مشرقی عورت محترمہ فاطمہ جنا ح رحمۃ اللہ علیہا کی نظر میں

تحریر : نازیہ عبدالستار

محترمہ فاطمہ جناح رحمۃ اللہ علیہا جنہیں دنیا مادر ملت کے نام سے پہچانتی ہے قائد اعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہا کی چھوٹی بہن تھیں، وہ تحریک پاکستان کی سرگرم رکن تھیں انہو ں نے عمر بھر ملک و قوم کی خدمت کی یہاں تک کہ شادی نہیں کی لیکن اس کے باوجود انہوں نے عورت کو خوشحال زندگی گزارنے کے ایسے ایسے گُر بتائے کہ جس کے ذریعہ وہ مرد کے دل کو جیت سکتی ہے اور خوشگوار خاندانی نظام کو تشکیل دے سکتی ہے، محترمہ فاطمہ جناح رحمۃ اللہ علیہا عورتوں کی خستہ معاشی و معاشرتی حالت کے متعلق فرماتی ہیں کہ عورتوں کو اقتصادی طور پر خوشحال ہونا چاہئے۔ ساتھ ہی ساتھ مرد پر بھی یہ فرض عائد ہوتاہے کہ وہ اسے معاشی لحاظ سے خوش رکھے، عورت کا نان و نفقہ پورا کرے اور مالی طور پر عورت تنگی و غربت محسوس نہ کرے، اقتصادی طور پر خوشحال زندگی سے مراد یہ نہیں کہ عورت شادی ہی نہ کرے کیونکہ اس سے معاشرتی اور خاندانی نظام تباہ ہو جائے گا، اس لئے ضروری ہے کہ میاں بیوی ایک دوسرے کو سمجھیں۔ ایک دوسرے کی چھوٹی چھوٹی خامیوں کو نظر انداز کریں، ایک دوسرے کے جذبات و خواہشات کا خیال رکھیں، اس سلسلہ میں زیادہ ذمہ داری عورت پر عائد ہوتی ہے کہ، مرد دن بھر محنت و مشقت کر کے تھکا ماندہ شام کو گھر لوٹتا ہے وہ چاہتا ہے کہ گھر میں اس کو ایسا ماحول ملے جس میں وہ راحت و سکون اورطمانیت محسوس کرے، ایک سلیقہ شعار اور سمجھدار عورت کی یہی نشانی ہوتی ہے کہ وہ موقع و محل کے مطابق اپنے قول و فعل، عادات واطوار سے پورے معاشرے کو بدل سکتی ہے، مرد فطرتاً آزاد ہوتا ہے۔ وہ دخل اندازی کو پسند نہیں کرتا، مرد سطحی باتوں کو پسند نہیں کرتا، بحث کر کے اس کو قائل نہیں کیا جا سکتا۔ عورت کو اس وقت تک انتظار کرنا پڑتا ہے جب تک کہ اس کے فعل و کردار کو تسلیم کر کے عورت کی عادات و اطوار کو قابل ستائش نہیں سمجھتا۔ عورت کو اپنا آپ منوانے کیلئے قربانی دینی پڑتی ہے جس سے وہ اپنے مقاصد کو حاصل کر سکتی ہے۔ ضروری نہیں کہ اپنے کام صرف پڑھی لکھی عورت ہی سرانجام دے سکتی ہے بلکہ سلیقہ شعاری اور حکمت عملی ایسی چیزیں ہیں جس سے وہ اپنی شخصیت کو نکھار کر ہر ایک کو اپنا گرویدہ بنا سکتی ہے۔ لیکن آج کی عورت یہ سمجھتی ہے کہ وہ انگریزی بول سکتی ہے۔ فیشن کے مطابق پہن اور اوڑھ سکتی ہے تو ساری خوبیاں ان میں مجتمع ہو گئیں حالانکہ عورت شفقت و محبت اورہمدری کا پیکر ہے۔ جس سے تمام بنی نوع انسان رہنمائی حاصل کرتے ہیں۔ لیکن بد قسمتی سے ہماری عورت ایسا نہیں سوچتی۔ اس کی تنگ نظر ی سے گھریلو سکون تباہ و برباد ہو جاتا ہے، پڑھی لکھی عورتوں کو چاہئے کہ حسن اخلاق کے ذریعہ دوسروں کو اپنا ہم خیال بنائیں، ہر بات میں مردوں کی برابری کرنے سے معاشرتی و اقتصادی سکون برباد ہو جاتاہے، آپس کے تعلقات میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے جس سے بدامنی کی فضا جنم لیتی ہے۔

بابائے قوم حضرت قائد اعظم رحمۃ اللہ علیہا بھی خواتین کی اس آزادی کے قائل ہیں جن سے انہیں عزت و آبرو اور مقام و مرتبہ نصیب ہو، اس کے برعکس ایسی آزادی کے خلاف ہیں جو انہیں غلط راستوں پر ڈال دے۔ لباس، زبان اور بود و باش میں مغربیت کے اثر کی وجہ یہ ہے کہ دنیا ایک چھوٹی سی جگہ ہے جہاں ایک قوم یا ملک دوسری قوم یا ملک کا اثر قبول کرتی ہے لیکن ہمیں اپنی روایات و اقدار کو کبھی فراموش نہیں کرنا چاہئے بلکہ یہ اقدار ہر گھر میں سکھائی جائیں اور اپنے بچوں کو اپنے ماحول و کلچر کی تربیت دیں۔ محترمہ فاطمہ جناح رحمۃ اللہ علیہا نے فرمایا کہ گھر کا ماحول خوشگوار بنانا زیادہ تر عورت کی ذمہ داری ہے۔ ایک پڑھی لکھی عورت کو اپنے گھر کے ماحول کو زیادہ سے زیادہ بہتر بنانا چاہئے اگر تعلیم یافتہ عورت اچھی ماں، بیٹی اور بیوی ثابت نہیں ہوتی تو اس میں اس کا اپنا قصور ہے تعلیم کا نہیں، عورت کائنات ہست و بود میں اہم مقام رکھتی ہے اگر وہ اپنی ذمہ داریوں سے احسن طور پر عہدہ برآ نہیں ہوتی تو اس سے نہ صرف اس کی اپنی ذات کو نقصان پہنچتا ہے بلکہ معاشرتی بگاڑ بھی جنم لیتا ہے۔ ہماری آبادی کا تقریباً آدھا حصہ خواتین پر مشتمل ہے جو قوم و ملک کی تقدیر کو بدل سکتی ہیں جس کا حل صرف اور صرف تعلیمات اسلام کی پیروی میں ہی پنہاں ہے۔ عورت کی پسماندہ حالت کا واحد حل تعلیم اور تربیت ہے۔ عورت اپنے آپ کو زیور تعلیم سے آراستہ کر کے معاشی حالت کو بہتر بنا سکتی ہے۔ اس سلسلے میں مخیر خواتین غریب بچیوں کے لیے تعلیم و تربیت کا انتظام و انصرام کریں، اسلام نے عورت کو قابل عزت مقام دیا ہے، سب سے پہلے عورت ہی ایمان لائی تھیں۔ محترمہ فاطمہ جناح نے عورتوں کو نصیحت کی کہ مشکوک کردار کے لیڈر صاحبان سے متاثر نہ ہوں، مردوں کے بغیر عورت کی معاشی حالت دگرگوں ہے، عورت معاشی لحاظ سے ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے، گھریلو دستکاریاں اور پاکستان کی مصنوعات کو استعمال کرنے سے عورت کی مدد کے ساتھ ملک بھی ترقی کرے گا۔ عورت میں ایسی طاقت ہوتی ہے جس سے وہ اپنے گھر کو خوشیوں کا مسکن بنا سکتی ہے۔ گھر کے نظام کو منظم انداز میں چلا کر افراد میں رواداری، محبت کی فضا پیدا کر سکتی ہے جو تمام تر قیوں اور معاشی استحکام کا پیش خیمہ بنتا ہے۔

اس ساری بحث میں جس کو مادر ملت محترمہ فاطمہ جنا ح رحمۃ اللہ علیہا نے بڑے احسن انداز میں بیان کیا ہے۔ ان کی زندگی کا مقصد و محور معاشرہ کی بہتری و اصلاح ہی تھا۔ آج کی عورت جو معاشی طور پر خوشحال ہونے کے ساتھ زیور تعلیم سے بھی آراستہ ہے لیکن اس کے باوجود عائلی زندگی کے مسائل اور پریشانیوں میں گھری ہوئی نظر آتی ہے، اس کی بڑی وجہ اس کا مغربی تہذیب سے مرعوب ہو کر اپنی اقدار اور رسم و رواج کو ترک کرنا ہے۔ ان کے مسائل کا حل محترمہ فاطمہ جناح نے بڑی دور اندیشی سے دیا ہے اور بیان کیا ہے کہ عورت کے اندر اللہ رب العزت نے ایسا ملکہ رکھا ہے کہ وہ پورے معاشرے کی اصلاح کر سکتی ہے جبکہ عورت فیشن پرستی کے ذریعے پر اپنے آپ کو ہر دلعزیز بنانے کا خواب دیکھ رہی ہے اور بے شمار فتنوں اور آزمائشوں میں گھری ہوئی نظر آ رہی ہے۔

شوہروں اور بچوں کو گھر میں سکون میسر نہ آیا تو یہ قوم کے بہترین شہری کیسے بنیں گے۔ ان ذمہ داریوں کو کیسے نبھائیں گے جو انفرادی طور پر ایک شخص پر عائد ہیں۔ مادر ملت صحت بخش آزادی کی حامل تھیں جہاں مرد اور عورت دونوں قوم کے بہترین معمارثابت ہوں۔ ان خواتین کے حقوق کا تذکرہ بھی کرتیں جو صرف مرد کا ورثہ سمجھی جاتی ہیں، جنہیں ہر طرح کی تکلیفیں جھیلنی پڑتی ہیں، جنہیں معاشرہ بولنے نہیں دیتا۔ بے جوڑ شادیوں، اقتصادی پریشانیوں سے انہیں بہت اذیت ہوتی تھی کہ ان کے لئے کوئی کام نہیں ہوتا۔ آپ فرماتی ہیں کہ پڑھی لکھی خواتین پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ان خواتین کے لئے کچھ کریں اور ان کے لئے مشعل راہ ثابت ہوں۔ گھر کی چھوٹی موٹی پریشانی اور مالی مشکلات کو خواتین نے سلجھانا ہے۔ لہذا بچپن سے ہی بچوں کی ایسی تربیت کی جائے جس سے ان میں تحمل، بردباری، اخلاق کی بلندی جیسی خوبیاں پیدا ہوں تاکہ وہ آگے چل کر گھر کی ذمہ داری کو احسن انداز میں نبھا سکیں۔ بچپن کے متعلق فرماتی ہیں کہ یہی وہ دور ہے جس میں کردار بنتا ہے جس کے اثرات دیرپا ہوتے ہیں۔ اس کے لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارا معاشرہ اچھی مائیں پیدا کرے کیونکہ قوم و ملک کی بہتری کا انحصار ان پر ہی ہے۔

محترمہ فاطمہ جناح نے عورت کے معاشی، اقتصادی، عائلی تقریباً ہر گوشے پر سیر حاصل گفتگو کی۔ وہ مشرقی عورت کو ہر روپ میں خوشحال، مکمل سلیقہ شعار، فرمانبردار اور سلجھی ہوئی خاتون دیکھنا چاہتی تھیں۔