہے۔ ہمیشہ شیخ سے اندھی محبت کو فوقیت دیں۔ اس حوالے سے جہاں ہم اللہ کا شکر ادا کریں وہاں ہم دعا بھی کریں کہ آخری دم تک ہمیں ہمارے قائد کی سنگت میں رکھے اور اس پر استقامت کی توفیق عطا فرمائے تاکہ ان کے فرمودات اور ارشادات کے مطابق ہم اپنی زندگی کو آگے لے کر چلتے رہیں۔