عائشہ شبیر

فلسفہ صوم

 

بلا شبہ روزہ کا تصور کم و بیش ہر مذہب اور ہر قوم میں موجود رہا ہے اور اب بھی ہے مگر اسلام میں روزے کا تصور یکسر جداگانہ، منفرد اور مختلف ہے جبکہ دوسرے مذاہب روزے کی اصل مقصدیت سے صرف نظر کرتے ہوئے روزے کو اپنے مخصوص مفادات کے لیے محدود کر لیتے تھے مگر اسلام نے اس میدان میں بھی انسانیت کو روزے کے ذریعے ایک نظام تربیت دیا۔ دنیا کا ہر مذہب کسی نہ کسی صورت میں تزکیہ نفس اور روحانی طہارت کی اہمیت کو اُجاگر کرتا رہا ہے مگر ان کے ہاں اس کے مختلف انداز اور طریقے ہیں مثلاً ہندوؤں کے ہاں پوجا کا تصور ہے، عیسائیوں کے ہاں رہبانیت کا رحجان ہے تو یونانی ترکِ دنیا کے قائل ہیں اور بدھ مت جملہ خواہشات کو قطعاً فنا کر دینے کے خواہاں ہیں لیکن اسلام ایک ایسا سادہ اور آسان دین ہے جو ان تمام خرافات اور افراط و تفریط سے پاک ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں تقویٰ اور تزکیہ نفس کے لیے ارکانِ اسلام کی صورت میں ایک ایسا پانچ نکاتی لائحہ عمل عطا کر دیا جو فطرتاً انسان سے ہم آہنگ ہونے کے ساتھ ساتھ نہایت سادہ، آسان اور قابل عمل بھی ہے۔

علاوہ ازیں مختلف مذاہب میں روزہ رکھنے کے مکلف بھی مختلف طبقات میں موجود ہیں مثلاً پارسیوں کے ہاں صرف مذہبی پیشوا، ہندوؤں میں برہمن اور یونانیوں کے ہاں صرف عورتیں روزے رکھنے کی پابند ہیں جبکہ ان کے اوقات روزہ میں بھی اختلاف اور افراط و تفریط پائی جاتی ہے۔ لیکن اسلام کے پلیٹ فارم پر دنیا کے ہر خطے میں رہنے والے عاقل، بالغ مسلمان مرد و عورت کے لئے ایک ہی وقت میں ماہ رمضان کے روزے فرض کیے گئے ہیں ارشاد فرمایا گیا :

فَمَن شَهِدَ مِنكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ

(البقرة، 2 : 185)

’’پس تم میں سے جو کوئی اس مہینہ کو پالے تو وہ اس کے روزے ضرور رکھے‘‘

ماہِ رمضان ہر سال رحمتوں، برکتوں اور مغفرتوں کے انمٹ خزانے لے کر سایہ فگن ہو جاتا ہے۔ اس ماہِ رمضان مبارک کے کچھ ایسے تقاضے اور ذمہ داریاں بھی توجہ طلب ہیں جن سے عہدہ برآ ہونا ہر خاص و عام کا دینی فریضہ ہے۔

شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی کتاب ’’فلسفہ صوم‘‘ روزے کی حکمت و فلسفہ پر مشتمل ہے جس میں آپ نے انتہائی عام فہم انداز میں جدید سائنسی تحقیقات کے حوالے سے روزے کی حکمتیں سمجھائی ہیں۔ یہ کتاب گیارہ ابواب پر مشتمل ہے۔ باب اول ’’روزے کی فرضیت‘‘ کے موضوع سے ہے جس میں فرضیت روزے کے عمومی حکم میں کارفرما حکمتوں کو آشکار کیا گیا ہے تاکہ ان اثرات کو جو روزہ انسان کی مادی اور روحانی زندگی پر مرتب کرتا ہے کو اُجاگر کیا جاسکے مصنف نے روزے کے واجبات و شرائط کو بیان کرتے ہوئے رمضان کی وجہ تسمیہ بھی اس باب میں رقم کی ہے۔

باب دوم ’’رمضان المبارک احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روشنی میں‘‘ کے موضوع پر ہے۔ جس میں احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روشنی میں شیخ الاسلام فرماتے ہیں کہ روزہ گذشتہ گناہوں کا کفارہ ہے۔ روزے کا اجر و ثواب خود خدا دیتا ہے۔ رمضان المبارک میں شیاطین جکڑے جاتے ہیں۔ اور باب الریان صرف رزوہ داروں کے لئے ہے جو جنت کا دروازہ ہو گا۔ الغرض رمضان، روزہ اور روزہ دار کی فضیلت و اہمیت اسی باب میں احادیث رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے ثابت کی گئی ہے۔

باب سوم ’’روزے کی حکمتیں‘‘ کے عنوان سے ہے جس میں شیخ الاسلام مدظلہ روزے کی پانچ حکمتوں کو بڑی تفصیل کے ساتھ لکھتے ہیں کہ تقویٰ کا حصول، تربیت صبر و شکر، جذبہ ایثار، تزکیہ نفس اور رضائے خداوندی کے حصول پر مبنی تمام حکمتیں روزہ میں ہیں۔ اس باب کو پڑھنے کے بعد قاری سمجھ جاتا ہے کہ :

اذا وجدت قلبی راضاً عن اﷲ تعالی علمت اَنه راضٍ عنی.

(الرسالة القشيريه)

’’جب میں نے اپنے د ل کو اپنے رب کے ساتھ راضی پایا تو میں سمجھ گیا کہ اﷲ مجھ سے راضی ہے۔‘‘

جسم اور روح کی حقیقت کے موضوع پر باب چہارم انسان کو خبر دیتا ہے کہ فرشتے سے بہتر ہے انسان بننا کیونکہ روزہ کے ذریعے تزکیہ نفس ہوتا ہے اور تزکیہ نفس کے توسط سے انسان اپنی بشریت کی گرفت اور تسلط سے آزاد ہو کر مولائی صفات کا حامل ہوتا ہے۔ شیخ الاسلام مدظلہ جسم اور روح کے بارے میں سائنسی نقطہ نظر سے قاری کو آگاہ کرنے کے بعد روح کے بارے میں تفصیلاً لکھتے ہیں کہ روح کیا ہے؟ قرآن کہتا ہے :

وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي وَمَا أُوتِيتُم مِّنَ الْعِلْمِ إِلاَّ قَلِيلاًO

(بنی اسرائيل، 17 : 85)

’’اور یہ (کفّار) آپ سے روح کے متعلق سوال کرتے ہیں، فرما دیجئے: روح میرے رب کے اَمر سے ہے اور تمہیں بہت ہی تھوڑا سا علم دیا گیا ہےo‘‘

روح امرِ ربی ہے اس موضوع کی گہرائی میں جاتے ہوئے مصنف پڑھنے والے کو اس فانی و مادی دنیا سے اُٹھا کر عالم ماوراء میں لے جاتے ہیں اشرف المخلوقات ہونے کا تاج انسان کے زیب سر اس لیے کیا گیا کہ اس کے اندر اﷲ رب العزت نے یہ صلاحتیں و دیعت کر رکھی ہیں کہ وہ تزکیہ نفس اور تصفیہ باطن کے ذریعے روحانی کمالات کی رفعتوں سے ہمکنار ہو جاتا ہے۔ پھر روح کے مقام کو اتنا بلند کر لیتا ہے کہ بندہ مولا کی صفات کے روحانی کمالات کا حامل ہو جاتا ہے۔ تزکیہ روح کے اس مقام کو پانے کے لیے روزہ بہترین ذریعہ ہے۔ روزے سے فقر و فاقہ کی جو شانِ استغناء پیدا ہوتی ہے وہ تونگری سے کہیں اعلیٰ مقام رکھتی ہے۔

’’روزہ کی اقسام‘‘ باب پنجم ہے جس میں شیخ الاسلام طبقات انسانی روحانی مدارج کے حوالے سے روزہ کی چار اقسام کا تذکرہ بہت ہی خوبصورت انداز میں کرتے ہیں۔

فلسفہ صوم کے موضوع پر لکھی گئی یہ کتاب اپنے موضوع کے اعتبار سے جامع اور مدلل تصنیف ہے جس میں پڑھنے والے کو روزہ سے متعلق جاننے کی پیاس باقی نہیں رہتی اس کی روح ہر طرح سے سیراب ہوتی نظر آتی ہے۔ رمضان المبارک میں معمولات نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سحری و افطاری کیسے کرتے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قیام لیل اور اعتکاف کا کیا معمول ہے؟ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رمضان میں کیا دعائیں فرماتے؟ تراویح کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ دورہ قرآن کا معمول دوران رمضان کیا تھا؟ نمازِ تہجد اور فضائل تہجد کیا ہیں؟ ان سب کی تفصیلات و فضائل باب ششم رمضان المبارک میں معمولات نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں درج کی گئی ہیں۔

حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معمولات عالیہ کا تذکرہ جمیل کرنے کے بعد باب ہفتم میں رمضان المبارک میں اکابر اسلاف کے معمولات کو خوبصورت پیرائے میں بیان کیا گیا ہے۔ روزہ کی شرائط وجوب، روزہ نہ رکھنے کے شرعی عذر، روزہ کے ارکان، روزے کی نیت کے احکام، سحری وافطاری کے احکام، روزہ توڑنے والی چیزیں، روزے کے مکروہات، روزہ توڑ ڈالنے کا کفارہ تمام شرعی مسائل باب ہشتم ’’روزہ کے احکام و مسائل‘‘ میں وضاحت و صراحت کے ساتھ مدلل انداز میں تحریر کئے گئے ہیں۔

’’فلسفہ صوم‘‘ یہ کتاب صرف رمضان المبارک کے روزوں کی فضیلت کا تذکرہ نہیں کرتی بلکہ باب نہم میں چند نفلی روزوں کی فضیلت کو بھی بیان کیا گیا ہے۔

باب دہم حقیقت اعتکاف کے عنوان سے مدون ہے۔ اعتکاف کے مضمون کو شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہر القادری جملہ حکمتوں کے ساتھ تفصیلاً بیان کرتے ہیں۔ معرفت حق کے لیے تزکیہ روح اور تصفیہ باطن کی خواہش ہر دور میں نیک روحوں کا شیوہ رہا ہے اس تگ و دو میں انہوں نے یہ محسوس کیا کہ معمولات حیات اور دنیاوی مشاغل کو جاری رکھتے ہوئے اپنی منزل کو نہیں پا سکتے لہٰذا انہوں نے رہبانیت کا راستہ اختیار کرتے ہوئے سماجی معاشی اور معاشرتی ذمہ داریوں سے راہ فرار اختیار کرتے ہوئے جنگلوں اور ویرانوں کا رخ کیا۔ قرآن نے ان کے اس تصور حیات کو پسند نہیں کیا۔ اور حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’لا رهبانية فی الاسلام‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسلام کی صورت میں ہمیں ایک مکمل اور جامع نظام حیات دیتے ہوئے رہبانیت جیسی بے جا مشقتوں کے بوجھ سے آزاد کر دیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رہبانیت کا نعم البدل اعتکاف کی صورت میں ہمیں عطا کر دیا ہے۔

شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہر القادری اعتکاف کی مزید تفصیلات پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اعتکاف کی حقیقت خلوت نشینی ہے۔ خلوت نشینی کا فلسفہ کیا ہے؟ انسان آخر خلوت نشینی کیوں اختیار کرتے ہیں؟ ان حقیقتوں سے آگاہ ہونے کے لئے قاری کو اس کتاب کا عمیق مطالعہ کرنا ہوگا تاکہ وہ اعتکاف کی حقیقت سے آگاہ ہو سکے گا۔

نیت و ارادہ کے اعتبار سے اعتکاف کی مختلف انواع ہیں۔ شیخ الاسلام ہماری نیتوں اور ارادوں کی درست سمت کی طرف رہنمائی کرتے ہوئے حقیقت نفس واضح کرتے ہیں اور خبردار کرتے ہیں کہ نفس کی شر انگیزیوں سے محفوظ رہنے کے لئے مجاہدہ کی بھٹی سے گزر کر تزکیہ نفس اور تصفیہ باطن کے لئے کچھ لمحے خلوت نشینی کے گزارنے ہوں گے۔ مقصودِ خلوت نشینی وصلِ محبوب ہے۔ اس موضوع کی اصل روح کو پانے کے لئے ’’فلسفہ صوم‘‘ کو اپنے ہاتھوں میں لے کر اس کے آبدار موتیوں کو اپنے دامن میں سمیٹنا ہوگا۔ اعتکاف کو اس کے مکمل لوازمات کے ساتھ اپنانے کے لئے شیخ الاسلام مدظلہ اعتکاف کے مسائل کو صراحت کے ساتھ بیان کرتے ہیں۔ اعتکاف کے واجب، سنت موکدہ یا مستحب ہونے کے علاوہ دیگر مسائل سے آگاہ کیا گیا ہے۔

باب یاز دہم شب قدر اور اس کی فضیلت سے آگاہی کا باب ہے۔ شب قدر میں خیر و برکت کی حامل رات کیوں عطا ہوئی؟ فضیلت شب قدر کیا ہے؟ شب قدر کو کیوں مخفی رکھا گیا ہے؟ ایک جھگڑا علم شب قدر سے محرومی کا سبب کیسے بنا؟ ان تمام سوالوں کے جواب شیخ الاسلام مدظلہ اپنی کتاب کے آخری باب میں دے رہے ہیں۔ علم کی پیاس بجھانے کے لئے ’’ فلسفہ صوم‘‘ کا مطالعہ ضروری ہے۔

آئیے اپنے روزوں کی روح کو تازہ رکھنے اور اس کو سلامت رکھنے کے لئے ماہ صیام میں ’’فلسفہ صوم‘‘ کا مطالعہ کریں۔ تب ہی صیام اور قیام و اعتکاف کا لطف دوبالا ہو سکتا ہے۔ شیخ الاسلام مدظلہ نے جس انداز میں روزے کی حکمتیں سمجھائی ہیں بالخصوص تزکیہ نفس جیسی بنیادی حکمت کو جس انوکھے اور جدید علمی انداز میں زیرِ بحث لایا گیا ہے اس کی نظیر شاید ہی کہیں مل سکے۔