صاحبزادہ مسکین فیض الرحمن درانی

مرکزی امیرتحریک منہاج القرآن انٹرنیشنل

درس نمبر20

یقین (Certainty,definiteness) تین طور سے حاصل ہوتا ہے، کسی خبر کو سن کر یا دلائل پر غور و فکر کرنے سے جو یقین حاصل ہو، اسے علم الیقین کہتے ہیں۔ مثلا آگ کے گرم ہونے اور جلانے کی صفت کے بارے میں سننے کی حد تک بات علم ہے، اس پر یقین ہو بھی سکتا ہے اور نہیں بھی یعنی یہ ایک ذہنی خیال اور تصور ہے، جب آگ کو اپنی آنکھ سے کوئی جلتا دیکھ لے اور اس کے جلنے جلانے کی صفت کا مشاہد ہ کر لے تو اسے عین القین ہوتا ہے’ لیکن جب جلتی آگ میں کوئی اپنا ہاتھ ڈال کر اس کو گرم اور پھر ہاتھ کو جلتا ہوا محسوس کرتا ہے تو اس کو آگ کے گرم ہونے اور جلنے جلانے کی صفات کی سچائی کا یقین کامل ہو جاتا ہے، یعنی آگ کی صفات کے بارے میں اس کی مجرد معلومات کو آنکھ سے دیکھنے کے بعد عین الیقین اور ہاتھ کو جلتا محسوس کرنے کے بعد حق الیقین کا درجہ حاصل ہوتا ہے، لیکن اس تیسری قسم کے تجربے سے گزرنے والے لوگ کم ہوتے ہیں، وہ مسلمان کہ جن کو نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کا شرف نصیب نہیں ہوا، لیکن بزرگوں سے سن کر قرآن و حدیث پڑھ کر اور دین میں غور و فکر کرنے کے بعد جب ان کو یہ یقین حاصل ہو گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نبی برحق ہیں اور انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت کا زبان سے اقرار کر لیا اور کلمہ توحید لا اله الا الله محمد رسول الله پڑھ کر شہادت دے دی، تو وہ دائرہ اسلام میں داخل ہو گئے، ان کا ایمان بالرسالت علم الیقین پر مبنی ہوا، جیسا کہ بحمد اللہ تعالی صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین کے دور کے بعد مسلمانوں کو سیدنا و مولانا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت اور نبوت پر یقین ہے، اسی طرح مخبر صادق نبی الامی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اللہ سبحانہ و تعالی کی وحدت مطلقہ (Absolute Oneness) اس کے معبود، مسجود اور رب العالمین ہونے کی خبر پر یقین کر کے جو مسلمان اللہ تعالی جل شانہ کے واحد و یکتا اور مالک و مولا ہونے پر یقین رکھتے ہیں، تو ان کا اللہ سبحانہ و تعالی پر ایمان مبنی بر علم الیقین ہے۔ انبیاء کرام علیہ التحیۃ و الثناء اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین کا نبی اول و آخر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت و رسالت پر ایمان مبنی بر عین الیقین تھا کہ وہ نبی الامی سرور ہر دوسرا رسول کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت سے مشرف تھے، آنحضرت سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی نبوت و رسالت پر حق الیقین تھا، اللہ سبحانہ و تعالی کی وحدت مطلقہ یعنی توحید پر حضور پرنور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایمان اور ایقان مبنی بر عین الیقین اور حق الیقین تھا۔

حضور نبی الامی سرکارہر دوسرا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے خالق ومالک اللہ سبحانہ و تعالی کی وحدت مطلقہ کو خود دیکھا اور پھر اپنے عین الیقین اور حق الیقین سے صحابہ کرام کو توحید کی تبلیغ اور تدریس ایسے تفعیلی انداز سے عطا فرمائی کہ جس سے سعید اور نیک ارواح متاثر ہوئیں اور انہوں نے اسلام قبول کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اعلان توحید محض کوئی تصور اور خیال نہیں تھا اور نہ ہی صرف ابلاغ کی حد تک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں تک اپنا پیغام پہنچانا تھا، اللہ سبحانہ و تعالی کے توحید کی تعلیم، تبلیغ اور تدریس کا فریضہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انتہائی محنت، مشقت، اہتمام، توجہ، اخلاص، استقلال، عزم، حوصلے، ہمت اور عمل پیہم سے سرانجام دیا، اللہ جل شانہ کی شان مطلقہ ؛کہ وحدہ لاشریک کی صفت توحید بھی ’’الوحدۃ‘‘ سے باب تفعیل کا مصدر ہے، تفعیل کی خاصیت یہ ہوتی ہے کہ فعل کو بہت محنت، اہتمام، توجہ، اخلاص اور استقرار سے پورا کیا جاتا ہے، ہم اپنی روز مرہ زندگی میں ہزاروں کام ہوتے دیکھتے ہیں، بعض کام اس نوعیت کے ہوتے ہیں کہ ہو گئے تو ہو گئے، نہ ہوئے تو نہ ہوئے، ان کا کرنا، نہ کرنا رسمی ہوتا ہے۔ یعنی وہ رسمی حد تک نبھانے کے ہوتے ہیں، ان میں ’’عملیت‘‘ یا ’’فعالیت‘‘ کا عنصر زیادہ نہیں پایا جاتا ہے۔ مثلاً راہ چلتے آپ کو کوئی دوست ملتا ہے، آپ رسماً اس سے چائے کھانے کا پوچھتے ہیں، وہ جواب میں شکریہ ادا کرتے ہوئے انکار کرتا ہے۔ یہ ایک ایسا ’’فعل‘‘ یا سلوک تھا، جو آپ نے زبانی، کلامی اور رسماً ادا کیا، اس طرح آپ کے دوست نے بھی آپ کو رسماً جواب دیا، آپ یا آپ کے دوست کے فعل میں تفعیل کا عنصر شامل نہیں تھا، اس کے برعکس آپ کا ایک دوست آپ کے گھر آ جاتا ہے، یا آپ اس کو ساتھ لے کر آتے ہیں، اس کو مہمان خانہ میں بٹھاتے ہیں اور اہل خانہ سے مہمان کی حیثیت کے مطابق چائے یا کھانا تیار کرنے کے لئے کہتے ہیں۔ زنان خانہ سے چائے یا کھانا تیار ہو کر آتا ہے اور آپ مہمان کو اہتمام سے پلاتے، کھلاتے ہیں۔ آپ، آپ کے اہل خانہ اور دوست کا یہ سارا عمل، سلوک یا فعل، اس صورت میں رسمی، واجبی اور سرسری نہیں ہے بلکہ آپ سب نے مل کر تفعیلی طور پر محنت، مشقت، اہتمام، توجہ، خلوص، ہمت، حوصلے، عزم اور استقلال سے میزبانی اور مہمانی کا فریضہ سرانجام دیا، اس فریضے کو نبھانے میں علم، عقل، شعور، آداب، سلوک اور عمل کی تمام مطلوبہ جزئیات کا استعمال کیاگیا ہے، اس کی دوسری مثال آپ اپنے اردگرد جب ان ایم اے پاس ’’ماسٹرز‘‘ کو دیکھتے ہیں، جو حقیقت میں متعلقہ مضمون، مثلا انگریزی، اردو، اسلامیات، عربی، کیمسٹری، فزکس وغیرہ کے پورے ’’ماسٹر‘‘ نہیں ہوتے ہیں۔ جب آپ غور سے اس کا جائزہ لیتے ہیں، تو معلوم ہوتا ہے کہ ایسے نام نہاد ڈگری یافتہ ’’ماسٹروں‘‘ نے متعلقہ مضمون کا تفعیلی انداز میں سرے سے مطالعہ ہی نہیں کیا ہوتا ہے، بلکہ ان کی تعلیم کا مقصد صرف ڈگری کے حصول اور ملازمت تک محدود رہا ہے، اس طرح کی ہزاروں مثالیں ہم اپنی روز مرہ زندگی میں بڑی کثرت سے دیکھتے رہتے ہیں۔

توحید کی دواقسام ہیں، علم اور معلومات کی حد تک وہ رسمی توحید، کہ جس کے تحت کوئی شخص اللہ سبحانہ و تعالی کو ایک جانتا اور مانتا ہے وہ زبان سے کہتا ہے کہ اللہ ایک ہے، اس کی ذات اور صفات میں کوئی دوسرا اس کا شریک و ہمسر اور ساجھی نہیں، وہ اللہ سبحانہ و تعالی کی صفات، فوق الادراکیت، احدیت، صمدیت، لا ولدیت، لا والدیت اور لا کفویت کی بات بھی کرتا ہے، وہ اللہ جل شانہ کی ذات میں کسی کو اس کا شریک، ہم پلہ، ہمسر، مد مقابل اور ضدوند بھی نہیں مانتا، تو یہ علمی توحید ہے یعنی یہ عقیدہ کا علم الیقین ہے، عرفاء کا قول ہے کہ ’’چراغ جس طرح جلائے بغیر روشنی نہیں دیتا، علم بھی بغیر عمل کے فائدہ نہیں پہنچاتا لیکن دین اسلام چاہتا ہے کہ علمی توحید کو عملی توحید میں ڈھالا جائے، سلوک و تصوف کی زبان میں جسے توحید مطلب یا توحید فی الطلب کہتے ہیں علم اور عقیدہ کی توحید کے ساتھ جب توحیدکوعمل میں ڈھالا جاتا ہے تو وہ ایک حقیقی، فعال، عامل، زندہ، اثرانگیز، باصلاحیت، نتیجہ خیز، مسلسل توانا اور پرجوش (Active) فلسفہ حیات بن جاتا ہے، عملی توحید میں انسان ذہناً، قلباً، لساناً اور عملًا ہروقت اللہ سبحانہ و تعالی کو اپنا مالک، مولیٰ، کارساز اور عطا کرنے والا سمجھتا ہے اور انسان اس کا فی الواقع بندہ (Obedient Servant) بن جاتا ہے، اس کی بندگی (Servitude)، غلامی (Slavery) اور پرستش (Worship) صرف اللہ سبحانہ و تعالی وحدہ لاشریک کے لئے خالص (Pure, real) ہو جاتی ہے، جس طرح حاصل کئے گئے کسی علم پر پورا پورا عمل پیرا ہونا ایک مشکل کام ہوتا ہے اسی طرح عملی توحید بھی علمی یا رسمی توحید سے مشکل ہوتی ہے، علمی توحید ایک ذہنی اور قلبی سلوک ہے، جس کا تعلق تصور، خیال، علم اور عقیدہ سے ہوتا ہے جبکہ اس تصور، خیال اور عقیدہ کو عمل میں ڈھالنے اور اپنا ’’حال‘‘ بنانے کو عملی توحید کہتے ہیں، جو حقیقتاً مشکل کام ہوتا ہے، خیال کو عمل اور عمل کو ’’حال‘‘ بنانے میں بڑی محنت، مشقت، ہمت، حوصلے، عزم، استقلال اور جوانمردی کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ عقیدے کو حقیقت میں بدلنے کا نام ہے، شریعت (علم) اور طریقت (عمل سلوک، تصوف اور احسان) کے باہمی امتزاج سے حقیقت (نتیجہ، منزل مقصود) واشگاف ہوتی ہے۔

عملی توحید کو سمجھنے کے لئے قرآن حکیم اور اسوہ رسول مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مطالعہ بہت ضروری ہے۔ قرآن حکیم اور حیات طیبہ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ انفرادی توحید کو عملی توحید میں لانے کے لئے حضور پرنور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سلوک کے کتنے مراحل اور مدارج طے فرمائے، اللہ سبحانہ و تعالی کا اپنی صفت خالقیت سے نور اول کو ظہور نورانیت محمدی کے مرحلے سے گزارنا، اللہ جل مجدہ کی ذاتی اور صفاتی توحید کا شاہکار ہے، نورمحمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے آفاق وانفس کو خلق کرنا، اس میں مخلوقات کو اپنی نشانیاں دیکھنے کے لئے تفکیر و تدبیر کے لئے حکم دینا، اللہ تعالی جل مجدہ کی ذاتی اور صفاتی قدرت ہے، اللہ سبحانہ و تعالی کے فوق الادراکیت، احدیت، صمدیت، لا والدیت، لا ولدیت اورلا کفویت کی خبر نبی الامی الکریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عالم انسانیت کو اپنے واسطہ رسالت سے عطا فرمائی۔ عقیدہ توحید کی بنیاد حضور نبی الامی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علم الیقین، عین الیقین اور حق الیقین پر قائم ہے، حضور پرنور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے عقیدہ اور ایمان باللہ پر بنفس نفیس کیسے عمل پیرا ہوئے۔ اسوہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کی عملی تفسیر ہے۔ عملی توحید کی اس عظیم الشان تحریک کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ اس عہد کے تاریخی، سماجی، اخلاقی، دینی، مذہبی اور معاشرتی حالات سالک کے پیش نظر ہوں۔