حصولِ مقصد میں موقع شناسی کی اہمیت

کوثررشید

سوچ کا مثبت ہونا انسان کو عمل پر ابھارتا ہے۔ مثبت سوچ کے حامل لوگ اپنے ارادوں کی تکمیل کے لئے اس چیز کے متلاشی رہتے ہیں کہ انہیں کوئی موقع ملے اور وہ ان نعمتوں سے فائدہ اٹھائیں جو اللہ تعالی نے انہیں عطا کر رکھی ہیں۔ وہ آگے بڑھنے کے لیے مواقع تلاش کرتے ہیں۔ منفی لوگوں کی باتوں کو ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دیتے ہیں۔ ہمیشہ ایسی آوازوں پر کان دھرتے ہیں جو مثبت عمل کی نشان دہی کرتی ہیں۔ کامیابی انہی کا مقدر بنتی ہے جبکہ اس کے برعکس طرز عمل اختیار کرنے والے بعض لوگ ہمت ہار کر گر پڑتے ہیں، زخمی ہو جاتے ہیں اور بالآخر ناکام ہو جاتے ہیں، بعض لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو راہِ عزیمت میں گرتے ہیں پھر سنبھلتے ہیں اور ہر ناکامی کو لڑنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں۔ یہی لوگ کچھ کر گزرنے اور عظیم کارنامے سرانجام دینے کے قابل ہو جاتے ہیں۔

صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم کی زندگیوں کا بغورمطالعہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے اپنی زندگیوں میں کس طرح نا مساعد حالات میں بھی موقع سے فائدہ اٹھایا اورکس طرح دین کی سربلندی کے لئے عظیم اسلامی انقلاب کے تحفظ، بقا اور سلامتی کے لئے انفرادی اور اجتماعی سطح پر ابتلاء و آزمائش کے مراحل سے گزرے اور ایک ایسی انقلابی جماعت کی صورت میں سامنے آئے جو باطل کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار ثابت ہوئی۔

ملت اسلامیہ کی پہلی مسلمان حکمران خاتون محترمہ رضیہ سلطانہ، عدیم المثال فاتح قطب الدین ایبک کی دختر نیک اختر تھیں جس نے اپنی ذہانت اور جرات کا ثبوت دے کر کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیا۔ اور اپنی زندگی میں موقع سے فائدہ اٹھا کر بادشاہِ وقت کی ولی عہد بن گئیں۔ واقعہ کچھ یوں ہے کہ محترمہ رضیہ سلطانہ کے والد محترم نے اپنی صاحبزادی کو اپنا ولی عہد مقررکرنے کی وصیت کی۔ لیکن تمام امرائے سلطنت نے اس بات کی مخالفت کی اورمحترمہ رضیہ سلطانہ کے بھائی رکن الدین کو تخت نشین کیا جوکارِ حکمرانی کے لیے نا اہل ہونے کی بنا پر چند روز بعد نازیبا حرکتیں کرنے لگا حتی کہ اپنے بھائی معز الدین کو قتل کروا ڈالا۔ محترمہ رضیہ سلطانہ اس قتلِ ناحق کو برداشت نہ کر سکیں۔ اس نے اپنے بھائی رکن الدین کو برا بھلا کہا اور جمعہ کے روز قصر قدیم پر چڑھ کر جامع مسجد کے سامنے کھڑی ہوگئیں۔ نماز جمعہ میں رکن الدین بھی شریک تھا۔ محترمہ رضیہ سلطانہ نے موقع پا کر ایک پر اثر تقریر کی اور اپنے مظلوم بھائی کے مارے جانے کا انتقام لینا چاہا۔ نمازِ جمعہ کے تمام مقتدی رکن الدین کی قبیح حرکتوں سے ایسے برا انگیختہ ہوئے کہ وہیں قصاص میں قتل کر ڈالا۔ ادھر درباری امراء کی آنکھیں بھی کھل گئیں اورمحترمہ رضیہ سلطانہ کے حوالے سے اس کے والد گرامی کی وصیت کو عملی جامہ پہنانے کے لیے دربار منعقد کیا گیا اورمحترمہ رضیہ سلطانہ کو تخت نشین کرنے کا اعلان کر دیا۔ محترمہ رضیہ سلطانہ پردے سے برآمد ہو کر تخت پر رونق افروز ہوئیں اور تاج شاہی زیب سر کیا۔ تمام امراءِ دربار نے نذریں پیش کیں۔ ملکہ نے تمام معاملات ملکی کو ہاتھ میں لے لیا اور یوں موقع شناسی سے اپنے مقصد کو پا لیا۔

خوابوں کی تکمیل میں موقع شناسی ایک کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ انسان اپنی زندگی میں کئی خواب دیکھتا ہے۔ حضرت علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے بھی خواب دیکھا جس کی تعبیر بابائے قوم حضرت قائداعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی ذہانت، حکمت عملی اور موقع شناسی سے ملک پاکستان کی صورت میں کی۔ تاریخ ایسی سینکڑوں مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ لیکن اس میں ہر وقت عمل کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ ایک موقع شناس کبھی ہاتھ پر ہاتھ دھر کر نہیں بیٹھتا اور نہ اس چیز کا انتظار کرتاہے کہ پردۂ غیب سے کوئی معجزہ ہوگا اور وہ موقع سے فائدہ اٹھانے کے قابل ہو جائے گا بلکہ وہ مثبت قوتِ عمل پر یقین رکھتا ہے۔ جب موقع کی طرف عملی قدم اٹھایا جاتا ہے تو تبھی اس بات کا امکان پیدا ہوتا ہے کہ آپ اس سے کوئی نہ کوئی فائدہ اٹھا سکیں گے۔ دیکھنا یہ ہے کہ زندگی میں جو چیز مسلسل اور یقینی ہے وہ کیا ہے؟ ادوار بدلتے ہیں، حالات بدلتے ہیں، پھر حالات کے ساتھ ساتھ خیالات بدلتے ہیں۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ ساتھ نئی نئی چیزیں سامنے آرہی ہیں۔ نئی نئی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں اور یہی وہ تبدیلیاں ہیں جن سے عہدہ براء ہونا ہے اور ان پر قابو پانے کا فن سیکھنا ہے۔ کسی بھی فن کو سیکھنے کے لیے یہ لازم ہوتا ہے کہ انسان کے اندر موجود خداداد صلاحتیوں اور خوبیوں کو پہچانا جائے اور ان کو تکمیل مقصد کے لیے بروئے کار لانے کی خاطر مناسب تدابیر اختیار کی جائیں۔ اگر خوبیاں کم ہوں اور خامیاں زیادہ ہوں تو پریشان ہونے کی بجائے اللہ کا شکر بجا لائیں کہ اس نے خوبیوں سے بھی نوازا ہے۔ اگر چہ وہ کم ہی کیوں نہ ہوں۔ اللہ تعالی نے کم از کم ایک خوبی ہر انسان کو عطا کی ہے۔ لہذآپ اپنی اسی ایک خوبی پر نظر رکھیں اور مثبت سوچ کے ساتھ آگے بٹرھیں اور کبھی مایوس نہ ہوں۔ کیونکہ اگر آپ اپنی کسی ایک خامی کو مدنظر رکھ کر اپنی خوبیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے احساس کمتری اور مایوسی کا شکار ہو جائیں گے تو یہ احساس آپ کی روز مرہ زندگی کا ایک لازمی حصہ بن کر آپ کے اعصاب پر سوار ہو جائے گا۔ اس کے برعکس اگر آپ خوشی، شادمانی، فراوانی اور اپنی خوبیوں کو اپنی رجائیت کا محور بناتے ہیں اور اس پر یقین کا عملی طور پر اظہار بھی کرتے ہیں تو آپ اپنے اس یقینِ محکم کو اپنی روزمرہ زندگی میں مجسم صورت میں دیکھیں گے۔ ہمیشہ یاد رہے کہ اونچے خیالات اور بڑے بڑے خوابوں کا پھل بھی بڑا ہوتا ہے۔ ایک انگریز مصنف البرٹ مینسا لکھتا ہے۔

’’بڑے اہداف مقرر کر کے اور ان کو حاصل کرنے کی کوشش کرکے آپ خود کو دیگر لوگوں سے ممتاز کر سکتے ہیں۔ ان سے منفرد ہو سکتے ہیں۔ یہ دیگر لوگ وہ ہیں جو محنت نہیں کرتے یا کام سے جی چراتے ہیں۔ جو ہے جیسا ہے پر ہی اکتفا کر کے بیٹھے رہتے ہیں۔ مگر جو لوگ زندگی کے مسائل اور رکاوٹوں کا سامنا کرکے ان کو شکست فاش دے کر بھاگنے پر مجبور کرتے ہیں وہی لوگ کامیاب ہوتے ہیں۔‘‘

آپ بھی مشکلات پر فتح پانے والے عظیم لوگوں کی فہرست میں شامل ہونے کی کوشش کریں۔ کبھی کسر نفسی سے اپنی صلاحیتوں پر شک نہ کریں۔ روزانہ کا کام روزانہ ختم کرلیں۔ یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ تیزی سے بدلتی ہوئی اس دنیا میں تبدیلیوں سے فائدہ اٹھانا اور موقع شناس بننا ہر انسان کے لئے چیلنج اور آزمائش کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہاں تک کہ ان افرادکو بھی جو کامیاب ہیں یا کامیابی کی جانب رواں دواں ہیں دگر گوں حالات سے نبرد آزما ہونا پڑتا ہے۔ یہاں پر یقینا ذہن میں ایک سوال ابھرتا ہے کہ مواقع تو کسی نہ کسی صورت میں تمام انسانوں کو دستیاب ہیں تو پھر ہر انسان کے مقدر میں کامیابی کیوں نہیں؟ اس کے لیے کیوں اپنی منزل تک رسائی حاصل کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ وہ کیا چیز ہے جو کامیاب لوگوں کو ناکام لوگوں سے ممتاز کرتی ہے۔ ایسے لوگ ہار کوجیت سے کیونکر بدل دیتے ہیں؟ ان تمام سوالات کا جواب یہ ہے کہ وہ لوگ درج ذیل خصوصیات کے مالک ہوتے ہیں جنہیں استعمال میں لاکر کامیابی و کامرانی ان کا مقدر بن جاتی ہے۔

1۔ خواہش 2۔ تعلیم و تربیت 3۔ خود اعتمادی 4۔ دیانتداری 5۔ جوش و جذبہ 6۔ مسلسل محنتِ شاقہ 7۔ مثبت سوچ 8۔ خدمت خلق کا جذبہ 9۔ منصوبہ بندی پر دوام

1۔ خواہش سے پہلے اپنی صلاحیتوں کو پہچانناضروری ہوتا ہے کیونکہ آپ کے اندر جو صلاحیت موجود ہوتی ہے اس سے بلند خواہش کا تعین کیا جاتا ہے۔ اگر آپ میں لکھنے کی صلاحیت ہے توآپ ایک معروف اور زبردست لکھاری بننے کی خواہش کریں اور اگر آپ دوسروں سے تعلقات اور رابطے بنانے کا فن جانتے ہیں تو مارکیٹنگ کا شعبہ آپ کے لئے بہترین مواقع پیدا کرے گا۔

2۔ تعلیم و تربیت : تعلیم انسان کو شعو ر و آگہی دیتی ہے اور تربیت عمل پر ابھارتی ہے۔ لہذا تعلیم اور تربیت لازم و ملزوم ہیں۔ اور علم وہی ہے جو نفع بخش ہو۔ پیارے آقا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیشہ علم نافع کی دعا مانگتے تھے۔ ایک افریقی کہاوت ہے۔ ’’علم کی کمی رات سے بھی زیادہ تاریک ہوتی ہے‘‘۔

3۔ خود اعتمادی کے بغیر کام کرنے کی مثال ایسے ہے جیسے آپ کمان میں تیر لگائے بغیر یا پستول میں گولی ڈالے بغیر نشانہ باندھ رہے ہوں۔ دونوں صورتوں میں آپ اپنا مقصد حاصل کرنے میں ناکام رہیں گے۔ منزل پانے اور زندگی میں کچھ حاصل کرنے کے لئے محنت اور لگن کے ساتھ ساتھ خود اعتمادی بھی لازی شرط ہے۔ جو کامیابی حاصل کرتے ہیں وہ بھی ہماری طرح کے انسان ہی ہیں۔ ان کا بھی ایک ہی دماغ اور ایک ہی دل ہے لیکن اس شرط کے ساتھ انہیں خود پر یقین اور اعتمادہوتا ہے۔

4۔ دیانتداری اور سچائی : مقصد کے حصول میں کامیابی کی ضمانت دیانتداری اور سچائی کو اپنا شعار بنانا ہے۔

کچھوا اور خرگوش کی یونانی کہانی ہے جس میں کچھوا اپنے مقصد میں لگن اور سچائی لئے ہوئے باوجود سست رفتاری کے اپنی منزل مقصود تک پہنچ جاتا ہے جبکہ خرگوش تیز رفتاری کے باوجود سستی کا مظاہرہ کرکے ناکامی کا منہ دیکھتا ہے۔ کامیابی اس چیز کا تقاضا بھی کرتی ہے کہ آپ اپنے خیالات اور افعال کی ذمہ داری قبول کریں نہ صرف اپنے بلکہ دوسروں کے ساتھ بھی ذمہ داری کا مظاہرہ کریں۔

5۔ جوش و جذبہ : کامیا بی و فتح کے لئے جوش و جذ بہ کا عنصر بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کامیابی کے سفر میں کئی طرح کی چھوٹی بڑی رکاوٹوں اور مشکلات پر قابو پانے میں جوش و خروش مدد دیتا ہے۔ اپنے اندر احسان مندی اور شکر گزاری کا رویہ پیدا کرکے حالات کے دباؤ کا آسانی سے مقابلہ اور تبدیلیوں کے چیلنج سے بہتر طریقوں سے نمٹا جا سکتا ہے۔

6۔ مسلسل محنتِ شاقہ : دنیا میں لاتعداد ایسے مشہور اور کامیاب ترین لوگوں کی مثالیں موجود ہیں جنہیں زندگی میں سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں مرتبہ مسترد کیا گیا لیکن انہوں نے ہمت نہیں ہاری بلکہ مسلسل سخت محنت کی اور بالآخر کامیاب ہوئے۔ لہذا زندگی میں انکار اور مسترد کئے جانے سے کبھی نہ گھبرائیں بلکہ اپنی کوششوں اور صلاحیتوں کو اور زیادہ نکھارنے کے لئے محنت جاری رکھیں۔ انکار آخر ایک روز اقرار میں بدل جائے گا۔

7۔ مثبت سوچ : خود کو متحرک اور پرعزم رکھنا مشکل کام ہے لیکن اگر آپ اپنی سوچ اور رویوں کو مثبت رکھیں گے اور اس کے ساتھ آپ کو مثبت سوچ اور مثبت رویوں کے حامل لوگوں کی بھی مدد مل جائیگی تو آپ اپنی تحریک اور عزم کو مزید بڑھانے اور کامیابی سے ہمکنار کرنے میں معاون ثابت ہونگے۔

8۔ خدمتِ خلق کا جذبہ : اپنی منزلِ مقصود کے حصول کے لئے خدمت خلق کا جذبہ مہم یز کا کام دیتا ہے۔ جہاں تک ہو سکے اور جتنا ہو سکے دوسروں کی بے لوث اور فی سبیل اللہ خدمت کریں۔ دوسروں کی مدد کرنا اور ان کے کا م آنا دل کو راحت دیتا ہے۔ یاد رکھیں آج آپ دنیا میں اللہ کی مخلوق کی مدد کریں گے توکل قیامت کے روزخالق خود آپکی مدد فرمائے گا۔

9۔ منصوبہ بندی پر دوام : مشن کا کوئی کام منصوبہ بندی کے بغیر ممکن نہیں اور اس کے لیے روزانہ کی بنیادوں پر جانفشانی سے کام کرنا ناگزیر ہوتا ہے۔ منصوبہ بندی کا مطلب یہ نہیں کہ آپ مارکر اور چارٹ لے کر نقشے بنانا شروع کر دیں بلکہ منصوبہ بندی محض یہ بھی ہے کہ کوئی بھی کام شروع کرنے سے قبل اس کی نوعیت کو خوب غور و خوض کریں، سوچیں اور سمجھیں۔ کوئی سسٹم اور پروگرام وضع کرنے کے بعد منصوبے پر محنت کریں اور دیکھیں کہ آپ کا اگلا قدم اب کیا ہونا چاہئے۔ اچھی طرح پلاننگ، منصوبہ بندی اور حکمت عملی سے کئے جانے والے کام کبھی غلط نہیں ہوتے۔ منصوبہ بندی کرتے ہوئے ایک بات ذہن نشین رکھیں کہ اس میں زمینی حقائق ہمیشہ اپنے پیش نظر رکھیں۔ مثال کے طور پر آپ کا رجحان ڈاکٹر بننے کا ہے تو ادیب یا فلاسفر یا انجینئر بننے سے اجتناب کریں بلکہ جو صلاحیت یا خوبی فطری طور پر آپ کے اندر موجود ہے اس کے مطابق منصوبہ بندی سے منزل کی طرف گامزن رہیں گے توکامیابی آپ کے قدم چومے گی۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تیرا سالہ مکی زندگی حکمت و دانائی اور منصوبہ بندی کی ایک روشن مثال ہے۔ ہجرت، جہاد، معاہدے، قتال محض اتفاقات زمانہ نہیں بلکہ ایک ٹھوس منصوبہ بندی کا نتیجہ تھے۔ جو ہمارے لیے ہر قدم پر مشعل راہ ہیں۔

آخری بات جو انتہائی اہمیت کی حامل ہے وہ یہ ہے کہ زندگی ہمارے پاس امانت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں جینے کا موقع دیا ہے۔ جو ایک ہی بار ملتا ہے۔ اب ہم نے سوچنا ہے کہ اس موقع سے کیسے فائدہ اٹھانا ہے۔ اپنے ذہن، دماغ اور شعور کو کیسے ترتیب دینا ہے اور اپنے من میں مقصد حیات کو جاگزیں کرکے اس کے حصول کے لئے کیسے تگ و دو کرنی ہے؟ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری مدظلہ اپنے ایک خطاب بعنوان’’رضائے الہی ہی مقصد حیات ہے‘‘ میں فرماتے ہیں۔ ’’جو زندگی کو مقصد کے سپرد کر دے اور اسے حاصل کرنے میںزندگی تمام کر دے وہ نتائج کے دن کبھی شرمسار نہیں ہو گا‘‘۔

شیخ الاسلام مدظلہ کے اس قول زریں کو ہم اپنے لیے مشعل راہ بنا لیں تو نصرت و تائید ایزدی ہمارے شامل حال ہو جائے گی اور کامیابی ہمارے قدم چومے گی۔ (ان شاء اللہ تعالی)