تاجدار اقلیم محبت حضرت خواجہ اویس قرنی رضی اللہ عنہ

پروفیسر محمد نصراللہ معینی

یمن کے ایک شہر میں بوسیدہ لباس میں کوئی مستانہ وار جارہا ہے۔ شہر کے آوارہ بچے اس کے پیچھے تالیاں بجاتے اور آوازے کستے چلے آرہے ہیں، بچوں نے کنکر بھی مارنا شروع کردیئے۔ لیکن حیرت ہے کہ یہ فقیر کنکریاں مارنے والوں کو نہ روکتا ہے نہ ٹوکتا ہے۔ مسکراتے اور زیر لب گنگناتے وہ اپنی دھن میں چلا جارہا ہے۔ اچانک کسی جانب سے ایک بڑا پتھر اس کے سر سے آٹکراتا ہے۔ زخم سے خون کی ایک پتلی سے لکیر جب پیشانی کو عبور کرنے لگتی ہے تو وہ رک جاتا ہے۔ پھرپتھر مارنے والے بچوں کی طرف رخ کرکے کہتا ہے۔

میرے بچو بڑے پتھر نہ مارو چھوٹی کنکریاں مار کر دل بہلاتے رہو۔ بس ایک ہی پتھر سے اندیشہ اتر گیا۔ ایک منہ پھٹ لڑکا آگے بڑھتے ہوئے کہتا ہے۔

نہیں میرے بیٹے ایسی کوئی بات نہیں۔ میں چاہتا ہوں تمہارا شغل جاری رہے اور میرا کام بھی چلتا رہے۔ کنکریوں سے خون نہیں بہتا۔ پتھر لگنے سے خون بہنے لگتا ہے جس سے وضو ٹوٹ جاتا ہے اور بغیر وضو کے میں اپنے محبوب کے سامنے سجدہ ریز نہیں ہوسکتا۔

یمن کے شہر قرن میں ایک کوچے سے گزرنے والے یہ درویش عشق و مستی کی سلطنت کے بادشاہ حضرت خواجہ اویس قرنی رضی اللہ عنہ تھے۔ کعبہ محبت کا طواف کرنے والوں کا جب بھی ذکر چھیڑے گا تو حضرت خواجہ اویس قرنی رضی اللہ عنہ کا اسم گرامی سرفہرست رہے گا۔

حضرت خواجہ پر ہر وقت سکر اور مستی کی ایک کیفیت طاری رہتی تھی جس کی وجہ سے عوام الناس آپ کو مجنون تصور کرتے، مذاق اڑاتے اور بچے پتھر مارتے۔ چنانچہ آپ کی ولایت اور محبوبیت کا حال لوگوں سے پوشیدہ رہا۔

ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ ’’مرقات شرح مشکوۃ‘‘ میں آپ رضی اللہ عنہ کی ولایت کے اخفا کی وجہ بیان فرماتے ہیں کہ حضرت خواجہ مستجاب الدعوات تھے۔ چنانچہ ایسے لوگوں کی خدمت میں ہر نیک و بد شخص دعا کا طالب ہوتا ہے اور جمالی اولیاء اللہ کسی کو انکار نہیں کرسکتے یہ ممکن نہ تھا کہ نیک کے لئے دعا کرتے اور بروں کو نظر انداز کردیتے چونکہ یہ بات حکمت الہٰی کے خلاف تھی اس لئے ان کا حال مستور رہا۔

حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کمالِ محبت

اللہ تعالیٰ نے حضرت خواجہ اویس قرنی رضی اللہ عنہ کو فطرت سلیمہ اور طبع صالح عطا فرمائی تھی جونہی آپ کے کانوں تک نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کی خبر پہنچی تو دل نے فوراً صداقت کی گواہی دی اور آپ نے اسلام قبول کرلیا پھر تاجدار مدینہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاقِ حسنہ اور اوصافِ حمیدہ سن کر آپ کے دل میں چراغ محبت فروزاں ہوگیا۔

نہ تنہا عشق از دیدار خیزد
بساکیں دولت از گفتار خیزد

یعنی عشق صرف دیدار سے ہی پیدا نہیں ہوتا، بعض دفعہ محبوب کی باتیں سننے سے بھی آتش عشق بھڑک اٹھتی ہے۔ حضرت خواجہ کے من میں یہ آگ ایسے بھڑکی کہ اس نے دنیا و مافیہا سے بے نیاز کردیا۔

دو عالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو
عجب چیز ہے لذت آشنائی

آپ پر ہر وقت وارفتگی کی حالت طاری رہتی لیکن اس سکرو مستی کے باوجود خوداری کا عالم یہ تھا کہ کسی کے سامنے دست سوال دراز نہ کرتے۔ شتر بانی اور گٹھلیاں چن کر گزر اوقات کرتے۔ فجر کی نماز کے بعد اونٹ لے کر شہر سے باہر نکل جاتے اور رات کو واپس لوٹتے۔

حضرت خواجہ اویس قرنی رضی اللہ عنہ تابعین میں شمار ہوتے ہیں بلکہ کتابوں میں آپ کو سید التابعین اور خیرالتابعین کے لقب سے یاد کیا گیا ہے۔ آپ کو سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ظاہری مجلس نصیب نہ ہوسکی اس لئے صحابیت کا درجہ نہ پاسکے روایات میں ہے کہ آپ کی والدہ ضعیف و ناتواں تھیں چلنے پھرنے سے معذور تھیں۔ انہیں چھوڑ کر طویل سفر پر روانہ نہ ہوسکتے تھے۔ اس لئے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر نہ ہوسکے لیکن حقیقت یہ ہے کہ مقام رضا اور مقام محبوبیت پر فائز ہونے والے اولیاء کے لئے بُعدِ مکانی اور بُعدِ زمانی کوئی حیثیت نہیں رکھتا چنانچہ یہ لوگ حضوری کی لذت سے سرفراز ہوتے ہیں بقولِ شاعر۔

گر در یمنی، بامنی، پیش منی
ور بے معنی، پیش منی در یمنی

ترجمہ: اگر تو یمن میں رہتا ہے اور تیرا قلبی تعلق میرے ساتھ جڑا ہوا ہے تو تو میرا ہم نشین ہے اور اگر میرے سامنے بھی بیٹھا ہے لیکن تعلق قلبی میرے ساتھ استوار نہیں تو میرے لئے یمن میں بیٹھا ہوا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ ابوجہل قریب رہ کر بھی دور رہا اور حضرت خواجہ اویس قرنی رضی اللہ عنہ یمن میں رہتے ہوئے بھی دیدار اور حضوری کی لذت سے سرشارہے۔

تذکرۃ الاولیاء میں یہ روایت درج ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے استفسار پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا چشم ظاہری کی بجائے چشم باطن سے انہیں میرے دیدار کی سعادت حاصل ہے۔

محبوب کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت خواجہ اویس قرنی رضی اللہ عنہ کی والہانہ محبت اور عاشقانہ اداؤں کو سنا تو تحسین فرمائی۔ روایات میں ہے کہ محبوب خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کبھی کبھی فرط محبت میں اپنے پیراہن کے بند کھول کر یمن کی طرف رخ کرکے فرماتے۔

انی لا جد نفس الرحمن من قبل اليمن.

مجھے یمن کی طرف سے رحمت کی خوشبو آرہی ہے۔ یہ اویس قرنی رضی اللہ عنہ ہی تھے جن کی بدولت یمن سے نسیم رحمت فضاؤں کو معطر کرتی تھی۔ چنانچہ مولانا جامی اسے شعر کے قالب میں یوں بیان کرتے ہیں۔

بوئے جاں می آید از سوئے یمن
از دم جاں پرور اویس قرن

مسلم شریف کی روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ مجھ سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اے عمر! یمن کی طرف سے ایک شخص آئے گا جس کا نام اویس ہوگا اس کے جسم پر پھلبہری کے داغ ہوں گے صرف ایک داغ درہم کے برابر رہ جائے گا۔ اس کی والدہ بھی ہیں جن کا وہ بے حد خدمتگار ہے اس کی شان یہ ہے کہ جب بھی وہ اللہ کی قسم کھاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے پورا کردیتا ہے۔

تذکرۃ الاولیاء میں لکھا ہے کہ سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کا زمانہ قریب آیا تو صحابہ رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا کہ آپ کا مرقع (گدڑی) کس کو دیا جائے فرمایا اویس قرنی کو۔

چنانچہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے تلاش بسیار کے بعد حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہ کا پتہ معلوم کرلیا۔ حضرت خواجہ اویس قرنی رضی اللہ عنہ کے قبیلے کے ہی ایک آدمی نے کہا وہ تو پاگل اور دیوانہ ہے۔ وہ اس لائق نہیں کہ خلیفہ وقت ان سے ملاقات کرے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہم اسی سے ملنا چاہتے ہیں۔ معلوم ہوا کہ وہ اونٹ چرانے جنگل کی طرف نکل گئے ہیں۔ دونوں صحابی رضی اللہ عنہ جب وہاں پہنچے تو وہ نفل نماز ادا کررہے تھے۔ آہٹ پاکر حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہ نے نماز مختصر کردی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آپ کے ہاتھ پر برص کی علامت دیکھ کر پہچان لیا اور ہاتھ کو بوسہ دیا اور فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کو سلام بھیجا ہے پیراہن مبارک بھی بھیجا ہے۔ حضرت خواجہ اویس قرنی رضی اللہ عنہ نے نہایت تعظیم و تکریم سے وہ پیراہن مبارک لے کر اپنے سرپر رکھ لیا اور پھر ان مہمانوں سے الگ ہوکر اللہ کی بارگاہ میں پیراہن مبارک کے وسیلے سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کی بخشش کے لئے اس وقت تک دعا کرتے رہے جب تک آپ کو قبولیت دعا کا الہام نہ ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ نے قبیلہ مضر اور ربیعہ کی بکریوں کی تعداد کے برابر امتِ محمدیہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بخشنے کا وعدہ فرمایا۔

حضرت شیخ فریدالدین عطار رحمۃ اللہ علیہ اور ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ کے مطابق حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں ان کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دست مبارک پر بیعت کی ان کی طرف سے جنگ صفین میں حصہ لیا اور جام شہادت نوش کیا۔

حضرت خواجہ اویس قرنی رضی اللہ عنہ شہرت اور نام و نمود سے کنارہ کش رہتے اور مستور رہنے کی کوشش کرتے۔ والدہ کے وصال کے بعد حالت یہ تھی کہ اگر ایک جگہ آپ کے روحانی مقامات اور کمالات کا دنیا کو پتہ چل جاتا تو وہاں نقل مکانی کرجاتے اور چھپتے پھرتے آپ اس حدیث قدسی کا مصداق تھے۔

اوليائی تحت قبائی لا يعرفهم غيری.

میرے دوست میرے قبا کے نیچے ہیں جنہیں میرے سوا کوئی نہیں پہچانتا۔

کیمیائے سعادت میں ہے کہ حضرت خواجہ اویس قرنی رضی اللہ عنہ بعض راتیں رکوع میں اور بعض سجدے میں گزار دیتے اور فرماتے یہ رات رکوع والی ہے اور یہ رات سجدے والی۔ کسی نے پوچھا کہ حضرت اس قدر قوت آپ میں کیسے آگئی کہ اتنی لمبی راتیں رکوع اور سجدے میں گزار دیتے ہیں۔ فرمایا کاش ازل تا ابد ایک ہی رات ہوتی جو میں رکوع اور سجدے میں گزار دیتا۔

بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اتنے فضائل کی حامل شخصیت سے صدر اول کے لوگوں کا بے خبر رہنا ممکن نہیںورنہ روایات میں بکثرت ان کا ذکر ہوتا۔ جبکہ امر واقع یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ملاقات کے علاوہ کسی اور صحابی کی ملاقات کا ذکر نہیں ملتا۔

حقیقت یہ ہے کہ خیرالتابعین حضرت خواجہ اویس قرنی رضی اللہ عنہ کا ذکر کتب احادیث و طبقات رجال اور کتب صالحین میں اس کثرت اور تواتر سے ملتا ہے کہ انہیں ایک فرضی شخصیت قرار دینے کا دعویٰ کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔

حدیث شریف کی مستند ترین کتاب صحیح مسلم شریف میں آپ کے فضائل بیان کئے گئے ہیں۔ مسند امام احمد بن حنبل، دلائل بیہقی، مسند ابویعلیٰ اور مستدرک حاکم جیسی احادیث کی مستند کتابوں میں حضرت خواجہ اویس قرنی رضی اللہ عنہ کا تذکرہ ہونا ان کے وجود کے فرضی ہونے کی نفی کرتا ہے۔

طبقات کی جن کتابوں میں آپ کا ذکر ملتا ہے ان میں طبقات ابن سعد، امام عبدالوہاب شعرانی کی الطبقات الکبری، ابو نعیم اصفہانی کی حلیۃ الاولیاء نیز تاریخ ابن عساکر، تہذیب التہذیب، لسان المیزان اور میزان الاعتدال وغیرہ میں آپ کے احوال ملتے ہیں۔ کتب اولیاء میں حضرت داتا علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کی کشف المحجوب، حضرت شیخ فریدالدین عطار کی تذکرۃ الاولیائ، حضرت نوراللہ شوستری کی مجالس المومنین خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ بلکہ اولیاء کاملین کے تذکروں پر مشتمل کوئی کتاب اقلیم عشق کے تاجدار حضرت خواجہ اویس قرنی رضی اللہ عنہ کے ذکر کے بغیر مکمل نہیں ہوتی۔

حیرت کی بات ہے کہ حضرت کے احوال و آثار اور فضائل و مناقب اس قدر کثرت اور تواتر سے مذکور ہونے کے باوجود بعض لوگ آپ کی شخصیت کے منکر ہیں یہ لوگ اپنے دعویٰ میں بعض ان روایات کو بطور دلیل پیش کرتے ہیں جو بہت کمزور ہیں اور جن میں باہم تضاد پایا جاتا ہے۔

چونکہ حضرت خواجہ اویس قرنی رضی اللہ عنہ دنیا کی نظروں سے چھپتے پھرے اور بعض خواص کے علاوہ اہل قرن بھی ان سے واقف نہیں تھے اور جو جانتے تھے وہ بھی انہیں صرف ایک دیوانہ ہی تصور کرتے رہے۔ اس لئے اگر اس دور کے بعض اہل علم نے ان کے بارے عدم واقفیت کا اظہار کیا ہو تو تعجب کی بات نہیں۔

حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کا ایک قول ہے کہ اگر کوئی چیز کسی کے ہاں پایہ ثبوت کونہ پہنچی ہو تو یہ ضروری نہیں کہ دوسروں کو بھی اس کا علم نہ ہو۔

(رسائل و مکاتیب رسالہ دہم بحوالہ لطائف نفیسہ فی فضائل اویسیہ)

ملک عزیز کے نامور محقق اور ادیب ڈاکٹر ایم ایس ناز حضرت خواجہ اویس قرنی سے دور اول کے اکثر علماء کی بے خبری پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں۔

اصولاً ہر زمانے میں ان اشخاص کے حالات و واقعات لوگوں کے علم میں آتے ہیں جو کسی حیثیت سے نمایاں ہوں۔ شہرت کو ناپسند کرنے والے عزت نشینوں کے بارے میں ایک عرصہ تک اہل قلم تک کو واقفیت نہیں ہوتی اور اس کا ایک واضح ثبوت صحابہ کرام کا دور ہے۔ خود صحابہ کرام کے متعلق یہ دعویٰ محال ہے کہ یہ صحابی سے اس عہد کے لوگ آگاہ تھے یا ان کے تمام حالات و واقعات احاطہ تحریر میں لائے گئے۔ آج صرف انہیں صحابہ کے حالات بقدر سعی و جستجو معلوم ہیں۔ جنہوں نے کوئی علمی یا عملی کارنامہ سرانجام دیتے یا سلسلہ روایت میں جن کا کہیں نام آگیا۔ بعض کے صرف نام ہی معلوم ہیں اور یہی صورت حال مدت مدید تک حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہ ایسے گوشہ نشین تابعی کے ذکر و اذکار سے متعلق رہی اس لئے ان کی شخصیت کے متعلق شک پیدا کرنے والی روایات بنظر تحقیق مشتبہ قرار دی جاسکتی ہیں۔

ڈاکٹر ایس ایم ناز کے مطابق ان روایات کی کوئی سند نہیں دی گئی اور یہ بات محدثانہ اصول کے خلاف ہے چنانچہ ایسی تمام تر روایات ساقط الاعتبار اور ناقابل استناد ہیں۔

اب رہا یہ سوال کہ حضرت خواجہ اویس قرنی رضی اللہ عنہ کی ولایت کے اخفا کی وجہ کیا تھی اور آپ دور صحابہ میں کیوں مستور الحال رہے؟ تو اس کا ایک جواب تو وہی ہے جو ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ نے مرقات شرح مشکوۃ میں بیان فرمایا کہ چونکہ حضرت خواجہ مستجاب الدعوات تھے (اور اسکا ثبوت یہ ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ان کی خدمت میں حاضر ہوکر دعا کرانے کی تلقین فرمائی تھی نیز ان کے بارے فرمایا تھا کہ وہ ان لوگوں میں سے ہیں جو قسم اٹھادیں تو اللہ تعالیٰ ان کی قسم پوری فرمادیتا ہے۔ (معینی) چونکہ ایسے لوگوں کی خدمت میں ہر نیک و بد اور مجرم بھی دعا کا طالب ہوتا ہے اور یہ جمالی مردان خدا کسی کو انکار نہیں کرسکتے یہ ممکن نہ تھا کہ نیک کے لئے دعا کرتے اور دوسروں کو نظر انداز کردیتے۔ چونکہ یہ بات حکمت الہٰی کے خلاف تھی اس لئے ان کا حال پوشیدہ رہا۔ دوسری وجہ مستور رہنے کی مولف لطائف نفیسیہ یہ بیان کرتے ہیں کہ اولیاء کی ایک جماعت کا اپنے آپ کو چھپانا اس غیرت کی وجہ سے ہوتا ہے جو محب کو اپنے محبوب کے بارے ہوتی ہے۔ چنانچہ حضرت محی الدین ابن عربی کتاب فتوحات میں لکھتے ہیں۔

طائفہ محبان میں غیرت بہت زیادہ ہوتی ہے اس لئے وہ بسبب غیرت چھپے ہوئے ہوتے ہیں کیونکہ غیرت محبت کا ایک وصف ہے چنانچہ یہ لوگ اپنے محب ہونے کو ظاہر نہیں ہونے دیتے۔

حضرت خواجہ اویس قرنی رضی اللہ عنہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور میں رجال الغیب میں شامل تھے اور یہ لوگ مستورالحال ہوتے ہیں۔ چنانچہ حضرت ملا علی قاری معدن العدنی میں لکھتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد میں قطب ابدال حضرت اویس رضی اللہ عنہ تھے کیونکہ وہ مخفی الحال تھے امام یافعی فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ودیعت شدہ رشک غیرت کی وجہ سے قطب ابدال لازماً مستور الحال ہوتا ہے انہیں کے بارے میں حق تعالیٰ فرماتا ہے۔

اولياء تحت قبائی لا يعرفهم غيری.

(لطائف نفیسہ)

حضرت خواجہ کی دندان شکنی

حضرت خواجہ اویس قرنی رضی اللہ عنہ نے اگرچہ بظاہر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضری نہیں دی تھی تاہم حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عشق میں فنائیت کے مقام پر فائز تھے۔ ایک روایت ہے کہ غزوہ احد میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دندان مبارک کی شہادت کی خبر ملی تو آپ نے بھی اپنا ایک دانت توڑ دیا پھر خیال گزرا کہ پتہ نہیں آقائے دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کونسا دانت مبارک شہید ہوا ہو۔ لہذا ایک ایک کرکے اپنے سارے دانت توڑ لئے۔

اس پر بعض اہل علم کو اعتراض ہے کہ اسلام خود اذیتی کی کب اجازت دیتا ہے؟ چونکہ دانت اس کی نعمت ہیں اس لئے انہیں توڑ دینا کفران نعمت ہے۔ یہی وجہ ہے صحابہ کرام سے ایسا کوئی فعل سرزد نہیں ہوا۔

یہ اعتراض دراصل انسانی کیفیت اور ان کے احکام کی طرف توجہ نہ دینے کی بنا پر پیدا ہوتا ہے۔ انسان کی دو کیفیتیں ہیں۔

حالت صحو

ہوشیاری اور بیداری کی کیفیت اس میں حواس خمسہ اور عقل مکمل طور پر کام کررہی ہوتی ہے اس حالت میں شرع کے تمام احکام اس پر لاگو ہوتے ہیں۔

حالت سکر

یہ مستی اور بے خودی کی کیفیت ہے۔ اس میں انسان از خود رفتہ ہوجاتا ہے۔ اسے تن بدن کا ہوش نہیں رہتا جس طرح کسی جنگ میں ایک تیر حضرت علی شیر خدا رضی اللہ عنہ کے جسم میں پیوست ہوگیا۔ تکلیف کی شدت کے پیش نظر تیر نکالنا دشوار ہوگیا۔ لیکن یہی تیر نماز کی حالت میں بآسانی نکال لیا گیا اور آپ نے جنبش تک نہ کی۔ وجہ ظاہر ہے کہ محبوب حقیقی کی محبت میں تن بدن کا ہوش نہیں رہتا تھا۔

ایسی مستی کی کیفیات میں انسان مرفوع القلم ہوتا ہے۔ لہذا اس پر حالت صحو والے احکام نافذ نہیں ہوسکتے۔

مغلوب الحال وفانی الصفت معذور باشد ایں چنیں کسے راعاصی نہ تو ان گفت

یعنی مغلوب الحال اور فانی صفت لوگ معذور شمار ہوتے ہیں۔ ایسے شخص کو خطاکار نہیں کہا جاسکتا۔

تاجدار یمن خواجہ اویس قرن رضی اللہ عنہ میں کتاب شرعۃ الاسلام کے حوالے سے ایک اور واقعہ درج کیا گیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ دانت آپ نے خود نہیں توڑے بلکہ خودبخود ٹوٹ گئے۔ واقعہ یوں بیان کیا گیا ہے کہ ایک بزرگ کے مرید خانقاہ کے باہر حضرت خواجہ اویس قرنی رضی اللہ عنہ کی دندان شکنی کے متعلق گفتگو کررہے تھے کچھ دیر بعد بزرگ موصوف نے اپنے مریدوں کو اندر بلاکر فرمایا۔ تم جب خواجہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں گفتگو کررہے تھے اس وقت حضرت خواجہ تشریف فرما تھے میں نے اس واقعہ کی آپ سے تصدیق چاہی تو آپ نے فرمایا میرے دانت ہاتھ لگائے بغیر ٹوٹ گئے تھے۔ مصنف کتاب علامہ محمود بن احمد اس پر لکھتے ہیں کہ یہ اعجاز تھا اس تعلق خاص اور عشق کامل کا جو حضرت خواجہ اویس قرنی رضی اللہ عنہ کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تھا جب دونوں میں محبت کمال درجہ پر پہنچتی ہے تو

محب پر محبوب کی تمام کیفیات طاری ہوجاتی ہیں۔ ایسے حالات عاشقان صادق کے اکثر ظہور پذیر ہوتے رہے ہیں۔