کئی دماغوں کا ایک انسان

پروفیسر ڈاکٹر نعیم انور نعمانی

بلاشبہ انسان اس کائنات میں اللہ ربّ العزت کی جملہ مخلوقات میں سے افضل ترین مخلوق کے منصب پر فائز کیا گیا ہے۔ انسان کو یہ فضیلت اور اہمیت اس میں ودیعت کیے گئے اُس جوہر کی وجہ سے ہے جسے ہم عقل و دماغ سے تعبیر کرتے ہیں اور یہی دماغ ہی ہے جو حقائق عالم کو جاننے اور سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہے جو خیر و شر میں امتیاز کرتا ہے۔ یہ نعمت فطرتاً ہر انسان کو عطا کی گئی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ کون اسے کتنا استعمال کرتا ہے اور کون ہے جو اسے بالکل کام میں ہی نہیں لاتا۔ البتہ قرآن عالم انسانیت کو جھنجھوڑ کر اس نعمت کو زیادہ سے زیادہ استعمال میں لانے کے لیے ان الفاظ ’’افلا تعقلون‘‘ کے ساتھ متوجہ کرتا ہے۔

یہ بھی اللہ تبارک و تعالیٰ کی شان ہے کہ کسی کے لیے کسبی طور پر اس نعمت میں اضافہ کرتا ہے اور کسی کے لیے وہبی طور پر۔ انسانوں میں سے جو بھی اس نعمت کو جس قدر استعمال میں لایا، وہی اپنے زمانے میں دوسرے انسانوں کا قائد اور راہنما ٹھہرا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ قائدانہ اور راہبرانہ صفات سے متصف انسان ہی قیادت کے منصب پر فائز ہوتا ہے اور فی الحقیقت منصب قیادت اللہ کی بارگاہ سے خاص عطیہ ہے۔ سیادت پر کوئی انسان اپنے حسب و نسب کی وجہ سے پہنچ سکتا ہے مگر قیادت پر وہی فائز ہوتا ہے جو جملہ صلاحیتوں اور قابلیتوں کا پیکر مجسم ہوتا ہے۔ ایسی ہی قیادت کے لیے کہا گیا ہے :

ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

قیادت دیدہ ور ہوتی ہے، وہ اپنی صلاحیت اور قابلیت کے ذریعے انسانی اذہان و قلوب کو مسخر کرتی چلی جاتی ہے، اُس کا ہر عمل ایک نئی تسخیر کا آئینہ دار ہوتا ہے۔

باری تعالیٰ کا بے پناہ فضل و کرم ہے کہ اُس نے تحریک منہاج القران کو وہ قیادت عطا کی ہے جو قیادت کے تمام قومی اور بین الاقوامی معیاروں پر نہ صرف پورا اُترتی ہے بلکہ وہ ملکی اور عالمی قیادتوں میں سرفہرست دکھائی دیتی ہے۔ باری تعالیٰ نے ہماری قیادت شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری مدظلہ العالی کو وہ دماغ عطا کیا ہے جو ہزاروں دماغوں کو اپنے اندر مجتمع کیے ہوئے ہے۔ ایک ایسا دماغ جو جس شعبے کی طرف رُخ کرے اُس شعبے میں ساری زندگی اپنے دماغ کو صرف کرنے والوں کو بھی ورطۂ حیرت میں ڈال دے، جو اپنی صلاحیت اور قابلیت کے اظہار کے ذریعے ہر کسی کو منواتا جائے، اپنے بھی اُسے مانیں اور غیر بھی اعتراف کریں جس کا اثر اور تاثر ہر آنے والے دن کے بعد بڑھتا ہی چلا جائے تو یقینا یہ عطا ہی ثمر ہے مگر یہ عطائے عمومی نہیں بلکہ عطائے خصوصی ہے۔

ذٰالِکَ فَضْلُ اللّٰهِ يُوْتِيْهِ مَنْ يَّشَاءُ.

(الحديد : 57، 21)

’’یہ اللہ کا فضل ہے جسے وہ چاہتا ہے اسے عطا فرما دیتا ہے‘‘ ۔

ہم درج ذیل سطور میں اس عظیم دماغ کے تسخیری ابواب اور صفحات کا سرسری مطالعہ کرتے ہیں۔

1۔ علمی و تحقیقی

انسان کے ہر وصف کی بنیاد علم پر ہے، اس علم نے ہی انسان کو دوسری تمام مخلوقات پر فوقیت و برتری عطا کی ہے۔ علم کے ذریعے تمام حقائق منکشف ہوتے ہیں، علم اور قیادت دونوں لازم و ملزوم ہیں، ہماری قیادت نے زندگی کے تمام پہلوؤں میں اپنی شناخت اپنے علم سے کرائی ہے۔ ایسا علم جو عصرِحاضر کے تحقیق کے مسلّمہ اصولوں پر پورا اُترتا ہے، ہاں اگر یوں کہوں کہ تحقیقی علم کے ابلاغ اور اظہار کا جو انداز ہماری قیادت نے اختیار کیا ہے وہ نہ صرف اپنے اسلوب اور انداز میں منفرد ہے بلکہ ہزاروں لاکھوں کے لیے ایک قابل تقلید نمونہ بن چکا ہے۔ حتیٰ کہ ہر کوئی اس تحقیقی و علمی لہجے کو بھی اختیار کر رہا ہے، منبروں، سیمیناروں، جلسوں اور چینلوں سے بلند ہونے والی آوازیں اس کی عملی گواہی دے رہی ہیں۔

یہ بھی کتنی حیرت کی بات ہے کہ اس کی ہر بات ریکارڈ ہو رہی ہے۔ یہ کیسا دماغ ہے درحقیقت یہ تو علم کا ایک سمندر ہے کوئی بات محض کہنا آسان ہے مگر عملاً اُسے علمی و تحقیقی معیاروں پر کرنا مشکل ہے۔ مگر یہ مشکل اس آفتابِ علم کے سامنے کوئی مشکل رہتی ہی نہیں جب یہ علم و تحقیق کی پہچان بن کر ہزاروں خطابات اور سینکڑوں کتابوں کی صورت میں محفوظ ہو جاتی ہے۔ اب تک اس قیادت کے دماغ نے قوم کو جو تحقیقی علم دیا ہے وہ چھ ہزار وڈیو، آڈیو اور سی ڈی خطابات اور تقریباً 400 مطبوعہ کتب اور سینکڑوں مسودات کی صورت میں ہے۔ ان علمی و تحقیقی اور تجدیدی خدمات میں سے کسی ایک کتاب کا ذکر ہی کیا جائے تو اس مضمون کے صفحات ختم ہوجائیں گے۔ ہاں سرسری نگاہ سے دیکھیں تو اس قرآنی و تفسیری دماغ نے قرآن حکیم کا وہ ترجمہ عصرِ حاضر میں ’’عرفان القرآن‘‘ کے نام سے اُمت کے سامنے پیش کیا ہے جو سینکڑوں مفسرین اور مترجمین کے دماغوں کا نچوڑ اور خلاصہ ہے۔ ہاں میں ایک قاری کی حیثیت سے کہتا ہوں ایک عام انسان سے لے کر ایک عالم جلیل تک قرآن کا صحیح فہم عصرِحاضر کی زبان میں ’’عرفان القرآن‘‘ میں ہی مضمر ہے۔ اس لیے کہ یہ محض ترجمہ ہی نہیں بلکہ ایسا ترجمہ ہے جو تفسیر کی خوبی بھی لیے ہوئے ہے۔ گویا ترجمہ مع التفسیر ہے اور ایسا ترجمہ ہے جو عصرِحاضر میں فہم اسلام کا مکمل عرفان عطا کرتا ہے اور یقینا فہم اسلام کے کامل عرفان کی وجہ سے ہی اس کا نام ’’عرفان القرآن‘‘ ہے۔

اس سے آگے بڑھیں تو علم حدیث میں اس مصطفوی دماغ نے آپ کے لیے ’’المنہاج السوی‘‘ اور ’’جامع السنہ‘‘ تیار کر رکھی ہے۔ ’’المنہاج السوی‘‘ ہی کو لے لیجیے جو گھر گھر پہنچ رہی ہے اور لائبریریوں میں مزین ہو رہی ہے۔ اس کتاب نے عصرِحاضر میں وہ عظیم اعتقادی اصلاح کی ہے جس پر اُمت کے ایک طبقے کے ذہن ایک عرصے سے متشکک تھے اور کمال یہ ہے کہ وہ اصلاح غیراعلانیہ طور پر عمل کے سانچے میں ڈھلتی جا رہی ہے اور یہی اصلاحِ احوال اُمت ہی اس قیادت کی پہچان ہے۔ اس دماغ کی اصلاحی کاوشوں سے ہر کوئی مستفید ہو رہا ہے۔ کوئی جان کر اور کوئی مان کر، کوئی اعتراف کر کے اور کوئی بغیر اظہار کیے، ہاں جانتے اور مانتے سبھی ہیں مگر تسلیم و اعتراف اور اظہارِ حقیقت کوئی کوئی کرتا ہے۔

میرا قلم آگے بڑھ رہا ہے کہ میں ’’سیرۃ الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘ کے حوالے سے کچھ لکھوں۔ ’’سیرۃ الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘ کی پہلی جلد مقدمہ سیرۃ الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی سیرت نگاری میں وہ مقام رکھتی ہے کہ آج تک سیرت نگاروں کی قلم نے اُن پہلوؤں کا احاطہ نہیں کیا جو اس عظیم دماغ نے کیا ہے۔ اس جلد کا مرکزی خیال یہی ہے کہ عصرِحاضر میں سیرت الرسول کی ضرورت کیا ہے، آج کے انسان کا خواہ جس بھی شعبے سے تعلق کیوں نہ ہو اور اُس کی ضرورت بھی کیسی ہی کیوں نہ ہو وہ سب کچھ اس کتاب میں ہے، میں یہاں کس کس ضرورت کا ذکر کروں، تنگی صفحات اجازت نہیں دیتے خود پڑھ لیجیے یقین آجائے گا اور ان شاء اللہ ہر ضرورت پوری ہوجائے گی اور سیرت کی یہ کتاب اردو زبان میں دنیا کی سب سے بڑی تاریخ سیرت میں ضخیم کتاب ہے۔

اب میں قلم کو روک رہا ہوں اختصار میری مجبوری ہے البتہ اشارے و کنایے میں بات کرتا ہوں۔ مجھے یقین ہے میرا قاری میری بات سمجھ جائے گا، ہاں اگر آپ مفسر ہیں تو ’’تفسیر منہاج القرآن‘‘ کا مطالعہ کریں اور اسی طرح علوم القرآن پر 29کتابیں آپ کی منتظر ہیں اور اگر آپ محدث ہیں تو ’’المنہاج السوی‘‘ اور ’’جامع السنہ‘‘ کو دیکھیں اور اس طرح علم حدیث پر عربی اور انگلش میں 32کتب حدیث آپ کو دعوتِ مطالعہ دیتی ہیں اور اگر عام مسلمان کی حیثیت سے ایمان، اسلام اور عقیدۂ صحیحہ کو جاننا چاہتے ہیں تو 44کتابیں آپ کے شوقِ مطالعہ کے لیے حاضر ہیں اور اگر آپ سیرت نگار ہیں اور بڑے ہی قلم کار ہیں تو آیئے اس دماغ سے نکلے ہوئے حروفِ سیرت کا صرف ’’سیرۃ الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘ کی 10 جلدوں کا مطالعہ کرلیں اور یوں اس علم کی گہرائی اور گیرائی سے آپ آشنا ہوجائیں گے اور یہ دیکھنے اور پڑھنے کے بعد ذوقِ مطالعہ بڑھ جائے تو سیرتِ و فضائلِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کے موضو ع پر مزید 59 کتابیں ذخیرۂ سیرت کے حوالے سے آپ کے لیے حاضر ہیں۔ اگر آپ فقہی ہیں اور علمِ فقہ سے آپ کا شغف و تعلق ہے تو آپ کے لیے اس مجتہد دماغ نے ایک سرمایۂ علم و تحقیق تیار کر رکھا ہے تو اس مقصد کے لیے آپ ’’عصرِحاضر اور فلسفۂ اجتہاد‘‘ کا مطالعہ کریں اور مزید برآں 17 کتابیں علم فقہ پر آپ کے لیے موجود ہیں۔ ہاں اگر آپ صوفی باصفا اور روحانی شخصیت ہیں تو آپ کے لیے اس روحانی دماغ نے بے شمار ذخیرہ تیار کر رکھا ہے۔ حقیقت تصوف، سلوک و تصوف کا علمی دستور، تذکرے اور صحبتیں اور ’’الفیوضات المحمدیہ‘‘ ہی دیکھ لیں۔ مزید روحانی پیاس محسوس ہو تو مزید 35 کتب تصوف و احسان آپ ہی کے لیے ہیں۔ اگر آپ شعبۂ تعلیم سے وابستہ ہیں کسی اسکول میں ٹیچر اور کسی کالج و یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں اور ماہرِ تعلیم ہیں اور اسکول، کالج اور یونیورسٹی میں طالب علم ہیں تو اس تعلیمی و تدریسی اور معلمی دماغ نے ’’اسلام کا تصورِ علم‘‘ آپ ہی کے لیے تیار کی ہے اور مزید 5 کتابیں بھی اس موضوع پر لازمی پڑھیں۔ اگر آپ کارکن اور مجاہد ہیں، مسلسل جدوجہد آپ کی زندگی کی پہچان ہے تو آپ اس جہدِ مسلسل سے آشنا دماغ کی ’’حقیقت جہاد‘‘ کا مطالعہ کریں چوں کہ آپ مجاہد ہیں اور مزید جدوجہد کا ارادہ رکھتے ہیں تو چھہ کتابیں اور بھی آپ کے لیے حاضر ہیں۔ اگر آپ فلسفی و مفکر ہیں تو عصرِحاضر میں اس مفکر اسلام کے دماغ سے نکلنے والی فلسفۂ انقلاب کے موضوع پر پہلی قرآنی تفسیر اور تعبیر سے مزین اختصاصی اور امتیازی کتاب ’’قرآنی فلسفۂ انقلاب‘‘ کا ضرور بہ ضرور مطالعہ کریں اور مزید برآں اسلام کے فکر و فلسفہ پر بڑا ہی گراں قدر ذخیرہ 23 کتابوں کی صورت میں آپ کے تفکر و تدبر کے لیے حاضر ہے اور اگر آپ وکیل، قاضی، جسٹس حتیٰ کہ چیف جسٹس ہیں تو قانون کے اس نامور پروفیسر نے اور قانون کی پیچیدگیوں کو سمجھنے والے اس قانونی دماغ نے آپ کے لیے "Islamic Concept of Law" کے ساتھ 14 کتابیں علم قانون پر تیار کر رکھی ہیں اور اگر آپ آئیڈیل کی تلاش میں شخصیات کے مطالعے کے خواہش مند ہیں تو آپ کے لیے اس قائدانہ دماغ نے 13 کتب تیار کر رکھی ہیں اور اگر آپ انسانی حقوق کے علمبردار ہیں، سماجی و انسانی حقوق کے محافظ ہیں اور اس مقصد کے لیے این جی او (N.G.O) بھی قائم کیے ہوئے ہیں تو آپ اس عظیم انسانی اور اسلامی دماغ کی کتاب ’’اسلام میں انسانی حقوق‘‘ کا ضرور مطالعہ کریں اور مزید اس موضوع پر آپ کے لیے 9 کتابیں موجود ہیں اور اگر آپ سائنس دان ہیں اور جدید سائنس سے آپ کو شدید رغبت ہے تو اس حوالے سے اس سائنسی دماغ نے آپ کے لیے ’’اسلام اور جدید سائنس‘‘ کے ساتھ ساتھ اس موضوع پر انگلش اور اردو میں 10 کتابیں تیار کی ہوئی ہیں اور اگر آپ معاشی اور اقتصادی ماہر ہیں، ملکی معیشت کو سنوارنا اور مستحکم کرنا آپ کا مطمح نظر ہے تو اس معاشی اور اقتصادی دماغ نے آپ کے لیے ’’معاشی مسئلہ اور اُس کا اسلامی حل‘‘ اور ’’اقتصادیاتِ اسلام‘‘ تیار کر رکھی ہے۔ اس کا لازمی مطالعہ کریں۔ مزید برآں اس موضوع پر 7 کتابیں آپ کے مطالعے کے لیے پیش خدمت ہیں اور اگر آپ ملک بنانے اور سنوارنے والے سیاست دان ہیں، ملک کی بقا و استحکام اور اسے عظیم اسلامی فلاحی ریاست بنانا چاہتے ہیں تو آپ کے لیے سیاسی فہم و فراست سے آشنا اس دماغ نے ’’سیاسی مسئلہ اور اُس کا اسلامی حل‘‘ تیار کر رکھی ہے اور اس موضوع پر 5 کتابیں مزید بھی حاضر ہیں۔ ہا ں اگر آپ سیاسی بھی ہیں اور انقلابی بھی ہیں اور آپ ملک و قوم کی تقدیر بدلنا چاہتے ہیں اور اس قوم کو انقلاب کے ذریعے دنیا کی عظیم قوم بنانا چاہتے ہیں تو اس مقصد کے لیے اس انقلابی دماغ نے آپ کے لیے ’’نظامِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک انقلاب آفریں پیغام‘‘ اور ’’سیرت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور انقلابی جدوجہد‘‘ کے ساتھ اس اہم موضوع پر 10 کتابیں آپ ہی کے لیے تیار کی ہوئی ہیں۔ غرضے کہ اردو، انگلش اور عربی میں اس ہمہ جہت دماغ نے ہر دماغ کے لیے وافر مواد تیار کر رکھا ہے اس دماغ کے پاس آنے والا کوئی محروم نہیں جاتا ہر اُس کو حسب ضرورت مل جاتا ہے جو محبت سے آتا ہے۔

2۔ تنظیمی و انتظامی

تنظیم اُس Network کا نام ہے جو جال کی طرح ہر جگہ موجود ہو، کوئی علاقہ کوئی قصبہ و دیہات اور شہر اُس سے خالی نہ ہو۔ یہی وسعت اور پھیلاؤ ہی کسی تنظیم کو مثالی بناتا ہے جب اس تناظر میں ایک تنظیمی دماغ کی حیثیت سے تحریک منہاج القرآن کے تنظیمی Network کا مطالعہ کرتے ہیں تو تحریک کی قیادت کے تنظیمی دماغ کی عظمت کو سلام کیے بغیر نہیں رہ سکتے کہ جس نے انتہائی تھوڑے وقت میں اس کے تنظیمی نیٹ ورک کو نہ صرف ملک کے طول و عرض اور ہر چھوٹے و بڑے شہر میں اور قصبات و دیہات کو ہدف کرتے ہوئے بین الاقوامی سطح پر دنیا کے 7 براعظموں اور 80 سے زائد ممالک میں تحریک منہاج القرآن کا تنظیمی نیٹ ورک قائم کر دیا ہے۔

اس عالم گیر تنظیمی پھیلاؤ کو پورے نظم کے ساتھ کامیابی کے ساتھ چلانا اور اسے مزید ترقی دیتے رہنا اور اس نیٹ ورک کو تعلیمی، فلاحی اور اصلاحی مقاصد کے تحت اس طرح آگے بڑھانا کہ پوری دنیا میں یہ نیٹ ورک اسلام کی امن و سلامتی کی تصویر پیش کرنے والا اور باہمی رواداری اور احترامِ انسانیت کے عالم گیر اصولوں کو فروغ دینے والا، ان تصورات کے ساتھ ہر جگہ متعارف ہونا ہی بہت بڑی بات ہے اور یقینا یہ اسی تنظیمی و انتظامی دماغ کا کمال ہے جو اس میں روح اور دوڑتے ہوئے خون کی طرح کارفرما ہے، یہ تنظیمی نیٹ ورک محض دعویٰ نہیں بلکہ ایک ایسی دلیل ہے جو قول و عمل دونوں صورتوں میں خود کو منوا رہی ہے اور پورا تنظیمی نیٹ ورک اوپر سے لے کر نیچے تک اس سوچ اور اس تنظیمی اُصول کی آئینہ داری کرتا ہوا نظر آتا ہے کہ ’’مسلسل رابطہ ہی پہلا تنظیمی ضابطہ ہے‘‘ اور یہ مسلسل رابطہ ہی تنظیم کو ہر جگہ ایک زندہ، متحرک اور منظم تنظیم بنائے ہوئے ہے۔ پھر سب سے بڑھ کر حیرت کی بات یہ ہے کہ اسی تنظیمی نیٹ ورک کو ایک مضبوط اور منظم انتظامی کنٹرول کے ذریعے نہ صرف مستحکم کیا ہے بلکہ اس کی مسلسل نگرانی اور سرپرستی کے ذریعے اسے ہر بڑی سے بڑی مہم اور ہدف کے حصول کے لیے نتیجہ خیز بنا رکھا ہے۔

3۔ تعلیمی و تربیتی

نزولِ قرآن کی پہلی وحی اقرء اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میدانِ بدر کے اسیروں سے دس مسلمان بچوں کو تعلیم سے مزین کر کے رہائی دینے کا اعلان کرکے اُمت مسلمہ کی ترجیحات کو قیامت تک مقرر کر دیا ہے کہ تعلیم کا فروغ ہی اُمت کی شناخت ہے۔ اُمت کے عروج کا راز بھی اسی میں مضمر ہے، تحریک منہاج القرآن کے اس تعلیمی و تربیتی دماغ نے اُمت مسلمہ کی عظمت رفتہ کی بحالی، اقامت دین اور احیائے اسلام کے عظیم مشن کو نئے تعلیمی اداروں کے قیام سے ہی اُمت میں فروغ دینے کا عزمِ مصمّم کیا ہوا ہے جب اس دماغ کی تعلیمی کاوشوں کو دیکھتے ہیں تو ہمارے سامنے منہاج ایجوکیشن سسٹم آتا ہے جو پاکستان کا سب سے بڑا پرائیویٹ تعلیمی نیٹ ورک ہے اور جو نرسری سے یونیورسٹی تک پھیلا ہوا ہے اور ہزاروں کی صورت میں جہاں منہاج ماڈلز اسکولز، کالجز اور اسلامک سینٹرز، قومی اور عالمی سطح پر نظر آتے ہیں تو وہیں بین الاقوامی سطح کے اس عظیم دماغ نے وہ منہاج یونیورسٹی قائم کی ہے جو قرطبہ و اندلس کی امانت اور کوفہ و بصرہ اور بغداد اور عالم اسلام کا شان دار ماضی آج زمانہ حال میں اپنے اندر لیے ہوئے مستقبل کی طرف اُمت کے جامع تعلیمی تصور کے احیا کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے جس نے جدید و قدیم کو ایک ہی جگہ جمع کر دیا ہے۔ یونیورسٹی کی ان امتیازی خصوصیات کو دیکھتے ہوئے حکومت پاکستان نے اسے چارٹرڈ یونیورسٹی Declare کر دیا ہے۔ مزید برآں اس عظیم دماغ نے تعلیمی، تنظیمی اور تحریکی سطح پر تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت کو بھی لازم ٹھہرایا ہے۔ اس لیے کہ تعلیم اور دعوت انسان کی شخصیت کی بلڈنگ کا اگر ڈھانچہ ہے تو تربیت اُس ڈھانچے کو مضبوط کرنے اور Finishing کے ذریعے اُسے دوسرے افراد کے لیے پُرکشش اور قابل قبول بنانے والی ہے، اس لیے تربیت کا بھی ایک پورا پروگرام مضبوط نیٹ ورک کے ذریعے اوپر سے نیچے تک دیا ہوا ہے۔

4۔ فلاحی و خیرخواہی

انسانی حقوق کو اللہ ربّ العزت نے اپنے حقوق سے بھی مقدم کیا ہے۔ انسانی فلاح و اصلاح سے ہی معاشرے سنورتے ہیں اور انسانی حقوق کی پامالی سے معاشروں اور قوموں کا وجود مٹ جاتا ہے۔ اس لیے اسلام نے خدمت خلق کو عبادت کا درجہ دیا ہے۔ قرآنی اور نبوی تعلیمات کی عملی تعبیر کے طور پر ہماری قیادت کے فلاحی و خیرخواہی دماغ نے منہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن کا نیٹ ورک پوری دنیا میں قائم کیا ہوا ہے۔ دنیا بھر میں جہاں بھی انسانیت ناگہانی آفات، سیلاب کی تباہ کاریوں، زلزلے کی حشر سامانیوں، غربت و افلاس اور مہلک بیماریوں اور زندگی کی بنیادی حاجتوں سے محروم ہوئی۔ منہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن کے متحرک و فعال کارکن اپنی جان و مال کے ساتھ ان کی ضرورتوں کی تکمیل کے لیے ہر جگہ پہنچ رہے ہیں۔ اب تک کروڑوں روپیہ انسانی فلاح اور خیرخواہی پر صرف کیا جا چکا ہے۔ منہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن یتیموں کے لیے آغوش، مریضوں کے لیے ڈسپنسریز، ایمبولینس اور ہسپتال کے ذریعے اور ہزاروں غریب خاندانوں کی اجتماعی شادیوں اور مستحق و نادار طلبہ کے لیے تعلیمی اسکالرشپ کے طور پر لاکھوں روپے کے وظائف اور ہمہ جہتی خدمات سے مزین ہو کر سسکتی انسانیت کے دُکھ کو سکھ میں بدلنے کے لیے مصروفِ عمل ہے۔ انسانی خدمت کی ان چیزوں کو دیکھ کر ایسے فلاحی دماغ کو جتنا بھی خراجِ تحسین پیش کیا جائے وہ کم ہے۔

5۔ دعوتی و اصلاحی

دعوت اور اصلاح، کارہائے پیغمبر میں سے پیغمبرانہ مشن کا سب سے نمایاں کام رہا ہے۔ دعوت، انسانیت کو حق کی طرف متوجہ کرنے اور اصلاح، اُس حق کو اُن کے وجود اور ذہن و قلب میں اُتار دینے کا نام ہے۔ اس عظیم دعوتی و اصلاحی دماغ کا کمال یہ ہے کہ اس کی زندگی کا لمحہ لمحہ تقریر و تحریر کی صورت میں دعوت و اصلاح سے بھرپور ہے۔ یہ بات ایک ایسی مسلّمہ حقیقت بن چکی ہے جو ہر کسی کو 6000 سے زاید خطابات و لیکچرز کی صورت میں اور تقریباً 400 مطبوعہ کتب اور سینکڑوں مسودات کی صورت میں دکھائی دے رہی ہے جن کا ایک ایک لفظ اپنے سننے اور پڑھنے والے کو ایک داعی حق اور ایک مصلح اُمت بننے کی دعوت دے رہا ہے۔ اس دماغ سے نکلے ہوئے لفظوں، حرفوں اور جملوں کی اتنی تاثیر ہے کہ یہ اپنے سامع اور قاری کا کردار بن جاتے ہیں۔ اُس کی سوچوں کا زاویہ ہائے نگاہ کو یکسر تبدیل کر دیتے ہیں۔ ایک عجیب سی تڑپ اُس میں پیدا کردیتے ہیں اور اُس کا فکر و عمل اس عظیم دماغ کے سانچے میں ڈھل کر اس کے فکر و عمل کا آئینہ دار بن جاتا ہے۔ دعوت و اصلاح کے ذریعے یہ تبدیلی ایک فکری انقلاب میں ڈھل جاتی ہے۔ یہ دعوت و اصلاح محض واہ واہ نہیں بلکہ اُمت کی عظمت رفتہ کی بحالی اور اس کا تاب ناک مستقبل احیائے اسلام کے ذریعے حاصل کرنے کی دعوت ہے۔ اس انقلابی دماغ نے دعوت کو اصلاحِ احوال اُمت کے ساتھ لازم ٹھہرایا ہے اس لیے یہ قیادت محض دعوت کی بات نہیں کرتی بلکہ ایسی دعوت بپا کرتی ہے جو اصلاحِ احوال اُمت پر منتج ہو اور جس دعوت کا لازمی اثر اصلاحِ احوال کی صورت میں نتیجہ خیز ہو۔ ان ہی مقاصد کے تحت پوری دنیا میں بالعموم اور ملک پاکستان کے ہر ہر شہر اور قصبے میں دعوت کو بطورِ نظام دروسِ ’’عرفان القرآن‘‘ کے ذریعے اور حلقہ ہائے عرفان کے ذریعے ہر جگہ بپا کیا ہوا ہے اور ایک ہزار کے قریب آپ کے شاگرد منہاجینز انفرادی اور اجتماعی صورت میں اور نظامت دعوت کی صورت میں داعی خصوصی کے طور پر اس نظامِ دعوت کو ہرسُو منظم کر رہے ہیں اور اس کے ساتھ ہی اس نظامِ دعوت کی دوسری صورت ایک یونین کونسل (U.C) سے لے کر تحصیل تک، تحصیل سے ضلع تک اور ضلع سے صوبے تک ہزاروں ناظمین دعوت داعی عمومی کی صورت میں اس نظامِ دعوت کے عملی نفاذ میں مصروفِ عمل دکھائی دیتے ہیں۔

Q tv کے ذریعے پوری قوم اور اُمت مسلمہ سے براہِ راست مخاطب ہونے کے ذریعے خود اس عظیم قائد کی آواز دنیا کے ہر ہر فرد اور ہر ہر گھر میں پہنچ رہی ہے اور یہ آواز محض آواز نہیں بلکہ ایک پیغام، ایک جذبہ، ایک ولولہ، ایک تڑپ، ایک بے پناہ اثر اور ایک علمی، فکری، روحانی، اصلاحی اور نظریاتی انقلاب کی آواز ہے جو گھر گھر بغیر کارکنوں کے خود ہی دستک دے رہی ہے اور اپنی جانب ہر دیکھنے اور سننے والے کو متوجہ کر رہی ہے اور ہزاروں، لاکھوں ایسے ہیں جو ان کی علمی، تحقیقی، تبلیغی، دعوتی، فکری اور اصلاحی خوبیوں کی وجہ سے ان کی محبت میں درجۂ رفاقت سے بھی اوپر پہنچ چکے ہیں لیکن عدم رابطہ کی وجہ سے ہم اُن کی محبت و عقیدت کا اندازہ کرنے سے محروم ہیں، غرضے کہ دعوت کی یہ مؤثر ترین صورتیں ہر لمحہ تحریک کو اپنی منزل کے قریب سے قریب تر کر رہی ہیں۔

6۔ سیاسی و معاشی

ہر دور میں ملکوں اور قوموں کا سب سے بڑا مسئلہ سیاست اور معیشت کا استحکام رہا ہے۔ سیاست اگر مسلّمہ اصولوں اور عظیم مقاصد کے مطابق ہے اور معیشت عدل و انصاف کے ساتھ مستحکم اور گردشِ دولت کے ذریعے ہر لمحہ پیداواری سرگرمیاں بڑھتی جا رہی ہیں تو سیاست اور معیشت کی یہ حالت قوم کو اقوامِ عالم میں ایک امتیازی مقام پر فائز کرتی ہے۔ سیاست اور معیشت کا استحکام اور ترقی کا انحصار قومی قیادت کی سوچ اور صلاحیت و قابلیت کے اظہار میں ہے، قومی اُفق پر اُبھرنے والی قیادت صحیح معنوں میں قومی قیادت کے منصب پر اُسی وقت فائز ہوتی ہے جب وہ ان دونوں میدانوں میں ماہر ہو، اسی تناظر میں ہم جب اپنی قیادت کے سیاسی اور معاشی بصیرت و فراست سے آشنا دماغ کا مطالعہ کرتے ہیں تو حقائق کی زمین پر اُن کی بپا ہونے والی سیاسی اور معاشی جدوجہد قومی قیادتوں میں اُن کو ایک بلند و بالا اور ممتاز و منفرد مقام عطا کرتی ہے بلکہ اس سے بھی بڑھ کر اُن کو سرفہرست منصب قیادت پر فائز کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ اس قوم کے حافظے میں سیاسی جدوجہد کی وہ یادیں محفوظ ہیں جب 13 مارچ 1998ء میں پاکستان کی تاریخ کے بہت بڑے 19 قومی سیاسی جماعتوں کے سیاسی اتحاد جوکہ پاکستان عوامی اتحاد کے نام پر قائم ہوا اور محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کی موجودگی میں ڈاکٹر صاحب تمام سیاسی جماعتوں کی طرف سے اتفاقِ رائے سے اس کے پہلے چیئرمین منتخب ہوئے اور ان کی سیاسی جدوجہد اور ان کی سیاسی فہم و فراست، ان کی سیاسی تقاریر، پریس کانفرنسز، ملکی اور غیرملکی میڈیا کو انٹرویوز اور ہزاروں، لاکھوں کے مجمع میں آپ کے عوامی خطابات نے بڑے بڑے سیاسی لیڈروں نواب زادہ نصراللہ خان، محترمہ بے نظیر بھٹو، حامد ناصر چٹھہ اور جنرل اسلم بیگ کی موجودگی میں اور ان سب سے بڑھ کر عوام میں بے پناہ مقبولیت نے ان کو سیاسی قیادت کے سب سے زیادہ مقبول عوامی لیڈر کے اُس مقام پر فائز کیا ہے جس کا اظہار سیاست دانوں نے اپنی خلوتوں اور جلوتوں میں خوشی اور پریشانی کے ساتھ کیا ہے اور بلاشبہ لیڈروں نے بھی ان کو اپنا لیڈر مانا اور قوم نے بھی ان کو اپنا ہر دل عزیز سیاسی لیڈر اور نجات دہندہ جانا اور اسی حقیقت کے ظاہر اور ثابت ہونے پر عالمی قوتوں نے وہ کام کیا جو وہ ہمیشہ ایسی لیڈرشپ کے لیے کیا کرتی ہیں۔

دوسری طرف معاشی میدان میں قوم کے لیے اپنے معاشی و سیاسی منشور کے ذریعے پاکستان کو اقتصادی طور پر مضبوط و مستحکم کرنے کا جامع پلان دیا ہے۔ ملک میں زراعت و صنعت اور سائنس و ٹیکنالوجی کے فروغ اور ہر شعبے میں پیداواری سرگرمیوں کو بڑھانے اور گردشِ دولت کے نظام کو درست کرنے کے لیے ہر شخص کو زر اور قرضے کے حصول میں آسانی کے لیے ایک جامع پروگرام کا اعلان بھی کیا ہے، حتیٰ کہ بینکاری نظام کی اصلاح کے لیے دنیا بھر کے معیشت دانوں کو ایک کھلا چیلنج دیتے ہوئے 17 فروری 1992ء میں ’’بلا سود بینکاری نظام‘‘ کا خاکہ موچی دروازہ لاہور میں ایک جلسہ عام میں پیش کیا اور اس سے قبل اعلان کیا کہ حکومت Ptv چینل کو اس مذاکرے کے لیے کھول دے اور دنیا بھر سے اپنی مدد کے لیے معاشی ماہرین کو جمع کرلے اگر میں ان معیشت دانوں کو بلا سود اسلامی بینکاری کے نظام پر مطمئن نہ کرسکوں تو آئندہ دعوت و تبلیغ دین کا نام لینا چھوڑ دوں گا مگر اس اتنے بڑے چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے حکومتی نمائندے اخباری بیانوں کے باوجود نہ ٹی وی چینل پر آئے اور نہ ہی کسی عوامی مقام پر اس چیلنج کو قبول کیا، غرضے کہ اس معاشی دماغ نے اپنی کتاب اقتصادیات اسلام کے ذریعے اسلام کا ایک فلاحی و معاشی تصور پیش کیا ہے جس میں اسلامی ریاست ایک فلاحی ریاست کے طور پر اجتماعی کفالت کے جذبے کے ساتھ اپنے افراد کی بنیادی ضروریات کی فراہمی کی ذمہ دار ہوتی ہے۔

7۔ فکری و انقلابی

اس عظیم دماغ کا ہر پہلو ہی بڑا حسین، منفرد اور ممتاز ہے اور ہر دماغ اپنے اپنے شعبے میں اس دماغ کے اُس شعبے کے عظیم کارناموں کی وجہ سے حیرت و استعجاب میں مبتلا ہے۔ میرے نزدیک اس دماغ کا سب سے بڑا کارنامہ جسے تاریخِ اسلام میں اوّلیت کا مقام حاصل ہے وہ قرآنی فکر کی وہ عظیم الشان تعبیر اور تفسیر ہے جو تاریخِ اسلام میں پہلی مرتبہ ’’قرآنی فلسفۂ انقلاب‘‘ کے نام سے منصہ شہود پر آئی ہے۔ گزشتہ دو سو سال سے اُمت اپنے زوال کے باعث اس فکر کی تلاش میں تھی، اگرچہ بہت سے مفکرین اسلام نے اس فکر کے مختلف گوشوں کو بیان کیا تھا، مگر اسے عصرِحاضر کے تقاضوں کے مطابق ایک علم کے طور پر اور ایک صائب فکر کی حیثیت سے قرآن ہی سے ایک مضبوط اور مستند استدلال و استنباط کے ذریعے ایک منظم اور سائنسی طریقۂ کار کے تحت اسے اخذ کرنے اور اُمت مسلمہ کے سامنے پہلی بار اسے منظم علم یعنی قرآنی فلسفۂ انقلاب کے نام سے پیش کرنے کا اعزاز اوّلین آپ ہی کو حاصل ہے۔

اس فکر کے ذریعے اس عظیم فکری دماغ نے اُمت کو یہ سوچ دی ہے کہ موجودہ حالات میں اور آئندہ آنے والے کسی بھی دور میں اُمت مسلمہ اگر زوال پزیر ہو جائے تو اس کے زوال کو عروج میں کیسے بدلا جا سکتا ہے۔ زوال اُمت کے اسباب کون سے ہوتے ہیں اور اسے عروج سے آشنا کرنے کے لیے قوم و ملت کو کس روش پر چلنا ہوتا ہے۔ ان تمام تر حقائق کو بڑی تفصیل اور شرح و بسط کے ساتھ دو ضخیم جلدوں میں بیان کیا گیا ہے۔

یقینا قرآنی فلسفۂ انقلاب کو ایک انقلابی فکر کے طور پر اُمت کے سامنے پیش کرنا ایک بہت منفرد اعزاز ہے مگر بات یہاں تک ہی ختم نہیں ہوتی کہ اس مفکر دماغ نے اپنی اس انقلابی فکر کو کتابی اوراق و صفحات تک ہی محدود نہیں رہنے دیا بلکہ اس انقلابی فکر کو عملی طورپر وطن عزیز اور پوری دنیا میں تحریک منہاج القرآن انٹرنیشنل اور پاکستان عوامی تحریک کے نام سے بپا بھی کیا ہے۔ علاوہ اس انقلابی فکر کی عظیم منزل کے لیے طریقۂ کار، مراحل اور حکمت عملیوں کا تعین بھی کیا ہے اور عصری ضرورتوں اور حالات کے مطابق حکمت عملی میں حسب ضرورت تبدیلی کے ساتھ ساتھ، مسلسل نہ تبدیل ہونے والی اپنی منزل جسے اپنی فکری اور عملی جدوجہد میں مصطفوی انقلاب کا نام دیا ہے۔ اُس کی طرف جدوجہد مسلسل کے ساتھ اور اَن تھک کاوشوں کے ذریعے اور ہر طرح کے حالات میں غیرمصالحانہ نظریے کے ساتھ اُس منزل کو ابدی فلاح اور دنیوی کامیابی اور اُخروی نجات کے تصور کے ساتھ ایک لمحے کے لیے بھی اپنی اس عظیم منزل کو اپنی آنکھ سے اوجھل کیے اور معمولی سی سوئی کی نوک کے برابر بھی تبدیلی کیے بغیر ایک قابل تقلید ثابت قدمی کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں اور صاحبانِ حال و نظر جانتے ہیں کہ پہلے دن کی استقامت سے لے کر آج دن تک اس راہ کی استقامت میں کوئی فرق نہیں آیا اور اگر میں یوں کہوں تو یہی حقیقت ہے اور یہی حق ہے کہ اُن کی اور اُن کے اور ہمارے مشن کی منزل مصطفوی انقلاب اُن کے ایمان کا حصہ ہے۔

8۔ تجدیدی و احیائی

اس عظیم دماغ کے کارہائے نمایاں میں سے جو اپنے اندر اوّلیت اور انفرادیت کی خصوصیت لیے ہوئے ہے، اُن میں سے اگر ایک پہلو فکری و انقلابی ہے تو دوسرا پہلو تجدیدی و احیائی ہے، اسلام کا ہر دور اور ہر زمانے میں ایک زندہ حقیقت کے طور پر رہنا اور اسے ایک ثابت شدہ مسلّمہ حقیقت کی صورت میں آج تک ہر زمانے سے تسلیم کراتے رہنا جہاں ’’ان الدين عند اللّٰه الاسلام‘‘ کی قرآنی آیت کی صورت میں ایک زندہ زمینی حقیقت ہے تو وہیں قران کی طرح حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زندہ معجزات میں سے ہے کہ یہ اسلام ہر زمانے کے افراد کے لیے نہ صرف قابل قبول ہے بلکہ اُن کی دنیوی کامیابی اور اُخروی نجات کا ذریعہ بھی ہے۔ اسلام اور اس کی تعلیمات کی حیات ایک دائمی صورت میں قرآن اور حدیث میں قیامت تک کے لیے موجود ہے۔

قرآنی اور نبوی تعلیمات کی اس حیاتِ ابدی کو ہر زمانے کے لوگوں کے سامنے ظاہر کرنے کے لیے باری تعالیٰ نے اپنے دین کی دائمی حفاظت بایں صورت کہ یہ دین اسلام ہر زمانے کے لیے قابل عمل ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے جن افراد کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت اور ختم نبوت کے بعد دین کے احیاء اور تجدید کے لیے جس منصب اور نام کے ساتھ بھیجتا ہے اُسے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی زبانِ اقدس کے ساتھ ان کلماتِ مبارکہ کے ساتھ بیان کیا ہے۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

ان اللّٰه يبعث لهذه الامة علی راس کل مائة سنة من يجدد لها دينها.

(رواه ابوداؤد، الحاکم و الطبرانی)

اللہ تعالیٰ اس اُمت میں ہر صدی میں ایک ایسے شخص کو پیدا کرتا ہے جو دین کی تجدید کرتا ہے۔

اور دوسرے مقام پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

لايقوم بدين اللّٰه الا من احاطه من جميع جوانبه. (ابونعيم)

کوئی شخص اقامت و احیائے دین کا کام اُس وقت تک نہیں کر سکتا جب تک اپنی جدوجہد میں دین کے تمام پہلوؤں کا احاطہ نہ کر لے۔

تجدید اور احیائے دین کا فریضہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ان فرامین مبارک کے مطابق تاریخ اسلام کے ہر دور میں متواتر اور مسلسل ادا کیا جا رہا ہے۔ اب تک سینکڑوں شخصیات اس منصب جلیلہ پر فائز ہو کر دین کی تجدید و احیاء کا فریضہ سرانجام دے چکی ہیں۔ مجدد کسی کے بنانے سے نہیں بلکہ اللہ کی عطا سے بنتا ہے، اسلام کی آب و تاب اور فی زمانہ اس کی عملیت اور اس کو ایک زندہ حقیقت اور قابل عمل نظامِ حیات کی صورت میں زندہ رکھتا ہے۔ ان ہی مجددین کی کاوشوں کا نتیجہ ہے کہ اسلام ہر دور کے عقل و ذہن کی جملہ ضرورتوں کو اس طرح پورا کرتا ہے کہ ہر ذی شعور اپنے زمانے میں اسے آج کا دین سمجھتا ہے۔ اسلام کے احیاء اور تجدید کے اس فریضے کو عصرحاضر میں یہ عظیم تجدیدی و احیائی دماغ اُسی تاریخی تسلسل میں اس طرح ادا کر رہا ہے جس کا احساس ہر سننے اور جاننے والے کو ہو رہا ہے اور اس کا اظہار خواہ تقریری کی صورت میں ہو یا تحریری صورت میں، یہ روایت سے ہٹ کر تجدید و احیاء کا رنگ لیے ہوئے ہے۔ ان کا یہ تجدیدی اور احیائی رنگ ان کے ہر بیان سے ظاہر ہو رہا ہے اور تصانیف کے ذریعے اپنے تجدیدی و احیائی نقوش ثبت کر رہا ہے۔ ’’عرفان القرآن‘‘ کو ہی لے لیجیے جس کا سارا ترجمہ جہاں زبانِ عصر سے ہم آہنگ ہے وہیں تجدیدی و احیائی خدمت کے تسلسل میں سینکڑوں آیاتِ قرآنی کی مضبوط اجتہادی کاوش کے ذریعے وہ عظیم ترجمہ و تفسیر بیان کی ہے جو منشائے خدا اور رسول ہے اور جو خود قرآن کا ناطق بیان ہے اور جو علم عصر پر علم ربانی اور علم نبوی کی فوقیت اور برتری کا منہ بولتا ثبوت ہے اور تفسیر منہاج القرآن بھی اپنے اسلوب کے حوالے سے تفاسیر قرآن میں وہ منفرد اندازِ بیان رکھتی ہے جو تجدید و احیائے اسلام کے تمام گوشوں کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔

اسی طرح ذخیرۂ علم حدیث میں ’’المنہاج السوی‘‘ اور ’’جامع السنہ‘‘ تجدید و احیائے اسلام کے حوالے سے تاریخ اسلام کے تناظر میں آج کے دور میں ایک عظیم تجدیدی کارنامہ ہے اور اسی طرح ’’سیرۃ الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘ کی ’’ضرورت‘‘ درحقیقت اس کے احیاء کے پہلو کا احاطہ کیے ہوئے ہے اور اس میں ’’بیانِ سیرت‘‘ کا منفرد انداز اس کے تجدیدی اسلوب کو آشکار کر رہا ہے۔ اسی طرح اسلامی نظام کے تمام پہلوؤں کے حوالے سے اس عظیم دماغ کی تصانیف اپنے اندر حرف بہ حرف تجدید و احیاء کا رنگ لیے ہوئے ہیں اور اس عظیم تجدیدی و احیائی دماغ کی ان ہی تجدیدی کاوشوں کو دیکھتے ہوئے حضرت پیر محمد کرم شاہ الازہری رحمۃ اللہ علیہ کے دارالعلوم محمدیہ غوثیہ بھیرہ شریف کے شیخ الحدیث علامہ محمد معراج الاسلام جو کہ محدثِ اعظم پاکستان حضرت مولانا سردار احمد رحمۃ اللہ علیہ کے شاگرد ہیں اور خود شارح بخاری بھی ہیں۔ انھوں نے 1984ء میں ان کے مجدد عصر ہونے کا اعلان کیا اور اہل سنت والجماعت کے قدیم دارالعلوم حزب الاحناف لاہور کے شیخ الحدیث حضرت علامہ مفتی عبدالقیوم ہزاروی نے 1985ء میں آپ کے مجدد وقت ہونے کا اعلان کیا اور یہ دونوں وہ شخصیات ہیں جن کے ہزارہا شاگرد علماء اورمفتی ہیں، ان دونوں شخصیات نے اپنی اس سوچ کا اظہار خلوت اور جلوت میں، مجمعوں اور جلسوں میں اور اپنے چاہنے والوں کی مجلسوں میں ہر جگہ بلاخوف و خطر کیا ہے اور یہی اظہار اور یہی معرفت ان دونوں شخصیات کو اس مجدد عصر کی قربت میں لے آئی ہے۔

یہ تو علم نبوت کے ظاہر والوں کا فتویٰ ہے۔ اب دیکھتے ہیں کہ علم نبوت کے باطن والے اس بارے میں کیا کہتے ہیں۔ یہ 15 دسمبر1991ء کا زمانہ ہے۔ حضور سیّدنا غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی روحانی سرپرستی میں پرورش پانے والی اور آپ کے لخت جگر نقیب الاشراف حضور سیّدنا شیخ ابراہیم سیف الدین گیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے دست اقدس پر بیعت کرنے والی اور زندگی کا بیشتر حصہ حالت جذب اور بعدازاں حالت سلوک میں گزارنے والی اور اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ اور مولانا اشرف علی تھانوی سے ملاقات کرنے والی عظیم روحانی ہستی حضور سیّد رسول شاہ خاکی رحمۃ اللہ علیہ، مخدوم پور شریف چکوال والے ایک مجمع عام میں ہزاروں لوگوں کے سامنے تحریک منہاج القرآن کی مسجد ماڈل ٹاؤن لاہور میں بڑی تاکید کے ساتھ ڈاکٹر صاحب کی تجدید و احیائے اسلام کی خدمات کو بیان کرتے ہوئے یہ اعلان کرتے ہیں کہ میں تم سب کو حکم دیتا ہوں کہ تم ان کو ’’شیخ الاسلام‘‘ کہا کرو۔ سچ ہے اور حق ہے۔ اللہ کے ولی کا بول رب کا بول بن جاتا ہے۔ اس ولی کامل نے یہ اعلان کر دیا جو وقت کے ساتھ ساتھ خود حقیقت بنتا چلا گیا۔ آج اگر دنیا ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کو ’’شیخ الاسلام‘‘ ان کی تجدید و احیائے اسلام کی خدمات کو دیکھ، پڑھ اور سمجھ کر کہہ رہی ہے تو یہ درحقیقت نگاہِ ولی کا وہ کمال ہے جسے وہ ایک عام انسانی آنکھ سے بہت پہلے سالہا سال دیکھ لیتی ہے اور اُس حقیقت کا اظہار بھی کردیتی ہے جسے عام انسانی آنکھ کئی سال گزر جانے کے بعد اختیار کرتی ہے۔

علاوہ ازیں اس حقیقت کے زبان زدِ خاص و عام ہونے اور ایک حقیقت ثابتہ بننے کی ایک اور نمایاں اور اساسی وجہ حضور سیّدنا غوث الاعظم محی الدین شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے وہ روحانی تصرفات ہیں جو ان کو بچپن سے لے کر زندگی کے ہر مرحلے اور ہر لمحے میں روزِ روشن کی طرح میسر رہے ہیں حتیٰ کہ اپنی بارگاہ سے مسلسل روحانی فیض کے حصول کے لیے خود خواب میں آکر اپنے لخت جگر حضور سیّدنا طاہر علاؤ الدین القادری الگیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے دس اقدس پر بیعت کے لیے راہنمائی کی اور علم ظاہر اور علم باطن کے اس منبع و سرچشمہ سے مسلسل بلا انقطاع فیض یابی ہی ڈاکٹر صاحب کی پہچان اور شناحت بنی حضور سیّدی و مرشدی کی صحبتوں اور مجلسوں میں بیٹھنے والوں کو وہ مناظر یاد ہیں کہ جب بھی کسی نے آپ سے کسی بھی موضوع پر سوال کیا تو علم حقیقت کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا یہ سمندر اس طرح موجزن ہوتا کہ سننے والا حیرت میں مبتلا ہوجاتا اور وہ وہ حقائق اُس پر منکشف ہوتے جو اُس کے کان نے آج تک نہ سنے ہوتے اور نہ اُس کی آنکھ نے آج تک وہ دیکھے ہوتے اس عظیم ہستی نے اپنے رنگ سے اس طرح رنگ دیا کہ ڈاکٹر صاحب کو اپنا مرید ہی نہیں بلکہ اس سے بڑھ کر اپنے روحانی فرزند ہونے کا اعزاز عطا کیا۔ قائدمحترم خود بھی اپنی ہر خوبی، وصف اور کمال کو اپنے مرشد عظیم کے توسل سے حضور غوث پاک کی بارگاہ کی خیرات و عطا سے تعبیر کرتے ہیں۔

غرضے کہ یہ بالواسطہ اور بلاواسطہ فیض محی الدین کا آج بھی جاری و ساری ہے۔ یہ بارگاہ محی الدین، دین کو زندہ کرنے والی ذاتِ اقدس ہی کا فیض ہے کہ آج علماء و مفتیانِ کرام، مشائخ عظام اور خلق عام اُسی فیض کی عملی شہادت و گواہی دیتے ہوئے اور دین کی تجدیدی و احیائی کاوشوں کو دیکھتے ہوئے از خود آپ کو شیخ الاسلام کا لقب عطا کر رہے ہیں اور اسی خصوصی فیض کے تناظر میں اہل نظر اور صاحبانِ حال نے وہ لمحہ بھی دیکھا ہے جب آپ بغداد 30!اگست 1995ء میں موتمر الاسلامی الشعبی العالمی کی عظیم کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے تو اہلِ نظر نے مشاہدہ کیا کہ حضور سیّدنا غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ کس طرح آپ کی روحانی سرپرستی کر رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ محی الدین شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے بالواسطہ اور بلاواسطہ فیض نے ہی اس دماغ کو وہ عظیم دماغ بنایا ہے جس کا ہر رُخ، ہر جہت، ہر منظر، ہر اظہار، ہر بیان، ہر تصنیف اُسی فیض کی آئینہ دار نظر آتی ہے۔ غرضے کہ اس تجدیدی و احیائی دماغ کی تجدیدی کاوشوں کا احاطہ بلکہ ان کے اجمالی ذکر کے لیے صفحات نہیں بلکہ ایک ضخیم کتاب کی ضرورت ہے۔

قارئین کرام یہ عظیم دماغ جو ایک مینارۂ نور ہے۔ اس کے بہت گوشے اور بھی ہیں مضمون کی طوالت اس کی عدم طباعت کے اندیشے میں مجھے مبتلا کر رہی ہے۔ اس لیے میں ان ہی معروضات پر اکتفا کرتا ہوں۔ ہاں آخر میں خلاصۂ کلام کے طور پر یہ بات بھی کہتا جاؤں کہ آج ہم پاکستان سے لے کر دنیا بھر میں ہزاروں تحریکی قائدین اور لاکھوں کارکنوں اور کروڑوں وابستگان کی صورت میں ہر طرح کے ماحول سے پرورش پاکر اور اعلیٰ سے اعلیٰ صلاحیتوں سے مزین ہوکر اور ہم ہر طرح کی قابلیتوں کو مجتمع کرکے اور دنیا بھر کے ہم سارے تحریکی دماغ مل کر اور اکٹھے ہوکر بھی اس ایک دماغ جیسے نہیں ہیں

ذٰالِکَ فَضْلُ اللّٰهِ يُوْتِيْهِ مَنْ يَّشَاءُ. (الحدید : 57، 21) بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ہم سب کے دماغ اسی ایک عظیم دماغ سے روشن ہیں۔

باری تعالیٰ ہمارے اس عظیم قائد کو صحت و سلامتی اور عمر خضر عطا فرما اور ہم سب کو اس مصطفوی انقلاب میں ان کا دست و بازو بننے کی توفیق اور منزل کے حصول کے لیے آخری لمحے تک ثابت قدمی عطا فرما۔ آمین بجاہ سیّدالمرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

طا ہر کا جو نام چمکا

تیرگی میں نام طاہر کا جو چمکا دوستو!
مل گیا پھر اہلِ ایماں کو سہارا دوستو!

زندگی بے سمت تھی، ویران تھی، سنسان تھی
اے زہے قسمت ملا روشن ستارا دوستو!

دے کے طاہر نے ہمیں علم و شعور و آگہی
دل کی بنجر بستیوں کو ہے نکھارا دوستو!

درس لے کر امن کا، ایمان کا، قرآن کا
قلب و روح و جاں سے ہم نے زنگ اتارا دوستو!

روشنی منہاج قرآن کی ہے پھیلی ہر طرف
دیکھ لو قدرت کا یہ رنگیں نظارا دوستو!

آج اکرم فیضِ طاہر سے بالآخر مل گیا
ہم غریق بحرِ عصیاں کو کنارا دوستو!

(ابو اویس محمد اکرم قادری خطاط)