فاطمہ مشہدی

’’اسلام میں خواتین کے حقوق‘‘

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری مدظلہ دنیائے علم و دانش کی وہ عظیم ہستی ہیں جو کسی تعارف کی محتاج نہیں جس طرح آپ کی شخصیت منفرد ہے اسی طرح آپ کی تالیفات و تصانیف بھی انفرادیت میں اپنی مثال آپ ہیں۔ اہل علم و دانش ان کی کوئی کتاب اٹھالیں، کوئی تعارف اس کی تمام جہتوں کے تنوع کو سمیٹ نہیں سکے گا۔ آپ ایک ہزار کتب کے مصنف ہیں جن میں سے 350 شائع ہو چکی ہیں اور باقی طباعت کے مختلف مراحل میں ہیں۔ یہ شیخ الاسلام مدظلہ کا وہ عالمگیر طرز فکر ہے جو انہیں ہر میدان میں ایک امتیازی مقام عطا کر دیتا ہے۔ آپ کی ایک مختصر مگر انتہائی جامع کتاب ’’اسلام میں خواتین کے حقوق‘‘ میں شیخ الاسلام مدظلہ کی جس بصیرت کا ادراک ہوتاہے وہ اس کتاب کی اصل روح ہے۔

رسو ل اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کے وقت انسانی معاشرے میں ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی کی صورت حال شرمناک حد تک تباہی اور بگاڑ کا شکار تھی۔ آج جن اخلاقی اور روحانی قدروں کی بات ہوتی ہے اس وقت یہ اقدار مردہ ہو چکی تھیں۔ انسان انسان کے خون کا پیاسا، ظلم و بربریت کا بازار گرم کئے بیٹھا تھا۔ عورت کو بالخصوص استحصال اور ظلم و جبر کا نشانہ بنایا جاتا تھا۔ حتی کہ انسانی معاشرے میں عورت کو انسانی مقام ہی نہیں دیا جاتا تھا۔

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس صورتحال میں پورے عالم انسانیت کو اللہ تعالی کی توحید اور اپنی رسالت پر ایمان لانے کی دعوت دی تاکہ خود غرضی، مفاد پرستی، قومیت پرستی، زبان اور رنگ و نسل کے امتیاز کے جھوٹے خداؤں کی نفی ہو جائے اور سار ی انسانیت ایک سچے خدا پر ایمان لے آئے جس کے لئے اللہ کے آخری رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حقوق انسانی کی بحالی کا صحیفہ لے کر دنیا میں مبعوث ہوئے۔ اس طرح حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ منورہ میں اسلامی ریاست کی تشکیل فرمائی، اقتدار الہیہ کو اس کی اساس قرار دیا اور نہ صرف حقوق انسانی کے نفاذ کو یقینی بنایا بلکہ یہ احساس بھی زندہ کیا کہ اسلامی معاشرے میں حق کی طلب سے قبل ہر شخص تقویٰ کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے اپنے اوپر عائد دوسروں کے حقوق کی ادائیگی کے لئے بھی کمر بستہ رہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تعلق باللہ اور تعلق بالرسالت کے استحکام کے لئے توحید و رسالت کی تصدیق اور عملی توثیق کو ہمہ وقت مستحضر رکھنے کی تعلیم دے کر حقوق و فرائض کے توازن اورحقوق کی ادائیگی کی ضمانت مہیا کی اور تمام بنیادی انسانی حقوق بحال کر دیئے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ مردہ روحانی، اخلاقی اور انسانی قدروں کو زندگی مل گئی، ایثار و قربانی اور محبت و اخوت والا معاشرہ وجود میں آ گیا۔ جنگ و جدل اور قتل و غارت کی جگہ امن و آشتی نے لے لی، ناانصافیاں ختم ہو گئیں اور عدل و انصاف قائم ہو گیا، ظلم اور حق تلفیوں کی جگہ حقوق کی ادائیگی کا کلچر آ گیا، نفرت اور انتقام کی بجائے معاشرہ میں تحمل، بردباری، رواداری اور برداشت کے رویے پیدا ہو گئے اور ایک اسلامی معاشرہ پیدا ہوا جس میں انسان دوسروں کی خاطر جینے لگا، اپنی ضرورت کی بجائے دوسروں کی ضروریات پوری کرنے کی فکر کرنے لگا، اپنا غم بھول کر دوسروں کے غم ختم کرنے میں لگ گیا اور اس محبت اور اخوت کو رضائے الہی کے حصول کا واحد ذریعہ جان کر استقامت سے ایثار و قربانی پر عمل پیرا ہو گیا۔

شیخ الاسلام مدظلہ کی مدلل اور جامع کتاب ’’اسلام میں خواتین کے حقوق‘‘ اس موضوع پر موجود لٹریچر میں ایک نہایت خوبصورت اضافہ ہی نہیں بلکہ موضوع کے حوالے سے خواتین کے حقوق کی نئی جہتوں کو بے نقاب کرنے اور ان کے حقوق کی بحالی کی جدوجہد میں مفکرانہ کوشش ہے۔ جب قاری کتاب کو سطرسطر ورق ورق پڑھنے بیٹھتا ہے تو پردہ اٹھتا ہے کہ حقوق نسواں کی تاریخ کیاہے؟ زمانہ جاہلیت میں عورت کے ساتھ کیا سلوک روا رکھا گیا اور کن مختلف طریقوں سے اس کا استحصال کیا جاتا رہا؟ قرآن شاہد ہے کہ دور جاہلیت میں مشرکین، عورت کو کسی رتبے اور مقام کا اہل نہ سمجھتے تھے۔ لڑکی کی پیدائش ان کے لئے باعث ذلت تھی۔ چنانچہ وہ انہیں زندہ درگور کر دیتے۔ سورہ النحل میں ہے :

’’اور جب ان میں سے کسی کو لڑکی (کی پیدائش) کی خبر سنائی جاتی ہے تو اس کا چہرہ سیاہ ہو جاتا ہے اور وہ غصہ سے بھر جاتا ہے وہ لوگوں سے چھپا پھرتا ہے، (بزعم خویش) اس بری خبر کی وجہ سے جو اسے سنائی گئی ہے، (اب یہ سوچنے لگتا ہے کہ ) آیا اسے ذلت و رسوائی کے ساتھ (زندہ) رکھے یا اسے مٹی میں دبا دے (یعنی زندہ درگور کر دے) خبردار! کتنا برا فیصلہ ہے جو وہ کرتے ہیں۔‘‘ (النحل، 16 : 58، 59)

شیخ الاسلام مدظلہ نے ایسے ہی ایک باپ کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ قیس بن عاصم جنہوں نے اسلام قبول کر لیا تھا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا : یا رسول اللہ ! میں نے زمانہ جاہلیت میں اپنی بیٹیوں کو زندہ دفن کر دیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’ہر بیٹی کی طرف سے ایک غلام آزاد کرو۔ روایات میں ہے کہ قیس بن عاصم نے اپنی دس یا بارہ بیٹیوں کو زندہ دفن کیا تھا۔ اس نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں بہت سے اونٹوں کا مالک ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تو ہر بیٹی کی طرف سے ایک اونٹ کی قربانی کرو‘‘۔

اسی طرح شیخ الاسلام مدظلہ نے اس زمانے میں رائج شادی کے مختلف طریقے بھی بیان کئے ہیں جن سے عورت سے متعلق مرد کی سفارش کھل کر سامنے آ جاتی ہے اور ان میں سے کئی طریقے آج بھی مغربی معاشرے میں رائج ہیں۔ آج کا مغربی معاشرہ جسے حقوق انسانی کے حوالے سے ترقی یافتہ اور انسانی اقدار کی علمبردار تہذیب کہا جا رہا ہے۔ شیخ الاسلام مدظلہ نے اس سلسلے میں مغربی سوسائٹی میں عورت کے ساتھ کی جانے والی بے حرمتی کا جائزہ لیا ہے جس سے مغربی تہذیب کی ترقی کی قلعی کھل جاتی ہے۔ مغربی معاشرے میں عورت صرف سماجی یا معاشرتی سطح پر ہی انحطاط کا شکار نہیں بلکہ ظاہراً معاشی و اقتصادی آزادی کی حامل ہوتے ہوئے بھی استحصال سے دوچار ہے۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں مغربی عورت کی معاشی و اقتصادی حالت کا جائزہ یوں پیش کیاگیا :

Women constitute half the world's population, perform nearly two third of its work hour, receive 1/10th of the world's income & own less than one hundred of the world's property.

آج کی مغربی سوسائٹی میں عورت کے حقوق کی پامالی کاجائزہ لینے کے بعد شیخ الاسلام مدظلہ یہ واضح کرتے ہیں کہ اسلام نے عورت کو کیا مقام عطا کیا ہے، ان حقوق کی جہتیں کیا ہیں اور ان کی کلیت کا احاطہ کیسے کیا جا سکتا ہے؟

شیخ الاسلام مدظلہ کی کتاب ’’اسلام میںانسانی حقوق‘‘ معاشرے میں موجود بگاڑ، عورت کے ساتھ ہونے والے ظلم و ستم، استحصال اور ناانصافیوں سے بحث نہیں کرتی بلکہ ایک عالمانہ اور مفکرانہ انداز میں لکھی گئی ایسی کتاب ہے جو بیک وقت عام قاری، طلباء، معلمین، دانشور، مفکرین، علماء، فقیہ، قانون دان، عدالت کے ججز اور قانون سازی کے ذمہ دار احباب کے لئے یکساں کارآمد ایک ریفرنس بک کادرجہ رکھتی ہے۔

تنقید اس کا موضوع ہے نہ مزاج بلکہ یہ ایک ٹھوس علمی خزانہ ہے جس سے تہذیب و تمدن کے نقاد بھی برابر استفادہ کر سکتے ہیں۔ البتہ عالمانہ، مفکرانہ اور محققانہ شان کے ساتھ یہ مدلل کتاب دقیانوسی دانشور، مغربی مفکرین، تہذیب وتمدن کے علماء اور میڈیا ماہرین کو لمحہ فکریہ مہیا کرتی ہے کہ اپنے من میں دم توڑتی ہوئی انسان دوستی کی کیفیت کو ٹٹولیں، عدل و انصاف اور اعلیٰ انسانی اقدار کا حامل ہونے کے دعویٰ باطل کی حیثیت پہچانیں اور امن و سلامتی بالخصوص حقوق کی بحالی کے سچے علمبردار بنیں۔