قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ، پاکستان اور ہم یوم آزادی کے حوالے سے خصوصی تحریر

سیدہ ریحانہ بخاری

میر عرب کو آئی ٹھنڈی ہوا جہاں سے
میرا وطن وہی ہے میرا وطن وہی ہے

پاکستان اپنی بقا کے سب سے خطرناک دور سے گزر رہا ہے۔ حالات کی ستم ظریفی دیکھئے 14 اگست کی رونقیں بھی ماند ہیں۔ لوگ بنیادی ضرورتوں سے محرومی کے عذاب سے نکلیں تو کچھ کریں، کچھ سوچیں، اخلاقی ابتری کا یہ عالم ہے کہ کل جو ملک لا الہ الا اللہ کے نام پر حاصل کیا گیا تھا آج اس ملک میں سب کچھ ہے صرف لا الہ الا اللہ کا ہی راج نہیں ہے اور قوم جب اپنے بنیادی مقصد سے ہٹ جاتی ہے تو وہی ہوتا ہے جو ہو رہا ہے۔ روزنامہ نوائے وقت لاہور نے اپنی 5 اپریل 1970ء کی اشاعت میں قائداعظم کا ایک معرکۃ الآراء بیان شائع کیا تھا۔

’’میں لندن میں امیرانہ زندگی بسر کررہا تھا اب میں اسے چھوڑ کر انڈیا اس لئے آیا ہوں کہ یہاں لا الہ الا اللہ کی مملکت یعنی پاکستان کے قیام کے لئے کوشش کروں، اگر میں لندن میں رہ کر سرمایہ داری کی حمایت کرنا پسند کرتا تو سلطنت برطانیہ جو دنیا کی عظیم ترین سلطنت تھی مجھے اعلیٰ سے اعلیٰ منصب اور مراعات سے نوازتی‘‘ آگے چل کر کہتے ہیں : ’’علامہ اقبال کی دعوت پر میں نے دولت اور منصب دونوں کو تج کر کے محدود آمدنی کی دشوار زندگی گزارنا پسند کیا ہے تاکہ پاکستان وجود میں آئے اور اس میں اسلامی قوانین کا بول بالا ہو کیونکہ دنیا کی نجات اسلام ہی میں ہے۔ صرف اسلام ہی کے علمی، عملی اور قانونی دائروں میں آپ کو عدل، مساوات، اخوت، محبت، سکون اور امن دستیاب ہوسکتا ہے‘‘ مزید کہتے ہیں ’’محمد علی جناح کا لباس اتنا قیمتی نہیں جتنا قیمتی لباس یورپ کے بڑے بڑے لوگ اور روس کے لیڈر زیب تن کرتے ہیں، نہ محمد علی جناح کی خوارک اتنی اعلیٰ ہے جتنی سوشلسٹ اور کمیونسٹ لیڈروں اور یورپ کے سرمایہ داروں کی ہے، ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور خلفائے راشدین نے سارا اختیار ہوتے ہوئے خود غریبانہ زندگی بسر کی مگر رعایا کو خوش اور خوشحال رکھا۔ ذرا خیال فرمایئے کہ اگر لا الہ الا اللہ پر مبنی حکومت قائم ہو جائے تو افغانستان، ایران، ترکی، اردن، بحرین، کویت، حجاز، عراق، فلسطین، شام، تیونس، مراکش، الجزائر اور مصر کے ساتھ مل کر یہ کتنا عظیم الشان بلاک بن سکتا ہے‘‘۔ قائداعظم کی خواہش کا جتنا احترام کیا جائے کم ہے لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ مسلم ممالک کا عظیم الشان بلاک تو کیا بنتا آج پاکستان کے ’’اپنے‘‘ اس کے اسلامی ملک ہونے کی شناخت کو بھی ختم کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔

25 دسمبر 1876ء کو ایک بچہ گجرات میں پیدا ہوا کسی کو اس کی پیدائش کا مقصد معلوم نہیں تھا مگر ہواؤں کا رخ بتا رہا تھا کہ یہ کسی خاص منزل کا مسافر ہے۔

قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ جن کے نحیف و کمزور جسم کے ریشے ریشے میں لا الہ کی محبت اور لا الہ الا اللہ کی بنیاد پر بننے والے پاکستان کے قیام اور بقا کا سوال تھا۔ ان کی روح کے تار اسلام سے جڑے ہوئے تھے۔

مولانا کوثر نیازی قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ کی شخصیت کے بارے میں لکھتے ہیں : ان کا عزم بلند ان کی مضبوط سیرت ان کا پختہ کردار ان کی اصول پسندی، ان کی مستقل مزاجی اور ان کی ملی حمیت وہ خصوصیات تھیں جن سے ان کی زندگی عبارت تھی وہ جس بات کو حق سمجھتے تھے اس پر ڈٹ جاتے تھے اور پھر انہیں کوئی قوت، کوئی لالچ اور کوئی ترغیب و تحریص متزلزل نہ کر پاتی تھی، جن اصولوں کو انہوں نے درست سمجھا ہمیشہ ان کا پاس کیا جو مقصد انہوں نے اپنے پیش نظر رکھا اسے پورا کرنے میں اپنی ساری صلاحیتیں جھونک دیں، آگے چل کر مزید لکھتے ہیں :

’’جس نصب العین کو انہوں نے ایک بار اپنا لیا اس تک پہنچنے کی جدوجہد میں اپنا خون جگر صرف کر دیا۔ ان کی ایک بڑی خصوصیت مزاج سے ہم آہنگی اور ان کی جمہوریت پسندی تھی۔ ملت کی قیادت ہاتھ میں لینے سے پہلے ان کے اور ملت کے عام افراد کے درمیان وہی بعد تھا جو آج بھی اونچے طبقے کے افراد میں پایا جاتا ہے لیکن جب انہوں نے ملت کی قیادت سنبھالی، ان کے قریب تر ہونے کی سعی کی، ان کی امنگوں کو اپنی امنگیں سمجھا اور ان کے دل کی دھڑکنوں میں اپنے قلب کی دھڑکنوں کو سمو دیا، فکر و نظر، لباس اور طور اطوار میں اپنے آپ کو ملت سے ہم آہنگ بنانے کی کوشش کی اور یہی وہ بات تھی جس نے انہیں ملت کی آنکھ کا تارا بنا دیا اور ملت نے پورے اعتماد کے ساتھ اپنے آپ کو ان کے حوالے کر دیا اور بالآخر اسی اعتماد کے بل پر وہ کرہ ارض کے نقشے پر ایک اسلامی مملکت ابھارنے میں کامیاب ہوگئے‘‘۔

قائداعظم میں صرف وہی خصوصیات نہیں تھیں جو ایک عام آدمی کو ایک بہترین انسان بناتی ہیں بلکہ ان کی زندگی کئی روحانی پہلوؤں سے بھی عبارت تھی، ان میں دینی بصیرت اور اسلامی شعور بھی تھا۔ انہوں نے قرآن اور حدیث کا مطالعہ بھی کیا اور تعلیمات قرآن کی روشنی میں اپنے راستے اور منزل کو واضح طور پر پہچانا۔ وہ صرف پاکستان بنانے کے لئے عملی جدوجہد ہی نہیں کررہے تھے بلکہ پنجگانہ نماز کے بھی پابند تھے۔ تنہائی میں جب رب ذوالجلال کے حضور سربسجود ہوتے تو رو رو کر پاکستان بننے کے لئے دعا کرتے۔ مولانا حسرت موہانی اکثر فرمایا کرتے میرے تصور میں ہر وقت قائداعظم کی وہی تصویر اور وہی آواز رہتی (تعمیر پاکستان و علماء ربانی صفحہ 104) اللہ تعالیٰ نے قائداعظم کو دنیوی شان و شوکت اور بے پناہ عزت و محبت عطا کی تھی لیکن آپ ہر معاملے میں ایک سچے مومن کی طرح صرف خدا پر بھروسہ کرتے، زندگی کے آخری دنوں میں جب ان کے ڈاکٹر ان کی زندگی اور نوزائیدہ پاکستان کی حالت کی طرف سے سخت فکر مند تھے اس وقت قائد اعظم نے انہیں ان الفاظ میں تسلی دیتے ہوئے فرمایا : ’’گھبراؤ نہیں خدا پر اعتماد رکھو اور اپنی صفوں میں کجی نہ آنے دو، انتشار نہ پیدا ہونے دو۔ (حیات قائد اعظم صفحہ 627) دنیا سے رخصت ہوتے وقت بھی آپ رحمۃ اللہ علیہ نے پاکستان کو ایک سچے مومن کی طرح اللہ تعالیٰ کے سپرد کیا اور دعا فرمائی ’’اے خدا تو نے ہی مسلمانوں کو آزادی بخشی ہے اب تو ہی اس کی حفاظت کرنے والا ہے تو ہی مدد کرنے والا ہے اور تو ہی اس کا حامی و ناصر ہے‘‘۔

تحریک پاکستان کی ابتداء سے قیام پاکستان تک مسلمان قوم نے اپنی تحریک کا جو سلوگن رکھا وہ ایک نعرہ تھا، پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ یہ محض ایک سلوگن یا تحریک کا تھیم، ہی نہیں تھا بلکہ اس نعرے کی روشنی نے قائداعظم کے پورے وجود کو روشن کر دیا تھا۔ انہوں نے لا الہ الا اللہ کی روشنی میں قرآن و حدیث کا مطالعہ کیا اور اسے سمجھا۔ اس کا تذکرہ انہوں نے خود اگست 1941ء میں طلباء کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے کیا اور کہا میں نے قرآن مجید اور شریعت اسلامیہ کے مطالعے کی اپنے طور پر کوشش کی ہے، اس عظیم الشان کتاب کی تعلیمات میں انسانی زندگی کے ہر باب کے متعلق ہدایات موجود ہیں۔ زندگی کا روحانی پہلو ہو یا معاشرتی، سیاسی ہو یا معاشی غرضیکہ کوئی شعبہ بھی ایسا نہیں جو قرآنی تعلیمات کے احاطہ سے باہر ہو۔ (حیات قائد اعظم صفحہ 427)

لیکن سوچئے ہم نے اس نعمت عظمیٰ کے ساتھ کیا کیا؟ کیسے اس کی ناشکری کی؟ ہم اللہ رب العزت سے کیا ہو لا الہ کا وعدہ بھول گئے۔ اس نعمت عظیم کے ساتھ جو ظلم کیا اسے لکھنے کے لئے تو عمریں درکار ہوں گی۔ اس وقت میرا مقصد صرف ایک اہم نکتے کی طرف توجہ مبذول کرانا ہے۔ رمضان شریف کا مہینہ خاص رحمتوں برکتوں کا مہینہ ہے 17 رمضان کو غزوہ بدر ہوا۔ مدینہ کی اسلامی ریاست کو استحکام اور دوام نصیب ہوا، 10 رمضان کو فتح مکہ ہوا، باطل اور طاغوتی طاقتوں کو عبرتناک اور شرمناک شکست ہوئی، کفر کے بت پاش پاش ہوئے اور اسلام کا ڈنکا سارے عالم میں بجنے لگا، ماہ رمضان میں ہی محمد بن قاسم کے ہاتھوں راجہ داہر کو شکست فاش ہوئی اور برصغیر پاک و ہند پر اسلامی پرچم لہرانے لگا۔ 27 رمضان کو اللہ نے پوری دنیا کے لئے مکمل ضابطہ، نظام حیات، قرآن کی صورت میں نازل فرمایا اور 27 رمضان کو ہی دنیا کے نقشے پر سب سے بڑی اسلامی مملکت کا قیام عمل میں آیا۔ یہ سب محض اتفاقات نہیں ہیں۔ ہمارا رب ہمیں بتا رہا ہے کہ کائنات کا سارا نظام کسی نظم کا پابند ہے۔ اسی نظام ربوبیت کے تحت پاکستان ہمیشہ قائم رہنے کے لئے بنا ہے۔ باطل طاغوتی طاقتیں اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں البتہ ہم خود اس کو اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں سے نقصان پہنچا رہے ہیں۔ یہ اور بات ہے اس ملک کے تحفظ کی ذمہ داری اللہ نے ہمیں سونپی لیکن ہم نے اس سے غداری کی، بے وفائی کی، ادائیگی فرض میں کوتاہی کی، جس کی سزا آج ہم بھگت رہے ہیں۔ قانون قدرت ہے جیسی کرنی ویسی بھرنی۔ رب قادر نے اسلام کے نام پر دنیا کی سب سے عظیم ریاست بنا کر ہمارے ہاتھوں میں تھما دی لیکن ہم نے اس کے ساتھ کیا صحیح طریقے سے صحیح وقت پر سجدہ شکر بھی ادا نہ کر سکے؟ ہم ہر سال 14 اگست کو شکرانے کے طور پر یوم آزادی مناتے ہیں لیکن شکر ادا کرنے کا ہمارا طریقہ کار کیا ہے؟ کیا ہم پہلے یوم آزادی سے ہی آزادی کا مذاق نہیں اڑا رہے؟ ہم جشن آزادی کیسے مناتے ہیں؟ سائیلنسر، فری موٹر سائیکلوں کا بے ہنگم شور کانوں کے پردے پھاڑ دیتا ہے، نوجوان راہ چلتی لڑکیوں، عورتوں کے سروں سے دوپٹے کھینچ کر لے جاتے ہیں، مادر پدر آزادی کے متوالے ایک پہئے پر موٹر سائیکلیں چلا چلا کر ماؤں کی گود ویران کردیتے ہیں۔ بیہودہ SMS کے ذریعے پاکستان کے وجود کا مذاق اڑایا جاتا ہے، رہی سہی کسر یوم آزادی پر منائی جانے والی سپیشل نائٹس پوری کر دیتی ہیں۔ جب رات کے اندھیرے میں پاکستان کی عزت اور غیرت کے سودے ہوتے ہیں، شراب کو حلال کیا جاتا ہے اور آزادی کے تقدس کو پامال کیا جاتا ہے۔

اگر ہم اللہ رب العزت کا شکر اس کے پسندیدہ طریقے سے کرتے تو یقینا موجودہ پاکستان اتنی ابتر حالت میں نہ ہوتا، اللہ اپنے وعدے کے مطابق اس نعمت میں اور اضافہ فرماتا، اس کے وسائل میں برکت ہوتی، اس کے وقار میں اضافہ ہوتا، اس کی ترقی عروج پر ہوتی، پاکستان کا قیام جمعہ کے دن، شب نزول قرآن رمضان کے مہینے میں ہوا جب شیاطین جکڑ دیئے جاتے ہیں۔ اگر جشن آزادی منانے کا اہتمام ہر سال 27 رمضان کو ہوتا تو شیطان اس طرح ہم پر قبضہ نہ جماتا۔ نیکیوں کا حسین موسم ہوتا۔ ہر پاکستانی مسلمان روزہ دار ہوتا، زبانوں پر تسبیح و تہلیل کے نغمے ہوتے، شب قدر میں رم جھم برستی آنکھوں کے ساتھ سجدہ شکر ادا ہوتے، سجدوں میں گڑ گڑا کے پاکستان کی سلامتی اور ترقی کی دعائیں مانگی جاتیں۔ قبولیت دعا کی رات کے بعد شب نزول قرآن کی مقدس پاکیزہ صبح طلوع ہوتی، شہیدوں کی ارواح کو ایصال ثواب کیا جاتا، آزادی کے ترانے نغموں اور الوداع الوداع ماہ رمضان کی صداؤں کے ساتھ مل کر پاکیزہ اور مقدس ہو جاتے، عشرہ اعتکاف ہوتا، دلوں میں اللہ کا نور او رپاکیزگی ہوتی، ماں بہن کا احترام بھی بڑھ جاتا، ان کے سروں سے دوپٹے کھینچنے کی بجائے اپنی نظروں کی حفاظت کی جاتی کہ روزے کا احترام پیش نظر ہوتا، افطاریوں کا اہتمام، جشن آزادی کا مزہ دوبالا کر جاتا، عید کی خوشی میں جشن پاکستان کی خوشی بھی شامل ہوتی، تب یقینا رب ذوالجلال اس نعمت عظیم میں اور اضافہ فرماتا، اب بھی کچھ نہیں بگڑا، توبہ کا وقت ابھی باقی ہے۔ اے اہلیان وطن! لوٹ چلتے ہیں اور رجوع کرتے ہیں بارگاہ خداوندی سے تاکہ اللہ اور اس کا محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی راضی ہوں اور قائداعظم کی روح کو بھی سکون ملے۔

آسماں ہوگا سحر کے نور سے آئینہ پوش
اور ظلمت رات کی سیماب پا ہو جائے گی

پھر دلوں کو یاد آجائے گا پیغام سجود
پھر جبیں خاک حرم سے آشنا ہو جائے گی