حافظ محمد سعید رضا بغدادی

عرفان القرآن کورس

درس نمبر 42 آیت نمبر86۔ 87

(سورۃ البقرہ)

تجوید

مخرج (5) ’’ق‘‘ (قآف)

 کا ہے

’’ق‘‘ کوّے سے مُتصّل زبان کی جڑ اور اوپر کا تالو ٹکرائے تو ’’ق‘‘ ادا ہوتا ہے۔ مثلاً: ’’أَقْ، إِقْ، اُقْ‘‘

مخرج (6): ’’ک‘‘ (کآف) کا ہے

زبان کی جڑ اور اوپر کے تالو، مثلاً

’’ق‘‘ کے مخرج سے ذرا منہ کی جانب ہٹ کر اور دونوں ہونٹوں کو پیچھے کی طرف کھینچ کر ’’ک‘‘ ادا ہوتا ہے۔ اس کی آواز باریک ہوتی ہے۔ مثلًا: ’’اَکْ، اِکْ، اُکْ‘‘

مخرج (7): ’’ج، ش، ی‘‘ کا ہے

وسطِ زبان اور اوپر کا تالو۔ یہاں سے ’’ج، ش، ی‘‘ ادا ہوتا ہے۔ مثلاً: ’’أَجْ، إِجْ، اُجْ/ اَشْ، إِشْ، اُشْ/ أَيْ، إِيْ، اُيْ‘‘

سوال: ج ش، ی کو کیا کہتے ہیں؟

جواب: ان کو حروفِ شجریہ کہتے ہیں۔

ترجمہ

أُولَـئِكَ الَّذِينَ

متن أُولَـئِكَ الَّذِيْنَ
لفظی ترجمہ یہی ہیں وہ جنہوں نے
عرفان القرآن یہی وہ لوگ ہیں

اشْتَرَوُاْ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا بِالْآخِرَةِ فَلاَ يُخَفَّفُ عَنْهُمُ الْعَذَابُ

متن اشْتَرَوُا الْحَيَاةَ الدُّنْيَا بِ الاٰخِرَةِ فَ لَا يُخَفَّفُ عَنْهُمُ الْعَذَابُ
لفظی ترجمہ خرید لی زندگی دنیاکی بدلے آخرت کے پس نہیں ہلکاکیاجائیگا ان سے عذاب
عرفان القرآن جنہوں نے آخر ت کے بدلے میں دنیا کی زندگی خرید لی ہے۔ پس نہ ان پر سے عذاب ہلکاکیا جائیگا

وَلاَ هُمْ يُنْصَرُونَOوَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ وَ

متن وَ لَا هُمْ يُنْصَرُوْنَ وَ لَقَدْ اٰتَيْنَ مُوْسَی الْکِتَابَ وَ
لفظی ترجمہ اور نہ ان کی مددکی جائیگی اور یقینا دی ہم نے موسیٰ کو کتاب اور
عرفان القرآن اور نہ ہی ان کو مدد دی جائے گی۔ اور بیشک ہم نے موسیٰ کو کتاب (توراۃ) عطا کی اور

قَفَّيْنَا مِنْ بَعْدِهِ بِالرُّسُلِ وَآتَيْنَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ الْبَيِّنَاتِ

متن قَفَيْنَا مِنْ بَعْدِهِ بِالرُّسُلِ وَ اٰتَيْنَا عِيْسَی ابْنَ مَرْيَمَ الْبَيِّنَاتِ
لفظی ترجمہ ہم نے بھیجے پے درپے سے اسکے بعد رسول اور دیں ہم نے عیسیٰ بیٹے مریم کو روشن نشانیاں
عرفان القرآن ان کے بعد ہم نے پے در پے (بہت سے) پیغمبربھیجے اور ہم نے مریم کے فرزند عیسیٰ کو روشن نشانیاں عطا کیں۔

وَأَيَّدْنَاهُ بِرُوحِ الْقُدُسِ أَفَكُلَّمَا جَاءَكُمْ رَسُولٌ

متن وَ أَيَّدْنَاهُ هُ بِرُوْحِ الْقُدُسِ أَ فَکُلَّمَا جَاءَ کُمْ رَسُوْلٌ
لفظی ترجمہ اور ہم نے مددکی اس کی  روح کے ساتھ پاکیزہ کیا پس جب بھی آیا تمہارے پاس رسول
عرفان القرآن اور ہم نے پاک روح کے ذریعے ان کی تائید(مدد) کی تو کیا(ہوا) جب بھی کوئی پیغمبرتمہارے پاس وہ (احکام) لایا

بِمَا لاَ تَهْوَى أَنفُسُكُمُ اسْتَكْبَرْتُمْ فَفَرِيقاً كَذَّبْتُمْ وَفَرِيقاً تَقْتُلُونَO

متن بِمَا لَا تَهْوَى اَنْفُسَکُمْ اسْتَکْبَرْتُمْ فَ فَرِيْقًا کَذَّبْتُمْ وَفَرِيْقًا تَقْتُلُوْنَ
لفظی ترجمہ ساتھ اسکے نہیں چاہتے تمہارے نفس تم اکٹرگئے پس بعضوں کو تم نے جھٹلادیا اوربعضوں کو تم قتل کرتے ہو
عرفان القرآن وہ جنہیں تمہارے نفس پسند نہیں کرتے تھے تو تم وہیں اکڑ گئے اور بعضوں کو تم نے جھٹلا دیا اور بعضوں کو تم نے قتل کر دیا

تفسیر

وَلَقَدْ اٰتَيْنَا مُوْسیٰ الْکِتَابَ... الخ

  1. آخرت کے عوض دنیا خریدنے والوں کے لیے عذاب
  2. حضرت موسیٰ علیہ السلام اور سابقہ انبیاء علیہم السلام کی حقانیت
  3. حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی فضیلت
  4. انبیاء سابقین کے ساتھ یہود کی بد سلوکیاں
  5. تکبر، تکذیب انبیاء اور قتل انبیاء

فائدہ : انبیاء علیہم السلام کی تکذیب اور قتل ایسے جرائم بھی تکبر کے باعث ہوئے اس لیے کبر اکثر معاصی، جرائم کا باعث بنتا ہے۔

(تفسیر منہاج القرآن)

البَيِّنٰتِ..

روشن معجزات جیسے مادر زاد اندھے کو بینا کر دینا، کوڑھے کو شفا بخشنا، مردوں کو زندہ کرنا اور غیب کی خبریں دینا وغیرہ

بِرُوْحِ الْقُدُسِ:

اس سے مراد جبرائیل امین علیہ السلام ہیں۔ بعض مفسرین نے اس سے اللہ تعالی کا وہ اسم اعظم مراد لیا ہے جسکی برکت سے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام مردوں کو زندہ کرتے تھے۔

(تفسیرضیاء القرآن)

روح القدس سے مراد علم وحی بھی ہے اور جبرائیل بھی جو وحی کا علم لاتے تھے اور خود حضرت مسیح علیہ السلام کی اپنی پاکیزہ روح بھی جس کواللہ نے قدسی صفات بنایا تھا۔ روشن نشانیوں سے مراد وہ کھلی کھلی علامات ہیں جنہیں دیکھ کر ہر صداقت پسند طالب حق انسان یہ جان سکتا تھا کہ مسیح علیہ السلام اللہ کے نبی ہیں۔

(تفسیر تفہیم القرآن)

تُکَذّبُوْنَ:

وہ جھٹلاتے تھے انبیاء کو جیسے حضرت عیسی علیہ السلام کو جھٹلایا گیا۔

تَقْتُلُوْنَ:

 جیسے سیدنا زکریا اور سیدنا یحییٰ علیہما السلام کو قتل کیا گیا۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد یوشع، داؤد، سلیمان، زکریا، یحییٰ علیہم السلام تشریف لائے۔ حضرت موسیٰ وعیسیٰ علیہما السلام کے درمیان چار ہزار یا ستر ہزار پیغمبر سب بنی اسرائیل سے تھے اور دین موسوی اور تورات کے مبلغ تھے خواہ وہ نبی ایک ہی زمانہ میں متعدد رہے ہوں یا یکے بعد دیگرے آتے رہے ہوں۔

أَيَّدْنَاهُ...

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تائید مختلف اوقات جبرا ئیل امین کے ذریعے ہوتی رہی۔ اول جب کہ نفخہ رحم مادر میں قرار پایا حمل‘ دوم بوقت ولادت شیطانی اثرات سے محفوظ رکھے گئے۔ سوم ساری عمر یہودیوں کے حملوں سے بچایا اور آخر کار زندہ سلامت آسمان پڑ اٹھا لیا۔

عیسیٰ بن مریم: عیسیٰ سریانی زبان کا لفظ ہے بمعنی مبارک اور مریم بمعنی خادم

 (تفسیر جلالین)

حدیث

عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيْرٍ رضي اﷲ عنهما قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : مَثَلُ الْمُؤْمِنِيْنَ فِي تَوَادِّهِمْ وَتَرَاحُمِهِمْ وَتَعَاطُفِهِمْ مَثَلُ الْجَسَدِ، إِذَا اشْتَکَی مِنْهُ عُضْوٌ تَدَاعَی لَهُ سَائِرُ الْجَسَدِ بِالسَّهَرِ وَالْحُمَّی. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَ هَذَا لَفْظُ

مُسْلِمٍ۔

’’حضرت نعمان بن بشیر رضی اﷲ عنہما روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مومنین کی مثال ایک دوسرے پر رحم کرنے، دوستی رکھنے اور شفقت کا مظاہرہ کرنے میں ایک جسم کی طرح ہے، چنانچہ جب جسم کے کسی بھی حصہ کو تکلیف پہنچتی ہے تو سارا جسم بے خوابی اور بخار میں اس کا شریک ہوتا ہے۔‘‘