حسنین جاوید قادری

معروف قول ہے کہ دانائی کی بات اگر دشمن سے بھی حاصل ہو تو اس پر عمل کرنا چاہئے۔ ناصح کی نصیحت کسی ایک مذہب، ملت یا مخصوص ذات پات کے لئے نہیں ہوتی۔ تاریخ گواہی دیتی ہے کہ جس نے کسی کی اچھی نصیحت پر عمل کیا اس نے فلاح پائی۔ بڑے بڑے مسلم مفکرین نے بھی اپنی قوم کو نصیحت کرنے اور انہیں ان کا ماضی یاد دلانے کا فریضہ سرانجام دیا اور قوم کی فوز و فلاح کے لئے انہیں خاص پیغام دیا۔ اس حوالے سے مفکر پاکستان علامہ ڈاکٹر محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے اشعار کی صورت میں قوم مسلم کو نہ صرف ناصحانہ انداز میں تربیت کا فریضہ سرانجام دیا بلکہ انہیں دین اسلام کی اساسی فکر پر مشتمل ایسا پیغام دیا جس سے قوم کے عروق مردہ میں پھر سے زندگی کی لہر دوڑ گئی۔ اس ضمن میں شاعر مشرق ڈاکٹر محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :

شوق تیرا اگر نہ ہو میری نماز کا امام
میرا قیام بھی حجاب میرا سجود بھی حجاب

تیری نگاہ ناز سے دونوں مراد پاگئے
عقل غیاب و جستجو، عشق حضور و اضطراب

تیرہ و تار ہے جہاں گردش آفتاب سے
طبع زمانہ تازہ کر جلوہ بے حجاب سے

ان اشعار کے ذریعے علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے جہاں ایک طرف نبی آخرالزماں رحمۃ اللعالمین ختم المرسلین حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت اپنی عقیدت و محبت کا اظہار کیا ہے تو دوسری طرف قوم مسلم کو تباہی و بربادی، تنزلی و ابتری اور بے راہ روی سے بچانے کے لئے اللہ کے حضور خصوصی التجا اور دعا کر رہے ہیں اور ہمیں نصیحت فرماتے ہوئے یہ پیغام دے رہے ہیں کہ آج ہم جو ذلت اور پستی کے عمیق گڑھوں میں گرتے جا رہے ہیں اور ہماری تقدیر جو دشمنان اسلام کے ہاں گروی رکھ دی گئی ہے اس کی وجہ اللہ تبارک و تعالیٰ اور اس کے پیارے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات اور محبت و اطاعت سے دوری اور ہماری بد اعمالیاں ہیں۔ لہذا پھر سے کامیابی و کامرانی، احیاء اسلام اور شوکت اسلام سے سرفراز ہونے کے لئے اپنے اندر دین اسلام سے اخلاص، ذوق و شوق، اطاعت الہٰی، اتباع مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور دینی غیرت و حمیت کا دامن تھامنا ہوگا۔ علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ ناامیدی اور مایوسی کو کفر سے تعبیر کرتے ہوئے کی ان الفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔

نہیں نا امید اقبال اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی

علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ پر ان کے والدین کی تربیت کا بے پناہ اثر تھا یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے والد کی نصیحتوں کو اشعار کی صورت میں اپنے بچپن کے واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے یاد کرتے ہیں۔

غنچہ از شاخسار مصطفی
گل شو از باد بہار مصطفی

از بہارش رنگ و بو باید گرفت
بہرہ از خلق او باید گرفت

فطرت مسلم سراپا شفقت است
درجہاں دست و زبانش رحمت است

از قیام او اگر دو راستی
زمیان محشر مانیستی

’’بیٹا! تو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شاخ کا غنچہ ہے اور آقا علیہ السلام کی باد بہاری کے فیض سے گل تمام بن جا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسوہ حسنہ اور خلق عظیم سے بہرہ ور ہونا ضروری ہے۔ مسلمان فطرتاً سراپا شفقت ہے اور جہاں میں اس کے ہاتھ اور اس کی زبان سراسر رحمت ہے اگر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق حسنہ اور خلق عظیم سے تو کماحقہ بہرہ ور نہیں تو پھر تجھے ہم سے کوئی نسبت نہیں‘‘۔

ان ناصحانہ اشعار سے روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے والد گرامی کا حبّی اور عشقی تعلق بارگاہ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کس قدر مضبوط و مستحکم تھا۔ چنانچہ علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے ساری عمر اس تربیت کا پاس رکھا اور اپنے عاشق رسول والد گرامی قدر کی نصیحتوں پر عمل کر کے دکھایا۔ یہی وجہ تھی کہ علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ امت مسلمہ کی بے توقیری کے غم میں زندگی بھر آنسو بہاتے رہے اور دین اسلام کی عظمت و شوکت و سطوت کے لئے خصوصی دعائیں کرتے رہے۔ آخری عمر میں آپ نے برصغیر کے علماء اور صوفیاء کو بالخصوص اور مسلمانوں کو بالعموم نصیحت کرتے ہوئے پیغام دیا کہ

تین سو سال سے ہیں ہند کے میخانے بند
اب مناسب ہے تیرا فیض عام ہو ساقی

دوسرے مقام پر فرماتے ہیں :

نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤ گے اے ہندوستان والو
تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں

اس حوالے سے دعا کرتے ہوئے ایک اور مقام پر فرماتے ہیں :

خدایا آرزو میری یہی ہے
مِرا نور بصیرت عام کردے

آپ نے اپنے اشعار کے ذریعے امت مسلمہ کے لئے جس درد مندی کا اظہار کیا وہ اپنی مثال آپ ہے۔ آپ اخلاص و ہیّت کو چھوڑ کر دنیوی رسم و رواج کے قائل نہیں تھے۔ اس حوالے سے انہوں نے اپنے ایک شعر میں اپنی اس درد مندی کا اظہار اس طرح کیا۔

فلسفہ رہ گیا تلقین غزالی نہ رہی
رہ گئی رسم اذاں روح بلالی نہ رہی

ایک مقام پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے امت مسلمہ کا گلہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں جس سے ان کا اخلاص جھلکتا ہے اور اس میں ہمارے لئے بہت بڑا سبق بھی ہے۔ فرمایا :

بنالم زانکہ اندر کشور ہند
ندیدم بندہ کہ محرم تست

حضور تو غم یاراں بگویم
بامیدے کہ وقت دل نوازی است

’’(حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) یہ نالہ و فریاد صرف اس لئے کرتا ہوں کہ اس وقت پورے ہندوستان میں آپ کے رازوں کا محرم کسی کو نہیں پایا جو مسلمانوں کا پرسان حال ہو۔ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے یہ جرات کہاں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کچھ عرض کروں اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دلنوازی کا جلوہ پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہا ہے۔ اس لئے یہ غلام اپنے اضطراب کا غم آپکی بارگاہ عالی میں عرض کررہا ہے‘‘۔

علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کا پیغام آج بھی تمام طبقوں اور زمانوں تک پہنچ رہا ہے۔ عالم اسلام اور ملک پاکستان کے موجودہ حالات میں بھی بحیثیت قوم علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ ہمیں اتفاق و اتحاد اور اجتماعی وحدت پیدا کرنے کا پیغام دے رہے ہیں۔ اپنے اشعار کے ذریعے مسلمانوں کو یہ پیغام دیتے ہیں کہ

ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر

منفعت ایک ہے اس قوم کی نقصان بھی ہے
ایک ہی سب کا نبی، دین بھی، ایمان بھی ایک

حرم پاک بھی اللہ بھی قرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک

فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں

شادی مبارک

ماہنامہ دختران اسلام کے آن لائن منیجر محترم صابر حسین بھٹی رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوگئے۔ علاوہ ازیں محترمہ عائشہ ارشاد نائب ناظمہ لاہور، محترمہ مبشرہ غلام قادر سابقہ ناظمہ راوی ٹاؤن کو بھی رشتہ ازدواج میں منسلک ہونے پر خصوصی مبارکباد پیش کرتے ہیں اور دعا گو ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نعلین پاک کے صدقے ان سب کی زندگی کو شاد و آباد رکھے۔ (آمین بجاہ سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )