پاکستانی خواتین کے مسائل

مسز فرح فاطمہ

دین اسلام وہ واحد ضابطہ حیات ہے کہ جس نے عورت کو ہر لحاظ سے مکمل احترام اور بلند مرتبے پر فائز کیا ہے۔ اس نے عورت کو سماجی، معاشی، سیاسی، قانونی اور ہر لحاظ سے حقوق عطا کئے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ان تمام تر آفاقی تعلیمات کے باوجود ہماری تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ اسلام کی تعلیمات کا پرچار کیا تو جاتا ہے مگر حقیقتاً بعض معاملات میں چشم پوشی اختیار کی جاتی ہے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بھی صنف نازک اپنے اہم فرائض کی ادائیگی کے باوجود حقوق کے معاملے میں نظر انداز نظر آتی ہے۔ خواتین بہت سے سماجی، معاشی اور قانونی مسائل کا شکار نظر آتی ہیں اور اس معاملے میں ایک شہر کی تعلیم یافتہ عورت اور دیہات میں بسنے والی ایک ان پڑھ سادہ لوح خاتون دونوں بعض اوقات یکساں بے بس نظر آتی ہیں۔ اسلام نے عورت کو وراثت میں باقاعدہ حصہ دار بنایا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :

لِّلرِّجَالِ نَصيِبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ أَوْ كَثُرَ نَصِيبًا مَّفْرُوضًاO

(السناء، 4 : 7)

’’مردوں کے لئے اس (مال) میں سے حصہ ہے جو ماں باپ اور قریبی رشتہ داروں نے چھوڑا ہو اور عورتوں کے لئے (بھی) ماں باپ اور قریبی رشتہ داروں کے ترکہ میں سے حصہ ہے۔ وہ ترکہ تھوڑا ہو یا زیادہ (اللہ کا) مقرر کردہ حصہ ہےo‘‘۔ (ترجمہ عرفان القرآن)

مگر عملی طور پر دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ عورت کو اس کے اس بنیادی حق سے بعض دفعہ جبراً دستبردار ہونے پر مجبور کردیا جاتا ہے۔ حق وراثت کی طلبی پر بعض دفعہ خواتین کو جان سے ہاتھ دھونا پڑتے ہیں۔ ہمارے ملک کا جاگیر دارانہ نظام وڈیرا شاہی طبقہ تو اس حق کو تسلیم کرنے سے انکاری ہے اور جائیداد کی خاطر اپنے گھرانے کی خواتین کو قتل کر کے اسے ’’غیرت‘‘ کا تقاضا قرار دے دیا جاتا ہے اور ہر سال کتنی ہی بیٹیاں، بہنیں غیرت کے نام پر قتل کر دی جاتی ہیں۔ اسی طرح جاگیر کو تقسیم ہونے سے بچانے کے لئے ایک اور رسم قبیح جو ہمیں بعض علاقوں میں دیکھنے کو ملتی ہے وہ یہ کہ لڑکیوں کی شادی قرآن سے کردی جاتی ہے تاکہ خاندانی جائیداد تقسیم ہونے سے بچ سکے۔ مہر عورت کا ایک بنیادی حق ہے اس کے لئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

اَلْمَهْرُ بَدْلُ البضع.

(مرغينانی، الهداية شرح البداية، 1 : 201)

’’مہر کسی شے کا بدل ہے‘‘

مگر اس حوالے سے بھی دیکھنے میں یہی آتا ہے کہ یا تو شرعی مہر کے نام پر ’’سوا بتیس روپے‘‘ مقرر کئے جاتے ہیں۔ جس کا شریعت سے کوئی واسطہ نہیں۔ یا یہ سوچ کر بڑی رقم مقرر کر دی جاتی ہے کہ کون لیتا ہے کون دیتا ہے۔ یہ اسلامی شعائر سے تضحیک ہے۔ خواتین کو بھی اس آگاہی کی ضرورت ہے کہ وہ اپنے اس حق کا تحفظ کیونکر کریں؟ علاوہ ازیں پاکستانی خاتون کے مسائل میں سے ایک اہم معاشی مسئلہ ہے۔ اسلام نے اگرچہ کسب معاش کی ذمہ داری مرد پر ڈالی ہے مگر ضرورت کے تحت عورت بھی اس معاشی جدوجہد میں مرد کے شانہ بشانہ شریک ہو سکتی ہے مگر دیکھا یہ گیا ہے کہ عورت کی اس احسان مندانہ کاوش اور تعاون کو بھی بعض دفعہ اس کے استحصال کا ذریعہ بنا لیا جاتا ہے۔ جس کی کئی صورتیں ہیں، ایک تو یہ کہ خواتین کے مردوں کے مقابل انہی مناصب پر یکساں دورانیہ میں کا کام انجام دیتی ہیں مگر بعض اوقات آجر ان کی اجرت میں ڈنڈی مار جاتا ہے۔ خاص طور پر فیکٹریوں، صنعتی اداروں اور دفتروں میں یہ استحصال عام نظر آتا ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ صنف نازک کے اہم مسائل کی صورت میں انہیں کسی قسم کی رعائت نہیں دی جاتی۔ گاؤں دیہاتوں میں مردوں کے شانہ بشانہ کڑی دھوپ میں کھیت کھلیانوں میں کام کرنے والی عورت بھی اپنے معاشی حق سے بے خبر اپنے نصف بہتر کا ہاتھ بٹانے میں لگی رہتی ہے اور اس کے باوجود وہ مرد اور معاشرے کی طرف سے کئی دفعہ تذلیل کا ہی شکار ہوتی ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ عورتوں کو ان کی معاشی جدوجہد کی صورت میں پوری سہولیات اور اجرت سے نوازا جائے۔ ان کے اوقات کار مردوں کی نسبت کم ہوں، ملازمت کی کڑی شرائط میں نرمی رکھی جائے، سماجی و گھریلو ذمہ داریوں کا لحاظ رکھتے ہوئے ان کے ساتھ تعاون کیا جائے۔ قانونی معاملات میں بھی خواتین بہت سے مسائل کا شکار ہیں۔ ’’تحفظ نسواں بل‘‘ کے نام نہاد قانون کے ذریعے ڈھنڈورا تو پیٹا گیا ہے مگر حقیقت حال اس سے قدرے مختلف ہے، عورت عملاً قانونی لحاظ سے ستم کا شکار نظر آتی ہے۔ ہمارا پیچیدہ قانونی نظام اور تھانہ سسٹم ایسا ہے کہ کوئی بھی عورت اپنے مسائل کے حل کے لئے ان کی طرف رجوع کرنے کی بجائے گھر میں ظلم سہنا برداشت کر لیتی ہے۔ اس نظام میں بہتری لانے کی ضرورت ہے کہ اسے اتنا وقار اور تحفظ پیدا کیا جائے کہ مدعی خواتین بلا کسی ہچکچاہٹ کے قانونی مدد حاصل کر سکیں۔

ایک اور اہم معاشی مسئلہ تعلیم کا ہے۔ اسلام سے قبل دیگر مذاہب نے علم کا دروازہ عورت پر بند کر دیا تھا مگر اسلام نے علم کا حصول مرد و عورت دونوں پر یکساں فرض قرار دیا۔

طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِيْضَةٌ عَلٰی کُلِّ مُسْلِم.

(ابن ماجه، السنن، 1 : 136، رقم : 224)

یہاں بھی یہ بات قابل ذکر ہے کہ شہری عورت تو اس حق کو کسی نہ کسی طرح حاصل کر رہی ہے مگر دیہاتوں میں اب بھی ناگفتہ بہ صورتحال ہے۔ اول تو دیہاتی خاندان عورت کی تعلیم کو غیر ضروری تصور کرتے ہیں اور بچیوں کے کردار میں بے باکی کے مترادف سمجھتے ہوئے ان کو تعلیم سے دور کر دیتے ہیں اور رہی سہی کسرہماری حکومت کی ناقص تعلیمی کارکردگی پوری کر دیتی ہے کہ جہاں سکولوں کی کمی، اساتذہ کی عدم موجودگی، سہولیات کا فقدان یہ تمام عناصر مل کر بچیوں کے مستقبل کو تاریک کر دیتے ہیں۔ یہاں بھی جاگیردار طبقہ کا اثر و رسوخ ہی کام دکھاتا ہے کہ جن کی لاٹھی کے اشارے پر حکومت بھی بے بس نظر آتی ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ حالات میں کچھ بہتری نظر آرہی ہے۔ جاہلانہ رواج دم توڑ رہے ہیں۔ فرسودہ رسومات ختم ہو رہی ہیں اور خواتین ہر شعبہ زندگی میں مردوں کے شانہ بشانہ کام کرتی نظر آرہی ہیں بطور پائلٹ، انجینئر، ڈاکٹر، اساتذہ، افواج میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں مگر ابھی یہ آٹے میں نمک کے برابر ہے اور یہاں بھی ان خواتین کو ان کے فرائض تو پورے ادا کرنے پڑ رہے ہیں مگر حقوق میں کمی نظر آتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ خواتین کو ان کے حقوق سے مکمل آگاہی دلائی جائے۔ انہیں اتنا مضبوط بنایا جائے کہ وہ اپنے تمام حقوق کے تحفظ اور طلبی کو یقینی بنا سکیں۔ مگر اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ آزادی نسواں کے نام نہاد نعرے لگا کر عورت کو اس کے اخلاقی فضائل، دینی حمیت، تقویٰ، وقار سے بے بہرہ کردیا جائے بلکہ یہ بات مدنظر رہے کہ عورت کے تمام مسائل کے حل کے لئے اسے وہ راستہ دکھایا جائے جو دین اسلام نے تجویز کیا ہے تاکہ باشعور مسلم خواتین اسلامی طرز زندگی کے لئے تیار کی جا سکیں۔

عورت کو گھر سے باہر لانا ترقی نہیں ہے بلکہ عورت کی اہم ذمہ داری خاندان کی حفاظت، تربیت اطفال ہے، اگر یہ فرائض متاثر نہیں ہوتے تو عورت دیگر ذمہ داریوں کو بھی احسن طریقے سے پورا کر سکتی ہے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ مخلوط تعلیمی اداروں کو ممنوع قرار دیا جائے۔ میٹرک تک تعلیم تمام لڑکیوں کے لئے ضروری قرار دی جائے۔ معاشرے کی اصلاح پر توجہ دی جائے۔ میڈیا کے کردار کو بہتر بنایا جائے۔ ان پڑھ ہنر مند خواتین کی کفالت کے لئے امدادی کام کے ادارے، فلاحی انجمنیں قائم کی جائیں۔ معاشرے کی فرسودہ روایات کو ختم کیا جائے۔ اسلامی اقدار کو فروغ دیا جائے۔ خواتین کے احترام کو یقینی بنایا جائے۔ اسی صورت میں ہمارا معاشرہ ایک صحت مند اسلامی معاشرہ کہلانے کے قابل ہوگا اور تبھی ہماری خواتین ان سپوتوں کو جنم دیں گی کہ جو اسلام کے علم کو تا قیامت سربلند رکھیں گے۔