عائشہ شبیر

میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

ماہ ربیع الاول امت مسلمہ کے لئے خصوصی اہمیت و عظمت کا حامل ہے، جہاں عاشقان مصطفی اس ماہ کی آمد پر خوشیاں منا تے ہیں اور اپنی بساط کے مطابق نظم و نثر کے پیرائے میں تخلیق و ولادت اور عظمت و شان مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں رطب اللسان ہوتے ہیں وہیں ایک طبقہ جشن میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نکتہ اعتراض اٹھاتا دکھائی دیتا ہے جو اعتراضات کے اندھیرے میں ڈوبا ہوا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کی روشنی سے دور دکھائی دیتا ہے۔

بلاشبہ ماہِ ربیع الاول میں تخلیق کائنات حضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت میں جشن منائے جاتے ہیں۔ محافل میلاد میں عشق کے ترانے چھیڑے جاتے ہیں جلسے جلوس، تحریر و تقریر اور نعت گوئی کی صورت میں اپنے محبوب نبی سے قلبی محبت و عقیدت کا اظہار کیا جاتا ہے لیکن ان سب امور کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت و عظمت سے ناآشنا لوگوں کے لئے دلائل کی چادر میں لپیٹنا ضروری ہو گیا تھا تاکہ نئی نسل حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے والضحی چہرے اور واللیل زلفوں کی اسیر ہو جائے اور عشق حقیقی میں مست ہو کر دنیا کی رنگینیوں کو بھول جائے۔

اس کے لئے شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمدطاہر القادری کی تصنیف میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنا بھرپور کردار ادا کرتی ہے جس کے 994 صفحات ہیں، بارہ ابواب پرمشتمل ایک مدّلل اور ضخیم کتاب ہے جس میں میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مختلف پہلوؤں پر قرآن وسنت کی روشنی میں انتہائی جامع اور سیرحاصل گفتگو کی ہے اور یہ ثابت کیا ہے کہ میلاد منانا سنت الہیہ، اتباع رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور عمل صلحاء و صالحین ہے۔ اس کے ہر باب کا اجمالا ذکر صاحب ذوق کو اس کتاب کے مطالعہ کے لئے بے چین کرے گا

باب اول ’’تخلیق کا مبدا اول نور محمدی‘‘ میں خلقت نور محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، ظہور نورانیت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ظہور بشریت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس انداز میں بیان کیاگیا ہے کہ حقیقت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مضمون واضح ہو جاتا ہے اور قاری سمجھ جاتا ہے کہ حقیقت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی رحمت خداوندی ہے اور کائنات کی ہر شئے کا وجود رحمت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا محتاج ہے خلاصہ باب یہ ہے۔

تم ذات خدا سے نہ جدا ہو نہ خدا
ہو اللہ ہی معلوم ہے نہ جانیے کیا ہو

باب دوم : ’’نور محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قبل از ظہور بشری‘‘ میں نور مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عالم ارواح میں جلوہ نمائی، ارواح اشیاء پر روح محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فوقیت و فضیلت اور نور محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آسمانوں پر شہرت کے ذکر کو نور محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیدہ آمنہ کے بطن میں منتقلی تک کا بیان اس طرح سے کیا ہے کہ سمجھ کچھ یوں آتی ہے۔

فرش والے تیری شوکت کا علو کیاجانیں
خسروا عرش پہ اڑتا ہے پھریرا تیرا

باب سوم : ’’ولادت محمدی(ظہور بشری)‘‘ چھ فصول پر مشتمل ہے۔

فصل اول ’’جس سہانی گھڑی چمکا طیبہ کا چاند‘‘میں ولادت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تذکرہ جمیل ہے۔

فصل دوم : ’’اسم مبارک محمد کا بیان‘‘ میں نام مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تذکرۂ بے مثال ہے۔

فصل سوم ’’نمود صبح انقلاب‘‘ میں آمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معجزات کا دلنشین بیان ہے۔

فصل چہارم ’’امم سابقہ میں بشارات بعثت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘ میں نبوت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بشارات کا تفصیلی بیان ہے۔

فصل پنجم ’’شان یتیمی کے ساتھ ولادت کیوں‘‘ میں حکمت ربانی کے کمالات کا مدّلل بیان ہے۔

فصل ششم ’’مکان ولادت کا حسین تذکرہ‘‘ میں مولد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘ کا ذکر بڑے ہی آسان پیرائے میں کیا گیا ہے۔

باب چہارم : تعین میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قرآن وحدیت کی روشنی میں دو فصول قائم کی کئی ہیں جس میں ولادت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اظہار مسرت و افتخار (قرآنی آیات سے استدلال) میں ربیع الاول کی شان امتیازی بیان کی گئی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ کا فضل اور اس کی رحمت اور نعمت کے شکرانے کا انفرادی اور اجتماعی سطح پر حکم فرمایا۔

فصل دوم : ولات محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اظہار مسرت و افتخار ( احادیث و آثار سے استدلال)

اس میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولات باسعادت کا تذکرہ حسین ہے جس میں احادیث و آثار سے ثابت کیاگیا ہے کہ حضور پُرنور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد پر اللہ نے جشن منایا بزم کون و مکاں کو سجایا، سارا جہاں خوشیوں سے بھر دیا، کائنات ارض وسماء کو روشنیوں سے جگمایا، حورانِ بہشت نے استقبال کیا، انسان اور ملائک تو ایک طرف کائنات کے چرند پرندحیوان کے ساتھ بے جان مخلوق نے بھی خوشیاں منائیں،احادیث سے یوم عاشور، یوم آزادی، یوم نوح اور یوم تخلیق آدم کا منانا ثابت ہے تو پھر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو امام الانبیاء ہیں ان کا میلاد کیوں نہ منایا جائے؟

حسن یوسف دم عیسیٰ ید بیضاداری
آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری

اس فصل میں شیخ الاسلام مدظلہ امت مسلمہ کو آگاہ کرتے ہیں کہ اے غفلت کے اندھیروں میں بھٹکنے والو! میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر خوشی منانے پر تو کافر کے عذاب میں بھی تخفیف ہو جاتی ہے اور پھر عید میلاد منانا تو سنت خداہے، جشن عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اعتراض کرنے والو! احادیث سے ثابت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے میلاد کی خوشی میں بکرے ذبح کئے ہیں۔ اس فصل کے آخر میں شیخ الاسلام مدظلہ نے اعتراضات کے جوابات دیتے ہوئے قاری کی توجہ عبرت ناک حقیقت کی طرف دلائی ہے کہ

ثابت ہوا کہ جملہ فرائض فروع ہیں
اصل الاصول بندگی اس تاجور کی ہے

باب پنجم : قرآن میلاد نامہ انبیاء ہے، اس کتاب ’’میلاد النبی‘‘ کے باب چہارم میں شیخ الاسلام مدظلہ نے یوم ولادت انبیاء پر خوشیاں منانے کو احادیث سے ثابت کیا اور اس باب میں آپ نے قرآن کے اندر تمام انبیاء کے میلاد کا ذکر کر کے اس کو سنت الہیہ ثابت کیا ہے۔

باب ششم : ’’میلاد النبی ائمہ و محدثین کی نظر میں‘‘ ڈاکٹر صاحب نے 33 جید ائمہ و محدثین کے میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے متعلق اقوال و اعمال کا ذکر کیا ہے کہ وہ کس طرح سے جشن ولادت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اہتمام فرماتے ہیں پھر بلاد اسلامیہ میں جشن میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سماں کا تذکرہ کرتے ہیں، میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ائمہ و محدثین کی گراں قدر تصانیت کا تعارف بھی اسی باب میں ہے۔

باب ہفتم : ’’جشن میلاد النبی اور تصور بدعت‘‘ میں جشن میلاد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ہونے والے اختلافات و اعتراضات کا علمی و تحقیقی محاکمہ کیا گیا ہے۔ بدعت کیا ہے ؟ بدعت کا حقیقی تصور کیا ہے؟ محدثات الامور کا حقیقی اطلاق کیا ہے؟ پر تفصیلی گفتگو کرتے ہوئے آپ نے مختلف نکتوں کاحوالہ دیا ہے، بدعت کے معاملہ پر سب سے اہم بیان آیات قرآنی سے ثابت کیا ہے، فلسفہ حلال وحرام کی روشنی میں تصور بدعت کی وضاحت کی گئی ہے۔ ظاہر پرست علماء، محافل میلاد اور جشن میلاد کو صدیوں سے تنقید کا نشانہ بناتے چلے آ رہے ہیں اس باب میں بدعت کی تعریف اور اس کی شرعی حیثیت پر جید ائمہ حدیث وفقہ کے حوالے سے ڈاکٹر صاحب کا موقف بالکل واضح ہے کہ جہاں تک میلاد کو بدعت کہنے کا تعلق ہے، لغۃً تو صحیح ہے لیکن صرف بدعت کہہ کر اسے ہدف تنقید بنانا اور اس کو ناپسندیدہ کہہ دینا محض تنگ نظری اور ہٹ دھرمی ہے۔

باب ہشتم : ’’میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اجزائے تشکیلی‘‘ کے موضوع پر ہے جس میں ان امور پر گفتگو کی گئی ہے جن کو بدعات کہہ کر جشن میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اعتراضات کئے جاتے ہیں۔ مجالس و اجتماعات کا اہتمام، مدحت ونعت رسول، صلوۃ وسلام، قیام اکرام انسانی، قیام صلوۃ وسلام، قیام ذکر، اطعام الطعام اور جلوس میلاد کو قرآن وحدیث کے ساتھ ثابت کیاگیاہے، اس بات کا مطالعہ کرنے کے بعد پتہ چلتا ہے کہ یہ سارے امور سنت الہیہ وسنت رسول اور سنت صحابہ ہیں، بعض علماء علم وتحقیق میں گہری نظر نہ رکھنے کی بنا پر امت مسلمہ کو خواہ مخواہ اختلاقات کی بھینٹ چڑھا کر ٹکڑوں میں تقسیم کرنے کی شعوری و لاشعوری کوشش کرتے رہتے ہیں، لہذا دین کی اصل روح کو سمجھنے کے لئے علم میں وسعت لانا ہو گی۔

باب نہم : ’’جشن میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں تصور وتخیل کا پہلو‘‘ کی مزید دو فصول قائم کی گئی ہیں۔

فصل اول : ’’واقعات مسرت وغم میں تصور وتخیل کا اعتبار‘‘ اس فصل میں یہ ثابت کیا گیا ہے کہ کسی بھی خوشی یاغمی کی کیفیت کو تصور وتخیل میں اس طرح لانا کہ اس کے اثرات قلب وباطن پر مرتب ہونا شرعاً ایک جائز عمل ہے اور ایسا کرنا خود حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی سنت سے ثابت ہے، آج امت مسلمہ کا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت کے موقع پر واقعات ولادت کا تصور وتخیل کر کے محافل کا انعقاد کرنا شرعا جائز ہے بلکہ یہ محافل نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تعلق عشق ومحبت میں جذباتی پختگی کا باعث بنتی ہے۔

فصل دوم : ’’تکریم اسم محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں تصور وتخیل کا پہلو‘‘ اس فصل میں اسم محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فضائل وبرکات وتعظیم اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اسم مبارک سن کر انگوٹھے چومنے کے عمل کو بوسہ دینے کی برکات کا ذکر استدلال کے ساتھ ثابت کیاگیا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فضائل ومناقب میں جو بھی احادیث بیان کی جاتی ہیں چاہے وہ آپ کی تخلیق پر مشتمل ہوں یا آپ کے نور یا آپ کا اسم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مبارک سن کر انگوٹھے چومنے کا بیان ان کو قابل حجت گردانا جائے گا اور ان پر عمل کیاجائے گا۔

باب دہم : ’’قرون اولی کے مسلمانوں نے جشن کیوں نہ منایا؟‘‘ کے اہم موضوع پر ہے جس میں ان وجوہات کو بیان کیا گیا ہے جس کی بنا پر قرون اولی کے مسلمان جشن نہ مناتے تھے۔

1۔ قرون اولی میں وصال محبوب کی خبر تازہ تھی۔ 2۔غم کے باعث خوشی کا کھلا اظہار نہ کرنا انسانی فطرت ہے۔

3۔ادوار اوائل میں کیفیات غم کا اثر غالب رہ

لیکن بعد کے دور میں ولادت کی خوشی، غم وصال پر غالب آ گئی جبکہ نعمت ولادت کا خوشی کی صورت میں شکر بجا لانا حکم خداوندی ہے۔ اس باب میں ثابت کیاگیا ہے کہ خوشی منانا بدعت نہیں فطرت ہے، جلیل القدر ائمہ اسلام نے اس بات کی تصریح کی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد وبعثت پر دھوم دھام سے خوشی کا اظہار عین شرعی اور فطری تقاضوں کے مطابق ہے جبکہ آپ کے وصال پر غم کا اظہار خلاف شریعت اور اسلام کے زریں اصول کے منافی ہے۔

خلاصہ باب یہ ہے کہ قرون اولی کے مسلمانوں میں اہم ملی اور مذہبی اہمیت کے دن منانے کا کوئی رواج نہیں تھا جس کے تحت صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم یوم نزول قرآن، یوم بدراور یوم فتح مکہ مناتے جبکہ آج پاکستان اور دیگر اسلامی ممالک بہت سے قومی تہواروں کو جدید تقاضوں کے مطابق ایام مسرت کے طور پر مناتے ہیں۔

باب یازدہم : ’’جشن میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مختلف پہلوؤں پر اجمالی نظر‘‘، اس باب میں جشن میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے درج ذیل پہلوؤں پر تفصیل کے ساتھ گفتگو کی گئی ہے۔ جن میں شرعی، تاریخی، ثقافتی، تربیتی، تبلیغی، ذوقی وحبی اور توسلی وروحانی پہلو شامل ہیں جس میںیہ ثابت کیاگیا ہے کہ اعمال کی روح اور ایمان کی حقیقت بھی محبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ آج کے دور میں ایمان کی حفاظت کا بہترین ذریعہ جشن میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔

باب دوازدہم : ’’جشن میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تقاضے‘‘ اس باب میں میلاد النبی کی اصطلاح کے ضمن میں سیرحاصل گفتگو کے ساتھ ساتھ جشن میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تقاضوں کا بھی بڑی تفصیل کے ساتھ ذکر کیاگیاہے، جس میں صدق واخلاص اور طہارت ظاہری وباطنی کو میلاد کی شرط اولیں قرار دیاگیا ہے۔ آخر میں شیخ الاسلام ایک اہم نکتے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے لکھتے ہیں کہ بعض مقامات پر مقام وتعظیم رسالت سے ناآشنا لوگ جشن میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو گوناگوں منکرات، بدعات اور محرمات سے ملوث کر کے بہت بڑی نادانی اور بے ادبی کا مظاہرہ کرتے ہیں ان نام نہاد عقیدت مندوں کو سختی سے سمجھانے کی ضرورت ہے ورنہ کچھ عرصہ بعد جشن میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ادب ناشناس جہلاء کی اسلام سوزرسوم ورواج کا گہوارہ بن جائے گا۔ بقول اقبال رحمۃ اللہ علیہ

حقیقت خرافات میں کھو گئی
یہ امت روایات میں کھو گئی

خدارا اس تعظیم رسالت کو اپنے تمام ترمالی، مسلکی اور دنیوی مفادات سے بلند تر سمجھتے ہوئے اپنے کردار کو درست اور ان خرافات کو ختم کر دیں، حکومت کا فرض بنتا ہے کہ محافل میلاد کا تقدس برقرار رکھنے میں اپنا اہم کردار کرے اور عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام پرناچ گانا اور دیگر خرافات کرنے والوں پر قانونی پابندی لگائے تاکہ جلسے جلسوں اور جلوسوں کا ماحول غیر شرعی امور سے پاک ہو جائے۔

کتاب کے آخر میں مآخذ ومراجع اس کے تمام ابواب اور موضوعات کی گفتگو کو مدلل کرتے ہیں۔