سیدنا غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ کے پندو نصائح

مرتّبہ : نازیہ عبدالستار

بدلتے جاتے ہیں اک لمحے میں تاریخ کے دھارے
کبھی جو موج میں آ کر غوث بول اٹھتے ہیں

روز ازل سے ہی کائنات میں ایسی ہستیوں کی روئے ارضی پر تشریف آوری ہوتی رہی جو ظلمت کدوں میں ڈوبی ہوئی مخلوقِ خدا کو راہ راست پر لانے کا فریضہ سرانجام دیتی رہیں۔ سیدنا غوث الاعظم رضی اللہ عنہ کی ہستی بھی انہیں میں سے ایک ہے جن کا قدم تمام اولیاء کی گردنوں پر ہے۔ جب مریدین آپ رضی اللہ عنہ کی مجلس میں بیٹھتے تو ان کے دلوں پر آپ رضی اللہ عنہ کی حکمرانی ہوتی۔ آپ رضی اللہ عنہ ایسی نصیحتیں فرماتے تھے کہ سالک کے دل کی دنیا بدل جاتی تھی جس سے اس کو مشاہدہ حق نصیب ہو جاتا تھا۔ آج کے اس مادیت پرستی اور نفسانی خواہشات کے دور میں ضرورت اس امر کی ہے کہ نئی نسل کو سیدنا غوث الاعظم رضی اللہ عنہ کی روحانی، اخلاقی اور مذہبی تعلیمات سے روشناس کروایاجائے لہذا اس ضرورت کے پیش نظر ذیل میں سیدنا غوث الاعظم رضی اللہ عنہ کی پندو نصائح کے چند اقتباسات جو ان کی کتاب ’’فیوض غوث یزدانی‘‘ سے ماخوذ ہیں۔ نذرِقارئین کئے جا رہے ہیں جو آپ رضی اللہ عنہ اپنے مریدین کے لئے ارشاد فرماتے تھے جس کے مطالعہ سے اس امر کا اندازہ ہو جائے گا کہ آپ رضی اللہ عنہ نے نہ صرف اپنے دور کی ضروریات کو پورا کیا بلکہ آپ رضی اللہ عنہ کے ارشادات کی اہمیت آج بھی بدستور باقی ہے جو قاری کو عمل کی ترغیب دلاتی ہیں۔

٭ صحبت : اے بندے! بروں کے ساتھ تیری صحبت تجھے اچھوں سے بدگمانی میں ڈال دے گی تو اگر قرآن حکیم اورحضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی احادیث، قول و فعل کے سایہ میں چلے گا تو نجات پالے گا۔

٭ درجہ کمال : ہمیشہ اپنے حال کو چھپاتا رہ یہاں تک کہ توکامل ہو جائے اور تیرا دل واصل الی اللہ ہو جائے پس جب تو اس درجہ کمال پر پہنچ جائے گا تو اس وقت تجھے کسی کی پرواہ نہیں ہو گی۔

٭ راضی برضا الٰہی رہنا : اے بندے !اللہ تعالی کی موافقت، خوف، نقصان، فقیری، امیری ، سختی، نرمی، بیماری، عافیت، خیر و شر، ملنے نہ ملنے میں راضی رہو۔ میرے خیال میں تمہارے لئے سوائے تسلیم اور راضی برضا الہی رہنے کے سوا کوئی دوا نہیں۔ جب خدا تعالی تمہارے اوپر کوئی حکم جاری کر دے تواس سے وحشت نہ کرو، نہ جھگڑا کرو اور اس کا گلہ اس کے غیر سے نہ کرو۔ تمہارا غیرِ خدا سے شکوہ وگلہ تمہاری مصیبت و بلا کو بڑھا دے گا بلکہ سکوت و سکون اور گمنامی اختیار کرو۔ اس کے رو برو ثابت قدم رہو اور جو کچھ تمہارے ساتھ اور تمہارے معاملات میں تبدیلی آئے اس کو بخوشی دیکھتے جاؤ اس کے تبدّل و تغیر پر خوش رہو۔ جب تمہارا خدا کے ساتھ ایسا معاملہ ہو جائے گا تو یقینا وہ تمہاری وحشت کو انس سے اور غم کو خوشی سے بدل دے گا۔

٭ دنیا کے غموں کا علاج : اے بندے! اگر تجھے دنیا کے غموں سے فارغ و خالی ہونے کی قدرت ہے تو اسے کر گزر ورنہ دل سے اللہ تعالی کی طرف راغب ہو اور اس کے دامنِ رحمت سے لپٹ جا۔ یہاں تک کہ تیرے دل سے دنیا کا غم نکل جائے۔

٭ تمہارے عمل تمہارے حاکم ہیں : اے قوم! تم اللہ تعالی کی تابعداری کرو تاکہ تمہاری تابعداری کی جائے، خدمت گزاری کرو، قضا و قدر کے پیرو اور اس کے خادم بن جاؤ تاکہ وہ تمہارے پیرو اور خادم بن جائیں، تم ان کے سامنے جھک جاؤ تاکہ وہ تمہارے سامنے جھکیں ، کیا تم نے نہیں سنا جیسی کرنی ویسی بھرنی، جیسے تم ہو گے ویسا تمہارا حاکم مقرر کیا جائے گا۔

٭ ظاہر باطن کا آئینہ دار ہوتا ہے : ہر برتن سے وہی ٹپکتا ہے جو اس میں موجود ہو، تیرا عمل تیرے اعتقاد پر دلیل ہے، تیرا ظاہر تیرے باطن پر دلیل ہے اور اسی واسطے بعض اہل اللہ نے فرمایا کہ ظاہر باطن کا عنوان ہے۔ تیرا باطن اللہ اور اس کے خاص بندوں کے نزدیک ظاہر ہے۔

٭ حکمت الٰہی کو پانے کا راز : اے بندے! اللہ تعالی کی تقدیر اور فعل کے آنے کے وقت خاموشی اختیار کر تاکہ اللہ تعالی کی طرف سے بہت سی مہربانیاں تجھ کو نظر آئیں، کیا تو نے جالینوس حکیم کے غلام کا قصہ نہیں سنا کہ وہ کیسا گونگا، بیوقوف، بھولا اور چپ چاپ بنا رہا یہاں تک کہ جالینوس کا تمام علم سیکھ لیا۔ تیرے قلب کی طرف تیرے بہت جھک بک کرنے اور اس کے ساتھ جھگڑا کرنے اور اعتراض کرنے سے حکمت الہی نہیں آئے گی۔

٭ نیک نیتی : اے بندے! تو اس بات کی کوشش کر کہ تو کسی کو ایذا نہ دے اور تیری نیت ہر ایک کے لئے نیک رہے، ہاں جس کو ایذا دینے کا شرع حکم ہے پس اس کو ایذا دینا تیرے واسطے عبادت ہو گی۔

٭ محبت الٰہی : اے بندے! تو جو خوبصورت چہروں کو دیکھ کر ان کو چاہنے لگتا ہے یہ ناقص محبت ہے، تو اس پر سزا کا مستحق ہے صحیح محبت وہ ہے جس میں کبھی تغیر نہ آئے وہ اللہ رب العزت کی محبت ہے اور وہی ایسی محبت ہے جس کو تو اپنے قلب کی آنکھوں سے دیکھ سکتا ہے وہی صدیقوں اور روحانیوں کی محبت ہے انہوں نے محض بوجہ ایمان محبت نہیں کی بلکہ یقین ومعائنہ کی بنا پر محبت کی۔ ان کے قلب کی آنکھوں سے پردے کھول دیئے گئے پس ان کو تمام وہ چیزیں جو غیب میں تھیں نظر آگئیں اور انہوں نے ایسی چیز دیکھی جن کا بیان ممکن نہیں ہے۔

٭ اللہ تعالی اور اس کے غیر کی محبت دونوں ایک قلب میں جمع نہیں ہو سکتیں۔

٭ زینتِ دنیا سے بے نیازی : اے قوم! اگر تم دنیا کے دروازے سے منہ پھیر لو اور اللہ تعالی کے دروازے کی طرف منہ کر لو تو دنیا خود تمہارے پیچھے آئے گی۔ جب دنیا اولیاء اللہ کی طرف آتی ہے تو وہ اس سے کہتے ہیں چلی جا کسی اورکو دھوکہ دے۔ ہم تو تجھے پہچان چکے ہیں۔ ہم نے تجھے دیکھا ہے، ہم پر اپنا کھوٹاپن ظاہر نہ کر۔ تیری زینت لکڑی کے اس خالی بت کی طرح ہے جس میں روح نہیں۔

٭ محنت کی عظمت : اے بندے! توحاجت مند ہے تو محنت کر تاکہ کوئی ہنر سیکھ لے۔ تو عمارت ہزار مرتبہ بناتا اور توڑتا ہے تاکہ تجھے ایسی عمارت بنانی آ جائے جو پھر نہ ٹوٹے، جب تو بنانے اور توڑنے میں خود فنا ہو جائے گا تو اللہ تعالی تیرے لئے ایسی عمارت بنا دے گا جو ٹوٹ نہ سکے گی۔

٭ ترک دنیا : اے قوم! قبل اس کے کہ تم پر رویا جائے تم اپنے نفس پر رو لو۔ تمہارے گناہ بکثرت ہیں اور انجام نامعلوم۔ تمہارے قلوب دنیا کی محبت میں بیمار ہیں اور حرص کرنے والے ہیں تم زہد، ترک دنیا اور خدا کی طرف متوجہ ہونے کے ساتھ اس کا علاج کرو۔

٭ شریعت کی پابندی : اے قوم! تم اللہ سے ملاقات کے لئے عمل کرو اس کی ملاقات سے پہلے اس سے حیاء کرو۔ تمہیں اس کے رو برو جانا ہے۔ مسلمان کی حیا ء سب سے پہلے اللہ تعالی سے ہے پھر اس کی مخلوق سے مگر ایسے امر جس میں دین کی طرف راجع ہونا ہو اس میں شرمانا، حیا کرنا حلال نہیں۔

٭ علم پر عمل : علم عمل کے لئے بنایا گیا ہے نہ کہ محض یاد کرنے اور مخلوق کے سامنے پیش کرنے کے لئے۔ خود علم سیکھ اور اس پر عمل کر بعد ازاں دوسروں کو سکھا۔ جب تو علم پڑھ کر اس پر عمل کرے گا تو علم تیری طرف سے کلام کرے گا اگرچہ تو خاموش رہے۔

٭ بیداری قلب : اے بندے! تو اپنی ہستی کے فنا ہونے سے پہلے اپنے قلب کے ساتھ اللہ تعالی کی طرف رجوع کر، تو نے محض صالحین کے حالات سے ان کے تذکرہ اور تمنا پر قناعت کر لی ہے۔ تیری مثال ویسی ہی ہے جیسے پانی کو مٹھی میں لینے والا جب ہاتھ کھولے تواس میں کچھ نہ پائے۔

٭ تقوی اختیارکرنا : اے بندے! اگر تیرا ارادہ مقصود یہ ہے کہ تیرے رو برو کوئی دروازہ بند نہ رہے تو تقوی اختیار کر کیونکہ تقویٰ ہر دروازہ کی کنجی ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے جو اللہ سے ڈرتا ہے تقویٰ اختیار کرتا ہے اللہ تعالی اس سے نکلنے کا دروازہ بتا دیتا ہے اور اس کو ایسی جگہ سے رزق دیتا ہے کہ جس کا گمان بھی نہیں ہوتا۔

٭ غفلت سے اجتناب : اے بندے! کاہل نہ بن، کاہل آدمی ہمیشہ محروم رہتا ہے اور اس کے گریبان میں ندامت ہوتی ہے اس لئے تم اپنے اعمال کو اچھا بناؤ۔ اللہ تعالی نے تجھ پر دنیا و آخرت میں سخاوت و اچھائی کی ہے۔

٭ شعور و آگہی : اے قوم! تمہارے اوپر نگہبان مقرر ہیں تم خدائے تعالیٰ کی سپردگی میں ہو اور تم کو خبر نہیں تم عاقل ہو، اپنے دل کی آنکھیں کھولو۔