مرتّبہ : سعدیہ ملک

نیک اور صالح مائیں ایک قیمتی سرمایہ ہوتی ہیں جو اپنے عمل و کردار سے اپنے گھرانوں میں ایسا انقلاب برپا کر دیتی ہیں جو صدیوں تک آئندہ نسلوں میں منتقل ہوتا رہتا ہے اور قوموں کی تعمیر میں خاص اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ زیر نظر تحریر میں ایسی ہی صالح اور عظیم ماؤں کا تذکرہ ہے جن کا کردار عصر حاضر کی ماؤں کے لئے مشعل راہ ہے۔

شاعر مشرق رحمۃ اللہ علیہ کی والدہ کا کردار

شاعر مشرق علامہ محمداقبال رحمۃ اللہ علیہ کی والدہ محترمہ کے بارے میں مذکور ہے کہ جب علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ پیدا ہوئے تو ان کی نیک سیرت والدہ نے ایک بکری منگوا کر گھر میں رکھ لی۔ ان کے شوہر کے لئے یہ امر تعجب انگیز تھا، اس لئے انہوں نے ان سے پوچھا کہ بکری منگوانے کا کیا مقصد ہے؟ اس پر امّ اقبال نے جو جو اب دیا وہ آب زر سے لکھنے کے قابل ہے، بولیں : ’’آپ کی آمدنی مجھے مشکوک نظر آتی ہے، اس لئے میں اپنے دودھ سے اپنے بچے کی پرورش نہیں کروں گی، بلکہ اسے بکری کا دودھ پلایا کروں گی۔ میں نہیں چاہتی کہ میرے بیٹے کے جسم میں ذرا سی بھی حرام غذا شامل ہو‘‘۔ یہ جواب سن کر ان کے شوہر نے وہ پیشہ فوراً ترک کر دیا۔ (ماہنامہ اردو ڈائجسٹ، عظیم مائیں نمبر)

دراصل یہ بھی سمجھانے کا ایک انداز تھا۔ جہاں تک ان کے شوہر کے پیشے کا تعلق ہے تو وہ صریحاً حرام اور ناجائز نہ تھا بلکہ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ پیشہ مشکوک تھا لیکن نیک نہاد بیوی نے یہ بھی گوارا نہیں کیا۔ اب ذرا اس واقعہ کے بعد کے نتائج پر بھی نظر ڈالئے ! صالح بیوی کی نیک نیتی، خلوص اور حکمت تبلیغ سے شوہر نے فی الفور وہ پیشہ ہی چھوڑ دیا جس پر محض شک کیا گیا تھا۔ پھر صالح ماں کے صالح دودھ سے پرورش پا کر وہ بچہ بڑا ہو کر عالم اسلام کی ایک بڑی شخصیت بن گیا، جسے دنیا علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے نام سے جانتی ہے۔ آج بھی ہمیں ایسی ہی صالح فطرت اور دین شناس ماؤں کی ضرورت ہے۔ اسی صورت میں معاشرتی اصلاح فروغ پذیر ہو گی، معاشرہ دین کی ڈگر پر چلے گا، کرئہ ارض پر اقامت دین کی تحاریک پھلیں پھولیں گی اور دنیا صالح اور پرسکون پیغام سے آشناہو گی۔

مولانا سید ابوالحسن علی ندوی کی صالح والدہ کا انداز تربیت

اردو ڈائجسٹ عظیم مائیں جلد اول کی ایک تحریر میں مولانا سید ابوالحسن ندوی رحمۃ اللہ علیہ اپنی نیک ماں کے کردار پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں۔

’’گھر میں کسی بڑے مرد کے نہ ہونے کی وجہ سے والدہ صاحبہ ہی میری نگرانی، اخلاقی و دینی تربیت کی ذمہ دار تھیں۔ مجھے قرآن مجید کی بڑی بڑی صورتیں انہوں نے میرے بچپن میں ہی یاد کرائیں۔ باوجود اس کے کہ ان کی شفقت خاندان میں ضرب المثل تھی۔ والد صاحب کے انتقال کی وجہ سے وہ میری دل داری اور ایک حد تک ناز برداری قدرتاً دوسری ماؤں سے زیادہ کرتی تھیں لیکن دو باتوں میں وہ بہت سخت تھیں۔ ایک تو نماز کے بارے میں مطلق تساہل نہ برتتی تھیں۔ میں عشاء کی نماز پڑھے بغیر کبھی سو گیا، خواہ کتنی ہی گہری نیند سوتا بیدار کر کے نماز پڑھواتیں اور نماز پڑھے بغیر ہرگز نہ سونے دیتیں۔ اسی طرح فجر کی نماز کے وقت جگا دیتیں اور مسجد بھیجتیں اور پھر قرآن مجید کی تلاوت کے لئے بٹھا دیتیں۔

دوسری بات جس کا انہوں نے بڑا خیال رکھا یہ تھی کہ میں کسی پر ظلم نہ کرنے پاؤں اور کسی کا دل نہ دکھاؤں اور اگر کبھی کسی کے ساتھ زیادتی یا ناانصافی کروں یا حقارت اور غرور کے ساتھ پیش آؤں تو اس سے معافی مانگوں۔ اگر میں گھر میں کھانا پکانے والی کے لڑکے کو مارتا یا کسی کی توہین کرتا یا کسی کو ذلیل سمجھ کر کوئی سلوک کرتا تو وہ مجھے سزا بھی دیتیں اور مجھے اس سے معافی مانگنے پر مجبور بھی کرتیں۔ اکثر یہ سزا صرف معافی مانگنے ہی کی صورت میں ہوتی۔ بچہ کی انانیت پر یہ بڑی ضرب ہے اور اس کے لئے بڑی گوشمالی۔ مجھے یاد نہیں کہ ایک واقعہ بھی ایسا گزرا ہو کہ والدہ صاحبہ کے علم میں میری کوئی زیادتی آئی ہو یا توہین اور دل دکھانے کا کوئی واقعہ پیش آیا ہو اور انہوں نے مجھے سزا نہ دی ہو اور مجھے ’’فریق ثانی‘‘ کو راضی کرنے اور معاف کرانے پر اصرار نہ کیاہو۔ تیسری چیز جو مجھے خاص طور پر یاد آتی ہے وہ یہ ہے کہ وہ مجھے اپنے خاندان کے بعض بزرگوں اور بلند پایہ ہستیوں کے نام اور کام کے بارے میں بتاتی رہتیں۔ ان کے نام بڑے ادب سے لیتیں اور ان کے حالات سناتیں۔ یہ شخصیتیں ہمارے خاندان کی وہ دینی شخصیتیں ہوتیں جن کو دنیاوی جاہ وجلال اور کوئی خاص دولت و ثروت حاصل نہ تھی مگر دینی اور علمی حیثیت سے ان کا نام اور کام بہت روشن تھا۔ وہ اس پرزور دیتیں کہ اصل عزت اور باقی رہنے والی دولت یہی دین وعلم کی دولت ہے۔ والدہ صاحبہ کو اللہ تعالیٰ نے دعا و مناجات کا وہ ذوق عطا فرمایا تھا جو اس زمانہ کے خاص بزرگوں ہی میں دیکھنے میں آیا ہے۔ وہ اپنی اولاد کو بھی دعا کی تعلیم دیتیں اور دعا کا شوق دلاتیں، چنانچہ ہم بھائی بہنوں کو انہوں نے بعض مختصر دعائیں یاد کرا رکھی تھیں‘‘۔

سید حسن البناء شہید کی صاحبزادی محترمہ ڈاکٹر ہالہ کی باتیں

’’میری والدہ محترمہ نے ہماری صحیح اسلامی تربیت کا پورا پورا خیال رکھا۔ بچپن سے ہی ہمارے دلوں میں اسلامی آداب کا بیج بو دیا تھا۔ انہوں نے ہمیں اسلامی تعلیمات کے معاملے میں عبادات اور معاملات دونوں کو خود پر کاملاً نافذ کرنے کی ترغیب دی۔ اس لئے پورے دین کے کسی بھی جز میں کوئی لاپرواہی نہیں تھی۔ وہ ہمیں اسلامی ثقافت کی ترغیب دیتی تھیں، وہ میرے بھائی سیف الاسلام کو کافی اخراجات دیتیں تاکہ وہ کتابیں خریدے۔ اس طرح انہیں پڑھنے کے لئے ابھارتی تھیں۔ پھر ان کی پڑھائی کی وجہ سے انہیں انعامات بھی دیتی تھیں۔ انہوں نے ہمارے اندر دعوت سے محبت کا بیج بویا اور بتایا کہ یہ دنیا کی ہرچیز پر مقدم ہے۔ یہاں تک کہ یہ دعوت ہمارے دل و دماغ میں رچ بس گئی اور یہی ہماری زندگی کا ہدف ٹھہری۔ میری والدہ مرحومہ کا تعلق چونکہ ایک صالح خاندان سے تھا اس لئے وہ والد محترم کے معیار کے مطابق تھیں۔ انہوں نے اپنی ذمہ داری کو صحیح معانی میں پورا کیا۔ وہ خاندان میں والد صاحب کی طرح تمام خیر کو نافذ کرنے کی حریص تھیں اور وہ کبھی اللہ تعالی کی حدود کے متعلق لاپرواہی نہیں کرتی تھیں۔ ہمارے گھر میں کبھی چچازاد، خالہ زاد بھائیوں کا اختلاف واقع نہیں ہوا تھا۔ ہمارا گھر والد صاحب کی شہادت کے بعد بھی ایسا ہی تھا جیسا کہ ان کی موجودگی میں تھا۔ یوں لگتا تھا گویا وہ ہمارے اندر موجود ہیں جو چیزیں انہیں اپنی زندگی میں پسند تھیں۔ ہماری والدہ ان کی شہادت کے بعد ان پر کاربند ہیں۔ وہ بڑی کریم و فیاض تھیں۔ جب کبھی کسی اخوانی بھائی کی شادی ہوتی تو ہماری والدہ بڑے قیمتی تحفے بھیجتی تھیں اور ان کی شادی پر اسی طرح خوش ہوتی تھیں جس طرح کہ ان کے اپنے بیٹے کی شادی ہو۔ وہ حقیقتاً سب کو ہی اپنے بیٹوں کی طرح سمجھتی تھیں۔

میرے خیال میں جب تک تربیت کے وسائل و اسالیب اسلامی منہج کے مطابق رہیں گے اس وقت تک نتیجہ یقینا مثبت اور کامیاب رہے گا۔ ان شاء اللہ، اس لئے ضروری ہے کہ بچے کی نشوونما اسلامی طریقے کے مطابق کی جائے اور اسے عبادات و معاملات کی وہ تمام تعلیمات اس کی عقل کے مطابق مرحلہ وار تین ادوار میں دی جائیں، جنہیں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حدیث مبارکہ میں یوں بیان فرمایا ہے۔ ’’سات دفعہ اس کے ساتھ کھیلیں، سات مرتبہ اسے آداب سکھائیں اور سات مرتبہ اس کے ساتھ بھائی جیسا سلوک کریں‘‘۔ اس مناسب وقت میں بچہ جتنی باتیں اخذ کر سکتا ہے، اتنی بعض اوقات بڑا بھی نہیں کر سکتا۔ چونکہ اس کی فطرت سادہ ہے اس لئے اس عمر میں اس کی تربیت بہت ضروری ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اب ہم جس معاشرے میں رہ رہے ہیں اس میں بہت ساری مشکلات ہیں لیکن اس مرحلے میں بچے کی تربیت کے لئے گھر اساس کی حیثیت رکھتا ہے اور یہ اس مرحلے میں بچے کے لئے اہم جگہ ہے۔ اگر بہترین نمونے کی موجودگی میں سختی کے بغیر متواتر بچے کی تربیت پر توجہ دی جائے تو مطلوبہ نتائج اخذ کئے جا سکتے ہیں۔ میری نظر میں بچے کو ہر غلطی پر مارنا تربیتی نقطہ نظر سے صحیح نہیں ہے۔ ہاں، اگر بچے سے کبھی واقعتا کوئی اخلاقی غلطی سرزد ہو جائے جس کی وجہ سے اسے سزا دینا لازمی ہو تو اس وقت شفقت پدری کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوٹنا چاہئے۔

عورت کا ڈاکٹر، استاد یا ایسی کسی دوسری حیثیت سے کام کرنے سے مقدم اس کا بیوی اور ماں کے مرکزی کردار کی حیثیت سے کام کرنا ہے۔ جب میرے بچے پیدا ہوئے تو میں نے ان کی دیکھ بھال کے لئے مکمل پانچ سال کے لئے کام سے چھٹی لے لی جب کہ میری دیگر سہیلیوں نے میرے سے پہلے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی اور ترقی کی منازل طے کیں لیکن میں نے بچوں کی تربیت کے پیش نظر اس کی پرواہ نہیں کی۔ میرے لئے بڑی سعادت کی بات یہ ہے کہ میں اپنے بچوں کو اخلاق و کردار میں کامیاب دیکھوں۔ اگر والدہ گھر سے باہر کام میں مسلسل مشغول ہو تو یہ مقصد حاصل نہیں ہو سکتا۔ بچہ اپنی عمر کے ابتدائی حصے میں ماں کی دیکھ بھال اور محبت کا بہت محتاج ہوتا ہے اور اسے یہ خلوص ومحبت ماں کے علاوہ کسی اور سے ہرگزحاصل نہیں ہو گی۔

میں نے ابھی تک اسی لئے اپنا کلینک نہیں کھولا کیونکہ میرے خیال میں اس طرح میں ا پنے بچوں کی تربیت کا خیال نہیں رکھ سکوں گی۔ حالانکہ اب وہ بڑے ہو چکے ہیں اور گھر میں اپنے کام خود کر سکتے ہیں لیکن اس کے باوجود میں اس بات کی ضرورت محسوس کرتی ہوں کہ وہ جب گھر پر موجود ہوں تو اس وقت مجھے بھی گھر میں ہی ہونا چاہئے، تاکہ میں ان کے اسباق میں ان کی مدد کر سکوں۔ میں نے آج تک انہیں کسی دوسرے سے ٹیوشن نہیں پڑھائی ہے۔ میں صبح سویرے ان کے ساتھ اٹھتی ہوں حالانکہ میری ڈیوٹی صبح دس بجے شروع ہوتی ہے، لیکن صبح میں خود ان کی ضروریات کا خیال رکھتی ہوں۔ میں آخر میں مسلمان خواتین اور ان کے بچوں کو اسلامی تہذیب وثقافت اختیار کرنے کی نصیحت کرتی ہوں‘‘۔ (ماہنامہ خواتین میگزین، نومبر1995ء) (جاری ہے)