صاحبزادہ مسکین فیض الرحمن درانی

مرکزی امیرتحریک منہاج القرآن انٹرنیشنل

درس نمبر17

عالمین لاہوت، ملکوت اورناسوت کی تخلیق سے پہلے رب العالمین جل شانہ نے اپنی پہلی تخلیق حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نور کو اپنے نور کے پرتو سے پیدا فرمایا پھر اپنے اس شاہکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اپنی ذات باری جل شانہ کو ظاہر فرمایا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنا مظہر ذات اور باعث تخلیق کائنات قرار دے کر آپ کے نور سے آفاق و انفس اور عالمین لاہوت و ملکوت و ناسوت کو پیدا فرمایا۔ پھر عالم ارواح کی تخلیق کے بعد نبی محتشم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تمام انبیاء علیہم السلام کا سردار، پیشوا اور امام بنایا اور کائنات میں سب سے پہلے سارے نبیوں، پیغمبروں اور رسل علیہم السلام کو آپ کے امتی بننے کا شرف بایں معنی عطا فرمایا کہ وہ اپنے اپنے ادوار میں دنیا میں جا کر نبی محتشم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مشن پھیلانے کے سلسلے میں لوگوں کو اللہ تعالی کی توحید کا درس دیں، اللہ تعالی جل مجدہ کے احکامات سمجھنے کے لئے ان کی تربیت کریں اور آنے والے نبی آخر الزماں امام الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد کی خبر دیں، پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دنیا میں ظاہر ہو جائیں، تو سب سابقہ انبیاء کے امتی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت پر ایمان لائیں گے کہ وہی آخری رسالت کاملہ ہو گی اور سابقہ تمام انبیاء کی رسالت مفقود ہو کر اسی میں شامل ہوں گی، اور وہ سب مل کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مشن کی تکمیل میں مدد کریں گے۔

اب جبکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام عالمین کے اول وآخر نبی اور تمام مخلوقات عالم اول تا آخر آپ کے امتی ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کے دوگروہ ہیں۔ پہلا گروہ امت دعوت جو شرعاً مکلف ان تمام افراد پر مشتمل ہے، جن کے پاس حضور نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت اسلام پہنچی، چاہے وہ ایمان لائے ہوں یا نہ لائے ہوں، خواہ وہ مسلمان ہوں یا کافر۔ قرآن حکیم میں ارشاد باری تعالی ہے۔

وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا كَافَّةً لِّلنَّاسِ بَشِيرًا وَنَذِيرًا

(سبا : 28)

’’اور (اے حبیب مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر اس طرح کہ (آپ) پوری انسانیت کے لئے خوشخبری سنانے والے اور ڈر سنانے والے ہیں۔ ‘‘ (عرفان القرآن)

پھر اللہ تعالی جل شانہ نے اپنے محبوب مکرم نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اپنی زبان مبارک سے کہلوایا اور اپنے منصب رسالت اور مرتبہ رشد و ہدایت کے اعلان کے لئے یہ الفاظ عطا فرمائے۔

قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا الَّذِي لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ لاَ إِلَـهَ إِلاَّ هُوَ يُحْيِـي وَيُمِيتُ فَآمِنُواْ بِاللّهِ وَرَسُولِهِ النَّبِيِّ الْأُمِّيِّ الَّذِي يُؤْمِنُ بِاللّهِ وَكَلِمَاتِهِ وَاتَّبِعُوهُ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَO

(الاعراف : 158)

’’آپ فرما دیں: اے لوگو! میں تم سب کی طرف اس اللہ کا رسول (بن کر آیا) ہوں جس کے لئے تمام آسمانوں اور زمین کی بادشاہت ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہی جلاتا اور مارتا ہے، سو تم اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لاؤ جو (شانِ اُمیّت کا حامل) نبی ہے (یعنی اس نے اللہ کے سوا کسی سے کچھ نہیں پڑھا مگر جمیع خلق سے زیادہ جانتا ہے اور کفر و شرک کے معاشرے میں جوان ہوا مگر بطنِ مادر سے نکلے ہوئے بچے کی طرح معصوم اور پاکیزہ ہے) جو اللہ پر اور اس کے (سارے نازل کردہ) کلاموں پر ایمان رکھتا ہے اور تم انہی کی پیروی کرو تاکہ تم ہدایت پا سکوo‘‘ (عرفان القرآن)

ایک متفق علیہ حدیث شریف میں حضور نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

اُرْسِلْتُ اِلٰی الْخَلْقِ کَافَةً وَخَتَمَ بِی النَبِيُّوْنَ

’’میں تمام مخلوق کی طرف رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بنا کر بھیجا گیا ہوں اور میری آمد سے انبیاء علیہم السلام کا سلسلہ ختم ہو گیا ہے۔‘‘

اسی طرح حضرت جابر بن عبداللہ انصاری نے ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روایت کیا ہے۔

کَانَ کُلُّ نَبِیٍّ يَبْعَثُ اِلٰی قَوْمِهِ خَاصَةً وَ بُعِثْتُ اِلٰی کُلُّ اَحمَرٍ وَ اَسْوَدٍ

’’مجھ سے پہلے ہر نبی اپنی ایک مخصوص قوم کی طرف مبعوث ہوتا تھا لیکن میں عالم انسانیت کے ہر سرخ اور سیاہ فرد کی طرف مبعوث کیا گیا ہوں‘‘

دوسرے گروہ جنات و انسانوں میں جو بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت کو قبول کر کے آپ پر ایمان لایا، وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ’’امت اجابت‘‘ کا فرد بن گیا اور آپ کی آفاقی اور عالمگیر ملت میں شامل ہو گیا۔ امت مسلمہ کے ہر فرد پر اللہ تعالی جل مجدہ کا خاص احسان ہے، کہ اس ذات باری تعالی نے ان کی تعلیم، تربیت، تزکیہ نفس اور تصفیہ باطن، تلاوت آیات اور درس علم و حکمت کے لئے تاجدار کائنات، سرور ثقلین، سردار انبیاء اور اپنے محبوب مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تلمذ عطا فرمایا، انہیں صراط مستقیم پر استقامت اختیار کرنے کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قلب مطہر پر اتاری گئی اپنی کتاب قرآن حکیم فرقان مجید عطا فرمائی، جس میں جمیع ملت اسلامیہ کو منزل مقصود تک پہنچانے کیلئے چھ ہزار چھ سو چھیاسٹھ آیات ربانی کی شکل میں نور معرفت عطا فرمایا۔

سرور کائنات نبی ثقلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عظیم مشن مخلوق خدا کو خالق ہر دوسرا جل شانہ کی توحید پر دل و جان سے ایمان لانے اور اس کی حاکمیت اعلیٰ کو تسلیم کرنے کی تعلیم اور تربیت عطا فرمانے سے عبارت ہے۔ ہر انسان پر خالق کل مالک آفاق وانفس کی وحدانیت پر ایمان واجب ہے، مخلوق پر فرض ہے کہ وہ اپنے خالق کو راضی کرے اور اس کے احکام کے مطابق زندگی بسر کرے، انسان کو دنیا میں مختصر وقت کے لئے بھیجا گیا ہے، اس کی تخلیق کا مقصداللہ جل شانہ کی ’’عبادت‘‘ ہے۔ دین اسلام میں ’’عبادت‘‘ کا مطلب اور مفہوم بہت وسیع ہے، مسلمان کی زندگی کاہر لمحہ عبادت یعنی ’’کامل بندگی‘‘ اختیار کرنا اور اللہ جل شانہ کی رضاکے حصول کے لئے دل و جان سے اس کے سامنے ہمہ وقت حضوری اور بندگی کی حالت میں رہنا ہے، اللہ جل مجدہ کی وحدانیت، احدیت، مالکیت اور حاکمیت اعلیٰ پر اخلاص نیت، صدق دل اور زبان سے شہادت کو ’’ایمان باللہ‘‘ کہتے ہیں، یعنی انسان جب کلمہ طیبہ کا پہلا حصہ ’’لَا اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ‘‘ زبان سے کہتا ہے اور قلب اسکی تصدیق کرتا ہے، تو وہ سمجھتا ہے کہ اس کا خالق ’’اللہ‘‘ ہے، جو اس کا مالک، معبود اور مسجود، اس کا پالنے والا، اس کو رزق دینے والا، عزت اور ذلت دینے والا، اولاد، مال، دولت، اقتدار، حکومت اور منصب دینے والا ہے، خوشی، غم، بیماری، شفاء، آرام دینے والا ’’اللہ‘‘ ہے۔ ’’اللہ‘‘ یکتا اور واحد ہے۔ ’’اللہ‘‘ جوبے حد مہربان اور نہایت رحم والا ہے، وہ الصمد ہے، جس سے مراد یہ ہے کہ وہ سب سے پاک، کھانے پینے، بھوک پیاس سے بے نیاز ہے، وہ کسی شئے کا محتاج نہیں، نہ وہ وجود کے لئے اور نہ ہی بقائے وجود کے لئے، وجود باری تعالی ہی وجود حقیقی ہے، کائنات بسیط میں بکھری ہوئی بے حد و شمار نشانیاں اور آفاق وانفس کا ہر ذرہ خدائے واحد و یکتا کی ذات واجب الوجود پر گواہی دے رہا ہے۔

کائنات کا بے مثال نظم و ضبط اور اس میں موجود باقاعدگی، تناسب، تواتر اور اعتدال شعوری اور لاشعوری طور پر انسانی ذہن کو اقرار الوہیت پر مجبور کر رہا ہے، اللہ تعالی جل شانہ کی رضا اس امر میں پوشیدہ ہے کہ انسان آفاق وانفس میں موجود اللہ سبحانہ و تعالی کی نشانیوں پر غور و فکر کرے اور پورے ارادہ و اختیار سے اللہ جل شانہ کو مانے۔ ارشاد باری تعالی ہے۔

سَنُرِيهِمْ آيَاتِنَا فِي الْآفَاقِ وَفِي أَنفُسِهِمْ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُ الْحَقُّ

(حم السجده : 53)

’’ہم عنقریب انہیں اپنی نشانیاں اطراف عالم میں اور خود ان کی ذات میں دکھا دیں گے، یہاں تک کہ ان پر ظاہر ہو جائے گا کہ وہی حق ہے۔ ‘‘ (عرفان القرآن)