کلام اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے تناظر میں خواتین کا کردار

پروفیسر محمد رفیق سیال

حکیم الامت، شاعر مشرق علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ خواتین کے لئے وہ انداز زندگی پسند کرتے تھے جو صدر اسلام میں پایا جاتا تھا، جب عورتیں برقعہ کے نہ ہوتے ہوئے بھی عفت و عصمت اور شرم و حیا جیسی اقدار کی پاسداری کیا کرتی تھیں اور شرعی پردے کی حدود کے اندر رہتے ہوئے زندگی کی مختلف سرگرمیوں میں حصہ لیتی تھیں۔ 1912ء میں طرابلس کی جنگ کے دوران جب ایک بہادر عرب لڑکی فاطمہ بنت عبداللہ، مجاہدین کو پانی پلاتے ہوئے شہید ہوئی تو علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے بڑی درد مندی سے اس کا نوحہ لکھا۔

فاطمہ تو آبروئے امت مرحوم ہے
ذرہ ذرہ تیری مشت خاک کا معصوم ہے

یہ کلی بھی اس گلستان خزاں منظرمیں تھی
ایسی چنگاری بھی یارب اپنی خاکستر میں تھی

فاطمہ گو شبنم افشاں آنکھ تیرے غم میں ہے
نغمہ عشرت بھی اپنے نالہ ماتم میں ہے

ہے کوئی ہنگامہ تیری تربت خاموش میں
پل رہی ہے ایک قوم تازہ اس آغوش میں

اقبال ایسے دانشوروں، فنکاروں اور شاعروں سے شاکی تھے جو عورت کے نام کا غلط استعمال کر کے عفت و حیاء، صدق و صفا اور صبر و رضا جیسے پاکیزہ مقاصد کو صدمے سے دوچار کر دیتے تھے۔

چشم آدم سے چھپاتے ہیں مقامات بلند
کرتے ہیں روح کو خوابیدہ بدن کو بیدار

ہند کے شاعر و صورت گرو افسانہ نویس
آہ! بے چاروں کے اعصاب پہ عورت ہے سوار

اقبال ماؤں کے کردار کو جملہ معاشرتی تجربات کی اصل قرار دیتے ہیں ان کے نزدیک ماؤں کا وجود انقلاب انگیز قوتوں کا حامل ہے وہ اپنی صلاحیتوں کو اپنی والدہ ماجدہ کا فیض گردانتے ہیں۔

مرا داد ایں خرد پرور جنونے
نگاہ مادر پاک اندرونے

وہ قوموں کے احوال کی سازگاری کو ماؤں کا فیض قرار دیتے ہیں ان کے نزدیک ماؤں کی پیشانیوں پر قوموں کی تقدیر رقم ہوتی ہے۔

خنک آں ملّتے کزوارادتش
قیامت ہا بہ بیند کائناتش

چہ پیش چہ آید پیش افتاد اورا
تواں دید از جبین امّہاتش

وہ دختران ملت کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ مسلم قوم کی تقدیر سازی کے لئے اپنا کردار ادا کریں اور اس مقصد کے لئے قرآن پاک کے فیوض و برکات سے اپنے گھروں کو منور کریں جیسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بہن کی قرآن خوانی نے ان کی کایا پلٹ دی اور ان کے سخت دل کو پگھلادیا۔

زشام مابروں آور سحررا
بہ قرآں باز خواں اہل نظر را

تومی دانی کہ سوز قرات تو
دگر گوں کرد تقدیر عمر را

اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک جس طرح گھر کے باہر کی زندگی میں مردوں کو برتری حاصل ہے۔ اسی طرح اندرون خانہ سرگرمیوں میں عورت کا کردار غالب ہے۔ انسان کا پہلا مدرسہ ماں کی گود ہے ماں جتنی مہذب اور پاکیزہ کردار کی حامل ہوگی بچے کی تربیت پر اس کے مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔

یہ فیضان نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کس نے اسماعیل کو آداب فرزندی

عورت کا شرف و وقار اس کے ماں ہونے کی وجہ سے ہے جہاں ماؤں کے حقوق ادا نہیں کئے جاتے وہاں خاندانی نظام کمزور پڑ جاتا ہے، باہمی اعتماد متزلزل ہو جاتا ہے، اخلاقی اقدار دم توڑنے لگتی ہیں۔ ان کے خیال میں مغرب کے اخلاقی بحران کا اصل سبب ماں کے احترام کا پاس نہ کرنا ہے۔ جس علم کی تحصیل سے عورت اپنی خصوصیات کھو دیتی ہے وہ علم نہیں، موت ہے اور فرنگی تہذیب قوموں کو اسی موت کی دعوت دے رہی ہے۔

تہذیب فرنگی ہے اگر مرگ امومت
ہے حضرت انساں کیلئے اس کا ثمر موت

جس علم کی تاثیر سے زن ہوتی ہے نازن
کہتے ہیں اسی علم کو ارباب نظر موت

بیگانہ رہے دین سے اگر مدرسہ زن ہے
عشق و محبت کے لئے علم و ہنر موت

اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے خیال میں آزادی نسواں یا آزادی مردان الگ الگ کوئی معنی نہیں رکھتی یہ دونوں ایک دوسرے سے مربوط ہیں اور ان کا باہمی تعاون و ایثار زندگی کے حسن کی علامت ہے۔ زندگی کی سلامتی، ترقی اور اس کا استحکام اس بات میں پوشیدہ ہے کہ مرد اور عورت زندگی کے حقوق و فرائض کا بوجھ مل کر اٹھائیں اور اس کی رونقوں کو بڑھائیں۔

مرد و زن وابستہ یک دیگر ند
کائنات شوق را صورت گراند

عورت اگر زندگانی میں کوئی بہت بڑا کردار نہ بھی ادا کر سکے تب بھی اس کی مامتا ہی قابل قدر ہے جس کی بدولت مشاہیر عالم پروان چڑھتے ہیں اور دنیا کا ہر انسان عورت کا ممنون احسان ہے۔

وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوز دروں

شرف میں بڑھ کے ثریا سے مشت خاک اس کی
کہ ہر شرف ہے اسی درج کا در مکنوں

وہ آزادی نسواں کی تحریک کے حامی نہیں ہیں کیونکہ اس کے نتائج عورتوں کی غلامی کی صورت میں سامنے آتے ہیں جس سے زندگی پیچیدہ ہو جاتی ہے اور جذبہ امومت ختم ہو جاتا ہے اس بگاڑ کا سبب مغربی تہذیب ہے مرد فرنگ کے عنوان سے رقم کرتے ہیں :

ہزار بار حکیموں نے اس کو سلجھایا
مگر یہ مسئلہ زن رہا وہیں کا وہیں

قصور زن کا نہیں ہے کچھ اس خرابی میں
گواہ اس کی شرافت پہ ہیں مہ و پروین

فساد کا ہے فرنگی معاشرت میں ظہور
کہ مرد سادہ ہے بے چارہ زن شناس نہیں

اقبال پردے کو عورت کی ترقی میں رکاوٹ نہیں سمجھتے وہ تمام جائز سرگرمیاں پردے میں رہتے ہوئے جاری رکھ سکتی ہے اور اپنے فرائض کی انجام دہی کر سکتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ خالق کائنات بھی تو پردے میں ہے مگر وہ کائنات کو چلا رہا ہے اس کی ذات گو حجاب قدس میں ہے مگر اس کے صفاتی جلوے ہر طرف پھیلے ہوئے ہیں۔

جہاں تابی زنور حق بیاموز
کہ ُاوبا صد تجلی در حجاب است

وہ پردے کے مخالفین کو جواب دیتے ہیں کہ پردہ جسم کا حجاب ہے لیکن اسے عورت کی اعلیٰ صفات اور مضمر امکانات کے لئے رکاوٹ قرار نہیں دیا جا سکتا۔

چہرے کا پردہ ہونا یا نہ ہونا اصل سوال نہیں بلکہ اصل بات یہ زیر بحث ہے کہ شخصیت اور حقیقت ذات پردوں میں نہ لپٹی ہو بلکہ انسان کی خودی بیدار اور آشکار ہو۔

بہت رنگ بدلے سپہر بریں نے
وہ خلوت نشیں ہے یہ جلوت نشیں ہے

ابھی تک ہے پردے میں اولاد آدم
کسی کی خودی آشکارا نہیں ہے

پردے کی تائید میں اقبال نے خلوت کے عنوان سے ایک نظم کہی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ پردہ کی وجہ سے عورت یکسو ہوکر اپنی صلاحیتوں کو نسل نو کی تربیت پر صرف کرتی ہے اور اپنی ذات میں مضمر امکانات کو سمجھنے کا موقع پاتی ہے اس کے ساتھ ہی اسے سماجی برائیوں سے الگ رہ کر اپنے گھر اور خاندان کی تعمیر کا سامان میسر آتا ہے۔ گھر کے پرسکون ماحول کے اندر اسے زندگی کے مسائل اور معاشرتی موضوعات کو سوچنے سمجھنے کی آسانیاں ملتی ہیں اور اس طرح وہ اپنے اور دوسرے لوگوں کے لئے بہتر خدمات سرانجام دے سکتی ہے۔

رسوا کیا اس دور کو جلوت کی ہوس نے
روشن ہے نگہ آئینہ دل ہے مکدر

آغوش صدف جس کے نصیبوں میں نہیں ہے
وہ قطرہ نیساں کبھی بنتا نہیں گوہر

خلوت میں خودی ہوتی ہے خود گیر و لیکن
خلوت نہیں اب دیر و حرم میں بھی میسر

ایک اہم سوال جو عام طور پر زیر بحث رہتا ہے کہ مرد و زن کے تعلق میں بالا دستی کسے حاصل ہو کیونکہ کسی بھی نوع کا تعلق ہو اس میں قدرتی طور پر کوئی ایک فریق شریک غالب کی حیثیت ضرور رکھتا ہے اور یہ بھی کائناتی حقیقت ہے کہ ہر شے اور ہر انسان ایک دوسرے کا محتاج ہے اور ہر ایک دوسرے کی تکمیل کرتا ہے بطور خاص مرد و زن کے باہمی تعلقات میں بعض امور میں مرد کو عورت پر فضیلت حاصل ہے اور یہ کسی نسلی یا صنفی تفریق کی وجہ سے نہیں بلکہ حیاتیاتی اور فطری اعتبار سے عورت کے حقوق کی رعایت کے پیش نظر ہے۔ نگرانی کا فریضہ نہ تو مرد اور عورت دونوں کے سپرد کیا جا سکتا تھا اور نہ عورت کو۔ اقبال نے مغرب کی نام نہاد آزادی نسواں کی پرواہ کئے بغیر عورت کے بارے میں اسلامی تعلیمات کی پرزور وکالت کی اور عورت کی حفاظت کے عنوان سے کہا۔

اک زندہ حقیقت مرے سینے میں ہے مستور
کیا سمجھے گا وہ جس کی رگوں میں ہے لہو سرد

نے پردہ نہ تعلیم نئی ہو کہ پرانی
نسوانیتِ زن کا نگہبان ہے فقط مرد

جس قوم نے اس زندہ حقیقت کو نہ پایا
اس قوم کا خورشید بہت جلد ہوا زرد

یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا کو ملت اسلامیہ کی ماؤں کے لئے مثالی خاتون سمجھتے ہیں اور بارہا ان کی پیروی کی تلقین عورتوں کو کرتے ہیں کہ وہ کیسے چکی پیستے ہوئے اور گھریلو کام کرتے ہوئے قرآن پاک پڑھتی تھیں۔ اقبال کے نزدیک ان کی سیرت کی اس پختگی کی بناء پر حضرات حسنین کریمین ان کی آغوش سے پروان چڑھے۔

مزرع تسلیم را حاصل بتول
مادراں را اسوہ کامل بتول

آں ادب پروردۂ صبر و رضا
آسیا گرداں و لب قرآن سرا

فطرت تو جذبہ ہا دارد بلند
چشم ہوش از اسوۂ زہرا بلند

تمام مسلم خواتین کے لئے علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی یہ وصیت تاریخ نسواں میں آب زر سے لکھے جانے کے قابل ہے۔

اگر پندے ز درویشے پذیری
ہزار امت بمیرد تونہ میری

بتولے باش و پنہاں شو ازیں عصر
کہ در آغوش شبیرے بگیری