حافظ محمد سعید رضا بغدادی

عرفان القرآن کورس
درس نمبر 23 آیت نمبر 42 تا 46 (سورۃ البقرہ)

تجوید : حروفِ اقلاب کا بیان

سوال : اِقلاب کا معنی کیا ہے؟ حروفِ اقلاب کتنے ہیں؟

جواب : اِقلاب کا معنی ’’تبدیل کرنا‘‘ ہے۔ حروفِ اِقلاب صرف ایک حرف ’’ب‘‘ ہے۔

سوال : حرفِ اِقلاب کا حکم کیا ہے؟

جواب : نون ساکن (نْ) اور نونِ تنوین (-ً، -ٍ، -ٌ) کے بعد حرفِ اقلاب ہو تو اسے چھوٹی میم (م) سے بدل دیں گے اورغنّہ کریں گے مثلاً : مِنْ م بعْدِ، أَبَدًا م بِمَا. میں نون ساکن (نْ) اور نونِ تنوین (-ً، -ٍ، -ٌ) کو چھوٹی(م) سے بدل دیا گیا ہے۔

ترجمہ

وَلاَ تَلْبِسُواْ الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَتَكْتُمُواْ الْحَقَّ وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَO

متن وَلاَ تَلْبِسُواْ الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَ تَكْتُمُواْ الْحَقَّ وَ أَنتُمْ تَعْلَمُونَ
فظی ترجمہ او نہ ملاؤ حق کو ساتھ باطل کے اور (نہ) چھپاؤ حق کو اور تم جانتے ہو
عرفان القرآن اور حق کی آمیزش باطل کے ساتھ نہ کرو اور نہ ہی حق کو جان بوجھ کر چھپاؤ۔

وَأَقِيمُواْ الصَّلاَةَ وَآتُواْ الزَّكَاةَ وَارْكَعُواْ مَعَ الرَّاكِعِينَO

متن وَ أَقِيمُواْ الصَّلاَةَ وَ آتُواْ الزَّكَاةَ وَ ارْكَعُواْ مَعَ الرَّاكِعِينَ
فظی ترجمہ اور قائم کرو نماز اور دو زکوٰۃ اور جھکتے رہو ساتھ جھکنے والوں کے
عرفان القرآن اور نماز قائم رکھو اور زکوٰۃ دیا کرو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ مل کر رکوع کیا کرو۔

أَتَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنْسَوْنَ أَنفُسَكُمْ

متن أَ تَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَ تَنْسَوْنَ أَنفُسَ كُمْ
فظی ترجمہ کیا تم حکم کرتے ہو لوگوں کو ساتھ نیکی کے اور بھول جاتے ہو جانوں کو اپنی
عرفان القرآن کیا تم دوسرے لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے ہواور اپنے آپ کو بھول جاتے ہو؟

وَأَنْـتُمْ تَتْلُونَ الْكِتَابَ أَفَلاَ تَعْقِلُونَO

متن وَ أَنْـتُمْ تَتْلُونَ الْكِتَابَ أَ فَ لاَ تَعْقِلُونَ
فظی ترجمہ اور تم تلاوت کرتے ہو کتاب کیا پس نہیں تم تقل سے کام لیتے
عرفان القرآن حالانکہ تم (اللہ کی) کتاب(بھی) پڑھتے ہو‘ تو کیا تم نہیں سوچتے؟

وَاسْتَعِينُواْ بِالصَّبْرِ وَالصَّلاَةِ وَإِنَّهَا لَكَبِيرَةٌ إِلاَّ عَلَى الْخَاشِعِينَO

متن وَاسْتَعِينُواْ بِالصَّبْرِ وَ الصَّلاَةِ وَ إِنَّهَا لَكَبِيرَةٌ إِلاَّ عَلَى الْخَاشِعِينَ
فظی ترجمہ اور مدد لو صبر سے اور نماز اور بیشک وہ البتہ بھاری ہے مگر پر عاجزون
عرفان القرآن اور صبر اور نماز کے ذریعے سے (اللہ سے) مدد چاہو اور بیشک یہ گراں ہے مگر(ان) عاجزوں پر(ہرگز) نہیں۔

الَّذِينَ يَظُنُّونَ أَنَّهُم مُّلاَقُوا رَبِّهِمْ وَأَنَّهُمْ إِلَيْهِ رَاجِعُونَO

متن الَّذِينَ يَظُنُّونَ أَنَّهُم مُّلاَقُوا رَبِّهِمْ وَ أَنَّهُمْ إِلَيْهِ رَاجِعُونَ
فظی ترجمہ جو یقین رکھتے ہیں بیشک وہ ملنے والے ہیں اپنے رب سے اور بیشک وہ اسی کیطرف لوٹنے والے ہیں
عرفان القرآن جو یقین رکھتے ہیں کہ وہ اپنے رب سے ملاقات کرنے والے ہیں اور وہ اسی کی طرف لوٹ کرجانے والے ہیں۔

تفسیر

التباس حق و باطل اورکتمانِ حق

تورات کے صفحات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کمالات و صفات اور علامات کے ذکر سے مزین تھے۔ بنی اسرائیل ان کو چھپانے کی کوشش میں لگے رہتے تاکہ لوگ ان پر مطلع ہوکر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان نہ لے آئیں اور اگر کسی کی نظر سے ایسی کوئی آیت گزر جاتی تو وہ اسکی ایسی تاویلیں گھڑ کر اسے بتاتے کہ وہ بے چارہ طرح طرح کی غلط فہمیوں میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالی انہیں اس مذموم حرکت سے منع فرماتے ہیں۔ لَبِسَ کے دو معنی ہیں ڈھانپ لینا اور خلط ملط کر دینا۔ اس سے ہر طرح کی تحریف لفظی یا معنوی سے باز آنے کا حکم دیا جا رہا ہے یہ حکم صرف بنی اسرائیل کے علماء کے ساتھ ہی مخصوص نہیں بلکہ ملت اسلامیہ سے تعلق رکھنے والے علماء کو بھی شامل ہے۔

اَتَأمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبِرِّ. . . الخ

علمائے یہود لوگوں کو تو حکم دیتے کہ تورات اللہ کی کتاب ہے اور اسکے ہر فرمان کی تعمیل کرو اور اپنا یہ حال تھا کہ ذرا سے ذاتی فائدے کیلئے تورات کے صریح احکام کو پس پشت ڈال دیتے اور تورات میں بیان شدہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی علامات دیکھ کر بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان نہ لاتے۔ یہ زجر و توبیخ ہر اس شخص کے لئے ہے جو دوسروں کو نیکی کاحکم دے اور خود اس کے خلاف عمل پیرا ہو۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ معراج کی رات میرا گزر ایک ایسی قوم پر ہوا جن کے ہونٹ آگ کی قینچیوں سے کاٹے جا رہے تھے۔ میں نے جبرائیل سے ان کے متعلق دریافت کیا تو جبرائیل نے بتایا یہ دنیا کے خطیب ہیں جو لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے تھے اور اپنے نفسوں کو بھلائے رکھتے تھے حالانکہ وہ کتاب کی تلاوت بھی کرتے تھے۔

وَاسْتَعِيْنُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلاَةِ. . . الخ

مشکلات میں صبر و صلوٰۃ کے ذریعے استعانت

1۔ صبر سے مقامات میں مدد ملتی ہے اور نماز سے مشاہدات میں۔
2۔ صبر تزکیہ کے لئے بڑا مؤثر ہے اور نماز تجلی کے لئے۔
3۔ صبر مضعف نفس ہے اور نماز مقوی روح۔
4۔ بعض صوفیاء کرام رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ صبر میں غیر اللہ کا ترک رہے اورنماز میں اللہ تعالی کی معیت ہو۔ صبر سبیل فنا ہے اور نماز سبیل بقا۔ (تفسیر منہاج القرآن)

قرآن فروشی : ’’لَا تَشْتَرُوْا بِاٰيَاتِی ثَمَناً قَلِيْلاً‘‘. کا یہ حکم نہیں ہے کہ ثمن کثیر کے ساتھ اشتراء بایات اللہ جائز ہے جبکہ پوری دنیا کو بھی مَتَاعُ الدُّنْيَا قَلِيْلٌ کہا گیا ہے۔ بلکہ منشاء یہ ہے کہ ایک تو یہ حرکت نہایت ذلیل ہے اور ہر چند ٹھیکروں کے پیچھے یعنی برائی در برائی۔ کریلا اور پھر نیم چڑھا۔

تعلیم اور اذان وامامت پر اجرت : قرآن یا قرآنی علوم کی تعلیم پر یا اذان وامامت پر اجرت لینے کی ممانعت اس آیت سے سمجھنا صحیح نہیں ہے۔ علماء متاخرین نے یہ سمجھتے ہوئے کہ اس طرح کہیں باب تعلیم ہی بند نہ ہو جائے جس سے دین ہی محفوظ نہ رہ سکے تعلیم پر اجرت لینے کی اجازت دے دی ہے۔ اسی طرح قرآن کے نسخوں کی تجارت بھی ممنوع نہیں ہے کیونکہ وہ اجرت کاغذ، کتابت طباعت کے مقابلہ میں ہوتی ہے نہ کہ آیات الٰہی کے مقابلہ میں۔

دین فروشی اور فتویٰ نویسی : اس سے مراد رشوت لے کر غلط فتویٰ دینا اور مسائل غلط بتلانا ہے۔

احکام شرعیہ کی تبدیلی دو طرح کی ہوتی ہے۔

1۔ اگر بس چل گیا تو ظاہر ہی نہ ہونے دیا جسے کتمان کہا گیاہے۔

2۔ اگر کچھ بن نہ پڑا اور کچھ ظاہر ہی ہوگیا تو پھر خلط ملط کرنے کی کوشش کی کبھی سہو کتابت کا بہانہ اور کبھی حقیقت و مجاز، محذوف و مقدر ہونے کا فسانہ گھڑ دیا جسے تلبیس کہا گیاہے۔ یہ سب باتیں جو علماء یہود کی برائیاں تھیں اگر ہمارے علماء سوء میں بھی پائی جائیں گی تو وہ بھی اس طرح کے مستحق شکایات و عتاب ہوں گے۔ (تفسیر جلالین)

قواعد

فائدہ : ہر فعل ان چھ ابواب میں سے کسی ایک کے مطابق ہوتا ہے۔

(1) اگر پہلے باب کے مطابق ہو تو کہتے ہیں، یہ باب ضَرَبَ سے ہے۔ جیسے غَسَلَ يَغْسِلُ (دھونا)

(2) اگر دوسرے باب کے مطابق ہو تو کہتے ہیں، یہ باب نَصَرَ سے ہے۔ جیسے کَتَبَ يَکْتُبُ (لکھنا)

(3) اگر تیسرے باب کے مطابق ہو توکہتے ہیں، یہ باب سَمِعَ سے ہے۔ جیسے لَعِقَ يَلْعَقُ (چاٹنا)

(4) اگر چوتھے باب کے مطابق ہو تو کہتے ہیں، یہ باب فَتَحَ سے ہے۔ جیسے قَرَءَ يَقْرَءُ (پڑھنا)

(5) اگر پانچویں باب کے مطابق ہو تو کہتے ہیں، یہ باب کَرُمَ سے ہے۔ جیسے شَرُفَ يَشْرُفُ (شریف ہونا)

(6) اگر چھٹے باب کے مطابق ہو تو کہتے ہیں، یہ باب حَسِبَ سے ہے۔ جیسے نَعِمَ يَنْعِم (خوش حال ہونا)

دعا

روزہ رکھنے کی دعا

وَبِصَوْمِ غَدٍ نَّوَيْتُ مِنْ شَهْرِ رَمَضَانَ.

’’اور میں رمضان کے مہینے میں کل کے روزے کی نیت کرتا ہوں۔ ‘‘