روزے کے اثرات کیا ہر شخص پر یکساں ہوتے ہیں؟

فریدہ سجاد

اہل ایمان پر امم سابقہ کی طرح روزے اس لیے فرض کیے گئے کہ وہ متقی اور پرہیزگار بن جائیں گویا روزے کا مقصد انسانی سیرت کے اندر تقویٰ کا جوہر پیدا کر کے اس کے قلب و باطن کو روحانیت و نورانیت سے جلا دینا ہے۔ روح اور باطن کو ہر قسم کی آلائشوں سے مزَکیّٰ اور مصفّٰی کرنے کے لیے روزے سے بہتر اور کوئی عمل نہیں کیونکہ روزہ کی وجہ سے تزکیہ نفس اور تصفیہ باطن جیسے پاکیزہ اوصاف پیدا ہوتے ہیں جس سے محبوب حقیقی کا قرب و وصال نصیب ہوتا ہے۔ سال کے گیارہ مہینوں میں نفس اور جسم کو جن بری باتوں کی عادت پڑ جاتی ہے، ان سے چھٹکارا پانے کے لئے روزہ ہماری زندگیوں میں بڑا اہم کردار ادا کرتے ہوئے گناہوں اور جہنم کی آگ سے حفاظت کا سبب بن جاتا ہے۔ اس کی فضیلت بیان کرتے ہوئے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : آدم کے بیٹے کا نیک عمل دس گنا سے لے کر سات سو گنا تک بڑھایا جاتا ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ روزہ اس سے مستثنیٰ ہے، کیونکہ وہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گا‘‘۔ (دارمی، السنن، 2 : 40)

اور وہ لوگ جو روزہ رکھنے کا حقیقی حق ادا نہیں کرتے ان کے بارے میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

کتنے ہی روزے دار ایسے ہیں کہ جن کو روزوں سے سوائے بھوک اور پیاس کے کچھ حاصل نہیں ہوتا، اور کتنے ہی قیام کرنے والے ایسے ہیں جن کو اپنے قیام سے سوائے جاگنے کے کچھ نہیں ملتا۔ مندرجہ بالا احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ روزہ کے اثرات ہر شخص پر روحانی اور جسمانی طور پر یکساں نہیں ہوتے۔ بدقسمتی سے ہم اس مہینے کی اصل روح فراموش کر کے اپنی جہالت اور غفلت کی وجہ سے اس کی انمول سعادتوں سے محروم رہتے ہیں، بعض لوگوں کے نزدیک حلق کے آخری کونے تک خوراک پہنچانا اور پھردن بھر لوگوں کے سامنے اپنے روزے کی تشہیر کرنا ہی روزے کا اصل مقصد ہے، حالانکہ یہ سب اس ماہ کی برکتیں اور رحمتیں ضائع کرنے کے مترادف ہے روزے کی فضیلت اور برکت اپنی جگہ مسلم لیکن اس کی رحمتیں اور برکتیں ہر شخص کے حصے میں آجائیں ممکن نہیں۔ جس طرح معاشرے میں معاشی اور سماجی مقام کے اعتبار سے انسانی زندگی کے مختلف طبقات پائے جاتے ہیں۔ اس طرح دینی و روحانی مدارج و مقامات میں روزہ رکھنے کے لحاظ سے لوگوں کی دو اقسام ہیں۔

1۔ اہل تقویٰ کا روزہ

پہلی قسم خاص لوگوں کی ہے۔ جو احکام خداوندی کی پاسداری کرتے ہیں اور صغیرہ و کبیرہ گناہوں سے اپنے دامن کو بچائے رکھتے ہیں جو دنیا میں تو رہتے ہیں لیکن اُن کے اندر دنیا نہیں رہتی یعنی اُن کا دل دنیاوی خواہشات کا نہیں بلکہ محبت الٰہی کا مرکز ہوتا ہے۔ روزہ سے ان کے سیرت و کردار میں تقویٰ کا جوہر پیدا ہو جاتا ہے۔ اور ان کی زندگیاں لعلکم تتقون کے فرمان ایزدی کی عملی تفسیر بن جاتی ہیں۔ تقویٰ کی بدولت ان کے شب و روز انقلاب آشنا ہو جاتے ہیں اور ہر معاملے میں حلال و حرام کی تمیز کو اپنا شعار بنا لیتے ہیں۔ ایسا روزہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشاد کے مطابق ان کے اور عذاب دوزخ کے درمیان ڈھال بن جاتا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

’’روزہ دوزخ کی آگ سے پوری ڈھال ہے۔ جس طرح لڑائی کے وقت تمہاری ڈھال ہوتی ہے۔‘‘

(ابن ماجه، السنن، کتاب الصيام، 2 : 305، رقم : 1639)

پس روزے کا منتہائے مقصود بھی یہی ہے کہ اللہ بندے کو تمام روحانی مدارج طے کرانے کے بعد مقام رضا پر فائز دیکھنا چاہتا ہے۔ یہ مقام رضا کیا ہے؟ جو روزے کے توسط سے انسان کو نصیب ہو جاتا ہے۔ اس پر غور کریں تو اس کی اہمیت کا احساس اجاگر ہوتا ہے کہ رب تعالی کا اپنے بندے سے راضی ہو جانا اتنی بڑی بات ہے کہ اس کے مقابلے میں باقی سب نعمتیں ہیچ دکھائی دیتی ہیں۔ روزہ وہ منفرد عمل ہے جس کے اجر و ثواب کو رب اور بندے کے درمیان چھوڑ دیا گیا ہے۔

2۔ اہل دنیا کا روزہ

دوسری قسم اُن لوگوں کی ہے جو محض رسماً روزہ رکھتے ہیں اور ان کا روزہ سحری و افطار تک محدود ہوتا ہے۔ وہ روزے کے آداب و شرائط کا مطلقاً لحاظ نہیں رکھتے۔ چنانچہ اکثر و بیشتر حسب ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سوائے بھوکے اور پیاسے رہنے کے ان کے ہاتھ کچھ نہیں آتا۔ وہ لوگ جو روزہ رکھ کر احکام خداوندی کی صریحاً خلاف ورزی کرتے ہیں۔ وہ جھوٹ و غیبت، دھوکہ دہی، فریب اور دیگر افعال قبیحہ کے ارتکاب کو اپنا معمول بنائے رکھتے ہیں۔ ان کے بارے میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ’’اگر کوئی شخص جھوٹ بولنا اور اس پر عمل کو (روزہ رکھ کر) نہیں چھوڑتا تو اللہ تعالیٰ کو اس کی کوئی ضرورت نہیں کہ وہ اپنا کھانا، پینا چھوڑ دے۔‘‘

(بخاری، الصحيح، کتاب الصوم، 2 : 673، رقم : 1804)

ایسے لوگ روزے کے فیوض و برکات سے محروم رہتے ہیں۔ اور نتیجہ خیزی کے اعتبار سے ان کی صلاۃ و صیام بے روح ہے۔ ایسا روزہ افراد ملت پر مثبت اور نفع بخش اثرات مرتب نہیں کر سکتا کیونکہ انسان اگر ایک طرف زہر کے اثر کو مٹانے کے لیے دعا بھی کرے اور دوسری طرف زہر کا استعمال بھی کرے تو ایسی صورت میں دوا کا اثر کس طرح ممکن ہے؟ اس لیے روزہ کا مقصود تبھی حاصل ہوتا ہے، جب انسان اپنے نفس کو پاک اور منزہ کرے۔ رمضان المبارک میں ہمیں بہت سے واقعات اور معاملات دیکھنے کو ملتے ہیں جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ روزہ کے اثرات ہر انسان پریکساں اثر انداز نہیں ہوتے۔

ہم لوگ روزہ تو رکھ لیتے ہیں لیکن اپنی ذات پر تقویٰ کی کیفیت طاری نہیں کرتے۔ روزہ ہمیں یاد الہٰی کا درس دیتا ہے اور ہم حالت روزہ میں وقت گزارنے کے لئے T.V اور Cable پر غیر شرعی نشریات دیکھنے میں مشغول ہوتے ہیں۔ اس دوران ہمیں یہ خیال تک نہیں ہوتا کہ ہم جو پروگرامز دیکھ رہے ہیں۔ وہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حرام قرار دیئے ہیں اور انہی مخرب الاخلاق نشریات کی وجہ سے ہی یہ T.V اور Cable شیطان کا نمائندہ بن چکا ہے۔ حالانکہ T.V اور Cable بذات خود کوئی بری چیز نہیں لیکن استعمال اچھا یا برا ہوتا ہے۔ رمضان المبارک کا ہماری زندگی پر کم از کم یہ اثر تو ضرور ہونا چاہئے کہ ہمارے گھروں میں T.V، ویڈیو اور کیبل وغیرہ پر غیر شرعی پروگرامز چلنے بند ہو جائیں اور ہم اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذکر پر مبنی نعت، قوالی اور خطابات دیکھنا اور سننا شروع کر دیں تاکہ یہ عمل ہمارے گھر میں خیر و برکت کا باعث بن کر ہمیں رمضان المبارک کی رحمتوں اور برکتوں کا حقدار بنا دے۔ اسی طرح ہمارے ہاں اکثر و بیشتر افطاری کے وقت عجیب مضحکہ خیز صورت نظر آتی ہے یہ ہماری مجلسی زندگی کا خاصہ ہے جو الا ماشاء اللہ افراتفری، بدنظمی اور ذہنی انتشار کی آئینہ دار ہے۔ اس کی ایک جھلک افطاری کے وقت بھی نظر آتی ہے۔ ہم روزے کی حالت میں ایک محدود وقت کے دوران کھانے سے تو پرہیز کرتے ہیں لیکن سارا دن روزے کے اوامر و نواہی پر عمل نہ کرتے ہوئے دن بھر بھوک کی کسر افطاری کے وقت نکالتے ہیں اس وقت انواع و اقسام کے کھانوں، رنگ برنگ کے پھلوں اور مشروبات سے مزین دسترخوانوں پر بیٹھے خوش گپیوں میں مگن سائرن بجنے کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں جونہی سائرن بجتا ہے ایک ہنگامہ شروع ہو جاتا ہے اور افطاری کیلئے بھگدڑ مچ جاتی ہے۔ ایسے وقت میں باہر گلیوں، محلوں اور سڑکوں پر بیٹھے ہوئے غریب و مفلس روزہ دار جو اپنے تن و جان کا رشتہ بمشکل برقرار رکھے ہوئے ہیں، ان مسلمان بھائیوں کی ضرورتوں کا احساس کرنا تو درکنار فرض نماز (مغرب) قضا ہونے کا بھی احساس تک نہیں ہوتا۔ نتیجتاً ایسے لوگ روزہ کے حقیقی ثمرات و اثرات سے محروم رہتے ہیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس شخص کو بدبخت قرار دیا جس نے ماہ صیام کو پایا لیکن دوزخ سے رہائی سامان نہ کیا۔

بقول اقبال

روح چوں رفت از صلوٰۃ و ازصیام
مرد نا ہموار، ملت بے امام

’’جب نماز و روزہ سے روح نکل جاتی ہے تو مرد نالائق و ناشائستہ اور قوم بے امام ہو جاتی ہے۔‘‘

گویا بے روح اعمال کی وجہ سے یہ بدبختی انفرادی سطح سے نکل کر اجتماعی سطح تک پہنچ جاتی ہے اور دین سے دوری پوری قوم کے لئے وبال جان بن جاتی ہے۔ لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ اول الذکر قسم یعنی اہل تقویٰ کے طرز عمل کو اختیار کیا جائے جن کے اعمال کا مقصد و مدعا رضائے الہٰی کا حصول ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے حکم سے حالت روزہ میں ایک خاص وقت پر کھانے پینے اور جائز خواہشات سے رک جاتے ہیں۔ اپنی ایسی بنیادی ضروریات کو اطاعت الٰہی کی خاطر اپنے اوپر حرام کر لیتے ہیں جن کو پورا کرنا دوسرے اوقات میں نہ صرف جائز بلکہ فرض ہوتا ہے۔

یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اہل دنیا سے مراد ہر گز وہ شخص نہیں جو دنیاوی اسباب کو استعمال کرے، بلکہ اہل دنیا سے مراد وہ شخص ہے جس کے معاملات، لین دین اور اعمال و نیات میں پہلی ترجیح اللہ رب العزت کی ذات نہ ہو بلکہ اپنی ذات اور دنیا ہو۔ جب اعمال کا معیار محبت الٰہی نہیں ہوگا تو پھر روزے جیسی عظیم عبادت بھی بھوک پیاس کے علاوہ کچھ فائدہ نہیں دے گی۔

لہذا جس طرح روحانی اثرات ہر شخص پر یکساں مرتب نہیں ہوتے۔ اسی طرح جسمانی طور پر بھی روزہ کے اثرات ہر شخص پر مختلف ہوتے ہیں۔ مثلاً ایک شخص ائیرکنڈیشنڈ آفس میں کام کرتا ہے تو دوسرا شخص شدید گرمی اور چلچلاتی دھوپ میں محنت مزدوری کرتا ہے۔ دونوں کے کام کی نوعیت انسانی جسم میں پانی، نمکیات وغیرہ کی کمی اور نقاہت کی کیفیت مختلف ہوگی۔ اسی اعتبار سے روزہ دار کو ان کے صبر و برداشت اور رضائے الٰہی کی کیفیات کے مطابق انہیں اجر و ثواب سے نوازا جائے گا۔

روزے کے ثمرات سمیٹنے کے لئے ضروری ہے کہ ماہ رمضان کی مبارک گھڑیاں اور ساعتیں جو اللہ تعالی نے ہمیں اس سال عطا کی ہیں، معلوم نہیں یہ بابرکت مہینہ اگلے سال نصیب بھی ہو گا یا نہیں لہذا اس خیال کے پیش نظر اپنے ظاہر اور باطن کو منور کرنے کی کوشش کریں۔