شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کا تصور امن عالم اور عدل اجتماعی

صاحبزادہ مسکین فیض الرحمن درانی

مرکزی امیر تحریک منہاج القرآن

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کا شمار بلاشبہ ان چند گنے چنے سرکردہ عالمی راہنماؤں میں ہوتا ہے‘ جو بلاتفریق رنگ و نسل قوم ومذہب‘ محدود مسلکی‘ گروہی‘ لسانی اور علاقائی امتیاز‘ پوری نوع انسانی کے لئے دائمی امن اور سلامتی کے فروغ کے لئے سرگرم عمل ہیں‘ اس بلند پایہ مقصد کے حصول کے لئے وہ بین المذاہب ہم آہنگی اسلامی رواداری اور غیر مسلموں کے ساتھ مکالمہ کے لئے ہمہ وقت کوشاں رہتے ہیں۔ مقصد کے ساتھ خلوص اور صداقت کی وجہ سے وہ اپنے مشن میں کافی حد تک کامیاب بھی ہیں‘ ملک عزیز پاکستان کے علاوہ دنیا کے کم و بیش نوے ممالک کے وسیع حلقوں میں قیام امن اور بقائے باہمی کے لئے ان کی کاوشوں کو سراہا جاتا ہے‘ امن عالم اور عدل اجتماعی کا قیام ان کی تحریک منہاج القرآن کے بنیادی مقاصد میں شامل ہیں‘ سیاسی پلیٹ فارم پر ان کی قائم کردہ پاکستان عوامی تحریک بھی فروغ تعلیم اور مختلف مسالک و مذاہب کے درمیان باہمی مفاہمت اور ہم آہنگی کی فضا قائم کرنے میں موثر کردار ادا کر رہی ہے۔ کسی تحریک کے مقاصد کا اندازہ اس کے بانی اور قائد کے عمل وکردار اور تحریر و تقریر سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی اٹھاون سالہ زندگی اس پر شاہد عادل ہے کہ بچپن سے لے کر جوانی تک ان کی تگ و دو اور مساعی کا مقصد اولیٰ بنی نوع انسان کے لئے امن و سلامتی کی تلاش رہا ہے۔

انسانی زندگی کے عملی مسائل‘ انسان کی انفرادی و اجتماعی زندگی کا معیار کمال‘ اخلاق عالیہ‘ تزکیہ نفس‘ تصفیہ باطن‘ اصلاح احوال اور انسانی اجتماعی روابط پر شیخ الاسلام ڈاکٹر محمدطاہر القادری کی سینکڑوں کتب اور ہزاروں کیسٹس اور سی ڈیز کے موضوعات کا مرکزی خیال روئے زمین کے ہر انسان کے لئے امن‘ سلامتی اور سکون کا وہ ماحول میسر کرنا ہے کہ جس کے اندر کام کر کے ہر انسان ایک ایسا روحانی الذہن معاشرہ قائم کرنے میں ممد و معاون ہو‘ جو عدل اجتماعی کی اساس پر قائم ہو‘ وہ عدل اجتماعی کہ جس کے مشاہدہ کے لئے رب کائنات اپنے بندوں کو آفاق و انفس پر غور و فکر کی دعوت دیتا ہے۔ امن عالم اور اجتماعی عدل کے موضوع پر وسیع مطالعہ کے لئے شیخ الاسلام مدظلہ کی معرکۃ الآرا کتب؛ اسلامی فلسفہ زندگی‘ اسلام میں انسانی حقوق‘ روح تصوف‘ اسلام اور جدید سائنس‘ انسان اور کائنات کی تخلیق اور ارتقاء‘ لفظ رب العالمین کی علمی اور سائنسی تحقیق‘ حسن اعمال‘ حسن احوال‘ حسن اخلاق اور فساد قلب اور اس کا علاج‘ قارئین کی دلچسپی کا باعث ہوں گی۔

رب العالمین کے تخلیق کردہ ہر سیارے‘ ستارے‘ نیبولے اور کہکشاں کے ذرے ذرے (Atoms) اور ہر انسان کے اندر اربوں‘ کھربوں خلیوں (Cells)‘ جینز (Genes) اور نیوکلوٹائیڈ ز (Nucleotides) کے اندر عدل اجتماعی کا ایک مربوط نظام کارفرما ہے‘ اللہ سبحانہ و تعالی کے حکم کے بغیر کوئی خورد بینی ذرہ بھی پاس والے ذرے سے متصادم نہیں ہوتا‘ لہذا ہر طرف سکون‘ سلامتی اور امن ہے۔ اسی طرح روئے زمین پر بسنے والے انسان بھی اگراس عدل اجتماعی کا راز پا لیں‘ تو ان کی زندگی بھی امن‘ سلامتی اور خوشیوں کا گہوارہ بن سکتی ہے۔

انسان کے اندر فطرۃ بالقوۃ اور بالفعل (Potential and actual nature) کے جبلّی داعیات (Instincts) کی طرح امن (Peace) بھی رحمت خداوندی کا ایک طبعی داعیہ ہے‘ جس کا فیض ایک انسان سے دوسرے انسان اور لاکھوں کروڑوں انسانوں تک پھیلنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اور جس کی مناسب نشوونما اور ترقی سے امن عالم کا خواب شرمندئہ تعبیر ہو سکتا ہے‘ لیکن ابلیس کے نرغے میں گرفتار‘ بدکار اور کمزورانسانوں پر نفسانی اور شہوانی خواہشات اور بدی کے تقاضے اس حد تک غالب ہیں‘ اور امن‘ چین‘ سکون‘ سلامتی اور نجات (Salvation) کے داعیات اس قدر مغلوب اور تابع کہ دنیا میں بدی‘ ناانصافی‘ فساد اور بدامنی کا دور دورہ ہے‘ موجودہ حالات امن عالم کو تباہی سے دوچار کر رہے ہیں۔ دریں حالات رب کائنات سے محبت کرنے والے اطاعت گزار‘ متقی‘ پرہیزگار اور عدل اجتماعی پر یقین رکھنے والے افراد‘ حکومت الہیہ‘ عدل اجتماعی اور امن عالم کے قیام کے لئے انسانوں کی اصلاح احوال اور مختلف اصلاحی‘ رفاہی اور علمی سطح کا کام کرنے اور عوام الناس کو خیر کی طرف آنے کی دعوت دیتے ہیں۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے افکار اور تعلیمات کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ امن عالم اور عدل اجتماعی کے قیام سے ان کا مقصودوہ ’’فرد‘‘ ہے جس کی انفرادی زندگی کا نصب العین ’’اخلاقی کمال‘‘ اور رضائے الہی کا حصول ہے‘ تزکیہ نفس کا طریق کار عدل اور احسان ہے‘ جس کی عملی اساس عمل انفاق ہے جو بنائے تزکیہ ہے‘ وہ’’ انفاق فی المال‘‘ کو اصل نیکی‘ تقویٰ‘ تصدیق دین اور ترک انفاق کوتکذیب دین سمجھتاہے‘ اس کے نزدیک امن عالم اور عدل اجتماعی کی جدوجہد کا نمونہ کمال ذات مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع ہے‘ وہ نمونہ کمال کے معیارکواسوہ صحابہ رضی اللہ عنہم میں دیکھتا ہے۔ جن کی اجتماعی اور قومی زندگی کا نصب العین ذات مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے غیر مشروط دائمی وفاداری اور شدید محبت ہے‘ وہ ایتائے حقوق اور ادائیگی فرائض کو مطالبہ حقوق پر مقدم سمجھتا ہے‘ وہ موجبات خوف وغم کے ازالہ اور غلبہ حق کی خاطر باطل قوتوں کے خلاف غیر مصالحانہ جنگ کے عزم سے سرشار ہے‘ وہ قرآن و سنت کے فکری اور نظریاتی وحدت کے تصور پر مبنی اجتماعی اور قومی وحدت کے قیام پر یقین رکھتا ہے۔ تحریک منہاج القرآن یہ ’’افراد‘‘ پیدا کرنے کی جدوجہد میں مصروف ہے۔

شیخ الاسلام مدظلہ کی تعلیمات میں نظریہ کائنات یعنی آفاق وانفس‘ حیات اور انسان میں کار فرما عدل اجتماعی کے مطالعہ کو بنیادی اہمیت حاصل ہے‘ ان کے مطابق اسلامی عدل اجتماعی کی تمام فروعات اور جزئیات کا مآخذ قرآنی نظریہ کائنات ہے‘ جس کے تحت عملی پالیسیوں کی تشکیل ضروری ہے‘ وہ سمجھتے ہیں کہ آئے دن قرآن و سنت سے انحراف پر مبنی قومی پالیسیاں بنانا‘ امن عالم اور اسلامی عدل اجتماعی کے منافی ہیں۔ اسلامی عدل اجتماعی ایک کامل فکر اور فلسفہ ہے‘ جس کا صحیح فہم‘ اسلامی قوانین‘ قواعد اور ضوابط میں پنہاں حقیقت کو سمجھنے میں ممد و معاون ہوتا ہے۔ عوام الناس کو اسلامی عدل اجتماعی کی برکات و فیوضات سے حقیقی معنوں میں بہرہ ور کرانے کے لئے ضروری ہے کہ قرآن و سنت کی روشنی میں مختلف قانون ساز اداروں سے وابستہ افراد اس طرح روحانی الذہن ہوں کہ وہ نظریہ کائنات اور عدل اجتماعی میں پورا ذوق و شوق اور کامل انہماک رکھتے ہوں۔ وہ اسلام کو مکمل نظام زندگی مانتے ہوئے قانون سازی کے اہل ہوں اور قرآن حکیم کی سورہ نساء کی آیت نمبر 58 اور 59 میں اللہ سبحانہ و تعالی کے حکم کے مطابق عمل پیرا ہوں۔

اللہ تعالی کا ارشاد ہے۔ ’’(اے مسلمانو!) بے شک اللہ سبحانہ تم کو حکم دیتا ہے کہ تم (ہرقسم کی) امانتیں ان لوگوں کے سپرد کر دو‘ جو ان کے اہل اور حقدار ہیں اور (اے حاکمو!) جب تم لوگوں کے درمیان فیصلے کرو تو عدل اور انصاف سے کرو۔ بیشک اللہ سبحانہ و تعالی تمہیں کیا ہی خوب نصیحت فرماتا ہے‘ بیشک اللہ سبحانہ و تعالی سنتا دیکھتا ہے (عدل اجتماعی میں سماعت اور بصارت دونوں کا دخل ہے) اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کرو اور جو تم میں سے مناصب حکومت پر فائز ہیں (فرائض میں اللہ سبحانہ کی اطاعت‘ سنت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت اور صاحبان امر؛ خلفائے اربعہ رضی اللہ عنہم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی پیروی کرنے والے ارباب عقل ودانش کی اطاعت واجب ہے) پس اگر تمہارے درمیان (یعنی تمہارے اور حکام کے درمیان) کسی بات پر نزاع ہو جائے تو اسے اللہ سبحانہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف حتمی فیصلہ کے لئے لوٹا دو۔ اگر تم اللہ سبحانہ اور قیامت پر ایمان رکھتے ہو تو یہ بہتر ہے اور اس کا انجام سب سے بہتر ہے۔‘‘

لازمی ہے کہ قانون سازی کرنے والے افراد عدل اور احسان کے درمیان کم ازکم اس لطیف فرق کو سمجھنے کے اہل ہوں۔ یاد رہے جس قدر دینا فرض ہو‘ اسی قدر دینے اور جس قدر لینا ہو اسی قدر لینے کو عدل اورجس قدر دینا فرض ہو‘ اس سے زیادہ دینے اور جس قدر لینا حق ہو‘ اس سے کم لینے کو احسان کہتے ہیں۔

شیخ الاسلام مدظلہ کی رائے میں عدل و احسان کا مذکورہ معیار کم سے کم حد پر مبنی ہے‘ کیونکہ اس کا توحکم دیا جا رہا ہے اور حکم اس واجب التعمیل امر کا نام ہے جس کا ترک گناہ ہو‘ اگر یہ کم سے کم عدل اور احسان بھی نہ ہو‘ تو انسان گناہ گار ہو جائے گا‘ لہذا احسان کا یہ مفہوم جو اہل ایمان کیلئے درجہ فرض میں ہے اسے ’’مطلق احسان‘‘ سے تعبیر کیا جاتاہے اور ’’کمال احسان‘‘ یہ ہے کہ انسان اپنا سارا کا سارا حق دوسروں کیلئے قربان کرے۔ جب معاشرے میں عدل اور احسان کا اطلاق اس صورت ہونے لگے‘ تو امن اور اجتماعی عدل خود بخود قائم ہو جاتاہے۔ اسلام کے پاس اپنا حقیقی اور مکمل فکر موجود ہے۔ اس کے فکری مآخذ قرآن حکیم‘ حدیث نبوی‘ سیرۃ الرسول اور اسوئہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے جو عبادات اور زندگی کے جملہ معاملات کو محیط ہیں۔ اسلامی عدل اجتماعی خالق و مخلوق‘ کائنات‘ حیات‘ انسان کی انفرادی زندگی‘ اجتماعی اور قومی زندگی‘ ریاست‘ بین الاقوامی زندگی‘ موجودہ اور آئندہ نسلوں کے باہمی تعلقات کی بحالی کا ضامن ہے وہ اس کی بنیاد اپنے اصولی موقف اور تفصیلی نظریات کی جامع اور ہمہ گیر فکر پر رکھتا ہے۔

روئے زمین پر بنی نوع انسان کی سلامتی اور اجتماعی امن کیلئے خالق انسان سبحانہ کا پسندیدہ نظام زندگی‘ اِنَّ الدِّيْنَ عِنْدَ اللّٰهِ الْاِسْلَام کے مصداق اسلام ہے جو انسان کے بنائے ہوئے نظاموں کے برعکس عادلانہ نظام ہے‘ عدل مختلف المعانی ہے‘ ظلم کے مقابلے میں انصاف اور فسق و فجور کے مقابلے میں تقویٰ ہوتا ہے‘ یہ عصمت اور عدالت کے معنی میں بھی مستعمل ہے‘ دوسروں کے حقوق ادا کرنا اور اپنے حقوق کا لینا عدل ہے‘ عدل افراط اور تفریط کی درمیانی حالت ہے۔ اللہ تعالی کے عدل کی تکوینی صفت کا اظہار تمام کائنات میں ہے۔ نظم کائنات کی ترکیب‘ اجزائ‘ حرکت اور سکون سے عدل ظاہر ہے‘ پورے نظم کائنات (COSMOS) میں خرابی اور بدنظمی کا شائبہ تک نہیں ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے۔

وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ صِدْقًا وَعَدْلاً لاَّ مُبَدِّلَ لِكَلِمَاتِهِ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُO

(الانعام : 115)

’’اور آپ کے رب کی بات سچائی اور عدل کی رُو سے پوری ہو چکی، اس کی باتوں کو کوئی بدلنے والا نہیں، اور وہ خوب سننے والا خوب جاننے والا ہےo‘‘

اپنی وسعت کے اعتبار سے حیات کے کئی پہلو ہیں‘ اس لئے عدل بھی متنوع المظاہر ہے‘ انفرادی‘ اجتماعی‘ قومی اور بین الاقوامی زندگی میں عدل کی مختلف تعبیرات ہیں‘ اجتماعی عدل میں معاشی‘ اقتصادی‘ معاشرتی‘ اخلاقی اور قانونی وغیرہ سب پہلو شامل ہوتے ہیں۔ قرآن حکیم اور اسوہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اس کی عدیم النظیر مثالیں موجود ہیں جو مقلدین کے لئے نمونہ کمال ہیں۔ زمانے کے ہر دور میں انسان کو دنیا میں امن سے رہنے کی فطری خواہش رہی ہے‘ امن‘ انصاف اور عدل سے پیدا ہوتا ہے‘ اللہ سبحانہ و تعالی کے فیض سے آفاق و انفس کے ذرہ ذرہ میں ایک بے مثل اور لاجواب عدل اجتماعی قائم ہے‘ جب تک اللہ سبحانہ و تعالی کی منشا نہ ہو ان کا آپس میں ٹکراؤ ممکن نہیں‘ پورے نظام کائنات میں اللہ سبحانہ کی مرضی کے مطابق ہر سیارہ اور ستارہ اپنے مدار میں حرکت کر رہا ہے۔ ہر شئے اس منہاج السوی پر عمل پیرا ہے جس کا حکم رب کائنات نے دیا ہے‘ سب کے لئے ایک جیسا قانون‘ ایک پیمانہ اور ایک ڈگر ہے‘ سب ایک ہی مستقر کی جانب رواں دواں ہیں۔ امن عالم تو درکنار یہ تو پوری کائنات کے لئے امن اور عدل اجتماعی کا عملی مظاہرہ ہے جو ہر مخلوق دکھا رہی ہے‘ ماسوائے انسان کے جس کو ارادہ اور اختیار دیاگیاہے‘ اللہ تعالی جل شانہ کا ارشاد ہے‘ عنقریب ہم انسان کو نفس انسان کے اندر اور خارج کی دنیا میں اپنے نشانات دکھائیں گے۔ آفاق وانفس کے ہر ذرہ (Atom) میں موجود توازن واعتدال کتنی بڑی نشانی ہے‘ سب مرئی اور غیر مرئی ذرات اپنے خالق کے حکم کے مطابق ایک دوسرے کے ساتھ اجتماعی عدل اور امن کی زندگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ آفاق و انفس کے جزو کی حیثیت سے اسی اجتماعی عدل اور امن کی خواہش انسان کا فطری تقاضا ہے۔ قانون فطرت کے اتباع میں قرآن اور سنت نے اسلامی طرز حیات کے لئے قواعد و ضوابط کا تعین کیا ہے۔ خالق کائنات کا یہی امر اسلامی تعلیم‘ تفکیر‘ تدبیر اور تعمیل کی اساس ہے۔ یہی منہاج القرآن‘ منہاج السوی اور صراط مستقیم ہے۔ سواء السبیل (Detraction) سے بچنے کے لئے اللہ سبحانہ و تعالی کی بارگاہ میں طلب ہدایت کے تین اہم مدارج کا ذکر کرتے ہوئے شیخ الاسلام ارشاد فرماتے ہیں کہ سالک یعنی اللہ سبحانہ کی رضا کی منزل کے طالب مسافر کیلئے ضروری ہے کہ اپنے قلب مضطر سے ’’اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ‘‘ کی صدائے شوق بلند کرتے وقت طلب ہدایت کے تین تقاضوں کو قلب و ذہن میں مستحضر رکھے کہ ان سے بے شعوری طلب صادق کی راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ ہوتی ہے : ۔

1۔ عرفان الغایۃ یعنی مقصد اور نصب العین کا شعور اور معرفت۔
2۔ ارائۃ الطریق یعنی صحیح راستہ دکھانا جس کے ذریعے منزل تک پہنچنا یقینی ہو۔
3۔ ایصال الی المطلوب یعنی منزل مقصود تک پہنچا دینا تاکہ گمراہی کا کوئی امکان باقی نہ رہے۔

امن عالم کے بارے میں شیخ الاسلام مدظلہ کی تعلیمات کی روشنی میں جب ہم دنیا کے حالات کا جائزہ لیتے ہیں تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہر دور میں انسان کو جب دنیا میں امن کی خواہش اور تلاش رہی ہے تو پھر وہ امن قائم کیوں نہیں ہو جاتا اور ہر طرف بدامنی کا دور دورہ کیوں ہے؟ امن ؛ عدل اجتماعی سے قائم ہوتا ہے‘ جس کا انحصار انسان کے فرائض کی ادائیگی اور ایتائے حقوق کے نظام کے قیام پر ہے۔ معاشرے کے افراد ایسے پاک اور صاف ذہن والے ہوں کہ دنیا میں زندگی بسر کرنے کے لئے ان کی تمام تر جدوجہد محض رضائے الہی کی جستجو کیلئے ہو اوران کے اعمال کی بنیاد مطالبہ حقوق کی بجائے ایتائے حقوق پر ہو‘ تاکہ معاشرے کا کوئی فرد بھی ناانصافی اور محرومی کا شکار نہ ہو‘ ان کی دوستی اور دشمنی اللہ کے احکام کی تعمیل کے لئے ہو‘ انسان کے اخلاقی کمال کا معیار رضائے الہی کا حصول ہو‘ جب ایسے معاشرے کا قیام عمل میں آئے گا‘ تو ظاہر ہے ہر شخص اس عدل اجتماعی کے تحت امن اور سلامتی سے رہے گا۔

بدقسمتی سے دنیا کے تمام غیر اسلامی معاشرے ’’مطالبہ حقوق‘‘ (Demand of rights) کے تصور پر قائم ہیں۔ جیسے اشتمالی اور اشتراکی فلسفہ حیات؛ یعنی اجتماعی حقوق کا مطالبہ اور سرمایہ دارانہ معاشرے کا فلسفہ یعنی انفرادی حقوق کا مطالبہ اور دیگر دنیاوی فلسفہ ہائے معیشت و معاشرت باہم متغایر اور جدا جدا ہونے کے باعث ہر وقت ایک دوسرے سے متصادم رہتے ہیں‘ جس کے نتیجے میں ساڑھے پانچ ارب آبادی و الی دنیا میں امن اور عدل اجتماعی نام کی کوئی شئے موجود نہیں‘ ہر شخص کے اندر عدم تحفظ کا شدید احساس ہے‘ کوئی شخص کسی دوسرے شخص کے حقوق کی حفاظت اور اس کو کماحقہ پورا کرنے کا روا دار ہے اور نہ اپنے آپ کو ذمہ دار سمجھتا ہے‘ انسانی زندگی کے ہر شعبہ ؛ معاشی‘ اقتصادی‘ معاشرتی‘ اخلاقی‘ علمی‘ سیاسی‘ عمرانی‘ عسکری غرض کہ ہر طبقہ و خیال کے افراد مادی الذہن ہیں اور دجل و فریب سے ایک دوسرے کا استحصال کرنے میں مصروف ہیں‘ تاریخ گواہ ہے کہ انسان نے تہذیب انسانی کو پروان چڑھانے اور مادی ترقی کے لئے کوشش کی ہے‘ لیکن بدقسمتی سے اس کی تمامتر کوششیں اپنے ذاتی مفاد یا محدود گروہ کے مفادات کے گرد گھومتی ہیں‘ انسان کا کردار عدل اجتماعی اور روحانی الذہن افراد کی نشوونما اور بدامنی‘ دجل و فریب اور دہشت گردی سے پاک معاشرے کے قیام کے لئے کبھی بھی مثالی نہیں رہا‘ ماسوائے ان افراد اور اقوام کے کہ جنہوں نے صدق دل اور خلوص نیت سے پیغمبرانہ ہدایت کی پیروی کی‘ احترام و تکریم انسانیت کے احساس کے ساتھ عدل اجتماعی کانظام قائم کیا‘ امن عالم کے لئے کو ششیں کیں اور آمرانہ شخصی حکومت کی بجائے خلافت الہیہ قائم کی۔

بحمد اللہ تعالی تاریخ عالم میں عدل اجتماعی اور امن عالم کے تصور پر مبنی خلفائے راشدین کی اسلامی خلافت تھی جس کی مثال تاریخ میں نہ پہلے تھی نہ اب ہے اور نہ موجودہ اشتمالی‘ اشتراکی اور سرمایہ دارانہ نظام ہائے حیات میں ممکن ہوگی۔ دنیا بھر میں امن عالم اور عدل اجتماعی کے لئے ایک شور بپا ہے۔ بزعم خود ہر دانشور‘ ہر تھنک ٹینک ادارہ اور قوم یہ سمجھتی ہے کہ انکا منشور حیات‘ تہذیب و تمدن اور کلچر دنیا کو امن دینے کا واحد ضامن ہے‘ اور و ہی سب سے اعلیٰ ذہنیت‘ سوچ اور فکر کے حامل‘ ترقی یافتہ‘ اور طاقتور قوم ہے‘ اوراسی کے زیرنگیں ہو جانے سے امن عالم قائم ہو جائے گا‘ لیکن یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ جیسے جیسے علمی‘ معاشرتی‘ معاشی‘ اقتصادی اور سیاسی اعتبار سے یہ لوگ ترقی کی منزلیں طے کر رہے ہیں‘ ان میں اپنے سرمائے‘ علم‘ سائنس‘ ٹیکنالوجی کی طاقت اور سیاسی غلبہ کے بل بوتے پر دوسروں کو مغلوب کرنے کی خواہش بڑھتی جا رہی ہے۔ اپنے غلبہ کی اس شدید خواہش کو پورا کرنے کے لئے اگر غور سے دیکھا جائے تو ہر قوم دوسری قوم کے بارے میں شک و شبہ اور بدگمانی کا شکار ہے‘ مختلف اقوام و ملل ایک دوسرے سے باہمی تعلقات اور روابط کا تعین بھی تشکیک اور شبہات کی اوٹ میں کرتے ہیں۔ اپنے معاشی اور اقتصادی مفادات کے تحفظ کا تصوربھی انسانوں اوراقوام کے درمیان نفرتوں کی خلیج وسیع کر رہا ہے‘ ہر قوم اپنے انفرادی و اجتماعی مفادات کے تحفظ کو یقینی بنا کر دوسروں سے تعلقات قائم کرتی ہے‘ قوموں کی ترقی‘ سربلندی اور قوت کا اندازہ بھی ملّی اور قومی اخلاق کی بجائے زیادہ سے زیادہ تباہ کاری کے آلات و اسباب کا ذخیرہ کرنے‘ مہلک ترین ہتھیاروں کی صنعت میں ترقی اور دیگر اقوام کے ذرائع معیشت پر قبضہ کرنے کی صلاحیت سے لگایا جاتا ہے‘ اسی سبب سے موجودہ دور میں ساری دنیا کو بالعموم اور اسلامی ممالک کو بالخصوص سنگین مصائب و آلام‘ صبر آزما شدائد ونواہب اور حوصلہ فرسا خطرات کا شکار بنایا جا رہا ہے‘ مصائب‘ اضطراب‘ پریشانی اور ہلاکت و بربادی کا ایک سیلاب ہے‘ جو پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے‘ امت مسلمہ اس وقت طاغوتی طاقتوں کا سب سے بڑا ہدف ہے‘ جو امن عالم کے لئے سخت خطرے کا باعث ہے‘ آج کل اسلامی ممالک اور خاص کر ملک عزیز پاکستان میں جس تیزی سے حالات تبدیل ہو رہے ہیں۔ ان سے ہر مسلمان اورپاکستانی اپنی وسعت فکر و نظر اور فہم و استعداد کے مطابق واقف ہے۔

مختصراً کہا جا سکتا ہے کہ یوں تو گزشتہ ادوار میں بھی مسلمانوں پر سخت ایام آتے رہے اور ان کے لئے کرب و بلا کے معرکے برپا ہوتے رہے لیکن دور حاضر مسلمانان عالم کیلئے بالعموم اور پاکستان کے لئے بالخصوص سب سے زیادہ خطرناک اور ہلاکت آفرین ہے۔ مادیت‘ اشراقیت‘ متنبیت اور معروضیت کا ایک سیل بلاخیز ہے‘ جس نے چاروں طرف سے مسلمانوں اور خاص طور پر اس کی نوجوان نسل کو بری طرح اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ نوجوان نسل کے قلوب و اذہان کی تباہی میں سب سے خطرناک کردار لادینی‘ گھریلو اور تعلیمی ماحول‘ والدین اور اساتذہ کی اخلاقی کجروی‘ ملکی سیاسی حالات‘ سیاستدان اور حکمرانوں کا کھلے عام بے حیائی اور فحاشی کے مراکز کی حوصلہ افزائی‘ ملکی اور غیرملکی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا جو کردار ادا کر رہے‘ اس کی وجہ سے نوجوانان ملت کی کثیر تعداد انفرادی اور اجتماعی زندگی میں عریانی‘ فحاشی اور بے حیائی کے طوفان کی زد میں آ چکی ہے۔ تھوڑے بہت نوجوان جو ابلیسی اثرات سے تاحال قدرے محفوظ ہیں‘ اس کی وجہ ان کی خاندانی روایات یا اسلامی اداروں کے ساتھ وابستگی ہے۔ تاہم مجموعی طور پر صورتحال نہایت سنگین ہے‘ جو زعماء ملت اور مفکرین اسلام کے لئے ایک لمحہ فکریہ ہے‘ شومئی قسمت کہ اس اہم مسئلہ پر اب تک عالم اسلام میں کوئی خاص پیشرفت نہیں ہو سکی اور نہ ہی ملک عزیز پاکستان میں‘ جس کو اسلام کا گڑھ کہا جاتا ہے‘ کچھ احباب فہم و ذکاء نے اس سنگین مسئلہ پر اگر غور و فکر کرنے کی کوشش بھی کی ہے‘ توشومئی قسمت سے انہوں نے بھی منہج قرآن و سنت اور اسلام کے خلاف عالمی صہیونی سازشوں سے اغماض کر کے اپنی معلومات‘ ذاتی رائے‘ فکر (Mind Set) اور اپنے مذاق کو معیار بنا کر ایسا جزوی حل قوم کے سامنے پیش کیا اوراس پر ایسا قطعی حکم لگا دیا ہے کہ اگر کوئی شخص اس سے سرمو اختلاف کرے تو اس کی بات پر عمل درکنار‘ وہ سماعت کے لائق بھی نہیں سمجھی جاتی‘ درحقیقت اس علیحدہ علیحدہ تشخص سازی‘ شخصیت پرستی اورجداگانہ نسخہ و علاج کی تجاویز نے ملی بیماری کو مزید خطرناک بنا دیا ہے‘ ایک قوم‘ ایک ملت اور ایک دین کی سرفرازی کے لئے جس واحد اہل امانتدار قیادت کی ضرورت ہے‘ اس کو قائم کرنے کے لئے عوام اور خواص کی سطح پر کہیں بھی اتحاد اور اشتراک عمل کی صورت نظر نہیں آتی‘ ہزاروں جماعتیں انجمنیں‘ ادارے اور قیادتیں ہیں‘ جن میں سب کی اپنی اپنی رائے اور تجویز ہے‘ اور اسی پر باہم سرپھٹول‘ لڑائی‘ جھگڑے اور مناظرے ختم نہیں ہو رہے‘ امت مسلمہ کے آپس کے مسائل اب ایک دوسرے پر تنقیداور تنقیص سے بڑھ کر کفر و الحاد کے فتاویٰ کی حد تک پہنچ چکے ہیں۔

ملک عزیز پاکستان میں جاری دہشت گردی بلاخوف تردید بہت بڑی حد (نوے فیصد) تک صیہونی اور ہنودی ایماء اوران کے فراہم کردہ اسباب و ذرائع کے استعمال سے ہو رہی ہے‘ لیکن یہ امر بھی ناقابل تردید شہادت پر مبنی ہے‘ کہ متعدد مخالف مذہبی انتہا پسند گروہ اور نیم سیاسی و مذہبی جماعتیں بھی ایک دوسرے کے خلاف شدت سے صف آرا ہیں۔ ایک مزید پریشان کن بات جو سامنے آئی ہے‘ وہ مفکرین و مدبرین ملت کی متفقہ سوچ ہے جو ملت کی کامرانی اور سربلندی کومادی اسباب کے تابع اور سیاسی طاقت و غلبہ کو منتہائے نظر سمجھتی ہے‘ جب کہ حقیقی معنوں میں حکومت اور سیاسی غلبہ کسی بلند و پاکیزہ روحانی نصب العین کے حصول کا ایک ذریعہ (Resource) ہوتا ہے۔ دین اسلام کے نصب العین (Objective) کے حصول کاآغاز فرد کی اخلاقی زندگی کو روبہ کمال لانے سے ہوتا ہے‘ اس منزل پر پہنچنے کے بعد بہت سارے افراد مل کر ایک ایسے معاشرے کی تشکیل کرتے ہیں جس کی بنیاد وحدت نسل انسانی اور شرف و تکریم انسانیت پر استوار ہوتی ہے۔ اس معاشرے میں رہنے والی ’’قوم‘‘ ساری انسانیت کے لئے ایک ایسا نمونہ کمال (Role Model) بن جاتی ہے‘ کہ بہت ساری ’’اقوام‘‘ اس کی تقلید (Following) کر کے ایک نیک اور صالح بین الاقوامی معاشرہ تشکیل دینے میں کامیاب ہو سکتی ہیں۔

اس نوع کے معاشرے کی تشکیل کیا محض ایک خواب اور مفروضہ ہے ؟ یا دنیا میں اس کی کوئی مثال بھی موجود ہے جس کے نقوش پا پر چل کر موجودہ دنیا کی انتہائی خطرناک اور مخدوش صورتحال تبدیل ہو‘ اوردنیا عالمی امن کا گہوارہ بن جائے۔ تاریخ عالم اس بات کی گواہ ہے‘ کہ بعثت نبی آخر الزماں سے پہلے دنیا میں انسانیت زخموں سے چور چور‘ غلامی کے شکنجوں میں گرفتار اور ظلم کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی تھی۔ ظالم امارت اور بے رحم آمریت کے خونین پنجے زیرنگیں رعایا کی شہ رگ پر ہر وقت جمے رہتے تھے۔ حاکم بے ضمیر تھے‘ ان کی زندگی کا مقصد نفس پرستی اور بوالہوسی کے سوا کچھ نہ تھا‘ سارا عالم ظلم واستبداد کے عذاب میں مبتلا تھا‘ وحشت‘ جہالت‘ بھوک‘ خوف اور غم کا دور دورہ تھا‘ روم اور ایران اس وقت کی سوپر پاورز تھیں اور دونوں اخلاق اور سیاسی اعتبار سے مکمل روبہ زوال تھیں‘ ان کی مسلسل جنگوں سے عوام کی معاشی اور اقتصادی حالت تباہ ہو چکی تھی اور وہ بھوکوں مر رہے تھے‘ ان دو عالمی طاقتوں نے دنیا کے دیگر ممالک کا بھی ناطقہ بند کر دیا تھا‘ ان کی ہوس ملک گیری اور طلب اقتدار نے تہذیب و تمدن کو غارت کر دیا تھا‘ ہوشربا مہنگائی کی وجہ سے غریب عوام خودکشیاں کر رہے تھے‘ رعایا پر ٹیکسوں کی بھر مارنے ان کو معاشی‘ معاشرتی اور اخلاقی طور پر تباہ کر دیا تھا۔ اس زمانے کی ان دو سوپر پاورز کا اندازہ آج کی واحد سپر پاور امریکہ اور اس کے اتحادی یوروپی‘ صہیونی اور بھارتی انسان دشمن جنگی اور اقتصادی پالیسیوں سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔

ان سنگین اور ہلاکت آفرین حالات میں نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ظہور رحمت خداوندی کی صورت میں ہوا‘ جس کا نتیجہ نجات کی صورت میں دنیا کوملا۔ روئے زمین پر یہ انسانی تاریخ کا سب سے اہم انقلاب تھا‘ اس کی گہرائی اور وسعت کا اندازہ‘ چودہ صدیاں بیت جانے کے بعد بھی انسان نہیں لگا سکا‘ نظام مصطفی ایک قابل عمل نمونہ کمال کی شکل میں موجود ہے‘ لیکن متعصب انسانیت اس عظیم الشان انقلاب کو صرف اس وجہ سے گلوبل ویلج میں دیکھنا نہیں چاہتی‘ کہ اپنے اپنے ملک اور قوم میں فرعون بنے بیٹھے انسانوں کی آمریت اور حکمرانی کو خطرہ لاحق ہو جائے گا اور ایک عام شخص کے بنیادی انسانی حقوق بھی ان کو اسی طرح ادا کرنے پڑ جائیں گے جیساکہ نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے خلفائے راشدین کے زمانے میں ادا ہوتے تھے۔ امن عالم اور عدل اجتماعی کے قیام کے لئے ضروری ہے کہ دنیا کو نظام مصطفی کے ہر گوشہ اور پہلو سے بخوبی واقف کرایا جائے‘ موجودہ حالات میں اس کی بڑی ذمہ داری علوم نبوت کے حاملین کے اس گروہ پر عائد ہوتی ہے‘ جنہیں مشائخ اور علماء دین کہا جاتا ہے۔

بدقسمتی سے اسی طبقہ میں سب سے زیادہ باہمی نفاق اور انتشار کی فضا موجود ہے‘ وقت کا تقاضا ہے کہ مشائخ و علماء مزید وقت ضائع کئے بغیر آپس میں متفق اور متحد ہو جائیں اور ایک اہل اور دیانتدار آفاقی سوچ کی حامل قیادت وجود میں آ کر اہل عالم کو عدل اجتماعی کا مضبوط و مربوط نظام دے کر امن سے رہنے کا بنیادی حق فراہم کریں۔ عدل اجتماعی اور امن کے موضوع پر بحمد اللہ تعالی شیخ الاسلام ڈاکٹر محمدطاہر القادری کی ہزاروں کتب وکیسٹس کا ایک عظیم ذخیرہ بہت سہل انداز و اسلوب میں نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں موجود ہے‘ ضرورت اس امر کی ہے کہ بے لوث اور مخلص تعلیم یافتہ علماء ومشائخ‘ عالم اسلام کے دانشور فضلا اور سیاسی اکابرین آگے بڑھیں اور مختلف شعبہ ہائے حیات سے متعلق ارباب بست و کشاد‘ تھنک ٹینکس اور رائے عامہ کو متاثر کرنے والے افراد کو موثر انداز میں ابلاغ کر کے امن عالم اور عدل اجتماعی کی اہمیت سے آگاہ کریں۔ روئے زمین کو معاشی‘ اقتصادی‘ معاشرتی‘ علمی‘ اخلاقی‘ سیاسی اور عسکری عدل اجتماعی کے فقدان کی وجہ سے ایک عظیم تباہی اور بربادی کا سامنا ہے‘ اب بھی وقت ہے کہ انسان بحیثیت مجموعی انفرادی‘ اجتماعی‘ قومی اور بین الاقوامی سطح پر امن عالم کی خاطر ظلم و بربربیت‘ سفاکیت‘ وحشت‘ دہشت گردی‘ فحاشی اور عریانی کی لعنت سے چھٹکارا حاصل کرے‘ رب کائنات‘ مالک ہر دوسرا جل شانہ کی کبریائی و جبروت کو تسلیم کر کے اس کے آگے جھک جائے‘ اور ساری دنیا میں نظام مصطفی کو اپنے حقیقی رنگ میں نافذ کرے‘ تاکہ انسانیت آنے والی عظیم تباہی سے بچ سکے۔