حافظ محمد سعید رضا بغدادی

عرفان القرآن کورس
درس نمبر 25 آیت نمبر 50 تا 52 (سورۃ البقرہ)

تجوید : دو سورتوں کے درمیان تسمیہ پڑھنے کا طریقہ

سوال : دو سورتوں کے درمیان تسمیہ کے پڑھنے کا طریقہ کیا ہے؟

جواب : دو سورتوں کے درمیان بسم اﷲ چار (4) طریقوں سے پڑھی جا سکتی ہے جن میں سے پہلے تین جائز جبکہ آخری اور چوتھا درست نہیں ہے۔ تفصیل درج ذیل ہے :

1. وصلِ کُل 2. فصلِ کُل 3. فصل اوّل وصلِ ثانی 4. وصلِ اوّل فصلِ ثانی

ترجمہ

وَإِذْ فَرَقْنَا بِكُمُ الْبَحْرَ فَأَنجَيْنَاكُمْ

متن وَ إِذْ فَرَقْنَا بِكُمُ الْبَحْرَ فَأَنجَيْنَا كُمْ
لفظی ترجمہ اور جب پھاڑا ہم نے تمہارے لئے دریا پس ہم نے بچا لیا تم کو
عرفان القرآن تمہارے پروردگار کی طرف سے بڑی آزمائش تھی اور جب ہم نے تمہیں (بچانے کے) لئے دریا کو پھاڑ دیاسو ہم نے تمہیں (اس طرح) نجات عطا کی۔

وَأَغْرَقْنَا آلَ فِرْعَوْنَ وَأَنتُمْ تَنظُرُونَO وَإِذْ وَاعَدْنَا مُوسَى

متن وَ أَغْرَقْنَا آلَ فِرْعَوْنَ وَ أَنتُمْ تَنظُرُونَ وَإِذْ وَاعَدْنَا مُوسَى
لفظی ترجمہ اور ہم نے غرق کر دیا قوم فرعون کو اور تم دیکھ رہے تھے اور جب ہم نے وعدہ کیا موسیٰ سے
عرفان القرآن اور ہم نے تمہاری آنکھوں کے سامنے قوم فرعون کو غرق کر دیا اور (وقت بھی یاد کرو) جب ہم نے موسیٰ سے (چالیس راتوں کا) وعدہ فرمایاتھا۔

أَرْبَعِينَ لَيْلَةً ثُمَّ اتَّخَذْتُمُ الْعِجْلَ مِن بَعْدِهِ وَأَنتُمْ ظَالِمُونَO

متن أَرْبَعِينَ لَيْلَةً ثُمَّ اتَّخَذْتُمُ الْعِجْلَ مِن بَعْدِهِ وَ أَنتُمْ ظَالِمُونَ
لفظی ترجمہ چالیس راتیں پھر تم نے بنا لیا بچھڑے کو سے بعد اسکے اور تم ظالم تھے
عرفان القرآن پھر تم نے موسیٰ کے چلّہ اعتکاف میں جانے کے بعد بچھڑے کو (اپنا) معبود بنا لیا اور تم واقعی بڑے ظالم تھے۔

ثُمَّ عَفَوْنَا عَنكُمْ مِّنْ بَعْدِ ذَلِكَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَO

متن ثُمَّ عَفَوْنَا عَنْ كُمْ مِّنْ بَعْدِ ذَلِكَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ
لفظی ترجمہ پھر ہم نے معاف کیا سے تم سے بعد اس کے تاکہ تم شکر گزار بنو
عرفان القرآن پھر ہم نے اس کے بعد (بھی) تمہیں معاف کر دیا تاکہ تم شکر گزار ہو جاؤ۔

تفسیر

وَإِذْ فَرَقْنَابِکُمُ الْبَحْرَ. . . . . . . الخ

اس آیت مبارکہ میں اس واقعہ کی طرف اشارہ کیا گیاہے جب حضرت موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کو ہمراہ لے کر ان کے آبائی وطن ملک شام میں کنعان کی طرف جو مصر سے چالیس روز کی راہ پر شمالی جانب تھا سفر کر رہے تھے حضرت یوسف علیہ السلام کی نعش مبارک کا تابوت بھی ہمراہ تھا کہ دریائے قلزم سامنے آگیا اور فرعون کا عظیم لشکر پیچھے تعاقب میں چلا آ رہا تھا۔ سخت پریشانی اور انتشار ہوا لیکن موسیٰ علیہ السلام کی دعا کی برکت سے اور عصائے موسوی کی کرامت سے بحر قلزم میں بارہ خاندانوں کے بارہ راستے خشکی کے رونما کر دئیے جن سے بنی اسرائیل تو سلامتی سے پار چلے گئے مگر فرعونیوں کا لشکر عظیم غرق ہو کر رہ گیا۔ دشمن کی تباہی کا نظارہ کرنا دوسری نعمت ہے۔

وَإِذْ وٰعَدْنَا مُوْسیٰ اَرْبَعِيْنَ لَيْلَةً. . . . . . . الخ

اس آیت کریمہ میں اس واقعہ کی طرف اشارہ ہے کہ جب بحر قلزم سے نجات اور دشمن کی تباہی کے بعد قوم نے حضرت موسیٰ سے ایک آسمانی کتاب کی درخواست کی چنانچہ درخواست منظور ہوئی اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ہ طور پر چالیس روز تک شرف ہمکلامی سے مشرف ہوتے رہے او ر الواح تورات لے کر واپس ہوئے تو موسیٰ سامری جو انکا ہم نام تھا اور زرگر تھا نے قوم کوایک فتنے میں مبتلا کردیا یعنی سونے چاندی کا ایک بچھڑا تیار کرکے اس کی پرستش میں لگا دیا جس سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قائم کردہ بنیاد توحید متزلزل ہوگئی چنانچہ واپسی پر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے یہ منظر دیکھا تو برہم ہوئے جس کے بعد قوم تائب ہوئی۔

فائدہ : 1 - حضرت موسیٰ کا چالیس روزہ اعتکاف

یہ آیت تصوف میں چلہ کشی کے ثبوت پر نص ہے اس میں خلوت نشینی اور رات کی عبادت کی فضیلت کا اشارہ بھی ہے جب قرآن میں ایک برگزیدہ رسول کی سنت یا حکم الٰہی کا ذکر ہو اور بعد میں اسکی نفی یا منسوخی مذکور نہ ہوتو وہ حکم امت مسلمہ کے لئے بھی باقی ہے بلکہ حکم قرآنی تصور ہوتاہے۔

فائدہ : 2 - بنی اسرائیل کی بچھڑا پرستی

بچھڑا سامری کے کرشمہ جادو سے بولتا تھا اسی لئے بنی اسرائیل نے اسکو معبود بنالیا ۔ معلوم ہواکہ شیطانی استدراج کوکرامت نہ سمجھنا چاہیے کسی کے خوارق اور کرامات کودیکھ کر بھی ترک توحید کی اجازت نہیں بعض جاہل لوگ مشائخ میں حلول کا عقیدہ رکھتے اور انکے لئے جواز سجدہ نکالتے ہیں یہ سراسر کفر وشرک ہے اس کی تصوف میں کوئی گنجائش نہیں بعض لوگ سجدئہ آدم سے استدلال جوازکرتے ہیں، ملائکہ کا حضرت آدم علیہ السلام کے لئے سجدہ تعظیمی تھا جو پہلی امتوں میں جائز رہا مگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی امت کے لئے اسے بھی حرام قرار دے دیا۔ (تفسیر منہاج القرآن)

قواعد

فعل لازم ومتعدی

فاعل کے بغیر کسی فعل کا تصور ممکن نہیں۔ البتہ مفعول کا استعمال ہر فعل کے لئے ضروری نہیں۔ اس لحا ظ سے فعل کی دو قسمیں ہیں : i۔ فعل لازم ii۔ فعل متعدی

فعل لازم (Intransitive)

جو فعل صرف فاعل کے ملنے سے بات مکمل کردے، اسے فعل لازم کہتے ہیں۔ مثلا جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ ’’جَآءَ‘‘ اور ’’زَهَقَ‘‘ فعل لازم ہیں، کیونکہ صرف (الحَقُّ اور البَاطِلُ) کے استعمال سے بات مکمل ہوگئی ہے، مفعول کی ضرورت نہیں پڑی۔

فعل متعدی (Transitive) :

وہ فعل ہے جس میں فاعل کے علاوہ مفعول کا لانا بھی ضروری ہو۔ مثلا : صَرَّفَ اللّٰهُ قُلُوْبَهُمْ ’’صَرَّفَ‘‘ فعل متعدی ہے کیونکہ وہ مفعول (قُلُوْبَهُمْ) کا تقاضا کرتا ہے اور اس کے بغیر جملہ مکمل نہیں ہوسکتا۔

دعا

غصہ کے وقت کی دعا

أَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيْمِ لَاحَوْلَ وَلَاقُوَّةَ اِلَّا بِاللّٰهِ الْعَلِیِّ الْعَظِيْمِ

’’میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں شیطان مردود سے، اللہ بزرگ و برتر سے بڑھ کر کوئی بڑا قوت وطاقت میں نہیں‘‘