فیوضات و برکاتِ رمضان اور ہمارے معمولات

کوثر رشید

ماہ رمضان المبارک بڑی ہی برکتوں، سعادتوں اور نعمتوں والا مہینہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جو برکتیں اور سعادتیں اس بابرکت مہینے کے ساتھ خاص فرمائی ہیں وہ کسی اور مہینے کے ساتھ خاص نہیں ہیں۔ نیز جو برکتیں اس مقدس مہینے کے اندر کئے جانے والے نیک اعمال کے ساتھ مخصوص ہیں وہ دوسرے مہینوں میں انہی اعمال کے ساتھ مخصوص نہیں ہیں۔ اس ماہ کاہر ہر عمل فضیلت و اجر کے اعتبارسے خاص اہمیت کاحامل ہے۔ اس ماہ کے روزے اپنی فرضیت کے لحاظ سے خاص کیے گئے جبکہ بقیہ ماہ کے روزے نفلی درجہ کی حثییت رکھتے ہیں ۔ رمضان المعظم کے روزوں کی سحری و افطاری اور اسکی پابندی میں بے شمار برکات و ثمرات رکھے گئے ہیں۔ اللہ رب العزت نے اپنے پیارے حبیب علیہ السلام کی امت پر انعام کیا اور نماز تراویح، اعتکاف، صدقہ فطر، ذکر و اذکار اور شب قدر کی صورت میں لا تعداد اور پُر اثر فیوضات سے نواز کر ماہِ رمضان کو دوسرے مہینوں کے مقابلے میں خاص کر دیا۔ اس ماہ کی عظمت و فضلیت اور خاصیت یہ ہے کہ آقا علیہ السلام خود اسکا استقبال کرتے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بھی اس کی تلقین فرماتے۔ جب رمضان المبارک کا چاند نظر آتا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے۔ هلال رشد و خير‘ هلال رشد و خير امنت بالذی خلقک. (مصنف ابن ابی شیبہ‘ 10 : 400‘ رقم حدیث : 9798)

’’یہ چاند خیر و برکت کا ہے‘ یہ چاند خیر و برکت کا ہے۔ میں اس ذات پر ایمان رکھتا ہوں جس نے تجھے پیدا فرمایا۔ ‘‘

رمضان المبارک کا استقبال

ایک حدیث مبارکہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سوالیہ انداز کے ذریعے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے رمضان المبارک کے استقبال کے بارے میں پوچھ کر اس مہینے کی برکت کو مزید واضح کیا۔ جب رمضان المبارک کا مہینہ آتا تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صحابہ کرام سے دریافت کرتے : ما تستقبلون؟ ماذا يستقبلکم؟ (ثلاث مرات)

تم کس کا استقبال کر رہے ہو اور تمہارا کون استقبال کر رہا ہے۔ (یہ الفاظ آپ نے تین دفعہ فرمائے) اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا کوئی وحی اترنے والی ہے یا کسی دشمن سے جنگ ہونے والی ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

ان الله يغفر فی اول ليلة من شهر رمضان اهل لکل هذه القبلة.

(الترغيب والترهيب‘ 2 : 105)

’’بے شک اللہ تعالیٰ ماہ رمضان کی پہلی رات تمام اہل قبلہ کو معاف کر دیتا ہے‘‘۔

معلوم ہوا کہ رمضان المبارک کا استقبال آقا علیہ الصلوۃ والسلام اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی اجمعین کی سنت ہے۔ لہذا بطور مسلمان ہمیں بھی اس سنت پر عمل کر کے اپنے گناہوں کی بخشش کا سامان تیار کرنا چاہیے تاکہ اس سارے مہینے کی برکتوں کو اکٹھا کیا جا سکے جس کا پہلا عشرہ رحمت، دوسرا مغفرت، تیسرا اور آخری عشرہ جہنم سے آزادی کا باعث ہے۔ حضرت سلیمان رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شعبان کے آخری دن ہمیں ایک خطبہ دیا جس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

وَ هُوَ شَهْرٌ اَوَّلُهُ رَحَمَةٌ وَ اَوْسَطُهُ مَغْفِرَةُ وَ آخِرَهُ عِتُقُ مِّنَ النَّارِ (ابن خزيمة)

’’یہ ایک مہینہ ہے جس کا ابتدائی حصہ رحمت اور درمیانی حصہ مغفرت اور تیسرے حصے میں دوزخ سے رہائی عطا کر دی جاتی ہے۔‘‘

روزے داروں کا اجر

جو فضیلت، برکت اور سعادت ماہ رمضان کے روزوں میں ہے وہ کسی اور مہینے کے روزوں میں نہیں۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا :

فَمَنْ شَهِدَ مِنْکُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ.

(البقرة، 2 : 185)

’’پس تم میں سے جو کوئی اس مہینہ کو پالے تو وہ اس کے روزے ضرور رکھے‘‘۔ (ترجمہ عرفان القرآن)

حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے روزہ داروں کے اجر کے حوالے سے ارشاد فرمایا : جسے حضرت سہل رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ہے کہ ’’جنت میں ایک دروازہ ہے جس کا نام ریّان ہے، روزِ قیامت اس میں روزے دار داخل ہوں گے، ان کے علاوہ کوئی دوسرا اس میں سے داخل نہیں ہوگا، کہا جائے گا روزہ دار کہاں ہیں؟ پس وہ کھڑے ہو جائیں گے، ان کے علاوہ کوئی دوسرا اس دروازے میں سے داخل نہیں ہوگا اور جب وہ داخل ہو جائیں گے دروازہ بند کردیا جائے گا۔ پس اس سے روزہ داروں کے علاوہ کوئی داخل نہ ہوگا‘‘۔

(صحیح البخاری، کتاب الصوم، باب الريّان للصائمين)

حضرت ابو مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ۔ ’’جو شخص ماہ رمضان کا ایک روزہ رکھتا ہے اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن حورعین میں سے زوجہ عطا فرمائے گا۔ جو ایسے موتی سے بنے ہوئے خیمہ میں ہوگی جو اندر سے خالی ہے اور جس کی تعریف اللہ تعالیٰ نے یوں فرمائی ہے۔ حُوْرٌ مَّتْصُوْرَاتٌ فِیْ الْخِيَامِ خیمہ میں پوشیدہ حوریں ہیں۔ ان میں سے ہر عورت پر ستر قیمتی لباس ہوں گے۔ ہر جوڑے کا رنگ الگ ہوگا اور ستر قسم کی خوشبو سے بسے ہوں گے۔ ہر ایک کی خوشبو دوسری خوشبو سے الگ ہوگی اور اسے سرخ یاقوت کے ستر تخت دیئے جائیں گے۔ جن پر موتی جڑے ہونگے، ہر تخت پر ستر بچھونے ہونگے۔ ہر بستر پر ایک مسند ہوگی۔ ہر عورت کی ضروریات کے لئے ستر ہزار خدمت گار ہوں گے۔ اس کے خاوند کے لئے بھی ستر ہزار خدام ہونگے، ہر خادم کے پاس سونے کا ایک پیالہ ہوگا جس میں ایک قسم کا کھانا ہوگا۔ اس کھانے کے دوسرے لقمہ کی جو لذت ہوگی وہ پہلے میں نہیں پائے گا، اس کی زوجہ کو بھی سرخ یاقوت سے بنا ہوا اسی قسم کا تخت دیا جائے گا یہ انعام رمضان المبارک کے ہر روزے کے بدلے میں ہوگا دیگر نیکیوں کا حساب الگ ہے۔ ‘‘(غنیۃ الطالبین)

سحر ی و افطاری کی برکات

رمضان المبارک میں پابندی کے ساتھ سحری و افطاری بے شمار فوائد اور فیوض و برکات کی حامل ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم روزے کا آغاز ہمیشہ سحری کے کھانے سے فرمایا کرتے تھے۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں۔ کہ حضو صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

اَلسَّحُوْرُ کُلُّهُ بَرْکَةٌ فَلاَ تَدْعُوْه.

(مسند احمد بن حنبل‘ 3 : 12)

’’سحری سراپا برکت ہے اسے ترک نہ کیا کرو‘‘۔

روزے میں سحری کو بلاشبہ بہت اہم مقام حاصل ہے۔ روحانی فیوض و برکات سے قطع نظر سحری دن میں روزے کی تقویت کا باعث بنتی ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امت کو تلقین فرمائی ہے کہ سحری ضرور کھایا کرو‘ خواہ وہ پانی کا ایک گھونٹ ہی کیوں نہ ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ معمول تھا کہ سحری آخری وقت میں تناول فرمایا کرتے تھے۔ گویا سحری کا آخری لمحات میں کھانا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت ہے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کھجور کو بہترین سحری قرار دیا : حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

نِعْمَ سَحُوْرُ الْمُوْمِنِ اَلتَّمْرُ.

(سنن ابی داؤد‘ 1 : 327‘ کتاب الصومِ‘ رقم حديث : 2345)

’’مومن کی بہترین سحری کھجور ہے‘‘۔

حضرت سلیمان بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

اِذَا اَفْطَرَ اَحَدُکُمْ فَلْيَفْطُرْ عَلٰی تَمُرَ فَاِنَّه بَرَکَةٌ فَاِنْ لَمْ يَجِدْ فَلْيَفْطُرْ عَلٰی مَاءٍ فَاِنَّه طَهُوْرٌ.

جب تم میں سے کوئی روزہ افطار کرے تو اسے چاہئے کہ کھجور سے کرے کیونکہ اس میں برکت ہے اگر کھجور میسر نہ ہو تو پانی سے کیونکہ پانی پاک ہوتا ہے۔ (جامع الترمذی‘ 1 : 83‘ کتاب الزکوۃ‘ رقم حدیث : 658)

رمضان المبارک میں قیام (تراویح ) کی فضیلت

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رمضان المبارک میں قیام کرنے کی فضیلت کے باب میں ارشاد فرمایا :

فَمَنْ صَامَهُ وَ قَامَهُ اِيْمَانًا وَ اِحْتِسَابًا خَرَجَ مِنْ ذُنُوْبِه کَيَومُ وَلَدَتُهُ اُمُّهُ.

(نسائی، السنن، 4 : 158، الرقم : 2208)

’’جو شخص ایمان اور حصول ثواب کی نیت کے ساتھ ماہ رمضان کے دنوں میں روزے رکھتا اور راتوں میں قیام کرتا ہے تو وہ گناہوں سے یوں پاک ہو جاتا ہے جیسے وہ اس دن تھا جب اسے اس کی ماں نے جنم دیا تھا۔‘‘

رمضان المبارک میں ذاکرین کا اجر

حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

ذَاکِرُ اللّٰهِ فِیْ رَمَضَانَ مَغْفُوْرٌ لَه وَ سَائِلُ اللّٰهِ فِيْهِ لَا يَخِيْب.

(طبرانی، المعجم الاوسط، 6 : 195، رقم : 6170)

’’ماہ رمضان میں اللہ کا ذکر کرنے والا بخش دیا جاتا ہے اور اس ماہ میں اللہ تعالی سے مانگنے والے کو نامراد نہیں کیا جاتا۔‘‘

فضیلتِ اعتکاف

حضرت علی بن حسین رضی اللہ عنہما اپنے والد حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

مَنْ اْعِتَکَفَ عَشُراً فِیْ رَمَضَانَ کَانَ کَحَجَتَيْنِ وَ عُمْرَتَيْن.

(طبرانی، المعجم الکبير، 3 : 128، رقم : 2888)

’’جو شخص رمضان میں دس دن کا اعتکاف کرتا ہے اس کا ثواب دو حج اور دو عمرہ کے برابر ہے۔‘‘

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی حدیث مبارکہ میں آقا علیہ السلام نے فرمایا : ’’جو شخص اللہ کی رضا کے لیے ایک دن اعتکاف کرتا ہے اللہ تعالی اس کے اور دوزخ کے درمیان تین خندقوں کا فاصلہ کر دیتا ہے، ہر خندق مشرق سے مغرب کے درمیانی فاصلہ سے زیادہ لمبی ہو تی ہے۔ ‘‘

لیلۃالقدر (ہزار مہینوں سے افضل رات)

حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! ہمیں شب قدر کے بارے میں بتائیں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’یہ رات ماہ رمضان کے آخری عشرے میں اکیسویں، تیئسویں، پچیسویں، ستائیسویں، انتیسویں کی آخری رات ہوتی ہے۔ جو بندہ اس میں ایمان و ثواب کے ارادہ سے قیام کرے اس کے اگلے پچھلے (تمام) گناہ بخش دیئے جاتے ہیں۔ ‘‘(احمد بن حنبل، المسند، 5 : 813)

شب قدر کی خصوصی دعا

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے۔ آپ نے آقا علیہ السلام سے دریافت فرمایا کہ میں اس رات کیا دعا کروں ؟ آپ علیہ السلام نے فرمایا : اَللّٰهُمَّ اِنَّکَ عَفُوًّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّیْ. (ترمذی) ’’ اے اللہ تو معاف فرمانے والاہے، عفو و درگزر کو پسند فرماتا ہے، مجھے معاف فرما دے‘‘۔

صدقہ فطر (فطرانہ ) کی حکمتیں

اس عشرے کی ایک خصوصی عبادت صدقہ فطر بھی ہے۔ جو ہر صاحب حیثیت مسلمان پر تقریبا دو سیر گندم یا اس کی قیمت کے حساب سے واجب ہے۔ اس کی ادائیگی نماز عید سے پہلے ہونی چاہئے تاکہ غرباء و نادار اپنی ضروریات خرید کر سب کے ساتھ خوشیوں میں شریک ہو سکیں۔ صدقہ فطر کی فرضیت کی حکمت کو بیان کرتے ہوے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’صدقہ فطر، مسلمان، مرد و عورت۔ آزاد و غلام سب پر فرض ہے۔ روزہ دار سے جو لغویات اور فضول حرکتیں سرزد ہوتی ہیں فطرانہ ان سے روزوں کی تطہیر کرتا ہے اور مساکین کی خوراک کا ذریعہ ہے۔ جو شخص نماز عید سے پہلے ادا کر دے اس کی طرف سے یہ قبول کر لیا جاتا ہے مگر جو بعد نماز ادا کرے اسے عام دیئے جانے والے صدقہ کا ثواب ملتا ہے، فطرانہ کا نہیں (اور اس کی اہمیت یہ ہے کہ) روزے زمین و آسمان کے درمیان معلق رہتے ہیں جب تک فطرانہ کی ادائیگی نہ ہو۔‘‘ (دارقطنی)

رمضان المبارک میں ہمارا معمول۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ایک لمحۂ فکریہ

رمضان المبارک کی ہر ہر ساعت ہمارے لیے سعادتوں کی پیامی اور خدائے ذوالجلال کی بے پایاں رحمتوں کی نوید بن کر آتی ہے۔ لیکن کیا ہم اس سے مستفید ہو کر اپنے لیے اخروی نجات و کامیابی کا توشہ و سامان تیار کرتے ہیں۔ ہمیں اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیے اور اس ماہ مقدس کے پر سعید لمحوں کو غنیمت جان کر اپنی عاقبت کو سنوارنے کا اہتمام کرنا چاہیے، اپنے دنیوی امور پر اخروی تیاری کو ترجیح دے کر اپنے اندر ایک خاص تبدیلی کے ذریعے رضائے الہی کے حصول کے لیے کوشاں رہنا چاہیے۔ جب سحری کے لیے بیدار ہوں تو با وضو ہو کر کچھ وقت نماز تہجد کے لیے نکالیں۔ پھر پورا ماہ اس کی پابندی اسطرح کریں کہ بقیہ زندگی میں تہجد کا معمول اسقدر راسخ ہو جائے کہ پھر اسے ترک کرنے کا تصور بھی نہ ہو سکے۔ اور اس ماہ مبارک کو دوسرے مہینوں سے مختلف، اس انداز میں گزارہ جائے کہ اس کی عظمت اور فیوض و برکات کو مکمل طور پر سمیٹا جاسکے۔ سیدنا غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :

’’ماہ رمضان المبارک میں چار عادات کثرت سے اپناؤ اور اس پر ثابت قدم رہو۔ دو سے اپنے رب کو راضی کرو۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور دوسری یہ کہ اللہ سے مسلسل بخشش طلب کرو۔ بقیہ دو عادات وہ ہیں جن کے بغیر تمہارا چارہ نہیں وہ یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ سے جنت کا سوال کرو اور جہنم سے اس کی پناہ مانگو۔ ‘‘(غنیۃ الطالبین : 455)

  • رمضان المبارک کے ہر دن، بیداری سے لے کر رات سونے تک ذہن میں اس طرح سے منصوبہ بندی کی جائے کہ سارا دن رضائے الہٰی کے حصول میں گزرے۔ ایسے کاموں سے بچنے کی کوشش کی جائے جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ناراضگی کا باعث بنیں۔
  • عبادات، نوافل، تلاوت قرآن کا خصوصی اہتمام کیا جائے تاکہ رمضان المبارک کی برکات سے بھرپور فائدہ اٹھایا جاسکے۔
  • ہمہ وقت حالت طہارت و پاکیزگی کا خاص خیال رکھیں۔ باوضو رہیں، لباس اور اردگرد کی صفائی کا بھی خاص اہتمام کریں۔
  • فرض نمازوں کے ساتھ نوافل، نماز تہجد، اشراق، چاشت اور اوّابین کو اپنے معمول میں شامل کریں۔
  • ہفتہ میں کم از کم ایک مرتبہ صلوۃ التسبیح انفرادی یا اجتماعی کا اہتمام کریں اور ممکن ہو تو روزانہ ادا کریں۔
  • تلاوت قرآن حکیم میں کثرت کریں اور قرآن کو ترجمہ تفسیر کے ساتھ پڑھنے کی عادت ڈالیں۔ کم از کم ایک رکوع مع ترجمہ عرفان القرآن اپنا معمول بنالیں اورآئندہ سال بھر استقامت کے ساتھ جاری رکھیں۔
  • نماز میں پڑھی جانے والی چھوٹی سورتیں، منتخب آیات حفظ کرنے کی عادت کو بھی اپنایا جائے۔
  • رمضان المبارک کے پہلے عشرے میں یہ دعا کثرت سے پڑھیں۔
  • رَبِّ اغْفِرْ وَارْحَمْ وَ أَنْتَ خَيْرُالرَّاحِمِيْنَ.
  • دوسرے عشرے کی دعا :
  • اَسْتَغْفِرُاللّٰهَ رَبِّیْ مِنْ کُلِّ ذَنْبٍ وَاَتُوْبُ اِلَيْهِ.
  • تیسرے عشرے میں کژت سے پڑھیں :
  • اَللّٰهُمَّ اَجِرْنَا مِنَ النَّارِ.
  • آخری عشرے میں اعتکاف بیٹھنے کی بہت فضیلت ہے۔ اس لئے یاد الہٰی، قرب الہٰی اور محبت و خشیت الہٰی کی نیت سے پورے دس دن کا اعتکاف کریں اور اگر ممکن نہ ہو تو کچھ دن یا کچھ لمحات کے لئے مشاغل دنیا چھوڑ کر اپنے آپ کو صرف اللہ تعالیٰ کے لئے وقف کریں اور یہ یاد رکھیں کہ انفرادی اعتکاف کی نسبت اجتماعی اعتکاف کی زیادہ فضیلت ہے۔ لہذا اجتماعی اعتکاف کو ترجیح دیں۔ جیسے شہر اعتکاف منہاج القرآن انٹرنیشنل کے زیر اہتمام منعقد ہوتا ہے۔ اس طرح کی اعتکاف گاہ کا انتخاب کریں۔
  • اس ماہ دل کھول کر صدقہ و خیرات کریں۔ مستحقین کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے اپنی استطاعت کے مطابق مدد و تعاون کریں۔
  • دوست، احباب، غرباء و مساکین اور مستحقین افراد کے لئے افطاری کا اہتمام کریں اور یہ افطاری محض دکھاوے اور ریاکاری کے نام نہ ہو جائے بلکہ حقدار اور غریب افراد کا انتخاب کر کے ان کے لئے ضیافت اور افطاری کا اہتمام کریں۔
  • ناپسندیدہ کاموں اور برائیوں سے پرہیز کریں مثلاً غیبت، چغلی، جھوٹ، دھوکہ دہی، لڑائی جھگڑا، گالی گلوچ، غلط بیانی، فحش کلامی، اسراف، خیانت، دوسروں کی دل آزاری کرنا، غیر اخلاقی پروگرام دیکھنا اور موسیقی وغیرہ سننا۔
  • خدمت دین کے لئے زیادہ سے زیادہ وقت نکالیں۔ اگر آپ معلم یا معلمہ ہیں۔ دین کا فہم حاصل ہے تو اس ماہ درس قرآن کا سلسلہ شروع کریں۔ عرفان القرآن کورس کروائیں۔ اور ان دروس کے ذریعے لوگوں کے اندر امت کا درد اور دین کی خدمت کا جذبہ پیدا کریں۔