اسلام کا پیغامِ امن و محبت قرآن و حدیث کی روشنی میں

ماہانہ مجلس ختم الصلوۃ علی النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعائیہ تقریب سے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا خصوصی خطاب

ترتیب و تدوین : صاحبزادہ محمد حسین آزاد

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَرَبُّكَ الْغَفُورُ ذُو الرَّحْمَةِ لَوْ يُؤَاخِذُهُم بِمَا كَسَبُوا لَعَجَّلَ لَهُمُ الْعَذَابَ.

(الکهف، 18 : 58)

وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَO

(الانبياء، 21 : 107)

معزز مہمانان گرامی قدر، محترم علماء و زعماء، قائدین و کارکنان، رفقاء وابستگان، الیکٹرونک و پرنٹ میڈیا کے معزز نمائندگان اور ماہانہ روحانی اجتماع و مجلس ختم الصلوۃ علی النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شرکاء خواتین و حضرات!

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! اللہ رب العزت کا شکر ہے جس کی توفیق سے ہم اس ماہانہ روحانی اجتماع میں جمع ہیں جس میں تصوف، تعلیم و تربیت اور باطنی اصلاح کے موضوع پر گفتگو ہوتی ہے مگر آج پاکستان کے انتہائی افسوسناک، درد انگیز اور تکلیف دہ حالات جو مالا کنڈ ڈویژن، سوات، دیر، بنیر اور جنوبی وزیرستان کے علاقوں میں درپیش ہیں کے پیش نظر آج رات کی گفتگو اسی مناسبت سے ہوگی۔ اس موقع پر سب سے پہلے میں سوات اور مالا کنڈ کے Displased لوگوں کے لئے جو ظلم کی تاریک رات کے اندھیروں سے نکل کر اپنے ملک و قوم کو بچانے اور اپنی جان کی حفاظت کے لئے مردان، صوابی اور دوسرے علاقوں میں منتقل ہوئے ہیں کے ساتھ اظہار ہمدردی کرتا ہوں اور ملک کے وہ تمام ادارے، جماعتیں اور تنظیمات جو ان کی بحالی، آباد کاری (Settlement) اور ضروریات کی فراہمی کے لئے سر توڑ کوشش کر رہی ہیں کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے اس عظیم عبادت اور کار خیر میں شرکت کرنے پر ان سب کو مبارکباد دیتا ہوں کیونکہ یہ دینی، قومی اور ملی فریضہ ہے۔ ساتھ ہی روحانی اعتبار سے یہ بہت بڑی عبادت ہے جسے وہ انجام دے رہے ہیں۔ جس درندگی، ظلم و جبر، دہشت گردی اور بربریت کے نتیجے میں وہاں کے لوگ پریشان ہیں اور پورے ملک کا امن تباہ و برباد ہو رہا ہے اور جو کچھ وہاں کیا گیا ان دونوں حوالوں سے میں کچھ ضروری باتیں قرآن مجید اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرامین اور ارشادات کی روشنی میں آپ کے گوش گزار کروں گا کہ اس حوالے سے اسلام کا تصور کیا ہے؟

سب سے پہلی خرابی بنیادی طور پر ہمارے ہاں یہ ہے کہ ہم اسلام کے پورے تصور کو من حیث الکل سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے۔ بڑا محدود اور جزوی علم ہوتا ہے۔ بعض مذہبی طبقات اور بعض مذہبی جماعتوں کے کارکنان جن کو بڑے مخصوص Slogans اور نعروں کے ساتھ جو دلکش، دلربا، Attractive اور Motivating ہوتے ہیں کے ساتھ برین واشنگ کر دی جاتی ہے اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ پورے دین کا جامع اور کامل تصور جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لے کر مبعوث ہوئے جس کا بیان الحمد للہ رب العالمین سے لے کر سورہ والناس تک پورے قرآن پر پھیلا ہوا ہے اور ہزار ہا احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں خود حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عمل اور سیرت طیبہ کے سینکڑوں، ہزاروں مظاہر کی شکل میں بیان ہو چکا ہے اس کو ہم خاطر میں نہیں لاتے اور اس کا ادراک نہیں کرتے اور اسے Appreciate نہیں کرتے۔ اسے سمجھنے اور اس سے روشنی اور رہنمائی حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔ یہ جو تنگ نظری ہے یہ دماغ میں سوچنے، سمجھنے اور وسعت نظری سے چیزوں کا ادراک کرنے کی صلاحیت ختم کر دیتی ہے۔ پہلی بات ذہن نشین رکھیں کہ اسلام بنیادی طور پر سارے کا سارا دین ہی رحمت، شفقت، نرمی، سہولت اور امن و محبت کا ہے۔ بطور دین اسلام سراسر صبر ہے، یہ تشدد، تنگ نظری، انتہا پسندی، بربریت اور دہشت گردی کو اس کے ہر فارم اور شکل و صورت کو جو کسی بھی سطح پر ہو، اسلام اسے کلیۃً مسترد اور شدید مذمت کرتا ہے۔ یہ ساری شکلیں اسلام کی روح کے خلاف اور منافی ہیں۔

یہ بات ایسی نہیں ہے کہ آج کے موجودہ دور کی یہ ایک زبان یا ایک Term یا ایک ضرورت بن گئی ہے تو اس وجہ سے مسلمان اسلام کو یوں Interpret کرنے لگیں۔ ایسا سوچنا بڑی بے خبری اور نادانی ہوگی اور یہ ظلم ہوگا۔ میں آگے چل کر ان ارشادات الہٰیہ کا حوالہ دوں گا جن سے یہ قرآن معمور ہے اور آقا علیہ الصلوۃ والسلام نے بڑی وضاحت اور صراحت کے ساتھ Expressly، Positively، Categorically اور Specifically ان تمام چیزوں کو بیان کیا ہے اور ایسی زبان میں بیان کیا ہے کہ یوں لگتا ہے کہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام آج کے دور کے حالات دیکھ کر اپنی امت کو فرمارہے ہیں۔ میں نے جو آیہ کریمہ تلاوت کی اس میں اللہ رب العزت نے اپنی ذات کا تعارف کراتے ہوئے فرمایا۔ :

وَرَبُّكَ الْغَفُورُ ذُو الرَّحْمَةِ لَوْ يُؤَاخِذُهُم بِمَا كَسَبُوا لَعَجَّلَ لَهُمُ الْعَذَابَ.

(الکهف، 18 : 58)

’’اور آپ کا رب بڑا بخشنے والا صاحب رحمت ہے۔ اگر وہ ان کے کئے پر ان کا مواخذہ فرماتا تو ان پر یقینا جلد عذاب بھیجتا‘‘۔ (ترجمہ عرفان القرآن)

اگر اللہ بڑا بخشن ہار، پروردگار اور بڑا وسیع لطف و کرم اور رحمت کرنے والا نہ ہوتا تو یہ کفار و مشرکین، غیر مسلم، اسلام کے دشمن، اسلام کے منکر، اسلام کے اعداء، جو کچھ اسلام کے خلاف، انسانیت کے خلاف اور مسلمانوں کے خلاف کر رہے ہیں تو اللہ رب العزت بہت جلد انکو گرفت میں لے لیتا اور اسے قیامت کے دن تک موخر نہ کرتا بلکہ بلا تاخیر انہیں عذاب میں مبتلا کر دیتا۔ انہیں ان کے تمام اعمال اور کرتوتوں کے باوجود کفار و مشرکین کو فوری عذاب کی لپیٹ میں نہ لے لینا یہ عمل آج تک اللہ جل مجدہ کا جاری ہے اور قیامت تک جاری رہے گا۔ فرمایا اس سے بڑی دلیل اور کیا چاہتے ہو اسکے وسیع رحمت والے رب ہونے کے لئے۔

اسی طرح حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تعارف کرواتے ہوئے فرمایا :

وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَO

(الانبياء، 21 : 107)

’’ اے (رسول محتشم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!) ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر‘‘۔ (ترجمہ عرفان القرآن)

یہی وجہ ہے کہ اللہ رب العزت نے اپنا پہلا تعارف قرآن مجید کی سورۃ فاتحہ میں الحمدللہ رب العالمین کہہ کر کروایا کہ تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جو تمام جہانوں کا رب ہے اور وہ کون ہے؟ اپنے تعارف کے لئے جو پہلی صفت بیان کی وہ الرحمن الرحیم ہے کہ وہ بڑا ہی مہربان اور ہمیشہ وسیع رحمت فرمانے والا ہے توجس صفت سے پہلا تعارف کروایا ہے وہ صفت رحمت ہے۔ حالانکہ اس کی ہزارہا صفات ہیں جن میں سے بعض کا تذکرہ سورہ فاتحہ ہی میں اگلی آیات کریمہ میں بھی موجود ہے مگر اس نے سب سے مقدم اپنے تعارف کے لئے جس صفت کو رکھا ہے وہ صفت رحمت ہے اس لئے قرآن مجید کا مطالعہ کریں تو اس نے اپنا ذکر محض ’’الرحمن‘‘ کہہ کر 57 مرتبہ کیا ہے اور رحیم یا رحیما کو قرآن مجید میں اللہ کے تعارف کے لئے 115 مرتبہ Repeat کیا گیا ہے۔ اور الرحمن الرحیم پھر دونوں کو ملا کر بھی الگ 113 مرتبہ پھر Repeat کیا گیا ہے۔ اس سے آپ اندازہ کر لیں کہ ایک ہی صفت کو جو صریحاً لفظ رحمت پر دلالت کرتی ہے اس کو اتنی کثرت سے اللہ تبارک و تعالیٰ نے بیان کیا ہے کہ کسی اور صفت کو اتنی کثرت سے بیان نہیں کیا گیا۔

اس طرح تمام انسانوں کے لئے مومن ہوں یا کافر، مسلم ہوں یا غیر مسلم، متقی ہوں یا فاسق، نیک ہوں یا بد، گناہ گار ہوں یا پرہیزگار۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے سورہ آل عمران میں فرمایا :

فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اﷲِ لِنْتَ لَهُمْ.

(آل عمران، 3 : 159)

’’(اے حبیب والا صفات!) پس اللہ کی کیسی رحمت ہے کہ آپ ان کے لئے نرم طبع ہیں۔ (ترجمہ عرفان القرآن)

اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سب کے لئے نہایت نرم ہیں خواہ اپنے احباب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہوں یا اہل کتاب، یہود و نصاریٰ آپ سے ملنے کے لئے آئیں، اچھے یا برے لوگ آئیں، گناہگار گناہ کرکے آئیں، غیر مہذب اور غیر تربیت یافتہ آپ کے پاس آئیں۔ آپ ہر ایک سے نرمی سے بات کرتے ہیں، نرمی سے اپنا دین پیش کرتے ہیں، کسی صحابی کو کہیں بھیجتے ہیں تو اسے بار بار تلقین فرماکر Special Instruction دے کر بھیجتے ہیں کہ يَسِّرُوْا وَلَا تُعَسِّرُوْا بَشِّرُوْا وَلَا تُنَفِّرُوْا کہ لوگوں کے لئے آسانیاں پیدا کرنا تنگیاں پیدا نہ کرنا، لوگوں کو خوشیاں فراہم کرنا نفرتیں نہ دلانا، لوگوں کو دین کے قریب بلانا، انہیں دین سے بھگا نہ دینا، دین کو تنگ نظر بنا کر پیش نہ کرنا بلکہ دین میں سہولت بناکر پیش کرنا۔ ہر ایک کو یہ نصیحت فرماتے ہیں اور اپنے عمل سے ثابت کرتے ہیں۔ یہ جو اتنی نرمی ہے آپ کی ذات اقدس میں اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ اللہ رب العزت نے آپ کو سراپا رحمت بنا دیا ہے۔ یہ وہ رحمت ہے کہ ہرکس و ناکس کے لئے آپ رحمت و شفقت کا پیکر بن گئے۔ قرآن حکیم میں یہ بھی ارشاد فرمایا :

لَقَدْ جَاءَ کُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ عَزِيْزٌ عَلَيْهِ مَاعَنِتُّمْ حَرِيْصٌ عَلَيْکُمْ بِالْمُوْمِنِيْنَ رُؤُفٌ رَّحِيْمٌ.

(يونس، 10 : 128)

’’بے شک تمہارے پاس تم میں سے (ایک باعظمت رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) تشریف لائے۔ تمہارا تکلیف و مشقت میں پڑنا ان پر سخت گراں (گزرتا) ہے۔ (اے لوگو!) وہ تمہارے لئے (بھلائی اور ہدایت کے) بڑے طالب و آرزو مند رہتے ہیں (اور) مومنوں کے لئے نہایت (ہی) شفیق بے حد رحم فرمانے والے ہیں‘‘۔ (ترجمہ عرفان القرآن)

اس آیت کے پہلے حصہ کا حکم مسلم اور غیر مسلم سب کے لئے عام ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سراپا رحمت ہونے کا عالم یہ ہے کہ تم میں سے کسی پر کوئی تکلیف، مشقت اور اذیت بھی آجائے تو حضور علیہ السلام کو وہ تکلیف اور مشقت بھی گراں گزرتی ہے آپ اسے بھی برداشت نہیں کرتے۔ ’’حريص عليکم‘‘ اور ہر وقت وہ تمہاری بھلائی، سہولت اور خیر کے خواہاں اور عملاً کوشاں رہتے ہیں۔ ’’و بالمومنين رؤف رحيم‘‘ اور رہ گئے مومن اور مسلمان ان کے لئے تو سراپا رحمت و راحت ہی ہیں۔ آپ نے دیکھا مسلمانوں کے لئے اور غیر مسلموں کے لئے سب کے ساتھ حضور علیہ السلام کا سراپا رحمت و شفقت ہونا اور ان کی بھلائی کے لئے کوشاں اور خواہاں ہونا اور ہر وقت ان کے چھوٹے چھوٹے دکھ کو اپنی ذات میں محسوس کرنا اس رویے کو اللہ تعالیٰ نے کتنا حسن و خوبی کے ساتھ بیان کیا ہے۔ بخاری و مسلم کی متفق علیہ حدیث ہے حضرت ابو مسعود الانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں۔ ایک صحابی نے آقا علیہ الصلوۃ والسلام کی بارگاہ میں عرض کیا کہ میں ایک مسجد میں امام ہوں میرا دل کرتا ہے کہ میں نماز میں لمبی قرات کروں اور ذوق سے بڑی بڑی سورتیں پڑھوں۔ لہذا میں طویل قرات کرنا چاہتا ہوں۔ آقا علیہ السلام نے فرمایا :

اِنَّ مِنْکُمْ مُنَفِّرِیْن۔

’’تم میں سے کیا ایسے لوگ بھی ہیں جو لوگوں کو دین سے نفرت دلانا اور بھگانا چاہتے ہیں‘‘۔ پھر حکم دیا خبردار! جب تم میں سے کوئی شخص امامت کروائے تو مختصر کر کے نماز پڑھے، چھوٹی قرات کرے اور چھوٹی سورتیں پڑھے۔ معلوم ہونا چاہئے کہ اس کے پیچھے نماز پڑھنے والوں میں کچھ بوڑھے لوگ بھی ہونگے، کچھ ضعیف اور کمزور ہونگے اور کچھ ایسے نوجوان بھی ہونگے جو ضعیف اور کمزور تو نہیں مگر ان کے پیچھے Office Work ہے، کسی کی کوئی Appointment ہے۔ انہیں اپنی Job یا اپنے کاموں پر جانا ہوگا لہذا زیادہ دیر ان کو مت روکو، اتنی مختصر قرات کرو کہ ذوق و محبت سے قرات سنیں اور واپس جا کر دنیا کے باقی معاملات کو بھی حسب ضابطہ نبھا سکیں۔ اس سے آپ اندازہ کریں کہ اللہ کی عبادت کے معاملے میں بھی لوگوں کی دنیوی مجبوریوں اور کمزوریوں کا کتنا خیال رکھا جا رہا ہے۔ اسی طرح بخاری و مسلم کی متفق علیہ حدیث ہے جو حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے ارشاد فرمایا کہ کبھی مرا دل کرتا ہے کہ میں لمبی قرات کروں مگر جب میں نماز شروع کرتا ہوں اور دیکھتا ہوں کہ دوران نماز مجھے مسجد کے کسی کونے سے کسی بچے کے رونے کی آواز آتی ہے تو میں سمجھ جاتا ہوں کہ یقینا یہ بچہ اپنی ماں کے ساتھ آیا تھا اب اس کی ماں نے اسے کونے میں الگ بٹھا کر میری اقتداء میں نماز شروع کر دی ہے۔ جب اس کے رونے کی آواز سنتا ہوں تو اس سے مجھے خیال جاتا ہے کہ اس کی ماں کی مامتا تڑپ رہی ہوگی اور اس کی ماں بچے کی آواز سن کر پریشان ہوگی لہذا میں نہیں چاہتا کہ ماں کی پریشانی بھی رہے اور بچہ بھی پریشان رہے سو میں اپنا ارادہ ترک کر دیتا ہوں اور مختصر قرات کر کے نماز کو جلد ختم کر دیتا ہوں کیونکہ ماں کی شدت غم اور احساس کو میں برداشت نہیں کر سکتا۔ یہ آقا علیہ الصلوۃ والسلام کا اپنی امت اور ہر فرد بشر کے ساتھ طرز عمل اور رویہ (Attitude) تھا۔

بخاری و مسلم کی ایک اور ر وایت ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ حبشہ یا افریقہ کی ایک کالے رنگ کی خاتون مسجد نبوی کی صفائی اور دیکھ بھال کرتی تھی۔ ایک مرتبہ دو تین روز گزر گئے مگر وہ نہیں آئی۔ آقا علیہ السلام ایک روز تشریف فرما تھے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے پوچھا کہ وہ مائی نہیں آئی کہاں گئی ہے؟ تو صحابہ کرام رضی اللہ عہنم نے عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کی وفات ہوگئی ہے۔ آقا علیہ السلام نے فرمایا ’’تم نے مجھے اس کی موت کی اطلاع کیوں نہیں دی؟ اگر اطلاع دیتے تو میں اس کی نماز جنازہ پڑھاتا۔ راوی کہتے ہیں کہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے بیان کرنے کا مقصد یہ تھا کہ تم نے اس غریب، کالی بوڑھی عورت جو مسجد میں جھاڑو دیتی تھی کی موت کو معمولی اور ہلکا سمجھا اور اس قابل نہیں سمجھا کہ مجھے اطلاع کرتے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ اس وقت آرام فرما رہے تھے لہذا آپ کو تکلیف دینا اور جگانا مناسب نہیں سمجھا۔ آقا علیہ السلام نے فرمایا خبردار! آج کے بعد کوئی شخص ہو جو تمہاری نگاہ میں ہلکا ہو یا وزنی ہو اس کی وفات ہو تو بغیر تاخیر کے مجھے اطلاع کریں تاکہ میں خود جا کر نماز جنازہ پڑھاؤں۔ پھر فرمایا اس کی وجہ معلوم ہے کیا ہے؟ یہ جو قبریں ہیں یہ ظلمت اور تاریکی کے ساتھ بھری ہوئی ہوتی ہیں جب میں ان کی نماز جنازہ پڑھاؤں گا تو اس سے انہیں فراوانی کے ساتھ رحمت نصیب ہوگی اور میرے نماز جنازہ پڑھانے سے اس کی قبر میں نور اور روشنی آجائے گی جس سے اندھیرا چھٹ جائے گا اور اس کی بخشش و مغفرت کا ساماں ہو جائے گا۔

اب ہم موجودہ حالات کی طرف اس موضوع کو لے کر آ رہے ہیں۔ یہ حدیث جو میں بیان کرنے والا ہوں اور امام بخاری نے الادب المفرد میں بھی نقل کیا ہے۔ امام احمد بن حنبل اور دیگر ائمہ نے بھی روایت کیا ہے۔ جامع ترمذی کی حدیث صحیح ہے۔ حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور علیہ السلام نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو فرمایا :

اَلَا اُخْبِرُکُمْ بِاَفْضَلَ مِنْ دَرَجَةِ الصِّيامِ والصّلٰوةِ وَالصَّدَقَةِ.

’’کیا میں تمہیں ایسا عمل نہ بتاؤں جو نفلی روزوں، نفلی نمازوں اور نفلی صدقات و خیرات سے بھی زیادہ اجر و ثواب کا باعث ہوگا‘‘۔

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ضرور بتایئے آقا علیہ السلام نے فرمایا کہ جس قوم اور طبقے میں پھوٹ پیدا ہو رہی ہو یا پھوٹ پیدا کی جا رہی ہو اسے دھڑوں اور Fractions میں تقسیم کیا جا رہا ہو، جھگڑا ہو جائے، قتل و غارت اور دنگا فساد کی فضا پیدا ہو جائے اس کو ختم کرنا اور اس Unity کو پھر سے بحال کرنا یہ ایک ایسا عمل ہے جو نفلی نماز، روزہ، صدقات و خیرات سے بھی زیادہ اللہ کے ہاں افضل عمل ہے۔ کیونکہ پھوٹ، تفرقہ، دھڑے بندی، ایک دوسرے کے خلاف سر بکف ہونا اور صف بصف ہو جانا یہ دین کی جڑوں کو کاٹ دیتا ہے۔

اسی طرح صحیح مسلم کتاب الامارہ باب الوجوب الملازمۃ جماعۃ المسلمین میں حدیث ہے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں۔ حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ اگر امت ایک سوسائٹی، ایک State پر متفق ہو چکی ہو اور مسلمانوں کی ایک گورنمنٹ قائم ہو چکی ہو اس حدیث میں وہ مسلمان خواہ نیک ہیں یا بد متقی ہیں یا فاسق و فاجر، ایماندار ہیں یا کرپٹ سب شامل ہیں کیونکہ اس کا امتیاز نہیں کیا گیا۔ فرمایا جب مسلمانوں کی سوسائٹی کی State بنی اور گورنمنٹ قائم ہوگئی اور اس گورنمنٹ کی وجہ سے مسلمانوں کی حفاظت ہے جس میں مسلمان آزادی کے ساتھ اپنے دین پر اچھا یا برا، مضبوطی سے یا کمزوری سے جیسے بھی ہو عمل کرنے کے قابل ہیں یہ ایسی سوسائٹی ہے جس کے لئے فرمایا : مَنْ خَرَجَ مِنَ الطَّاعَ. جس نے گورنمنٹ کی رٹ کو چیلنج کر دیا، اسے ماننے سے انکار کر دیا اور اس سے نکل گیا۔ اطاعت کا لفظ قرآن اور حدیث کی اصطلاح ہے۔ اَلطَّاعَ کو آج کی نئی Political and constitutional term میں گورنمنٹ کی رٹ کو قائم کرنا کہتے ہیں جبکہ ’’خروج من الطاع‘‘ سے مراد اس رٹ کو چیلنج کرنا، مسترد کرنا اور خارج ہونا ہے۔

حدیث پاک کا مفہوم یہ ہے کہ جس نے مسلمانوں کی حکومت میں اس کی رٹ کو چیلنج کر دیا اور گورنمنٹ کی اجتماعیت سے الگ ہوگئے۔ ایک الگ دھڑہ قائم کر لیا تو ایسے لوگوں کی اگر موت واقع ہوگئی یا وہ قتال کرتے ہوئے مارے بھی گئے تو وہ اسلام کی نہیں جاہلیت کی موت مریں گے۔ حضور علیہ السلام نے فرمایا خواہ وہ لوگ جو اس رٹ سے نکلے تھے اور الگ دھڑہ بنا کر جماعت سے الگ ہو کر قتل و غارت جس بھی ٹائٹل سے شروع کر دی تھی خواہ وہ نیکو کار کو مار رہے ہوں یا خواہ کسی بد کو ہی مار رہے ہوں یعنی مسلمانوں کے ملک کی طرف سے ان کے ساتھ لڑنے والے نیک ہوں یا بد ہوں یا وہ جن پر حملہ کر رہے ہیں نیک ہوں یا بد لوگ بھی ہوں حتی کہ فاسق و فاجر اور برے لوگ بھی ہوں تو فرمایا اگر ان کو بھی قتل کریں گے تو ’’فليس منی‘‘ ایسے کام کرنے والے لوگ میری امت میں سے نہیں ہیں۔ پھر ایک اور روایت میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ ہم نے آقا علیہ السلام کو سنا وہ فرما رہے تھے کہ اگلے زمانوں میں عنقریب میری امت پر ایسا وقت آئے گا کہ ایک دھڑہ ادھر ہوگا دوسرا اُدھر ہوگا۔ مختلف جماعتیں، فرقے اور گروہ بن جائیں گے۔ فرمایا اس وقت جس نے بھی کوشش کی کہ اس ملک میں مسلمانوں کی حکومت کی جو رٹ ہے یا Unity ہے اسے توڑ کر اس کے ٹکڑے کردے تو وہ واجب القتل ہوگا۔ وہ جو بھی ہو اور جہاں بھی ہو اسے مٹا دیا جائے۔

یہ حدیث ان الفاظ میں بھی آئی ہے جس میں حضور علیہ السلام نے فرمایا امرکم جميعکم وعلی رجل واحد. اگر ایک سٹیٹ اور گورنمنٹ مسلمانوں کی قائم ہے جس پر سارے کا سارا ملک راضی ہے اور خاموش ہے بکراہت خوش ہے یا بصراحت خوش ہے۔ مجبوری سے یا دل و جان سے راضی ہے۔ یہ نہیں فرمایا کہ صالح مرد یا پرہیزگار اور دیندار نیک کی حکومت ہو بلکہ فرمایا عَلٰی رَجُلٍ وَاحِدٍ بلکہ کوئی شخص زید ہے یا بکر خواہ حکومت کرنے والے فاسق و فاجر ہیں اگر ان پر ملک کی State قائم ہے اور اس کی Integrity موجود ہے تو جو اسے توڑنا اور اسے نقصان پہنچانا چاہے تو ان کے لئے فرمایا : فاقتلوہم وہ واجب القتل ہیں انہیں مٹادیا جائے۔ (صحیح مسلم کتاب الامارۃ باب حکم من فرق امرالمسلمین وہم مجتمع)

اسی طرح صحیح مسلم میں حضرت عوف بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے (اس حدیث سے زیادہ Clear Message امت کو اور کیا ہو سکتا ہے؟) جس میں اچھے اور برے حکمرانوں کی پہچان بتائی گئی ہے۔ آقا علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا : اَخيَارُ اَئمَّتِکُمُ الَّذِيْنَ يُحِبُّوْنَه وَيُحِبُّوْنَکُمْ. (صحیح مسلم کتاب الامارۃ باب خیار الائمۃ وشرارہا)

’’اے مسلمانوں تمہاری حکومتیں ہونگی تو تم میں اچھے حکمران وہ ہونگے جن کی نیکی، اچھائی، برائی تمہارے ساتھ ہمدردی، خیر خواہی اور نیک اعمال کی وجہ سے تم بھی ان سے محبت کرو گے اور وہ اتنے نیک دل ہونگے کہ وہ بھی تم سے محبت کریں گے۔ ويصلون عليکم وتصلون عليهم تم ان کے لئے دعائیں کرو گے وہ تمہارے لئے دعاگو ہونگے۔ تم ان کے ہمدرد ہونگے وہ تمہارے بہی خواہ ہونگے۔ فرمایا جن میں یہ خوبیاں پائی جائیں تمہارے اور حکمرانوں کا عمل یہ ہو تو سمجھنا کہ یہ تمہارے ائمہ ہیں نیک اور اچھے حکمران ہیں۔ پھر فرایا وشرار ائمتکم اس طرح کبھی تمہارے برے حکمران بھی آئیں گے جو گناہگار، بد، فاسق و فاجر، عیب دار اور کرپٹ ہونگے ایسے مسلمان حکمران بھی آئیں گے جو شرار یعنی شریر اور برے ہونگے فرمایا يُبْغِضُوْنَه وَتُبْغِضُوْنَهُمْ. ان کے کرتوتوں، بداعمالیوں اور فسق و فجور کی وجہ سے تم ان سے بغض رکھو گے، نفرت کرو گے اور وہ تم سے بغض رکھیں گے اور نفرت کریں گے۔ حتّٰی کہ حضور علیہ السلام نے فرمایا تم ان پر لعنت بھیجو گے وہ تم پر لعنت بھیجیں گے یعنی آپس میں اتنی نفرت کرتے ہونگے کہ ایک دوسرے کو برا بھلا کہو گے۔ تم ان کی وہ تمہاری مزمت کریں گے۔ بدقسمتی سے آج حکمران اسی قسم کے ہیں حدیث پاک میں ہے قِيْلَ يَارَسُوْلَ اللّٰه صلی الله عليه وآله وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے پوچھا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب ایسے حکمران آ جائیں تو کیا ہم ان کے خلاف تلوار اور بندوق لے کر میدان میں نہ نکل آئیں، ان کی رٹ کو چیلنج نہ کر لیں وہ برے لوگ ہیں ان کے خلاف جنگ اور جہاد نہ کریں۔ (اب یہ بڑا Significant سوال ہے اور یہی چیز ہے جس کا اطلاق Directly اور Hundred Percent ہمارے آج کے پاکستان کے حالات اور ہمارے جیسے کئی اور مسلمان ملکوں کے حالات پر ہے جبکہ ہمارے موجودہ حالات پر تو بطور خاص ہے۔ جس کے لئے آج ہم اکٹھے ہوکر دعا کر رہے ہیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے جب پوچھا کہ ایسے حکمران آ جائیں تو تلوار لے کر ان کے خلاف نہ نکل آئیں اور صف آراء نہ ہو جائیں (اب آقا علیہ السلام کا حکم سنیں اور جان لیں کہ جن لوگوں نے تو دین لینا ہے آقا علیہ الصلوۃ والسلام سے وہ تو دین سیکھیں آقاکی حدیث مبارکہ سے اور اگر دین کی تعبیر اور تشریح اور طرز عمل حضور علیہ السلام سے نہیں لینا تو پھر انہیں اسلام کو نافذ کرنے اور اسلام کا علمبردار ہونے کا دعوہ نہیں کرنا چاہئے) آقا علیہ السلام نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے سوال کے جواب میں فرمایا :

لاما اقاموا فيکم الصلوة (دو مرتبہ فرمایا) نہیں ہر گز نہیں تم تلوار اور بندوق لے کر انکے خلاف نہیں اٹھ سکتے اجازت نہیں ہے کہ جب تک وہ تمہارے ملک میں اقامت صلوۃ کو نہ روک دیں۔ مطلب یہ ہے کہ جب تک تمہاری مسجدیں اور نمازیں بند نہ کر دیں۔ اشارہ اس طرف تھا کہ فرائض دین اور شعائر دین کو جب تک وہ بین نہ کر دیں اس وقت تک تم تلوار اور بندوق لے کر ان کے خلاف نہیں نکل سکتے۔ اس لئے کہ شعائر دین اور فرائض دین جب بند کر دیں گے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ کافر ہیں اب مسلمان نہیں رہے۔ کفر میں چلے گئے ہیں۔ لہذا اب ان کی اطاعت واجب نہیں رہی اور اگر یہ کام وہ نہیں کرتے تو پھر اسکا مطلب ہے وہ جتنے برے بھی ہیں وہ اپنے دنیوی و اخروی انجام کو پہنچیں گے۔ عدالتیں ان کا مواخذہ کریں گی، عوام مواخذہ کریں گے، آخرت میں اللہ مواخذہ کرے گا، جہنم میں جائیں گے، حالات ان کو تباہ کر دیں گے، اب طریقہ یہ ہے کہ جمہوری طریقے سے ان کو بدلو، جو قانونی معاملات ہو سکتے ہیں کرو۔ Democratic and constitutional means کے ذریعے پوری جمہوری جدوجہد کرنے کا تمہیں حق ہے مگر تلوار اور بندوق نہیں اٹھا سکتے۔ آقا علیہ السلام نے ایک Limit Create کر دی۔ اس وقت تک نہیں اٹھا سکتے جب تک اقامۃ صلوۃ کو بین نہ کر دیا جائے۔ تمہاری نماز اگر قائم ہے تو یہ علامت ہے کہ وہ کفر نافذ نہیں کر رہے (یہ صحیح ٹیکنیکل ٹرم ہے) اور حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ اگر تم حکمرانوں کو دیکھو جن سے تم نفرت کرتے ہو تو ان کے اعمال سے نفرت ضرور کرو اور ان سے بھی نفرت کرو ان کے برے اعمال کی وجہ سے مگر ان کی رٹ کو چیلنج نہیں کر سکتے۔

حدیث کے الفاظ ہیں : ولا تنزعوا يدا من الطاعة امت کی اطاعت اور Obedience ہے لہذا اس کو چیلنج کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ اس Limit اور دائرۂ کار کے اندر رہ کر تمہیں آئینی اور جمہوری مروج طریقوں سے جدوجہد کرنی ہے بے شک انہیں بدلو اتار پھینکو جو چاہے کرو تمہارے پاس Right ہے۔ تمہیں جب ووٹ دینے کا حق ملتا ہے تو صحیح استعمال کرو اور اس وقت اچھے برے اور نیک و بد کی پہچان کرو۔ اس وقت صحیح اپنا فریضہ ادا کرو۔

آج کی گفتگو کی آخری حدیث جو اس سے بھی صریح ہے جس کو حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے۔ یہ حدیث بھی بخاری و مسلم کی متفق علیہ ہے۔ امام بخاری نے اسے کتاب الفتن میں بیان کیا اور امام مسلم نے کتاب الامارہ میں ذکر کیا ہے باب وجوب طاعة الامراء من غير معصية (حکمرانوں کی Writ کو ماننا سوائے اس کے کہ وہ Specific Order دیں جو قرآن و سنت کے خلاف ہو) صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ ہم حضور علیہ الصلوۃ و السلام کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور حضور علیہ السلام کے دست اقدس پر بیعت کی کہ ہم فراخی اور تنگی، اچھے اور برے، مشکل اور آسان ہر قسم کے حالات میں یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کے حکم کی اطاعت کریں گے۔ ہم دھڑے بندی، قتل و غارت اور Writ کو چیلنج نہیں کریں گے۔ اس پر آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیعت لے کرآخری نصیحت کا جملہ بولا فرمایا : اِلَّا اَنْ تَرَوْا کفرًا بَوَاهَ مگر جب تک تم ان حکمرانوں میں صریح کفر نہ دیکھ لو کہ وہ کافر ہوگئے ہیں (تو پھر ان کی اطاعت ترک کردو) یعنی جب Categorically تمہیں Clearہو جائے وَعِنْدَکُمْ فِيْهِ بُرْهَانٌ تمہارے پاس دلیل آجائے اور اس میں کوئی شک و شبہ کی گنجائش نہ ہو ان کے کافر ہوجانے میں یعنی کفر بواہ جب دیکھو تو پھر ان کی رٹ کو چیلنج کر سکتے ہو۔ حضور علیہ السلام نے ایک بارڈر لائن Create کر دی، بارڈ رلائن یہ ہے کہ اگر حکمران کافر ہوجائیں، اسلام کو چھوڑ دیں ایمان ترک کردیں، غیر مسلم ہو جائیں اور اسلام کو سوسائٹی میں بین کرنے لگیں تو پھر اطاعت ختم ہے۔ Then You can challenge the writ of the government لیکن اگر وہ اس حد کے اندر رہیں کافر نہ ہوں، رہیں مسلمان تو ان کے خلاف بندوق اٹھا کر لڑ نہیں سکتے۔

میری دانست میں موجودہ حالات اور عرصہ دراز سے جو حالات چل رہے ہیں وہ یہ ہیں کہ حکمران بارڈر لائن پر تو درست ہے کہ پہنچے ہوئے ہیں۔ فسق و فجور کا ہونا، لوگوں کی بھلائی اور بہی خواہی کا نہ ہونا جھوٹ بولنا، مکاری کرنا، دجل و فریب کرنا، کرپشن کرنا، ہر عیب اور پاپ کرنا، دھوکے بازی کرنا، بے عزت کرنا، اپنا پیٹ پالنا، رشوت لینا، لوٹ مار کرنا وغیرہ سارے اعمال بد جمع کر لیں وہ درجہ کمال پر ہیں۔ آپ اس میں جتنی چیزیں Add کر لیں میں آپ سے اتفاق کرتا چلا جاؤں گا مگر اسلام اور اس کی بارڈر لائن میں وہ ابھی تک ہی کھڑے ہیں۔ آپ ان حکمرانوں کو کافر نہیں کہہ سکتے۔ کوئی دیندار شخص عقل و شعور رکھنے والا ان کو کافر قرار نہیں دے سکتا وہ مسلمان ہیں۔ جیسے وہ مسلمان ہیں اس طرح کے کروڑوں مسلمان آپ ہم جیسے سوسائٹی میں بھی پھر رہے ہیں جو چلتے پھرتے سڑکوں پر عورت و مرد نظر آتے ہیں۔ جس طرح کے ہم مسلمان ہیں اس طرح کے وہ بھی ہیں۔ جس طرح کے تھانیدار تھانوں میں بیٹھ کر اور وکیل عدالتوں میں بیٹھ کر کر رہے ہیں وہی یہ کچھ حکومت میں کر رہے ہیں۔ فرق یہ ہے کہ وہ بڑے پیمانے پر اور یہ چھوٹے پیمانے پر کر رہے ہیں مگر کیا ساری سوسائٹی کے لوگوں کو ان ساری بداعمالیوں کی وجہ سے شرعاً کافر Declare کر سکتے ہیں۔ جواب ہوگا نہیں۔ یہ حدِّ فاصل ہے کہ وہ ساری حدود Cross کر کے بارڈر لائن پر تو پہنچے ہوئے ہیں مگر اس امر میں کوئی شک نہیں ہے کہ انہیں کافر کوئی نہیں کہہ سکتا وہ مسلمان ہیں کیونکہ کبھی کبھار نماز بھی پڑھ لیتے ہیں۔ عید کی نماز تو وہ پڑھتے ہی ہیں جسے TV پر بھی دیکھایا جاتا ہے۔ جمعہ کی نماز بھی کم و بیش پڑھ لیتے ہونگے۔ مگر چلو کبھی کبھار پڑھتے ہونگے۔ ایک آدھ نماز آگے پیچھے بھی پڑھ لیتے ہونگے۔ کسی کے بارے میں نہیں پتہ ہوتا کہ کون زیادہ نماز پڑھتا ہے اور کون کم؟ ایک مرتبہ TV پر ذوالفقار علی بھٹو صاحب کے بارے میں ان کے قریبی دوست بتا رہے تھے کہ میں نے ان کے پاس اتنا عرصہ گزارا وہ نماز پڑھتے تھے۔ اب یہ تو اس نے بھی نہیں کہا میں بھی نہیں کہہ رہا کہ پنجگانہ نماز کے پابند ہوں مگر بہر صورت نماز پڑھتے تھے، کبھی کبھی پڑھ لیتے ہونگے۔ میرے ساتھ عوامی اتحاد کے زمانے میں جب میں اس کا President تھا محترمہ بے نظیر بھٹو صاحبہ اور دیگر پولیٹیکل لیڈرز بھی کبھی کبھار نماز پڑھ لیتے تھے۔ اسی طرح نواب ذادہ نصراللہ خان بزرگ پولیٹیکل لیڈر تھے انہوں نے طویل سیاسی عرصہ گزارا میں نے دیکھا کہ وہ باوضو رہتے تھے اور نماز پنجگانہ پڑھتے تھے اور شاید مستقل نہیں کبھی کبھار تہجد بھی پڑھ لیتے ہونگے۔

بہت سے لوگ اس طرح کے ہیں جن کے بارے میں پتہ نہیں ہوتا۔ کئی لوگوں میں عیب اور برائیاں ہوتی ہیں مگر نماز بھی پڑھتے ہیں۔ اسلام نے ان کو فاسق و فاجر کہا ہے کہ کبیرہ گناہ ہے یہ فسق و فجور ہے اور اپنے فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی ہے۔ اس کے نتیجے میں آپ کا Right یہ ہے کہ جمہوری جدوجہد کریں اچھے لوگوں کو آگے لائیں مگر ابھی یہ قوم اچھے لوگوں کو لانے کے لئے تیار ہی نہیں ہے۔ اس نے تو قسم کھائی ہے کہ اچھے لوگوں کو سیاسی طور پر آگے لانا ہی نہیں۔ تو پھر چیخنا کس وجہ سے؟ پاکستانی قوم کو ہر پانچ سال بعد ووٹ دینے کا موقع ملتا ہے۔ پانچ سال تک جن کو یہ قوم گالیاں دیتی ہے پانچ سال کے بعد ایک دن پولنگ کا دن ہوتا ہے جس میں یہ قوم انہیں کرپٹ امیدواروں کو ووٹ ڈال کر گھر آجاتی ہے پھر رونا کس بات کا اور لعنت ملامت کس پر کرنی؟ اپنے ضمیر پہ لعنت کی جائے کہ جب پانچ سال بعد آپ کو فیصلے کا ٹائم ملا کہ آپ اچھے لوگوں کو لائیں اور برے کرپٹ لوگوں کو رد کر دیں اسی دن جا کر آپ آٹے کی تھیلیوں، گلی کوچے کی نالیوں، برادریوں، سڑکوں، پیسوں اور تھانے کے کام کاج اور پتہ نہیں کس کس بات پر بکتے ہیں اور ان کو ووٹ دے کر آجاتے ہیں۔ اسی بد کو ووٹ دیتے ہیں جسے پانچ سال گالیاں دی ہیں تو برا وہ ہوا یا ہم ہوئے۔ یہ ہم سب کا کردار ہے ہم سب کہتے ہیں کہ سیاست میں کسی نیک آدمی کا کیا کام۔ یہ پوری قوم کا ایک لفظ ہے۔ میں نے تو یہ لفظ اپنے کانوں سے دس سال سنا ہے۔ مجھ سے بڑا گواہ کون ہے؟ جب آپ کا اجماع ہے اس بات پر اور اتفاق رائے اور Consensusہے کہ آدمی خواہ کتنا لائق، Visiolant، Honest ہو اس کے اندر کتنی ہی Abilityہو، کتنا Deliver کر سکتا ہو، کتنی معاشرے میں میں تبدیلی لانے کی صلاحیت رکھتا ہو مگر چونکہ وہ نیک آدمی ہے اس کا کیا کام کہ وہ ملک کا صدر یا وزیراعظم بنے اس کا تو حق ہی نہیں ہے تو جب آپ کا اجماع ہے اس بات پر اور قوم ساری متفق ہے تو اب رونا چیخنا کس بات کا ہے؟ ان ساری باتوں کے باوجود Still میں یہ بات کر رہا ہوں کہ ان کو کافر نہیں کہہ سکتے۔ بلکہ یہ مسلمان ہیں اور اسلام کی Range میں ہیں۔ ایسا لگتا ہے آقا علیہ السلام نے آج کے حالات کو سامنے رکھ کر امت کو Address کیا ہے فرمایا جب تک وہ اسلام کی بارڈر لائن Cross کر کے کفر میں نہ چلے جائیں آپ جہادی گروہ بنا کر ان کے خلاف جنگ Declare نہیں کر سکتے اور بندوق نہیں اٹھا سکتے اور تمہاری جنگ جہاد نہیں ہوگی بلکہ فساد ہوگی اور امت میں تفرقہ ہوگا اور واجب القتل ہو جائیں گے۔ اسلام نے تو اس بات ک بھی اجازت نہیں دی چہ جائیکہ معصوم جانوں کو قتل کر دیا جائے۔ یہ ٹیکنالوجی کس دین نے وضع کی ہے؟ یہ کفر نہیں بلکہ کفر سے بھی بدترین کفر کا شاخسانہ ہے کہ معصوم لوگوں کو کبھی پولیس اسٹیشن کبھی ہوٹل کبھی مسجدوں کبھی امام بارگاہوں کبھی آرمی کے لوگوں کبھی چوکوں کبھی کرکٹ ٹیموں، کبھی مجالس اور کبھی محافل میلاد (کراچی) میں کبھی بازاروں کبھی بے گناہ شہریوں اور کبھی جید علماء کو خود کش حملہ (Suicidal Bombing) کے ذریعے قتل کر دیا جائے یہ کفر ہے۔

حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا جس نے کسی اہل کتاب غیر مسلم کو بھی قتل کیا اور اس کی حق تلفی کی تو قیامت کے دن میں اس غیر مسلم مقتول کا وکیل ہونگا اور گریبان پکڑ کر اس نام نہاد مسلمان سے بدلہ لوں گا اور اس غیر مسلم اہل کتاب کا کیس لڑوں گا۔ حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا جس نے غیر مسلم کی جان لی اس کے بدلے میں مسلمان کی جان لی جائے۔ اسلام تو غیر مسلم کی جان لینے کی اجازت نہیں دیتا حتی کہ میدان جنگ کے دوران بھی اجازت نہیں دیتا کہ بوڑھوں کی جان لی جائے دوران جنگ عورتوں کو قتل کرنے کی اجازت نہیں۔ ضعیفوں اور بیماروں کو قتل کرنے کی اجازت نہیں۔ بچوں کو قتل کرنے کی اجازت نہیں۔ راہبوں کو قتل کرنے کی اجازت نہیں۔ عیسائیوں، یہودیوں چرچ، کلیسا اور عبادت گاہیں مسمار کرنے کی اجازت نہیں۔

حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ کا زمانہ تھا۔ فتوحات ہوئیں اسلامی دور حکومت قائم ہوا۔ تو ایک صوبے کے مقامی گورنر نے ایک جگہ کچھ حصہ چرچ کا گرا کر مسجد میں شامل کر لیا۔ پہلی صدی ہجری کا اختتام اور دوسری صدی ہجری کی ابتداء تھی یہ اس وقت کا Concept ہے یہ آج کی باتیں نہیں یہ باتیں نہ امریکہ نے مسلمانوں کو سکھائی ہیں نہ ویسٹرن ورلڈ نہ یورپی یونین نے سکھائی ہیں ان کو تو خود خبر نہیں تھی یہ بولی تو تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سکھائی ہے۔ اس وقت کے مسلمان فقہاء نے فتویٰ دیا کہ چرچ کا حصہ مسجد میں شامل کرنا یہ ظلم اور ناجائز ہے۔ جب یہ کیس خلیفہ وقت حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ تک پہنچا تو آپ نے آرڈر دے کر جو Extention کی گئی تھی اور مسجد میں چرچ کا جو حصہ شامل کیا گیا تھا اسے گرا دیا اور مسمار کر کے دوبارہ اس پر چرچ تعمیر کروایا۔ یہ ہمارے دین کا Concept ہے۔ ہم نے اسلام کا Concept ہی نہیں سمجھا۔ اسلام انسانیت کا دین ہے۔ عالمگیر دین ہے رحمت و شفقت کا دین ہے۔ Accomodate کرنے کا دین ہے۔ اسلام میں نہ تنگ نظری کی گنجائش ہے نہ انتہا پسندی نہ Militancy نہ دہشت گردی اور بربریت کی گنجائش ہے۔ کسی عنوان کسی حوالے اور کسی Slogan کے تحت بھی اجازت نہیں۔

دعا ہے اللہ رب العزت ملک کو استحکام امن و امان اور سکون عطا کرے، امن کا پیغام عام کرنے والوں کو ہمت عطا کرے، لوگوں کودین کی صحیح معرفت نصیب ہو۔ مالا کنڈ، سوات اور دیر کے جو لوگ بے گھر ہوئے ہیں باری تعالیٰ تجھے تیری وسیع رحمت کا صدقہ انہیں دوبارہ آباد فرما۔ ان کی مشکلات کو آسان فرما، باری تعالیٰ قوم کے دلوں میں احساس پیدا کر دے کہ ان کے ہر دکھ، درد اور تکلیف کو اپنا دکھ درد اور تکلیف سمجھیں۔ جو عالمگیر امداد ہو رہی ہے اسے بھی کرپشن سے بچا اور یہ رقم حقداروں تک پہنچے اور ناجائز جیبوں تک نہ پہنچ جائے۔ باری تعالیٰ متاثرین کو سکون اور عزت کی زندگی عطا فرما دوبارہ ان کے بچوں کو جلد سکول میں تعلیم کے لئے جانا نصیب ہو اور ان کے والدین اور لوگوں کو دوبارہ روزگار نصیب فرما۔ پاکستان میں ہمیشہ امن و سکون دے۔ مولا! نادانی کرنے والوں کو گمراہی سے بچالے انہیں ہدایت دے اور غلط فہمی سے نکال لے اور وہ راہ راست پر آئیں وہ دین کے صحیح تصور کو سمجھیں وہ امن و محبت کے ہتھیار اٹھا لیں اور پیار و اعتدال کی راہ پر چلیں۔ انتہاء پسندی کو ترک کر دیں۔ پورے پاکستان کا ماحول اچھا، نیک اور صالح ہو جائے۔ لوگ ایک دوسرے کے حقوق کو پہچانیں اور ایک دوسرے کے حقوق کو ادا کریں۔ وہ تمام ادارے اور چینلز اور اخبارات جو بے گھروں کی مدد کے لئے رات دن بے پناہ Efforts کر رہے ہیں انہیں اجر عظیم سے نواز دے خاص طور پر Geo نے 24 گھنٹے پکار روم اور پکار کی مہم کو World Wide شروع کر کے حق ادا کیا ہے۔ یہی میڈیا کا کام تھا اور باقی چینلز بھی اسی طرح بساط بھر اپنا حق ادا کر رہے ہیں اسی طرح تمام اخبارات اور ان کے نمائندے مختلف دینی، مذہبی، سیاسی اور سماجی تنظیمیں جو حتی الوسع اپنی کوشش کر رہی ہیں جس میں تحریک منہاج القرآن نے بھی منہاج خیمہ بستی آباد کرنے کے علاوہ الحمدللہ بڑا خاطر خواہ حصہ ڈالا ہے اور تحریک کے دیگر فورم ویمن لیگ اور یوتھ لیگ کو مبارکباد دیتا ہوں جو کئی ٹرکوں کا قافلہ لے کر الگ مردان میں گئے۔ باری تعالیٰ ان سب کی کاوشوں کو اپنی بارگاہ میں قبول فرما۔ (آمین بجاہ سیدالمرسلین)