ماہانہ مجلس ختم الصلوۃ علی النبی (ص) سے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمدطاہر القادری کا خصوصی خطاب

انسانی شخصیت میں صفت عدل کی اہمیت

ترتیب و تدوین : صاحبزادہ محمد حسین آزاد، معاونت : نازیہ عبدالستار

حضرت الشیخ ابن عطاء اللہ السّکندری کی کتاب ’’اَلْحِکَمُ الْعَطَائِيه‘‘ کے نام سے معروف ہے۔ یہ ایک مختصر رسالہ ہے جس میں انہوں نے اہل اللہ عرفاء و صلحاء کے معارف، لطائف اور اسرار و رموز کو ان کی زبان میں ایک آرٹیکل کی صورت میں جمع کیا ہے۔ اس کتابچے کی روشنی میں آج کا موضوع وقت کو غنیمت سمجھنا اور اسے ضائع نہ ہونے دینا ہے۔ یہ وقت کی رعائت ہے۔ اگرچہ یہ موضوع الحکم العطائیہ کا پہلا باب نہیں ہے مگر شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے مجلس ختم الصلوۃ علی النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں گفتگو کے لئے پہلے اس موضوع کو اس لئے شروع کیا ہے کہ سب سے پہلے وقت کی قدر و قیمت سمجھ لی جائے تو اگلی بات زیادہ اہمیت کی حامل ہو جاتی ہے۔ پچھلی مجلس میں شیخ الاسلام نے صاحب حکم کی گفتگو درج ذیل جملہ پر ختم کی تھی جس میں حضرت شیخ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا تھا:
’’اے انسان تیری سانس کا ایک وقت بھی ایسا نہیں گزرتا جس میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی نہ کوئی حکم تیرے لئے مقدر نہ کر دیا گیا ہو‘‘۔

آج کے موضوع کے حوالے سے اگلی حکمت کا ذکر کرتے ہوئے صاحب حکم العطائیہ نے وقت کی نگرانی اس کی محافظت اور اس کی قدر و قیمت کے باب میں فرمایا:

لاَ تَتَرَقَّبْ فُرُوْغَ الْاَغْيَارِ، فَاِنَّ ذٰلِکَ يَقْطَعُکَ عَنْ وُجُوْدِ الْمُرَاقَبَةِ لَه فِيْمَا هُوَ مُقِيْمُکَ فِيْهِ.

(الحکم العطائية الکبریٰ لابن عطاء الله السکندری)

’’اے بندے اغیار سے خالی وقت کا انتظار نہ کر (یعنی ان کے ایسے وقت کا انتظار نہ کر جو غیروں سے خالی ہو) کیونکہ یہ انتظار تجھے اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف اس توجہ اور اپنے روحانی حال کے مراقبہ اور نگہداشت سے جدا کردے گا اور اس حالت سے کاٹ دے گا جس پر اللہ تعالیٰ نے اس لمحہ برقرار رکھا ہے‘‘۔

اس امر کا انتظار کرنا کہ ایسا وقت ملے جو غیروں سے خالی ہو جائے کہ پھر میں دلجمعی سے اللہ کی عبادت میں مصروف ہو جاؤں گا۔ یہ وہ اہم نکتہ ہے جو شیخ نے اس مقام پر بیان فرمایا ہے۔ یہاں اغیار سے مراد افراد یا بندے نہیں ہیں بلکہ یہاں اغیار سے مراد وہ خیالات، مصروفیات اور دنیاوی مشاغل ہیں جو بندے کو رجوع الی اللہ سے اور عبادت الہٰی میں مصروف ہونے سے روکتے ہیں۔ یہاں یہ فرمایا گیا ہے کہ اے بندے دنیاوی کام کاج اور دنیاوی مشاغل نے ہی تمہیں کیوں نہ گھیر رکھا ہو ایسی صورت میں بھی تو فارغ وقت کا انتظار نہ کر اور اللہ کی عبادت اور اللہ کی طرف متوجہ ہونے کو ادھار نہ رکھ اور نہ ملتوی کر کیونکہ یہ مشاغل دنیا جس میں تو اس وقت اپنے آپ کو گھرا ہوا دیکھتا ہے یہ اغیار ہیں۔ ان اغیار سے خالی وقت کا انتظار نہ کر کیونکہ ان لمحات میں بھی اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف توجہ کرنے کا تمہارے اوپر حق واجب ہے۔

اگر تو فارغ وقت کا انتظار کرے گا تو پھر موجودہ وقت کی نگہداشت اور اللہ کی بندگی سے کٹ کر اور محروم ہو جائے گا۔ اس میں اشارہ اس امر کی طرف ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ جب اپنی طرف سفر کرنے والے سالک پر اپنا فضل اور انعام کرتا ہے تو اس بندے کے قلب کو اپنے ذکر اور اپنی یاد کے ساتھ متعلق کر دیتا ہے اور بندے کے دل کو اپنی یاد میں شاغل کر دیتا ہے جس سے اس بندے کا دل اللہ کا شاکر ہو جاتا ہے۔

جب دل کو یہ نسبت مل جاتی ہے تو پھر وہ دل ہمہ وقت اللہ کی یاد کی کیفیت میں مشغول ہوجاتا ہے۔ بندہ جس کام میں بھی مصروف رہے خواہ دنیاوی اعتبار سے اپنی ذمہ داریوں کو بھی نبھاتا رہے اور ظاہراً دنیا کے اشغال اور معاملات میں مصروف دکھائی دے مگر اس کا دل شاغل فی اللہ رہتا ہے یعنی اللہ میں مشغول رہتا ہے۔ قرآن مجید میں اس امر کی طرف اشارہ ان الفاظ میں کیا گیا ہے۔

رِجَالٌ لَّا تُلْهِيهِمْ تِجَارَةٌ وَلَا بَيْعٌ عَن ذِكْرِ اللَّهِ وَإِقَامِ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ يَخَافُونَ يَوْمًا تَتَقَلَّبُ فِيهِ الْقُلُوبُ وَالْأَبْصَارُO

(النور، 24 : 37)

’’(اللہ کے اس نور کے حامل) وہی مردانِ (خدا) ہیں جنہیں تجارت اور خرید و فروخت نہ اللہ کی یاد سے غافل کرتی ہے اور نہ نماز قائم کرنے سے اور نہ زکوٰۃ ادا کرنے سے (بلکہ دنیوی فرائض کی ادائیگی کے دوران بھی) وہ (ہمہ وقت) اس دن سے ڈرتے رہتے ہیں جس میں (خوف کے باعث) دل اور آنکھیں (سب) الٹ پلٹ ہو جائیں گیo‘‘۔ (ترجمہ عرفان القرآن)

مردان حق کی تعریف یہ ہے کہ تجارت، خریدو فروخت، کاروبار دنیا ان کے دل کو اللہ کے ذکر سے غافل نہیں کرتا اور نہ ہی دنیاوی اشغال کی وجہ سے مردان حق کے دلوں پر حالت غفلت طاری ہوتی ہے۔ گویا ان کا ذہن اور جسم، دنیاوی کام کاج کی انجام دہی میں مصروف ہوتا ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ ان کا دل اللہ کی یاد اور ذکر میں شاغل اور مصروف ہوتا ہے۔ یہ اللہ کے خاص فضل کی علامت ہے یوں سمجھ لیں کہ اللہ کا فضل جس دل کی طرف متوجہ ہو جائے تو وہ دل ہمہ وقت اللہ کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے۔

اسی طرح توبہ ہے۔ توبہ کی دو صورتیں ہیں۔ اللہ بھی توبہ کرتا ہے اور بندہ بھی توبہ کرتا ہے۔ جسے قرآن حکیم میں ارشاد فرمایا گیا:

إِلاَّ الَّذِينَ تَابُواْ وَأَصْلَحُواْ وَبَيَّنُواْ فَأُوْلَـئِكَ أَتُوبُ عَلَيْهِمْ وَأَنَا التَّوَّابُ الرَّحِيمُO

(البقرة، 2 : 160)

’’مگر جو لوگ توبہ کر لیں اور (اپنی) اصلاح کر لیں اور (حق کو) ظاہر کر دیں تو میں (بھی) انہیں معاف فرما دوں گا، اور میں بڑا ہی توبہ قبول کرنے والا مہربان ہوںo‘‘۔

جب بندہ ندامت کے ساتھ معافی طلب کرنے کے لئے اللہ کی طرف متوجہ ہوتا ہے تو یہ بندے کی توبہ ہے۔ جبکہ اللہ رب العزت کا شان قبولیت اور فضل کے ساتھ بندے کی طرف متوجہ ہونا یہ اللہ کی توبہ ہے۔ یہ جو فرمایا فَأُوْلَـئِكَ أَتُوبُ عَلَيْهِمْ اس میں توبہ سے مراد اللہ تعالیٰ کا معافی عطا کرنا اور توبہ قبول فرمانا ہے اور بندے کو بھی توبہ کی توفیق اسی وقت نصیب ہوتی ہے جب اللہ تعالیٰ بندے کی بخشش اور مغفرت کے ارادے کے ساتھ اس کی طرف متوجہ ہوتا ہے تو دل خود بخود ندامت کے ساتھ اللہ کی طرف راغب ہو جاتا ہے۔ گویا یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے فضل ہوتا ہے۔ اسی طرح محبت کا رشتہ ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ جب بندے کے ساتھ محبت کا ارادہ کرتا ہے تو وہ محبت آسمانوں میں اتاری جاتی ہے اور پھر فرشتوں کے ذریعے زمین پر اللہ کے بندوں میں اتاری جاتی ہے۔ جب اللہ تعالیٰ بندے سے محبت کرتا ہے تو Same time وہ بندہ اللہ کا محب بھی ہوتا ہے اور اللہ کا محبوب بھی ہوتا ہے۔ اسی وقت اللہ کا طالب بھی ہوتا ہے اور اللہ کی بارگاہ میں مطلوب بھی ہوتا ہے اور پھر اللہ کا مرید بھی ہوتا ہے اور مراد بھی بن جاتا ہے۔

اللہ تبارک و تعالیٰ کے اس فضل کا بندے کی طرف متوجہ ہونا ہی سب سے بڑا انعام ہے۔ بندے کا قلب جب اللہ کی یاد کی طرف متوجہ ہوتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ دل اللہ کی یاد میں مشغول ہوجاتا ہے اور اس سے کبھی غافل نہیں ہوتا تو پھر وہ بندہ دنیا کے کام کاج، سفر و حضر، تجارت، والدین کی خدمت، بیوی بچوں کی پرورش، فیملی کے امور کے علاوہ رشتہ داروں کے تمام امور اور اپنے فرائض حلال طریق پر سنت و شریعت کے مطابق بجا لاتا رہتا ہے اور اُدھر Same time اس کا دل اللہ کی یاد میں مشغول رہتا ہے۔ اس وقت وہ دل ماسواء سے یعنی اغیار سے خالی ہو جاتا ہے اور کبھی دوسری صورت بھی ہوتی ہے جس کے بارے میں قرآن نے فرمایا:

وَلاَ تُطِعْ مَنْ أَغْفَلْنَا قَلْبَهُ عَن ذِكْرِنَا وَاتَّبَعَ هَوَاهُ وَكَانَ أَمْرُهُ فُرُطًاO

(الکهف:18:28)

’’اور تو اس شخص کی اطاعت (بھی) نہ کر جس کے دل کو ہم نے اپنے ذکر سے غافل کر دیا ہے اور وہ اپنی ہوائے نفس کی پیروی کرتا ہے اور اس کا حال حد سے گزر گیا ہے‘‘۔

اس آیت کریمہ میں فرمایا جا رہا ہے کہ تو ان چند بندوں کے پیچھے نہ چل جن کے دلوں کو ہم نے غافل کر دیا ہے نہ ان بندوں سے محبت اور ہم نشینی کا ارادہ کر کیونکہ وہ ہوائے نفس کے پجاری ہیں۔ لہذا وہ تمہیں بھی اس میں مبتلا کریں گے۔ مذکورہ دونوں صورتوں میں دل کا حال بیان کیا جا رہا ہے کہ اگر تو اللہ کی یاد سے غافل ہے تو وہ بھی دل ہے اور اگر اللہ کی یاد میں شاغل ہے تو وہ بھی دل ہے۔ جبکہ اللہ کے فضل کی صورت یہ ہے کہ وہ جسم سے باہر کے حالات سے دل کو محفوظ رکھ لیتا ہے۔

دل اتنی بڑی حقیقت ہے کہ کبھی دل کی آنکھ کُھل جاتی ہے اور کبھی یہ آنکھ بند ہو جاتی ہے۔ اس لئے سورۃ البقرہ میں اللہ تعالیٰ نے جب کفار کا ذکر کیا کہ وہ ہدایت سے محروم کر دیئے گئے تو آنکھوں اور کانوں کا ذکر بعد میں کیا پہلے ان کے دل کا ذکر کیا فرمایا:

خَتَمَ اللّهُ عَلَى قُلُوبِهمْ وَعَلَى سَمْعِهِمْ وَعَلَى أَبْصَارِهِمْ غِشَاوَةٌ وَّلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌO

(البقرة، 2 : 7)

’’اللہ نے (ان کے اپنے اِنتخاب کے نتیجے میں) ان کے دلوں اور کانوں پر مُہر لگا دی ہے اور ان کی آنکھوں پر پردہ (پڑ گیا) ہے اور ان کے لئے سخت عذاب ہےo‘‘۔ (ترجمہ عرفان القرآن)

اس آیت کریمہ میں پہلے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ان کے دلوں پر مہر لگا کر بند کر دیتا ہے تاکہ وہ شعور سے عاری اور محروم ہو جائیں کیونکہ وہ دل، ہدایت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح دوسری جگہ پر اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کا ذکر کیا جو قلب سلیم کے حامل ہونگے یعنی سلامتی والا دل رکھتے ہونگے فرمایا:

اِلَّا مَنْ اَتَی اﷲَ بِقَلْبٍ سَلِيْمٍ.

(الشعراء، 26 : 89)

’’مگر وہی شخص (نفع مند ہو گا) جو اللہ کی بارگاہ میں سلامتی والے بے عیب دل کے ساتھ حاضر ہوا ‘‘۔

دل ایک مکمل داستان، کائنات اور دنیا ہے۔ سِر کی دنیا الگ ہے اور جسم کی دنیا الگ ہے۔ دل روحانی جوہر ہے جو Blood کو Pump کرتا ہے جس سے وہ دھڑکتا ہے اور Blood کی Purification ہوتی ہے۔ وریدوں سے گندا خون نکال کر شریانوں کے ذریعے صاف کرنے کے بعد صاف ستھرے خون کو جسم میں مہیا کرتا ہے۔ قلب سلیم سے مراد یہ جسمانی دل نہیں ہے بلکہ اس دل کے اندر ایک روحانی جوہر کے طور پر ایک دل ہے۔ جس کے تذکرے قرآن میں اور جابجا موجود ہیں۔ وہی دل بگڑتا اور سنوارتا ہے۔

حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا بندے کے جسم میں ایک لوتھڑا ہے اگر وہ سنور جائے تو پورا جسم سنور جاتا ہے۔ اگر وہ بگڑ جائے تو پورا جسم بگڑ جاتا ہے اور وہ دل ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہے سنورنے اور بگڑنے سے دل کا کبھی نورانی ہونا اور کبھی ظلمانی ہونا مراد ہے یعنی روشنی اور اندھیرا ہو جاتا ہے۔ تو پھر یہ اس لوتھڑے کی بات نہ رہی بلکہ اس دل کے اندر جو دل ہے اس کی بات ہو رہی ہے جب اللہ کا فضل بندے کے دل کی طرف متوجہ ہو تو اس دل کو دو حالتیں نصیب ہوتی ہیں۔ پہلی حالت تو یہ ہوتی ہے کہ دل ہمہ وقت اللہ کی یاد میں شاغل رہتا ہے۔ اس پر غفلت طاری ہی نہیں ہوتی۔ شاغل دنیا کے اثرات اس دل میں داخل نہیں ہوتے کیونکہ دل کے دروازے پر ایک مضبوط پہرہ دار کھڑا ہوتا ہے۔ وہ یاداشت اور مراقبہ ہے۔ یہ دل کے دروازے پر نگہداشت ہوتی ہے۔ مشاغل دنیا، کاروبار دنیا اور وہ سوچیں جو انسان کرتا ہے کہ آج یہ سودا کرلوں، اتنا نفع آجائے گا۔ یہ فیکٹری لگالوں اتنے عرصہ بعد اتنا نفع دینے لگ جائے گی، یہ Export، Import یہ Business یا Job کرلوں، یہ مکان بنا لوں جس میں بچے سہولت سے رہیں گے۔ انسان پوری دنیا میں اس طرح منصوبہ بندی کرتا ہے جس سے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے منع نہیں فرمایا۔ اس طرح کی سوچ و بچار ہوتی ہے۔ نفع و نقصان بھی ہوتا ہے مختلف کیفیات آتی ہیں جو غم پیدا کرتی ہیں۔ یہ خوشی و غم دنیا کے معاملات میں چلتا رہتا ہے۔

اب اللہ کے فضل کی پہلی صورت یہ ہوتی ہے کہ دنیاوی مشاغل اور امور کے باعث جو اثرات پیدا ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ اس بندے کے دل کو ان اثرات سے کلیتاً محفوظ رکھتا ہے جیسے گاڑیوں میں شاک لگا دیتے ہیں۔ گاڑی جب روڈ پر ہچکولے کھاتی ہے تو یہ Shocks ان کو اپنے اندر جذب کر لیتے ہیں اور بندے کو Protect کرتے ہیں کہ بیٹھے ہوؤں کی ہڈیوں کو اثر نہیں جاتا۔ اسی طرح انسانی Life میں بھی دھکے لگتے ہیں، غم اور دکھ آتے ہیں جو انسان کا سکون برباد کرتے ہیں اگر اللہ تعالیٰ کا فضل شامل حال نہ ہو تو سب کچھ لٹ جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فضل کیا کرتا ہے یہ دل کے اوپر پہرے دار بٹھا دیتا ہے جو دو کام کرتا ہے ایک تو دل کو اللہ کی یاد میں مشغول کر دیتا ہے۔ انسان اپنے دماغ سے جو بھی سوچتا اور کرتا ہے مگر یہ دل کے حال کو متاثر نہیں ہونے دیتا۔

دوسری صورت یہ ہوتی ہے کہ جن پر اللہ کا فضل ہوتا ہے وہ کبھی پریشان نہیں ہوتے۔ یہ دونوں صورتیں آپس میں اوپر نیچے متغیر ہوتی رہتی ہیں۔ مگر اللہ تعالیٰ ان اغیار کے اثرات سے دل کو محفوظ رکھتا ہے۔ تحریک منہاج القرآن کے کارکنان اس بات کو توجہ سے سنیں ہم ہر وقت دین کی خدمت کر رہے ہوتے ہیں خواہ دفتروں میں بیٹھے ہوں، بھاگ دوڑ کر رہے ہوں، دعوت و تربیت کا کام کر رہے ہوں، لین دین یا بات چیت یا کوئی معاملات ہی کیوں نہ طے کر رہے ہوں۔ جہاں بندوں کے ساتھ ایسے معاملات ہوں گے وہاں بندوں کا نفس بھی آڑے آئے گا ان کے نفس کی کیفیات، غم و غصہ، خوشی و راحت، دیانت و بددیانتی، جانبداری و غیر جانبداری سب کچھ آڑے آئے گا۔ لوگ غلط ملط باتیں بھی بنائیں گے۔ کسی کے خلاف کوئی اکسائے گا وغیرہ یہ سارے معاملات بندوں سے متعلق ہوتے ہیں۔ انسانی بشری زندگی میں یہ آلائش و گرد و غبار ہوتے ہیں۔ اب اللہ کا فضل یہ ہوتا ہے کہ یہ جو گرد و غبار اٹھتی تو ہے مگر بندے کے دل کو اللہ تبارک و تعالیٰ ایسا گھر یا ایسا کمرہ بنا دیتا ہے کہ جو گرد و غبار سے مکمل طور پر محفوظ ہو جاتا ہے۔ (جاری ہے)