اداریہ : امن عامہ کیلئے عدل و مساوات پر مبنی نظام کے قیام کی ضرورت

عدل و مساوات پر مبنی معاشی نظام کا قیام انسانی معاشرے کا بنیادی تقاضا ہے کیونکہ بنیادی حقوق کی عدم ادائیگی انسانی مساوات کو بے روح کر دیتی ہے یہی وجہ ہے کہ اسلام ارتکاز دولت کی بجائے گردش دولت کی تعلیم دیتا ہے اور اسلام کے عطا کردہ اقتصادی و معاشی حقوق کا مقصود معاشرے کے محروم المعیشت افراد کو ایسے مواقع فراہم کرنا ہے جن سے وہ حقیقی معنی میں ایک فلاحی معاشرے کے شہری کے طور پر زندگی گزار سکیں۔ اسلام کی آمد سے قبل عرب معاشرہ طبقاتی تقسیم کا شکار تھا۔ سود اور استحصال کی دوسری صورتوں نے معاشی جدوجہد کو مفلوج کر رکھا تھا۔ ذرائع آمدنی پر مخصوص لوگوں کا قبضہ تھا۔ دین اسلام نے نہ صرف غیر صحت مندانہ معاشی سرگرمیوں کا خاتمہ کیا بلکہ معاشرے میں صحت مند سرگرمیوں کے فروغ کے لئے ہر شخص کو معاشی جدوجہد کا حق عطا کیا اور ہر پیشے کو باوقار پیشہ قرار دیا۔

یہی وجہ ہے کہ اسلام نے باقاعدہ مزدوروں کے حقوق متعین کئے اور آجر اور اجیر کے درمیان عدل و انصاف پر مبنی تعلقات کو لابدی قرار دیا تاکہ مزدور معاشی اور اقتصادی اعتبار سے مضبوط و مستحکم ہو کر اپنی معاشی سرگرمیوں کے اثرات سے متمتع ہو سکیں۔ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے معاشرتی اور سماجی تعلق کو تکریم انسانیت کے اصول پر مبنی قرار دیا اور دور جاہلیت میں غلاموں کو جس حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا تھا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس تصور کو کلیۃً ختم کر دیا اور فرمایا کہ ان کو بھی وہی مرتبہ دو جو تم پنے خاندان کے دوسرے افراد کو دیتے ہو۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مزدور کی مزدوری اور خادم کی خدمت کی تحسین کی اور اسے برابر سماجی رتبہ دینے کی تعلیم دی۔ جسے شاعر مشرق علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے یوں بیان کیا۔

ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود و ایاز
نہ کوئی بندہ رہا نہ بندہ نواز

دور جاہلیت عربوں کا نظریہ تھا کہ ہم چونکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد، حرم مکہ کے پاسبان، بیت اللہ شریف کے نگہبان اور مکہ کے باشندے ہیں لہذا بنی نوع انسان کا کوئی فرد ہمارا ہم مرتبہ ہے اور نہ ہی کسی کے حقوق ہمارے حقوق کے مساوی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے خطبہ حجۃ الوداع میں انسانی مساوات اور طبقاتی و نسلی تقسیم کے خاتمے کا اعلان ان الفاظ میں فرمایا۔

’’لوگو! تمہارا رب ایک ہے اور تمہارا باپ ایک ہے تم سب کے سب آدم علیہ السلام کی اولاد ہو اور آدم مٹی سے پیدا کئے گئے تھے۔ نہ کسی عربی کو عجمی پر برتری حاصل ہے اور نہ کوئی عجمی کسی عربی پر فضیلت رکھتا ہے۔ نہ سیاہ فام سرخ پر فضیلت رکھتا ہے اور نہ سرخ سیاہ فام پر بلکہ فضیلت و برتری کا معیار صرف تقویٰ پر ہے۔

دوسری طرف آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ریاست و حکومت کے لئے یہ ضروری قرار دیا کہ وہ عوام کو پُرامن ماحول میں زندہ رہنے کی فضا قائم کرے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہر اس قبیح رسم کا خاتمہ کیا جس سے فرقہ واریت اور قتل و غارتگری اور دہشت گردی کی راہ ہموار ہوتی ہے اور عوام کی پرامن زندگی بدامنی کا شکار ہوتی ہے۔

زمانہ جاہلیت میں انتقام کی رسم رائج تھی جس کے نتیجے میں ایک شخص کے خون کے بدلہ میں پورا قبیلہ انتقام کی بھینٹ چڑھ جاتا بلکہ اسی انتقامی جذبات اور بہیمانہ غیض و غضب کی آگ کو اس طرح ٹھنڈا کیا جاتا کہ مقتول کا مثلہ کیا جاتا اور اس کے جسمانی اعضاء کاٹے جاتے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انسانیت کے خلاف ان سفّاکانہ قوانین اور انتقامی جذبات پر مبنی فرسودہ رسوم و رواج کا خاتمہ کرکے اور اپنے خاندان کے خون بہا کو سب سے پہلے معاف کر کے انسانیت کو امن و سلامتی کا پیغام دیا جو آج پوری انسانیت اور بالخصوص انسانی حقوق کا ڈھنڈورا پیٹنے والوں کے لئے مشعل راہ ہے جس پر عمل کر کے آج ہم اپنے معاشرے کو دہشت گردی اور قتل و غارتگری سے پاک کر کے جنت نظیر بنا سکتے ہیں۔

مینجنگ ایڈیٹر