پاکستانی بچوں کے مسائل اور انکا حل

حسین محی الدین قادری

یہ اَمر نہایت اَفسوس ناک ہے کہ دیگر ترقی یافتہ و ترقی پذیر ملکوں کی طرح پاکستان میں بھی بچوں کے استحصال اور ان سے لاتعلقی کا عمل جاری ہے۔ 1998ء میں بین الاقوامی تنظیم محنت (ILO) کے تخمینے کے رُو سے دس سے چودہ سال کی عمروں کے بچے محنت کش ہیں۔ 1996ء کے قومی سروے برائے اطفال۔ جو وفاقی محکمہ شماریات کا منعقد کردہ ہے کے مطابق اندازاً پانچ اور بارہ سال کی درمیانی عمر والے بتیس لاکھ بچے معاشی طور پر فعال ہیں جن میں چھیالیس فیصد مصروفِ عمل بچے پینتیس گھنٹے فی ہفتہ معیاری کارکردگی سے آگے فعال حالت میں تھے۔ عمر کے اس حصہ میں کام میں لگے ہوئے بچوں کا تہتر فیصد (24 لاکھ) لڑکے تھے جبکہ لڑکیوں کا تناسب ستائیس فیصد (8 لاکھ) تھا۔ سروے میں مزید اس چیز کا انکشاف ہوا کہ دیہی علاقوں کے بچے شہری علاقے کے بچوں کی نسبت معاشی طور پر زیادہ فعال تھے۔

98-1997ء کے سروے کے مطابق دس سے چودہ سال کے بچوں کے تیرہ فیصد کا شمار کام کرنے والوں میں ہوتا تھا۔ (Bureau of International Labour Affairs; www.dol.gov)

1996ء میں پنجاب لیبر ڈیپارٹمنٹ نے محنت کش بچوں کے حوالے سے ایک سروے کرایا جس کے مطابق سیالکوٹ میں فٹ بال اور آلاتِ جراحی کی صنعتوں میں کام کرنے والے تمام محنت کشوں کا سترہ فیصد بچوں پر مشتمل تھا جبکہ اکتیس فیصد (7,700) کارکن بچے آلاتِ جراحی بنانے کی صنعت سے وابستہ تھے۔

1999ء میں پنجاب لیبر ڈیپارٹمنٹ نے پتہ لگایا کہ فیصل آباد کی ٹیکسٹائل برقی کھڈیوں میں 2,100 بچے بطورِ مزدور کام کرتے تھے جو تمام محنت کشوں کا پانچ فیصد تھے اور لاہور میں آٹو موبائل ورکشاپوں میں 3,378 محنت کش بچے تھے جو تمام کارکنوں کا اٹھارہ فیصد تھے۔ (Bureau of International Labour Affairs; www.dol.gov)

پاکستانی معاشرہ تین طرح سے دست بردار شدہ بچوں کے ساتھ لاتعلقی اور عدم توجہی کا سلوک کرتاہے اولاً مسئلے کے وجود سے انکار، ثانیاً امداد کے حقدار کنبوں کے بارے میں عدم مداخلت اور انہیں ان کے حال پر چھوڑ دینا۔ ثالثًا ایسے بچوں کو کوچہ گردی، منشیات، جنسی بے راہ روی سے بچانے کے لئے کوئی کارروائی نہ کرنا اور ان کو بحالی طفلاں کے مراکز اور گھروں تک پہنچانے میں لاپرواہی کا مظاہرہ۔

ایسے لوگوں کی کمی ہے جو ان مسائل سے آگاہی رکھتے ہیں جن سے دوسرے دوچار ہیں۔ بچوں کے مسائل سے چشم پوشی کرنا معاشرے کا وطیرہ بن گیا ہے اور دھتکارے اور ٹھکرائے ہوئے بچوں کے بارے میں یہ کہہ کر آنکھ بند کرلی جاتی ہے کہ ان کا کوئی وجود ہی نہیں۔ ان بچوں کی زندگیوں سے کہیں زیادہ معاشرے میں قابل حرمت اور ممنوعہ باتوں کو اہمیت دی جاتی ہے اور ان بچوں کے بارے میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ ان کا کوئی والی وارث نہیں۔ اگر ماں کو اپنے بچے کے بارے میں کسی مسئلے کا سامنا ہے اور وہ اس سے پیچھا چھڑانے کا سوچ رہی ہے اور معاشرہ دخل نہیں دیتا تو پھر یہ سمجھا جائے گا کہ معاشرے نے بھی اس بچے کو دھتکار دیا ہے۔

معاشرتی رویہ یہ بن چکا ہے کہ اس مسئلے کو سرے سے نظرانداز کیا جائے اس امید کے ساتھ کہ اگر اس پر کوئی بات نہ کرے گا تو اس کی اہمیت باقی نہ رہے گی اور شاید اس مسئلے کا وجود ہی باقی نہ رہے گا۔ جن بچوں کا معاشرے میں کوئی پرسانِ حال نہیں ہوتا ان کا مقدر گھریلو خادم، بیگار میں مشقت کرنا، کوچہ گردی، جنسی دھندا کرنا، نشہ میں دھت پڑے رہنا، بھکاری اور چوری چکاری کرنا بن جاتاہے۔ چنانچہ ایسے ماحول کی ضرورت ہے جہاں یہ سب کچھ نہ ہو اور اگر ہو رہا ہو تو ان صورتوں میں بچوں کو مدد دی جائے کہ وہ ایسے حالات کے چنگل سے باہر نکل سکیں۔ ایسی جگہیں اور عافیت کدے ہونے ضروری ہیں جہاں بچے کو سر ڈھانپنے اور در پئے آزار لوگوں سے بچ نکلنے کے مواقع میسر آسکیں۔

یہ غلط طور پر تسلیم کیا جاتا ہے کہ بچوں کو کسمپرسی کے عالم میں چھوڑا اور دھتکارا نہیں جا رہا حالانکہ معاشرہ ان کی ابتلاء کا ذمہ دار ہے اور یہ کہ نہ صرف موجودہ نسل بلکہ آنے والی نسلیں بھی تباہی کے گڑھے میں گرتی جا رہی ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان بنیادی اسباب کا کھوج لگایا جائے جو بچوں کو جرائم، نشے اور جنسی کاروبار وغیرہ کی دلدل میں دھکیل رہے ہیں۔ سوسائٹی جنس میں ملوث ہونے والے بچے سے اسی طرح آنکھیں موند لیتی ہے جیسے ہر بھکاری بچہ اور نوعمر مجرم و قصور وار ہے۔ معاشرہ حقیقت سے صرفِ نظر کئے ہوئے ہے۔ بعض بچوں کے معاملے میں مجرمانہ غفلت برتنے میں اتنی دیر ہو جاتی ہے کہ اس کی معصومیت بھری زندگی اس کی بھینٹ چڑھ جاتی ہے۔ یہ جاننے کا کوئی ذریعہ نہیں کہ کتنے بچوں کو دھتکارا، نظر انداز کیا، ناروا ظلم کا نشانہ بنایا اور گھر سے باہر نکلنے کی راہ دکھائی جاتی ہے۔ سال 2005ء میں 1719 واقعات بچوں کے ساتھ بد سلوکی اور ظلم کے رپورٹ ہوئے۔ پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ ’’گلیوں میں آوارہ بچوں میں نشہ آور اشیاء کے استعمال کا رحجان تشویش ناک حدوں کو چھونے لگا ہے۔ اگر جلد اس کے سدباب کے لئے کچھ نہ کیا گیا تو پاکستان مراکو اور برازیل جیسے ملکوں کی طرح بحران کا شکار ہونے والا ہے۔ ‘‘ یہ بات ایسوسی ایشن کے جنرل سیکرٹری قیصر سجاد نے بتائی۔

بچے کے ساتھ ناروا سلوک

ان کنبوں میں جہاں بچوں کا تناسب چار یا اس سے زیادہ تعداد کا حامل ہوتا ہے بچوں کی مار پیٹ کے واقعات زیادہ ہوتے ہیں بہ نسبت ان کنبوں کے جہاں چار سے کم تعداد میں بچے ہوتے ہیں پھر یہ کہ بچوں کو زدو کوب کرنے میں ماؤں کا کردار باپوں یا دیگر افرادِ خانہ کی نسبت زیادہ ہوتا ہے۔ 91 فیصد کنبوں میں جہاں بچوں کی تعداد چار سے چھ تک ہوتی ہے بچوں کی مارپیٹ مائیں کرتی ہیں۔ جیسے ایک کنبے کا حجم بڑھتا ہے تو ایسے کنبوں کا تناسب بھی بڑھ جاتا ہے جہاں بچوں کو مارنے پیٹنے کے واقعات دیگر رشتے داروں (چچاؤں، خالاؤں وغیرہ) کے ہاتھوں ہوتے ہیں۔

یہ مار کٹائی، زد و کوب، لعن طعن، گالی گلوچ، بچے سے ناروا سلوک، جسمانی ناروا سلوک اور زیادتی ہے جبکہ توہین آمیز انداز سے لعن طعن اس کا زبانی اظہار ہے۔ بچوں کی دُشنام طرازی پر پاکستان میں ناک منہ نہیں چڑھایا جاتا اگرچہ یہ بھی بچے کے ساتھ ناروا سلوک ہی تو ہے۔ جب بچوں کے ساتھ زیادتیوں کا سلسلہ حد سے تجاوز کر جاتا ہے تو وہ متبادل راہیں ڈھونڈنے لگتے ہیں جن میں ایک گھر سے بھاگنا بھی ہے۔

دوسرے عوامل جو والدین کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ بچوں کو بوجھ سمجھ کر ان سے پیچھا چھڑانے اور گھر سے انہیں باہر نکالنے پر تل جاتے ہیں کہ وہ خود کہیں ملازمت کر کے اپنی بسر اوقات کریں بنیادی طور پر مالیاتی مسائل ہیں۔ جب کنبے پھیلتے ہیں اور بچوں کو سنبھالا دینا ایک مسئلہ بن جاتا ہے اور کمانے والے فرد کو بہن بھائیوں اور والدین کی بنیادی ضروریات اور دوائیوں کا بوجھ اٹھانا دوبھر ہوجاتا ہے تو اس کا نتیجہ بظاہر یہ برآمد ہوتا ہے کہ سب کے لئے کھانے پینے کو مناسب مقدار میں موجود نہیں۔ ایسے میں بچوں کو روزگار کمانے اور اپنی ذات کے علاوہ اپنے کنبے کا سہارا بننے کے لئے باہر بھیج دیا جاتا ہے۔

کامونکی سے آئے ہوئے ایک بچے نے کہا کہ ’’میں گذشتہ تین سال سے لاہور میں رہ رہا ہوں اور میرے گھر والوں کو میرے بارے میں کچھ خبر نہیں۔ میرے والدین غریب اور بہت سے مسائل میں گھرے ہوئے ہیں انہوں نے میرا پتہ لگانے کی کوئی کوشش بھی نہیں کی۔‘‘ اس کا چہرہ مایوسیوں کے غبار سے اٹا دکھائی دیتا تھا۔ (Primary data.)

کوچہ و بازار میں بے بسی کی ٹھوکریں

چار سال کی عمر کے یہ نونہال بھیک مانگنے، کوڑا کرکٹ کے ڈھیروں اور صنعتی کارخانوں کے فضلہ جات سے رزق تلاش کرنے، چھوٹے موٹے حقیر کام کرنے، ریڑھے، ہوٹلوں میں برتن دھونے اور یومیہ 12 سے 15 گھنٹے کام کرنے کے بعد انہیں بمشکل 75 روپے ملتے ہیں جن سے اگر قسمت یاوری کرے تو ایک وقت کی روٹی خرید کر جسم و جان کا رشتہ برقرار رکھتے ہیں۔ ان کی ایک بڑی تعداد زندگی بچانے کے لئے جنسی دھندا کرنے، چوری یا سمگلنگ کے راستے اپنے لئے رزق کا سامان کرتے ہیں۔ یہ جنسی اختلاط انہیں ایڈز، تپ دق، یرقان، جگر اور گردے کی بیماریوں کی بھینٹ چڑھا دیتا ہے۔ (Primary data )

بارہ سالہ رضیہ نے بتایا کہ ’’وہ نو بہنوں اور ایک چھوٹے بھائی پر مشتمل کنبہ تھے۔ اکثر ہمارے پاس کھانے کو کچھ نہیں ہوتا اگرچہ میری بڑی بہن اور میرا باپ محنت مزدوری کرتے ہیں۔ پس میں مانگنے لگی اور اس طرح دو وقت روٹی ملنے لگی جو گھر بیٹھ کر نہیں ملتی تھی۔ ‘‘

اوپر ذکر کی گئی اس بچی کا مستقبل کیا ہے سوائے اس کے کہ کوئی شکاری اسے روپے کا لالچ دے کر اپنے پھندے میں گرفتار کرے یا پھر لبرٹی مارکیٹ جہاں وہ بھیک مانگنے جاتی ہے کوئی سیل مین یا جھاڑو دینے والے انہیں زبردستی اپنی ہوس کا نشانہ بنا لیں؟

گداگری

گلیوں میں سرگرداں بچوں کو بعض اوقات اٹھا لیا جاتا ہے اور زیادہ بھیک بٹورنے کی خاطر ان کی جسمانی قطع و برید کے بعد انہیں بھکاری بنا دیا جاتا ہے۔ بھکاریوں کے سرغنے بچوں کو قبضے میں لے کر ان کی نگرانی کرتے ہیں۔ پہلے وہ اس بات کی یقین دہانی کر لیتے ہیں کہ یہ بچے بھگوڑے بن کر کہیں چلے نہ جائیں ایک بچہ گداگر کے ساتھ ایک بالغ گداگر کو رکھا جاتا ہے جو اس پر نظر رکھتا ہے۔ بچوں کو مخصوص اڈوں پر رکھ دیا جاتا ہے اور پھر انہیں اٹھا لیا جاتا ہے اور ان کی کمائی ان سے لے لی جاتی ہے۔ ان بچوں / بچیوں کو زنا بالجبر اور اغلام بازی کا بھی نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ان بچوں کی حفاظت کی جاتی ہے، ان کی واپسی کے راستے بند کر دیے جاتے ہیں اور ان کا مستقبل صرف چور بننا یا گداگری کے پیشے کے ساتھ جڑا رہنا اور نئے آنے والے بچوں کو اپنی راہ پر لگانا ہے۔

٭ احمد اور ناصر جن کی عمریں بالترتیب پانچ اور چھ سال ہیں، بھیگ مانگتے تھے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ کیوں بھیک مانگتے ہیں تو انہوں نے بتایا کہ انہیں گھر بدر کرکے ایک دور کی خالہ / چچی کے پاس کسی شہر میں بھیج دیا گیا۔ اس نے انہیں بھکاری بنا دیا۔ اس کے پاس اور بھی بہت سے بچے تھے جن سے ہمیں بات کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ ان بچوں کی عمروں کے بارے میں پوچھنے پر ان کا جواب تھا۔ ’’ہم سب بچے بہت چھوٹے ہیں‘‘۔ وہ دل شکنی اور مایوسی جو ان بچوں کو جرائم اور منشیات کی دنیا میں لاتی ہے اس بات سے ظاہر و باہر ہے جو دس سالہ سعد اور گیارہ سالہ ثروت نے بتائی۔ (Primary data.)

منشیات

گلی کوچوں میں رہنے والے بچے مطلقاً غربت و افلاس کی زندگی بسر کرتے ہیں ان کا رزق ان کی سارا دن کی کمائی کے ساتھ بندھا ہوا ہے۔ یہ ذہین بچے اس حقیقت سے باخبر ہیں کہ وہ جس صورت حال میں گرفتار ہیں اس سے غالباً کبھی نہیں نکل پائیں گے، حالات کا یہ جبر اور یہ احساس کہ کسی کے دل میں ان کے لئے محبت اور اپنائیت کا جذبہ نہیں ان کے اندر فراریت کا احساس اجاگر کرتا ہے اور وہ اپنے مسائل اور پریشانیوں کو بھلانے کے لئے مختلف قسم کی منشیات کا سہارا لیتے ہیں۔ اس لئے وہ منشیات فروشوں کا سب سے آسان شکار ہیں۔

جرم کی دنیا

یہ محروم اور مایوس بچے بے سہارا ہوکر گلیوں میں نکلتے ہیں وہ اب کہاں ہیں اور سوائے محرومی اور ناامیدی کے ان کے سامنے کوئی راستہ نہیں اور جیسا انہوں نے چاہا تھا وہ منزل انہیں نہیں ملی۔ وہ حقائق سے فرار کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو اپنے خوابوں کو زندہ رکھنے کے لئے منشیات کا سہارا لیتے ہیں۔ نشے کی نسبتاً ہلکی قسموں سے وہ بھاری نشہ کرنے لگتے ہیں اور نشہ کی عادت کی خاطر مالی سہارا حاصل کرنے کے لئے وہ ایسی جرم کی دنیا میں آجاتے ہیں جہاں چوری، ڈاکہ زنی، گاہکوں کی دلالی اور نئے شکار پھنسانے اور انہیں تربیت دینے کی باتیں عام ہیں۔ بھرتی کرنے کا کام بالعموم منظم گروہ سر انجام دیتے ہیں بعض خود اپنے سہارے اس کام کا آغاز کرتے ہیں اور پھر حفاظت کے لئے جرائم کے سرغنوں کے ساتھ اپنا تعلق جوڑ لیتے ہیں۔

انتہا پسندی کے فروغ میں بچوں کا استعمال

غربت و اَفلاس، تعلیم اور صحت کی سہولیات کا فقدان، خوراک کی کمی، بے روزگاری اور زندگی کی دیگر بنیادی سہولیات سے محرومی جیسے مسائل کے باعث بچے جہاں مفید شہری بننے کے مواقع سے مستفید نہیں ہوتے وہاں ان کے سامنے ایک مشکل، کٹھن اور تاریک زندگی کے پیش منظر میں کوئی بھی شے اپنی بہتر حالت میں موجود نہیں ہوتی۔ ان حالات میں گھرے ہوئے بچوں کے استحصال اور ذاتی و گروہی مذموم مقاصد کے لیے استعمال ہونے کے اِمکانات بہت بڑھ جاتے ہیں

اِسی انتہا پسندانہ سوچ کا نتیجہ ہے کہ بچوں کو مذہب کے نام پر دنیاوی تعلیم سے محروم کرنے اور غلط مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی خاطر آج پاکستان کے قبائلی علاقہ جات میں اسکول نذرِ آتش کیے جا رہے ہیں اور اُنہیں ایک تاریک مستقبل کے گڑھے میں دھکیلا جا رہا ہے۔ صرف وادی سوات کے چار اَضلاع میں سوا پانچ سو اسکولوں میں سے دو سو سے زائد بند پڑے ہیں۔ گزشتہ دو سال میں سوا سو سے زائد اسکول تباہ کر دیے گئے جن میں سے اکثر بچیوں کے ہیں جبکہ اب انتہا پسندوں کی طرف سے بچیوں کے تمام اسکول بند کرنے کی دھمکی دی جا رہی ہے، جس سے چار سو پرائیویٹ اسکول اور ان کی چالیس ہزار طالبات متاثر ہوں گی جبکہ سرکاری اسکولوں کی بیاسی ہزار طالبات تعلیم سے محروم ہو جائیں گی۔ صرف یہی نہیں بلکہ اِن اسکولوں کے آٹھ ہزار اساتذہ بھی روزگار سے محروم ہو جائیں گے۔

بچوں کو مذہبی استحصال سے محفوظ رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ اُنہیں زندگی کی بنیادی سہولیات کی فراہمی کے ساتھ ساتھ قدیم و جدید ہر دو طرح کی تعلیم سے رُوشناس کیا جائے۔ اُن کے سامنے زندگی کے تاریک پہلو کی بجائے روشن پہلوؤں کو رکھا جائے اور اُن کی ضروریات پوری کرنے اور اُنہیں معاشرے کا مفید شہری بنانے کے لیے ہر ممکن اقدامات کے ساتھ ساتھ تمام وسائل بروئے کار لائے جائیں۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو بچوں کا مذہبی استحصال یونہی جاری رہے گا۔ ثانیاً یہ بھی ضروری ہے کہ تشدّد پسند عناصر کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے ماحول سازگار اور پُر اَمن بنایا جائے، لوگوں کو بنیادی سہولیاتِ زندگی فراہم کی جائیں اور اُنہیں تعلیم اور شعور دیا جائے۔ کیونکہ اِسلام ہی وہ دین ہے جس کا آغاز ہی پڑھنے کے سبق سے ہوا اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تمام عمر مبارک علم کے حصول پر بہت زیادہ زور دیا اور اس کے لیے عملی اقدامات کیے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمانِ اَقدس ہے :

طلب العم فريضة علی کل مسلم.

’’علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔ ‘‘

1. ابن ماجه، السنن، المقدمة، 1 : 81، رقم : 224
2. ابو يعلی، المسند، 5 : 223، رقم : 2837

اِس حدیثِ مبارکہ میں حصولِ علم کا حکم مرد و عورت دونوں کے لیے ہے۔ اس کے علاوہ اگر تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو معلوم ہوگا کہ صحابیات رضی اللہ عنہما میں بے شمار محدّثہ، معلمہ، اور فقیہہ تھیں۔ وہ لوگوں کو درس و تدریس دیتی تھیں۔ لہٰذا ضروری ہے کہ حکومت ٹھوس منصوبہ بندی کے ذریعے ایسی فکر کو فروغ دے جو بچوں اور بچیوں کو ان کے بنیادی حقوق کی فراہمی میں ممد و معاوِن ہو اور انہیں معاشرے کا مفید شہری بنانے کے ساتھ ساتھ آئندہ نسل کی تربیت کے لیے بھی تیار کرے۔

چائلڈ لیبر کا خاتمہ

مئی 2000ء میں وفاقی حکومت نے چائلڈ لیبر کے حوالے سے قومی پالیسی اور ایکشن پلان کو منظوری دی جس کو ٹاسک فورس نے جو بچوں کی مشقت کے بارے میں تشکیل دی گئی تھی نے قومی مشاورت سے ترتیب دیا۔ (www.dol.gov/ILAB.com)

قومی ایکشن پلان وفاقی، صوبائی، ضلعی اور مقامی سطح پر مربوط عملی طریق کار پر مبنی ہے جس کے سامنے شعور کی بیداری، کمیونٹی تحرک پذیری، موقع بہ موقع صورت حال کا جائزہ، نگرانی، قدر پیمائی اور ترجیحی بنیادوں پر استحصالی بچوں کی مشقت گری کے اقدام کی واپسی اور اس نوع کی مشقت کی بدترین شکلوں کا فوری خاتمہ ہے۔ (www.dol.gov/ILAB.com)

فروغ تعلیم

پاکستان کے چار صوبوں میں سے دو صوبوں میں اس وقت لازمی پرائمری تعلیم کے قوانین روبہ عمل ہیں۔ دسمبر 1994ء میں پنجاب اسمبلی نے پنجاب میں لازمی پرائمری ایجوکیشن ایکٹ 1994ء منظور کیا۔ اس ایکٹ کی رو سے پرائمری تعلیم (یکم تا پانچ کلاس) صوبہ بھر میں لازمی قرار دی گئی ہے۔ اکتوبر 1996ء میں صوبہ سرحد نے NWFP لازمی پرائمری تعلیم ایکٹ 1996ء منظور کیا جس سے صوبے بھر میں لازمی پرائمری تعلیم متعارف کرائی گئی۔ (www.dol.gov/ILAB.com)

وفاقی بجٹ جو بچوں پر خرچ کیا جاتا ہے اس کا تناسب جو مالی سال 1995ء میں 1.2 فیصد تھا، 1999ء میں کم ہو کر 1.0 فیصد رہ گیا ہے۔ صوبائی سطح پر تعلیم پر ہونے والے مصارف 1995ء میں کل کا 26 فیصد تھے وہ سال 1999ء میں کل تعلیمی ہدف کا 29 فیصد ہیں۔(www.dol.gov/ILAB.com)

غیر حکومتی تنظیمی (NGOs)

لاہور میں بہت سی NGOs بچوں کے بارے میں کام کرتی ہیں لیکن وہ سب کے سب مخصوص قسم کے بچوں سے متعلق ہیں۔ سسٹرز آف چیریٹی (Sisters of Charity) نامی غیر ملکی ادارہ ایسے بالغ بچوں کو اپنی تحویل میں رکھتا ہے جو جسمانی اور ذہنی معذور ہیں۔ وہ چرچ کی امداد اور معاونت سے چلتا ہے اور ایسے بچوں کو اپنی سپرداری میں رکھتا ہے جن کا کوئی والی وارث نہ ہو۔

(1) یتیم خانہ

اس ادارے کو انجمن حمایت اسلام چلاتی ہے۔ وہ ترجیحاً گم شدہ بچوں کو اپنی تحویل میں رکھتی ہے۔ اس میں داخل کئے گئے پچاس سے ساٹھ فیصد بچے گمشدہ ہوتے ہیں۔ ان کو میٹرک تک تعلیم دلائی جاتی ہے اور پھر انہیں ان کے کنبوں کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔ اگر کوئی بچہ ذہین ہو اور وہ اعلیٰ تعلیم کے لئے جانا چاہے تو پھر ادارے کے ذمہ دار عہدیداران اس کے معاملے کو جانچتے ہیں اور بالعموم اس کے تعلیمی اور رہائشی اخراجات انجمن کی طرف سے ادا کرتے ہیں

ایس۔ او۔ ایس (SOS)

ایس۔ او۔ ایس ایک بین الاقوامی تنظیم ہے جس کی شاخیں دنیا بھر میں ہر جگہ قائم ہیں وہ ٹھکرائے ہوئے بچوں سے ترجیحی سلوک روا رکھتی ہے۔ وہاں پچاس فیصد بچے ایسے ہیں جن کو کنبہ، والدین یا ان کے عزیز و اقارب بے سہارا چھوڑ دیتے ہیں۔ بارہ سال کی عمر تک کے بچے سکول میں داخل کئے جا سکتے ہیں۔ بچوں کو پڑھایا سکھلایا جاتا ہے اور جب وہ پختہ عمر کو پہنچتے ہیں تو لڑکیوں کی شادی کر دی جاتی ہے اور لڑکوں کو برسر روز گار کیا جاتا ہے۔

ایدھی سنٹر

ایدھی سنٹر ہر ایک کو چاہے اس کی کوئی عمر ہو داخل کر لیتا ہے۔ صرف ایک ہی شرط پر کہ اسے ان کے سنٹر میں جو کوئی بھی لے کر آئے پھر اس کے بعد کوئی ان کے تعاقب میں نہیں آئے گا۔ ایدھی سنٹر گورنمنٹ سے بدرجہا زیادہ خدمات انجام دیتا ہے۔ وہ لڑکوں کو اپنے سکولوں میں پڑھاتے سکھاتے ہیں انہیں دست کاری کا ہنر بھی سکھایا جاتا ہے۔ لڑکیوں کو گھروں کے اندر قائم کردہ سکولوں میں بھیجا جاتا ہے جہاں انہیں کھانا پکانا اور کڑھائی کشیدہ کاری جیسے کام بھی سکھائے جاتے ہیں۔

آغوش

منہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن ایک بین الاقوامی فلاحی تنظیم ہے جو سماجی اور معاشی اعتبار سے پسماندہ انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے تعلیم، صحت اور فلاحِ عام کے سینکڑوں منصوبہ جات پر ہمہ وقت مصروف عمل ہے۔ کثیر جاری فلاحی منصوبوں کے ساتھ ساتھ منہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن نے آغوش کے نام سے ایک ایسا ادارہ بھی قائم کیا ہے جس میں والدین کے سائے سے محروم بچوں کی کفالت اور تعلیم و تربیت کا شاندار اہتمام کیا گیا ہے۔ اس ادارے میں بچوں کی صرف جسمانی ہی نہیں بلکہ تعلیمی، تربیتی، ذہنی، نفسیاتی اور روحانی ضروریات کا بھی ہر ممکن خیال رکھا جاتا ہے۔ آغوش کے قیام کا مقصد یتیم اور معاشرے کے ٹھکرائے ہوئے زیادہ سے زیادہ معصوم بچوں کو محفوظ چھت فراہم کرنا، اعلیٰ تعلیم و تربیت کے ذریعے ان کے مستقبل کو محفوظ بنانا اور انہیں معاشرے کا کارآمد اور قابل فخر انسان بنانا ہے۔ اس لیے منہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن پانچ سو بچوں کی بھر پور کفالت کی صلاحیت کا حامل ادارہ ہے۔

اِس وقت آغوش میں زیر کفالت بچوں میں زلزلہ سے متاثرہ علاقوں کے بچوں کے ساتھ ساتھ ملک بھر کے دیگر اضلاع کے یتیم بچے بھی شامل ہیں۔ آغوش کے زیر کفالت تمام بچے ایک اعلیٰ مڈل کلاس گھرانے کے بچوں جیسی سہولیات سے مستفید ہو رہے ہیں جب کہ ان کی طرز زندگی کو مزید بہتر سے بہتر بنانے کی کاوشیں جاری ہیں۔ آغوش کا اندرونی ماحول روایتی کفالتی اداروں کے برعکس انتہائی خوش گوار، منظم اور گھریلو ہے۔ بچے یہاں پر اپنے مشفق اساتذہ کے زیر سایہ بھائیوں کی طرح رہتے ہیں جب کہ اساتذہ بھی اپنے حسن اخلاق سے ان بچوں کو والدین کی کمی کا احساس نہیں ہونے دیتے۔ یہی وجہ ہے کہ بچے اپنے تمام تر معاملات بلا جھجک انتظامیہ کے ساتھ زیر بحث ہی نہیں لاتے بلکہ ان سے مناسب راہنمائی کے خواہاں بھی رہتے ہیں۔ آغوش کے اندرونی ماحول کا مشاہدہ کرنے کے بعد یہ اندازہ لگانا قطعاً مشکل نہیں ہے کہ یہ ایک ایسا گھر ہے جس کے رہنے والے کسی الجھاؤ یا کسی پریشانی کے بغیر اپنے روز مرہ کے معاملات احسن انداز میں سرانجام دے رہے ہیں۔ آغوش کے ماحول کی یہی انفرادیت اور حسن تعلق اسے ایسے تمام دوسرے اداروں سے منفرد اور ممتاز ہی نہیں کرتا بلکہ اس کے روشن مستقبل کا عکاس بھی ہے آغوش کے تمام بچوں کو ان کی صلاحیتوں، ذہانت اور طبعی رحجان کے اعتبار سے سکول اور حفظ قرآن کی تعلیم دی جاتی ہے۔ حفظ قرآن کے ساتھ ساتھ بچوں کوجدید عصری نصاب کے مطابق انگلش، اردو اور عربی زبان کے علاوہ سائنسی علوم سے بھی روشناس کروایا جاتا ہے۔ تعلیم و تربیت کے ساتھ ساتھ بچوں کی ذہنی ارتقاء اور روحانی نشو و نما کے لیے مختلف تفریحی سرگرمیاں بھی شیڈول کا حصہ ہیں۔ بچوں کی روحانی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے انہیں تحریک منہاج القران کی مختلف دینی و روحانی تقریبات میں بطور خاص شریک کیا جاتا ہے تاکہ وہ اسلام کی اصل روح سے آشنا ہو کر ایک اچھے مسلمان بن سکیں۔

اوپر جتنے طریقوں کا ذکر ہوا ہے وہ سب امتناعی طریقے ہیں اور بہترین ہیں جب تک بچے گلیوں میں آوارہ پھرنے سے بچے رہتے ہیں نقصان سے بچے رہتے ہیں ایسے کوچہ گردی کرنے والے بچوں کے لئے کچھ نہ کچھ کرنا ضروری ہے۔ اگر بچوں کو ایسی جگہ میسر ہو جہاں وہ صاف پانی سے غسل کرنے کے بعد ایک نیا جوڑا کپڑوں کا اور گرما گرم کھانا حاصل کر سکیں تو وہ گلیوں میں آوارہ گردی سے بچے رہیں گے۔ چونکہ ان کی کوچہ گردی کی وجہ معاشی اور مالیاتی مسائل ہیں اگر انہیں اتنا کچھ میسر آ جائے تو ان کے بہت سارے مسئلے خود بخود حل ہو جائیں گے۔

دوسرے قدم کے طور پر ان بچوں کو مشورہ لینے کے لئے کسی ماہر نفسیات یا پیشہ ورانہ تعلیم و تربیت کے حامل عملہ کی طرف رجوع کرنا ہوگا جو ان کی بحالی میں معاون و مددگار ثابت ہوگا۔ آخری رکاوٹ تب دور ہوگی جب انہیں اچھے محفوظ ملازمت کے مواقع میسر آئیں گے اور جہاں وہ ناروا سلوک اور زیادتیوں سے محفوظ زندگی بسر کریں گے۔