عرفان القرآن کورس کے معلمین و معلمات کے فرائض

عرفان القرآن کورس کی اختتامی تقریب سے صاحبزادہ حسین محی الدین قادری کا خصوصی خطاب

ترتیب و تدوین : نازیہ عبدالستار، نظرثانی : صاحبزادہ محمد حسین آزاد

گذشتہ روایت کو برقرار رکھتے ہوئے امسال بھی مرکزی سیکرٹریٹ تحریک منہاج القرآن میں عرفان القرآن کورس کروایا گیا جس میں کثیر تعداد میں معلمین ومعلمات نے شرکت کی۔ اس کور س کی اختتامی تقریب کے موقع پر جگر گوشہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری محترم صاحبزادہ حسین محی الدین قادری نے شرکاء عرفان القرآن کورس سے پُر مغز خطاب کیا جو من و عن نذرِ قارئین کیا جارہا ہے : (ادارہ دختران اسلام)

بسم الله الرحمن الرحيم

الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِيَّ الْأُمِّيَّ الَّذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا عِندَهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَالْإِنْجِيلِ يَأْمُرُهُم بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَاهُمْ عَنِ الْمُنكَرِ.

(الاعراف، 7 : 157)

’’(یہ وہ لوگ ہیں) جو اس رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیروی کرتے ہیں جو امی (لقب) نبی ہیں (یعنی دنیا میں کسی شخص سے پڑھے بغیر منجانب اللہ لوگوں کو اخبارِ غیب اورمعاش و معاد کے علوم و معارف بتاتے ہیں) جن (کے اوصاف و کمالات) کو وہ لوگ اپنے پاس تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں، جو انہیں اچھی باتوں کا حکم دیتے ہیں اور بری باتوں سے منع فرماتے ہیں‘‘۔

امی کا ظاہری معنی ہوتا ہے جو پڑھا نہ ہو۔ آقا علیہ الصلوۃ والسلام قرآن مجید اور شریعت کے ساتھ دنیا کے جس خطے میں تشریف لائے وہ امی تھی۔ قرآن مجید ایک نظریہ ہے، فلسفہ نہیں ہے۔ جبکہ فلسفہ مفروضہ ہوتا ہے۔ جب نظریہ وجود میں آتا ہے تو وہ مفروضہ کو عبور کر کے کامل تجربات کے نتیجے میں معرضِ وجود میں آتا ہے جس کا معاشرہ پر اطلاق ہوتا ہے۔ اس کے اندر ظن، گمان اور شک کی گنجائش نہیں ہوتی جبکہ فلسفہ میں ہوتی ہے اگر کوئی یہ ایمان رکھے کہ قرآن مجید فلسفہ ہے تو گناہ لازم آجائے گا کیونکہ فلسفہ میں شک اور ظن کی گنجائش ہے جبکہ قرآن ایک ایسی چیز ہے جس میں شک کی کوئی گنجائش ہے نہ ظن کی کیونکہ وہ مفروضہ نہیں بلکہ نظریہ ہے۔ آقا علیہ الصلوۃ والسلام کلام الہیٰ، قرآن مجید کی صورت میں ایک نظریہ لے کر تشریف لائے اس قوم کی طرف جو امی تھی جس کے افراد شاعر تھے۔ عربی زبان خوب جانتے تھے۔ ادب کی بات کیا کرتے تھے۔ قصے کہانی گھڑا کرتے تھے۔ یہ علم نہیں ہے۔ اس وقت Greek اور رومن Civilization بھی تھی مگر عرب کا خطہ ایسا تھا کہ اس سے پہلے وہاں کوئی Civilization نہیں آئی تھی۔ عرب کے خطے پر نہ Greek Civilization اور نہ رومن Civilization کے اثرات تھے اور نہ ہی کسی بڑے فلسفی نے اس خطے پر اپنے Expression کبھی چھوڑے تھے۔ اب اللہ رب العزت سب سے کامل اور سب سے بڑی Ideology، اپنے سب سے کامل اور سب سے پیارے حبیب مکرم کو دے کر ایسے خطے میں کیوں بھیج رہا ہے جو اس Idiology کی قدر نہ کر سکیں۔ قدر تو وہ کرتا ہے جس نے رومن اور Greek Idiology پڑھی ہو۔ دیگر Issues اور فلسفے بھی پڑھے ہوں، کنفوشس اور بدھا کو بھی پڑھا ہو، پھر قرآن کی Idiology آجائے تو وہ کہے ہاں میں نے وہ سب بھی پڑھا ہے اور قرآن کو بھی پڑھا ہے اس میں یہ کچھ نیا اور اعلیٰ ہے۔ اصول تو یہ بنتا تھا کہ اللہ اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اپنی Idiology کو اس خطے میں بھیجتا جو اس کے قدر دان ہوتے۔ جہاں پر کثرت سے Civilization آچکی ہوتی جہاں پر کثرت سے فلسفیوں کا آنا جانا ہوتا۔ جہاں کثرت سے فلسفہ گھوم رہا ہوتا مگر نہیں اللہ تعالیٰ نے امی قوم کی طرف نبی امی کو بھیجا ایک ایسی Idiology دے کر جو سب سے اعلیٰ ہے کیوں کہ عرب میں اس سے بڑا فلسفی پیدا ہوا تھا نہ کوئی بڑا Idiologist تھا۔ نہ کوئی بڑا مذہب پہلے اس خطے میں آیا تھا۔ جو اپنی مضبوط Idiology، جینے کا انداز اور اپنے مضبوط Expression رکھتا ہو۔ اس کی فقط ایک وجہ ہے کہ اللہ رب العزت کو یہ بات ہر گز گوارا نہ تھی کہ آقا علیہ السلام جو کہ محبوب خدا ہیں پھر قرآن جو رب العزت کی سب سے محبوب کتاب ہے۔ وہ کسی ایسے خطے میں جائے جہاں بیٹھنے والے دنیاوی فلسفوں سے موازنہ کریں۔ کسی کے ذہن میں پچھلے فلسفے ہوں تو لامحالہ جب کوئی نئی چیز آتی ہے تو وہ ذہن سوچتا ہے کہ فلاں نے یہ کہا تھا اور قرآن یہ کہتا ہے۔ فلاں نے تو یہ جینے کا طریقہ بتایا تھا قرآن یہ بتاتا ہے۔ خدا کو یہ گوارا نہ تھا کہ میرا مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قرآن اور میری Idiology کی بات کرے مگر سننے والا ذہن کے ترازو میں دنیاوی باتوں سے پرکھنا شروع کردے۔

اس لئے اللہ رب العزت نے ایک ایسی قوم میں اپنا نبی مقرب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی کتاب دے کر بھیجا جس کا دماغ بالکل صاف تھا۔ جیسے ایک تختی پر کوئی لکھ دے اب سو بار اس کو صاف کیا جائے مگر اس پر پھر بھی پچھلے اثرات رہ جاتے ہیں۔ اس کو بالکل صاف نہیں کیا جاسکتا۔ اسی طرح پہلے کسی Idioilogy کا بسیرا کسی شہر میں ہو اور کوئی نئی Idiology آجائے تو اسے بھی سو فیصد صاف نہیں کیا جاسکتا، کچھ اثرات باقی رہ جاتے ہیں۔ ان اثرات کا رہنا آقا علیہ الصلوۃ والسلام اور قرآن کی بے ادبی ہے جو اللہ رب العزت نے گوارا نہ کی۔ اس لئے اسی قوم میں آقا علیہ الصلوۃ والسلام کو اور قرآن کے نظریہ کو بھیجا تاکہ پہلا Expression اس قوم پر پڑے اور وہ فقط اس کو سیکھ کر آگے چلیں، اسے پھیلائیں اور اس کے بانی بن جائیں۔ اس قوم کا تعلق اور واسطہ کسی اور نظریہ یا فلسفہ سے بالکل نہ ہو۔ یہ وہی نظریہ ہے جو عرفان القرآن کورس کی صورت میں پاکستان کے عوام تک پہنچانے کا تحریک منہاج القرآن اور ان کے جملہ فورمز نے فیصلہ کیا ہے۔ یہ وہی اعلیٰ Idiology ہے جو آقا علیہ الصلوۃ والسلام لے کر تشریف لائے۔ آج اس فلسفے اور اس Idiology کو گھر گھر اور سینے سینے تک پہنچانے کا تحریک منہاج القرآن ذریعہ بن رہی ہے۔ مقصود یہ تھا کہ جب اعلیٰ بات کا تذکرہ ہو رہا ہو تو ذہن کو صاف اور خالی رکھا کریں تاکہ اس اعلیٰ بات کی بے ادبی نہ ہو۔ اس بات کو ملحوظ خاطر رکھیں کہ جب بھی عرفان القرآن کی بات ہو یا وہ چیزیں جن کا شیخ الاسلام مدظلہ کی فکر کے ساتھ تعلق ہے۔ جب انہیں بیان کر رہے ہیں تو اپنے ذہن میں بھی ان کو اولیت دیں کیونکہ جب مختلف شخصیات یا مصنفین کی بات ذہن میں رکھیں گے تو نہ شیخ الاسلام مدظلہ کی فکر کو اچھے انداز میں بیان کرسکیں گے نہ منتقل کرسکیں گے لہذا اپنی فکر کی ایک سمت متعین کرلیں۔ اگر عرفان القرآن کورس کے معلم بننا ہے اور ان کی تبلیغ کو آگے لے کر چلنا ہے تو مصمم ارادہ کر لیں کہ ہم نے شیخ الاسلام کی فکر کو لے کر چلنا ہے۔ چاہے آپ کا پرانا تعلق دیگر علماء کرام کے ساتھ رہا ہو، مگر اب جس جگہ یا ذات کی بات لے کر چل رہے ہیں اس کے ساتھ اپنے ذہن اور دماغ کی سلیٹ کو خالص کر لیں پھر آپ کی زبان پر دیگر مصنفین، محققین اور فلسفیوں کے تذکرے نہیں آنے چاہئیں۔ ایک بہت ضروری بات ہے اگر آپ خود Confuse ہوں گے تو پھر آگے قوم کو کیا راستہ دکھائیں گے۔ اس لئے بات کرتے ہوئے فکر اور عقیدہ وہی بیان کریں جو شیخ الاسلام مدظلہ کی زبان سے بیان ہوا ہے، اسے آگے منتقل کریں۔ جس میں دیگر لوگوں کے بیان کئے عقائد شامل نہ ہوں اور نہ ہی دیگر مصنفین کی بات شامل ہو۔ اگر سب کو ملائیں گے تو اس اختلاط سے مسائل پیدا ہوں گے۔ ایک بنیادی بات ذہن میں رکھیں جب فیلڈ میں جائیں جہاں سے سیکھا ہے وہاں کی بات آگے پہنچائیں اور جس کو آپ آگے تعلیم دیں ان کو اس جگہ اور اس ہستی کا مکمل تعارف کروائیں۔ قرآن حکیم میں ارشاد فرمایا گیا :

الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللّهَ قِيَامًا وَقُعُودًا وَعَلَى جُنُوبِهِمْ وَيَتَفَكَّرُونَ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ

(آل عمران، 3 : 191)

’’یہ وہ لوگ ہیں جو (سراپا نیاز بن کر) کھڑے اور (سراپا ادب بن کر) بیٹھے اور (ہجر میں تڑپتے ہوئے) اپنی کروٹوں پر (بھی) اللہ کو یاد کرتے رہتے ہیں اور آسمانوں اور زمین کی تخلیق (میں کارفرما اس کی عظمت اور حُسن کے جلووں) میں فکر کرتے رہتے ہیں‘‘۔ (ترجمہ عرفان القرآن)

اس کے اندر دو چیزیں ہیں۔ آپ معلم ہیں آپ کو اس آیت کا مصداق بننا ہوگا کیونکہ آپ نے نئی قوم تیار کرنی ہے اور آپ کے ذریعے جو کھیپ تیار ہوگئی ان سے جو عمل اور کام صادر ہوں گے اس کے آپ ذمہ دار ٹھہریں گے۔ اس سے کوئی بری الذمہ نہیں ہو سکتا کیونکہ آپ سے سن کر کسی نے اس پر عمل پیر اہونا ہے۔ لہذا ایک تو یہ کہ آپ نے اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، قرآن کے ساتھ تعلق کو پختہ کرنا ہے اور دوسرا مطالعہ اور غور و فکر کرنا ہے۔ جس کے بارے میں آیت کے اگلے حصے میں فرمایا : ’’ويتفکرون فی خلق السموات والارض‘‘. قرآن ان دو چیزوں کے مجموعہ کا نام ہے۔

جہاں قرآن اپنی تعلیمات کے ذریعے، عقیدہ و عمل اور ایمان و اسلام کو پختہ کرتا ہے وہاں دنیا میں موجود تمام issues، تمام مسائل اور تمام معاملات سے متعلق سوچنے کی دعوت بھی دیتا ہے۔ قرآن کا کورس بھی ان دو چیزوں کو جمع کئے بغیر مکمل نہیں ہو سکتا۔ پہلے حصے میں ایک مسلمان کا اسلام، ایمان اور عقیدہ پختہ کر دیا۔ اس کا تعلق اللہ رب العزت اور آقا علیہ الصلوۃ والسلام کی ذات بابرکات کے ساتھ پختہ کر دیا۔ دوسرے حصے کے اندر اب جس دنیا میں وہ رہتا ہے جس امت اور قوم کا وہ حصہ ہے اس کو درپیش مسائل، امت پر آنے والی مشکلات، شیخ الاسلام کی فکرِ انقلاب، تبلیغ کی دعوت اور حقوق و فرائض ہر وہ شے جو فکری ہے، وہ قرآن کے ذریعے آپ کے موضوع کا حصہ بن جاتی ہے۔ جہاں پر آپ قرآن، ایمان، اسلام پختہ کرتے ہیں وہاں پر انقلاب کی دعوت اور فکر کے بغیر لوٹ آئے تو یہ ادھورا کام ہوگا۔ تقلید ہمیشہ ایمان کی پختگی، اسلام کی پختگی اور پھر انقلاب کے لئے تیاری ان تین چیزوں کو جمع کریں تو ہوتی ہے۔ قرآن مجید کے علوم کے تحت جو جو مسائل سامنے آتے ہیں ان کو سمجھاتے جائیں، ان کے اندر اس چیز کا شعور ڈالیں کہ وہ کہاں کھڑے ہیں ان کو کیا کرنا چاہئے۔ امت مسلمہ کے کیا مسائل ہیں، آگے امت مسلمہ کو کن مشکلات کا سامنا کرنا ہے؟ اس طرح سے نوجوانوں کے شعور کی بیداری بھی ہوگی۔ اگر آپ ایک جہت کے ساتھ منسلک رہے اور دوسری جہت کی تیاری نہ کی تو تحریک منہاج القرآن کا کام مکمل نہیں ہوگا۔ وہ مقصد مکمل نہیں ہوگا جس کے لئے شیخ الاسلام مدظلہ نے تحریک کے تمام فورمز کی بنیاد رکھی۔ اپنی زندگی کے 28 سال صرف کئے اور اس تحریک کو چلایا۔ اس کام کو لوگوں تک پہنچایا۔ اس کے بغیر یہ کام بالکل ادھورا رہ جاتا ہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ آپ نے جو کچھ سیکھا اور جتنا علم حاصل کیا اور یہاں وقت گزارا۔ اب اس پر عمل اور اپنے مطالعہ کو جاری رکھیں گے۔ اس کے لئے یہ دس دن کافی نہیں ہوتے۔ اگر آپ نے ایک معلم کا کردار ادا کرنا ہے تو شیخ الاسلام مدظلہ کی فکر اور ان کے خطابات، ان کی کتب سے اپنے آپ کو منسلک رکھنا ہوگا، کوئی کتاب پڑھ لینا اور چند لیکچر سن لینا کافی نہیں ہے۔ بلکہ آپ کو مسلسل اس دعوت اور دین کے فریضے کو سرانجام دیتے رہنا ہے۔ جس کے لئے آپ زیادہ سے زیادہ شیخ الاسلام مدظلہ کی کتب کا مطالعہ کریں خطابات سنتے رہیں تاکہ Update رہیں۔