نسلِ نو کی تربیت اور والدین

ضیاء نیر

عصرحاضر میں جب ہر سطح پر امت مسلمہ بدترین زوال کا شکار ہے اور اخلاقی اقدار بری طرح پامال کی جا رہی ہیں اسلامی معاشرہ کی بحالی اور اصلاح کا کام انفرادی اور اجتماعی سطح پر وقت کی اہم ترین ضرورت بن چکا ہے، اس حوالے سے تربیت اولاد پر بھرپور توجہ مرکوز کرنا والدین اور بزرگوں کا اولین فریضہ ہونا چاہئے، بچے ہمارے حال اور مستقبل کا اثاثہ اور قومی وملی سرمایہ ہیں، ان بچوں نے ہی جوان ہو کر ملک و قوم کی باگ ڈور اپنے ہاتھوں میں سنبھالنی ہے اور تعمیر ملت کا فریضہ سر انجام دینا ہے۔ اس لئے اگر یہ بچے جو ہماری قوم کے معمار ہیں ان کی تربیت صحیح اسلامی خطوط پر ہو گی تو ہمارا مستقبل محفوظ ہاتھوں میں ہو گا اور صف اقوام میں ہم عزت اور وقار کی فضا میں سانس لے سکیں گے۔ علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے اس حقیقت کی نشاندہی اپنے اس شعر میں کیا خوب کر دی ہے۔

افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ

نونہالوں کی تربیت کے باب میں والدین کا کردار بنیادی اہمیت رکھتا ہے، ماں کی گود کو بچے کی اولین درسگاہ بجا طور پر کہا جاتا ہے۔ نپولین نے درست کہا تھا کہ’’تم مجھے اچھی مائیں دو، میں تمہیں ایک اچھی قوم دوں گا‘‘۔ بچے کی سیرت و کردار میں ماں کا بڑا ہاتھ ہوتا ہے، مغربی تہذیب پر علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے زبردست تنقید کی اور اسے انسانیت کش بلکہ خودکشی کا عمل قراردیتے ہوئے بغیر کسی لگی لپٹی کے کہا۔

تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی
جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہوگا

مغربی تہذیب پر علامہ نے اس قدر شدید حملہ کیوں کیا؟ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ یہ تہذیب ایسے مادیت پر ست ماحول میں پرورش پاتی ہے جس میں بچے کی پرورش کے حوالے سے ماں کا کردار منفی اور تخریبی نوعیت کا ہو کر رہ گیا ہے، بچوں سے دست برداری اور انہیں حالات کے بے رحم پتھروں کے حوالے کر کے صرف اپنی ذات کو اولیت دینا مغربی ماں کا معمول بن چکا ہے، اس طرح خاندان ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو رہے ہیں اور انسانی اقدار کا شیرازہ بکھرتا ہوا نظر آ رہا ہے۔ معلم انسانیت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک حدیث مبارکہ کا حوالہ اس ضمن میں بچے کی تربیت و پرداخت کے باب میں اس حقیقت سے پردہ اٹھاتا ہے جس کی طرف سے ہم میں سے اکثر نے الا ماشاء اللہ آنکھیں موند رکھی ہیں۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے۔

کُلُّ مَوْلُوْدٍ يُوْلَدُ عَلَی الْفِطْرَةِ فَاَبَوَاهُ يُهَوِّدَانِهِ اَوْ يُنَصِّرَانِهِ اَوْ يُمَجِّسَانِهِ

(بخاری، الصحیح، 1 : 465، رقم : 1319)

’’ہر بچہ فطرت سلیمہ پر پیدا ہوتا ہے۔ اس کے والدین یا اس کے آباء (باپ داداء) ہیں جو اسے یہودی، مجوسی یا عیسائی بنا دیتے ہیں‘‘۔

مربی اعظم حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان کو بھی بچے کے والدین اور بزرگوں کو ہمہ وقت اپنے پیش نظر رکھنا چاہئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔

کُلُّکُمْ رَاعٍ وَکُلُّکُمْ مَسْئُوْلٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ

(بخاری، الصحیح، 1 : 304، رقم : 853)

’’تم میں سے ہر کوئی نگران ہے اور اپنی رعایا اور ماتحتوں کے بارے میں تم سے جواب طلبی کی جائے گی‘‘۔

یہ تعلیم بھی ہمیں معلم اخلاق شارع علیہ السلام نے عطا کی ہے۔ ہماری تہذیب و ثقافت میں معاشرے کے بزرگ ہمارا مشترک اثاثہ ہوتے تھے۔ نئی نسل کی اٹھان ان بزرگوں کی آغوش عاطفت میں ہوتی تھی۔ انہیں یہ حق حاصل تھاکہ اگر کوئی نوجوان اخلاقی بے راہروی میں مبتلا نظر آتا تو وہ اسے اس کی روش بدکے انجام و عواقب سے خبردار کرے اور اسلامی تعلیمات اور اخلاقیات سے انحراف پر اس کے بڑھتے ہوئے قدموں کو روکے اور اپنے مواعظ حسنہ سے اسے راہ حق سے بھٹکنے سے بازرکھے۔ افسوس صد افسوس کہ آج ایسے بزرگ خال خال رہ گئے ہیں اور نئی نسل اکثر و بیشترگمراہی و ضلالت کی دلدل میں دھنسی جا رہی ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ آج اس مربیانہ اور مصلحانہ کردار کو دوبارہ زندہ اور بحال کیا جائے اور ابتدا ہی سے بچوں کی صحیح نہج پر رہنمائی کی جائے۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے۔

خشت اول جوں نہد معمار کج
تاثریا می نہد دیوار کج

’’اگر معمار پہلی اینٹ غلط اور ٹیڑھی رکھ دے تو دیوار کو بلندی تک ٹیڑھا ہونے سے کیسے روکا جا سکے گا‘‘

آخر میں اخلاقیات کے حوالے سے یہ بات کہنا ضروری ہے کہ اخلاق کا کوئی تصور دین کے بغیر ممکن نہیں اور اسلامی اخلاق کا سرچشمہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسوہ حسنہ سے پھوٹتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خلق عظیم کی اس بلندی پر فائز کیاگیا جس سے زیادہ کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ حضور ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ مجھے مکارم اخلاق کی تکمیل کیلئے مبعوث کیاگیا ہے۔ لہذا والدین بالخصوص اور بزرگوں پر بالعموم فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ بچوں کی ذہنی نشوونما کو ابتدائی عمر میں ہی اخلاق محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سانچے میں ڈھالیں تاکہ ان کے دل و دماغ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت طیبہ کے نقوش راسخ ہو جائیں۔

کیا زمانہ تھا جب بڑے بوڑھے اور بزرگ کسی معاشرے کا مشترک اثاثہ ہوا کرتے تھے اور ان کا وجود مسعود سب کے لئے خیر و برکت کا باعث سمجھا جاتا تھا، بالخصوص نوجوانوں کی تربیت اور کردار سازی میں ان کا عمل دخل بہت نمایاں ہوتا تھا۔ ان کی مثال گویا برگد کے درخت کی سی تھی جس کی سایہ دار شاخوں تلے تمازت آفتاب سے ستائے ہوئے مسافر کچھ دیر سستانے کے لئے بیٹھتے اور ان کے خنک سایہ سے آسودگی و آرام حاصل کر کے اگلی منزل کی طرف روانہ ہو جاتے۔ آج کے مشینی دور میں ایسے بزرگ خال خال باقی رہ گئے ہیں اور ان کے مربیانہ کردار میں وہ اثر پذیری باقی نہیں رہی لیکن پھر ان کا دم غنیمت ہے اور اس سے صرف نظر نہیں کیا جا سکتا۔ ان کی نصیحت آموز باتوں سے استفادہ کر کے ہونہار نوجوان زندگی کی روشن راہوں سے ہمکنار ہو کر ترقی کی منزل کو پا لیتے ہیں۔

اس بارے میں کوئی دورائے نہیں کہ ہماری نوجوان نسل الا ماشاء اللہ مذہب سے بے بہرہ ہو رہی ہے، اسلام کی اخلاقی وروحانی تعلیمات سے گریز پائی نے انہیں مادیت پرستی اور حرص و طمع کا اسیر بنا دیا ہے۔ مادر پدر آزاد الیکٹرانک میڈیا بالخصوص ٹی وی ڈش اور وی سی آر کے ذریعے جو کچھ نوجوانوں کو دکھایا جاتا ہے اس سے فحاشی، عریانی اور اخلاقی بے راہروی کو فروغ مل رہا ہے۔ ایسے میں والدین اور محلے کے بزرگوں کا فرض عین ہے کہ وہ اپنے بچوں اور نوجوانوں کی اخلاقی تطہیر و تہذیب کے لئے بھرپور کردار ادا کریں۔

ہمارے اساتذہ کو نئی نسل کی تعمیر کے لئے بنیادی مصلحانہ کردار ادا کرنا چاہئے۔ اس ضمن میں علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی شاعری اور نثر میں نوجوانوں کی راہنمائی کے لئے جو پیغام موجود ہے اس سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے خودی کی جو تعلیم دی ہے اس میں وہ مغربی کلچر جو مخرب اخلاق ہے کی نفی کرتے ہوئے ایک جگہ فرماتے ہیں۔

نظر کو خیرہ کرتی ہے چمک تہذیب حاضرکی
یہ ضاعی مگر جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے

علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ اپنے ایک انگریزی مضمون جس کا عنوان Political Thoughts in Islam ہے میں بجاطور پر فرماتے ہیں۔ ’’ہمیں صرف اس بات کا ڈر ہے کہ کہیں یورپی کلچر کی آنکھوں کو خیرہ کرنے والی چمک دمک ہماری ترقی کے راستے میں حائل ہو کر ہمیں اپنے کلچر کے حقیقی تصور تک پہنچنے میں ناکام نہ کر دے۔ وہ اس بات پر افسوس کا اظہار کرتے ہیں کہ صدیوں سے ہمارا مذہبی فکر جامد اور بے نمو ہو گیا اور مسلمان نئی نسل، نئے زمانے کے تقاضوں کو پورا کرنے سے غفلت برت رہے ہیں، وہ مغربی فکر اور اور عملی کمالات کے اچھے پہلوؤں کی تحسین کرتے ہیں مگر اس کی ظاہری حالت کو جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری سے تعبیر کرتے ہیں، لیکن اہل مغرب کی علم جوئی، تحقق پسندی، سائنسی ترقی، تسخیر کائنات اور جہاں بینی کی تعریف کرتے ہیں اس سلسلے میں ان کے یہ دو اشعار مسلمان نوجوانوں کے لئے لمحہ فکریہ ہیں۔ فرماتے ہیں۔

خودی کی موت سے مشرق کی سر زمینوں میں
ہوا نہ کوئی خدائی کا راز داں پیدا

نظر آتے نہیں بے پردہ حقائق ان کو
آنکھ حق کی ہوئی محکمومی و تقلید سے کور

دوسرے شعر میں علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے اس بات کا شکوہ کیا ہے کہ افسوس عصرحاضر کے مسلمانوں کی فکر اس قدر جامد ہو گئی ہے کہ انہیں اپنے آباؤ اجداد کے شاندار ماضی کے حقائق سے بھی آگاہی نہیں اور محکومی و تقلید نے ان کے جوہر عمل کو کند کر کے رکھ دیا ہے۔

علامہ نوجوان نسل کو اپنی ملّت کا مستقبل تصور کرتے تھے۔ وہ ان نوجوانوں کی تربیت ان میں ایمانی جذبہ اور دینی بصیرت پیدا کر کے اس نہج پر کرنا چاہتے تھے کہ وہ صحیح معنوں میں قوم کے معمار بن سکیں۔ قرآن حکیم سے انہیں جو شغف تھا وہ کسی صاحب نظر سے پوشیدہ نہیں۔ اسی طرح حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات سے انہیں جو والہانہ محبت اور شیفتگی تھی اس کا اظہار ان کی شاعری اور نثری تحریروں میں جابجا ہوتا ہے۔ وہ یہی جذبہ اور ذوق و شوق نوجوانوں کی رگ و پے میں اتارنا چاہتے ہیں چنانچہ ان کی زندگیوں کو قرآن و سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات سے آراستہ و پیراستہ کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور پکار اٹھتے ہیں۔

جوانوں کو مری آہ و سحر دے
پھر ان شاہین بچوں کو بال و پردے

خدایا آرزو میری یہی ہے
مرا نورِ بصیرت عام کر دے

والدین اور اساتذہ پر بنیادی ذمہ داری عائد ہوتی ہے وہ بچوں کو کلام اقبال کی روح سے آشنا کریں۔ ان کے اس کردار کا احیاء وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔