درود و سلام کی اہمیت و فضیلت

مجلس ختم الصلوۃ علی النبی (ص) سے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا خصوصی خطاب
(قسط اول)

ترتیب و تدوین : محمد حسین آزاد الازہری

إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًاo

(الاحزاب، 33 : 56)

بیشک اللہ اور ا س کے (سب) فرشتے نبیِ (مکرمّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر درود بھیجتے رہتے ہیں، اے ایمان والو! تم (بھی) اُن پر درود بھیجا کرو اور خوب سلام بھیجا کروo

مذکورہ آیت مبارکہ کی تفسیر میں قاضی عیاض رحمۃ اﷲ علیہ نے الشفاء، (ج : 1، ص : 60) میں لکھا ہے کہ اﷲ تعاليٰ اور اس کے تمام فرشتے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجتے ہیں۔ اس کے بعد مومنوں کو حکم ہوتا ہے کہ اے ایمان والو! تم بھی حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام پر درود و سلام بھیجو۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ یہ آیتِ مبارکہ جو بطورِ خاص حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت و شان، علو مرتبت اور مقام رفیع کے اظہار کے لئے نازل کی گئی ہے۔ اس میں اللہ گ نے پہلے خبر دی ہے کہ

إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ

’’بیشک اﷲتعاليٰ اور اس کے (سب) فرشتے نبءِ (مکرّم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) پر درود بھیجتے رہتے ہیں۔‘‘

اِس خبر میں اﷲ رب العزت نے پہلے اپنا اور ملائکہ کا عمل بیان فرمایا، پھر ہمیں حکم دیا ہے کہ

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًاo

’’اے ایمان والو! تم (بھی) اُن پر درود بھیجا کرو اور خوب سلام بھیجا کرو‘‘

اللہ تبارک و تعاليٰ نے قرآن مجید میں اَلْحَمْد سے وَالنَّاس تک اس مقام کے سوا کسی جگہ پر بھی ایسا حکم نہیں دیا کہ حکم دینے سے پہلے خبر دے کہ میں خود یہ کام کرتا ہوں۔ اس سے یہ حقیقت واضح طور پر سامنے آتی ہے کہ

  1. حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ عظمت و خصوصیت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نصیب ہے، جس کی کوئی اور مثال نہ پورے قرآن پاک میں ہے، اور نہ ہی تمام انبیاء علیھم السلام میں سے کسی نبی اور رسول کے بارے میں اس طرح کی کوئی آیت نازل ہوئی۔
  2. سیدنا آدم علیہ السلام کی عظمت کے اظہار کے لئے جو عمل منتخب کیا اس میں اﷲ تبارک و تعاليٰ خود شریک نہ ہوا بلکہ یہ عمل فرشتوں سے کروایا مگر جب اپنے پیارے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت و شان بیان کرنے کا وقت آیا تو دنیا والوں کو واضح طور پر مطلع کر دیا کہ سنو! میرے محبوب کی شان ملاء اعليٰ میں کیا ہے، وہاں پر ایک ہی ذکر ہوتا ہے جو اﷲ بھی کرتا ہے اور اس کے فرشتے بھی۔

یہ بات بڑی اہمیت کی حامل ہے کہ اﷲ تعاليٰ خود تو اپنا ذکر نہیں کرتا اور نہ اپنی تسبیح بیان کرتا ہے بلکہ وہ صرف ایک ہی ذکر کرتا ہے جس کے متعلق قرآن حکیم میں واضح طور پر فرمایا گیا ہے کہ اﷲ تعاليٰ ہر لحظہ اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر بلند کرتا ہے۔ ایک مقام پر فرمایا :

وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکًO

(الم نشرح، 94 : 4)

’’اور ہم نے آپ کی خاطر آپ کا ذکر (اپنے ذکر کے ساتھ ملا کر دنیا و آخرت ہر جگہ) بلند فرما دیا۔‘‘

اور دوسرے مقام پر فرمایا :

إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ

(الاحزاب، 33 : 56)

’’بیشک اللہ اور اس کے (سب) فرشتے نبءِ (مکرمّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) پر درود بھیجتے رہتے ہیں۔‘‘

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت ابو العالیہ تابعی رحمۃ اللہ علیہ سے روایت کیا ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اﷲ تعاليٰ کی طرف سے درود بھیجنے کا مطلب یہ ہے :

صَلٰوةُ اﷲِ ثَنَآؤُه عَلَيهِ عِندَ مَلَائِكَةِ

(بخاری، الصحيح، کتاب التفسير، تفسير سورة الاحزاب، 4 : 282)

’’اﷲ تعاليٰ ملائکہ کے اجتماع میں (اپنی شان کے لائق) اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان بیان کرتا ہے۔‘‘

کیونکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان وہی جانے جس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو شان سے نوازا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اﷲ تعاليٰ کو اپنی شان کے مطابق علم تھا کہ میں نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعریف کرتے رہنا ہے، لہذا پہلے ہی نام ’’محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )‘‘ رکھ دیا یعنی وہ ذات جس کی بار بار اور بے حد و حساب تعریف کی جائے۔

مذکورہ حدیث میں

ثَنَاؤُه عَلَيْهِ عِنْدَ مَلَائِكَةِ

(ملائکہ کے سامنے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان بیان کرنا) سے معلوم ہوا کہ ملائکہ کے بے حد و حساب اجتماع میں اﷲ تعاليٰ ان کے سامنے اپنی شان کے لائق اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت و شان بیان کرتا ہے گویا سارا عرش، ملاء اعليٰ اور پوری کائنات گوشۂ درود ہے جس میں اﷲ تعاليٰ فرشتوں کو بلا کر ارشاد فرماتا ہے کہ آؤ! میرے ساتھ شریک ہو جاؤ۔

درود میں غلامانِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حصہ

ایک اور مقام پرحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کے غلاموں پر درود بھیجنے کا ذکر آیا ہے۔ جب آیت کریمہ :

إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ

نازل ہوئی توصحابہ کرامث نے آپس میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اﷲ تعاليٰ جو بھی نعمت آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عطا کرتا ہے اس میں سے ہمارے پیکر جود و سخا آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ازراہِ لطف و کرم امت کے لئے حصہ ضرور عطا کرتے ہیں۔ یہ آیت مبارکہ جس میں اﷲ اور اس کے فرشتے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجتے ہیں اتنی عظیم نعمت و فضیلت ہے جس میں سے ہمیں بھی کچھ نہ کچھ ضرور عطا ہوگا۔ چنانچہ سیدنا ابو بکر صدیق ص نے اس سلسلے میں بارگاہِ محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں عرض کیا : یا رسول اﷲ! کیا اس کرم اور خاص نعمت سے ہمیں بھی حصہ عطا ہو گا؟ اِس پر اﷲ تبارک و تعاليٰ کی طرف سے حضرت جبرائیل ں نے حاضر خدمت ہو کر آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خوشخبری دیتے ہوئے محبت بھرا پیغام پہنچایا :

هُوَ الَّذِيْ يُصَلِّيْ عَلَيْکُمْ وَمَلَائِكَتُه لِيُخْرِجَکُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِط وَکَانَ بِالْمُؤْمِنِيْنَ رَحِيْمًاo

(الاحزاب، 33 : 43)

’’وہی ہے جو تم پر درود بھیجتا ہے اور اس کے فرشتے بھی، تاکہ تمہیں اندھیروں سے نکال کر نور کی طرف لے جائے اور وہ مومنوں پر بڑی مہربانی فرمانے والا ہے‘‘

اس آیت مبارکہ سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ جہاں درود پڑھا جائے وہاں نور پیدا ہوتا ہے پس جہاں نور پیدا ہوتا ہے وہاں اندھیرا ختم ہو جاتا ہے۔ لہٰذا درود و سلام پڑھنے والے اہلِ نور ہوتے ہیں اور درود نہ پڑھنے والے اہلِ ظلمت ہوتے ہیں۔ چنانچہ مذکورہ آیت میں امتیوں کے لئے بھی خوشخبری ہے۔ اوّل الذکر آیتِ مبارکہ اور اس آیتِ مبارکہ کے اسلوب بیان میں ایک واضح فرق ہے۔ اس آیت میں جو فعل ہے اس میں صیغہ واحد استعمال ہوا ہے۔ اﷲ تعاليٰ نے يُصَلِّيْ کے فعل کو اپنے ساتھ خاص کرلیا ہے۔ واؤ عطف لگا کر فرشتوں کا الگ ذکر کیا ہے۔ یعنی جب مومنوں پر درود بھیجنے کا ذکر کیا تو فرمایا :

يُصَلِّيْ عَلَيْکُمْ وَمَلَائِكَتُه

یعنی میں الگ بھیجتا ہوں اور فرشتے الگ بھیجتے ہیں پھر اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر بھیجے جانے والے درود میں فرشتوں کو فرمایا آؤ مل کر ان پر درود بھیجتے ہیں تو معلوم ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر انفرادی اور اجتماعی طور پر بھی درود و سلام پڑھنا اﷲ تعاليٰ اور فرشتوں کی سنت ہے۔

فرشتوں کو درود میں ساتھ ملانے کا سبب

اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب اﷲتعاليٰ خود حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجتا ہے تو اس کی کیا ضرورت ہے کہ فرشتوں کو بھی ساتھ ملائے کیا اس کا اپنا درود بھیجنا کافی نہیں ہے؟

اس سوال کا جواب امام رازی رحمۃ اﷲ علیہ ’التفسیر الکبیر، 25 : 228‘ میں تحریر کرتے ہیں کہ جن پر باری تعاليٰ ہر وقت درود بھیجتا رہتا ہے انہیں کسی اور کی کیا محتاجی ہے۔ وہ فرشتوں کو اس لئے ساتھ ملاتا ہے تاکہ فرشتوں کو بھی ایسا کرنے سے شرف و عزت ملے۔ جب اﷲ تعاليٰ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجتا ہے تو آقا ں کو عزت ملتی ہے مگر جب فرشتے اور مخلوقات آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود و سلام بھیجتے ہیں تو اس سے درود بھیجنے والوں کو عزت ملتی ہے اور ان کی اپنی شان بلند ہوتی ہے۔ حدیث مبارکہ میں ہے کہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

مَنْ صَلَّی عَلَيَّ مِنْ اُمَّتِي صَلَاةً مُخْلِصًا مِنْ قَلْبِهِ صَلَّی اﷲُ عَلَيْهِ بِهَا عَشْرَ صَلَوٰاتٍ وَرَفَعَهُ بِهَا عَشْرَ دَرَجَاتٍ، وَکَتَبَ لَهُ بِهَا عَشْرَ حَسَنَاتٍ وَمَحٰی عَنْهُ عَشْرَ سَيَاتٍ.

(نسائی، السنن الکبری، 6 : 21، رقم : 9892)

’’میری اُمت میں سے جو بھی خلوص نیت سے مجھ پر ایک دفعہ درود بھیجتا ہے اللہ تعاليٰ اس کے بدلہ میں دس مرتبہ اس پر (بصورتِ رحمت) درود بھیجتا ہے اور اس کے دس درجات بلند فرما دیتا ہے اور دس نیکیاں اس کے حق میں لکھ دیتا ہے اوراس کے دس گناہ معاف کر دیتا ہے۔‘‘

یعنی اس کی اپنی بخشش ہوتی ہے، اس کے لئے جنت کا راستہ ہموار ہوتا ہے اور وہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی شفاعت کا حقدار ٹھہرتا ہے۔

دوسری حدیث میں آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا :

إِنَّ أَوْلَی النَّاسِ بِي أَکْثَرُهُمْ عَلَّي صَلَاةً.

(خطيب بغدادی، الجامع الاخلاق الراوی وآداب السامع، 2، 103، رقم : 1304)

’’قیامت کے روز لوگوں میں سب سے زیادہ میرے نزدیک وہ شخص ہو گا جو مجھ پر سب سے زیادہ درود بھیجنے والا ہو گا۔‘‘

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کوئی ایسا فرمان نہیں ملتا کہ اُمتیوں کے درود و سلام سے میری عزت و تکریم بلند ہوتی ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فائدہ صرف اﷲ تعاليٰ کے درود کا ہوتا ہے۔ اﷲ تعاليٰ کا درود حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہر ایک سے بے نیاز کر دیتا ہے۔

اسی طرح مومنوں کو حکم دیا گیا کہ

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًاo

(الاحزاب، 33 : 56)

’’اے ایمان والو! تم (بھی) ان پر درود بھیجا کرو اور خوب سلام بھیجا کرو‘‘

امام فخرالدین رازی رحمۃ اﷲ علیہ نے فرمایا ہے کہ مومنوں کو اللہ تعاليٰ نے اس لئے آقا علیہ السلام پر درود بھیجنے میں شامل کیا تاکہ مومن بھی شفقت و رحمت کے مستحق ٹھہریں۔

درود شریف قطعی القبول عمل ہے

یاد رکھیں! کوئی عمل اور عبادت ایسی نہیں جس کا قبول ہونا حتمی اور قطعی ہو جیسے نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ، صدقہ و خیرات، جہاد و دیگر اعمال صالحہ اور ہر عبادت ظنی القبول ہے چاہے مولا قبول کرے چاہے نہ کرے مگر درود و سلام ایسا عمل ہے جو قطعی القبول ہے۔ اِدھر درود پڑھنے والے نے درود پڑھا اور اُدھر اسی لمحے اسے شرفِ قبولیت بخشا جاتا ہے۔ فاسق وفاجر اور گنہگار کا نیک عمل تو رد ہوسکتا ہے مگر درود و سلام ہرگز رد نہیں ہوتا کیونکہ اس کا عامل اس کی اپنی ذات نہیں بلکہ خدا کی ذات ہوتی ہے۔ اسی لئے یہ قطعی القبول ہے جیسے نماز پڑھنا اس کا حکم ہے اس کا قائم کرنا ہم پر فرض ہے اس لئے ہم کہتے ہیں :

اِيَاکَ نَعْبُدُ وَاِيَاکَ نَسْتَعِيْنُo

(الفاتحه، 1 : 4)

’’(اے اللہ!) ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور ہم تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں۔‘‘

مگر درود شریف پڑھنے کے متعلق ارشاد فرمایا گیا :

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًاo

(الاحزاب، 33 : 56)

’’اے ایمان والو! تم (بھی) ان پر درود بھیجا کرو اور خوب سلام بھیجا کرو۔‘‘

ایک ایمان افروز نکتہ

ارشادِ ربانی کے تحت ہمارے لئے درود پڑھنا فرض قراردیا گیا۔ اب چاہیے تو یہ تھا کہ ہم جواب میں یوں کہتے :

اِنَّا نُصَلِّي عَلَيْکَ يَا رَسُوْلَ اﷲ

(یا رسول اﷲ! بے شک ہم آپ پر درود بھیجتے ہیں)

یا یوں کہتے :

نَحْنُ نُصَلِّي عَلَيْکَ يَا رَسُوْلَ اﷲ

(یا رسول اﷲ! ہم آپ پر درود بھیجتے ہیں)

مگر اس کی بجائے ہمیں درود پڑھنے کا طریقہ یوں سکھایا گیا کہ :

اللَّهُمَ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ

’’اے اﷲ تو محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) پر درود بھیج۔‘‘

حالانکہ اس نے ہمیں حکم دیا تھا کہ اے ایمان والو! صَلُّوا عَلَيْہِ (تم درود بھیجو) بجائے اس کے کہ ہم کہتے کہ ہم درود بھیجتے ہیں۔ ہم نے پلٹ کر اﷲ تعاليٰ ہی سے عرض کیا مولا تو ہی بھیج۔ اس میں حکمت یہ ہے کہ اﷲ تعاليٰ فرماتا ہے کہ بندے تو جتنا بھی نیک اور صالح ہو جائے پھر بھی عیب، نقص اور کمزوری سے پاک نہیں ہو سکتا جبکہ میرا محبوب طاہر و مطہر ہے۔ لہٰذا میری بارگاہ میں درخواست کرو کہ اے اﷲ! ہم اس قابل نہیں ہیں۔ لہٰذا تو ہی اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اپنی شان کے لائق ہماری طرف سے درود بھیج دے۔ اﷲ تعاليٰ فرماتا ہے کہ میں اپنے درود کو تو اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اپنی شان کے مطابق بھیجتا ہی ہوں تمہارے حصے کا بھی میں ہی بھیجوں گا۔ کیونکہ میرے سوا میرے مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود نہ کوئی بھیج سکتا ہے اور نہ ہی بھیجنے کا حق ادا کر سکتا ہے۔ میں اپنا بھی بھیجوں گا اور تمہارا بھی اور جو مجھے یہ درخواست کرے گا اس کے نامہ اعمال میں بھی درود لکھا جائے گا۔ یہ اس لئے کہ ہمیں مقامِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نہ ادراک ہے اور نہ ہی معرفت، بقول شاعر :

اگر خاموش رہوں میں تو تُو ہی ہے سب کچھ
جو کچھ کہا تو تیرا حسن ہوگیا محدود

شانِ محبوبیت

اس میں ایک اور نکتہ یہ بھی کارفرما ہے کہ مذکورہ پوری آیتِ مبارکہ میں اﷲ تعاليٰ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بات کی ہے مگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام نہیں لیا۔ دیگر انبیاء کی جب بھی بات کی ہے ان کا نام لے کر بلایا ہے۔ فرمایا :

يٰا اٰدَمُ اسْکُنْ اَنْتَ وَزَوْجُکَ الْجَنَّةَ.

(البقرة، 2 : 35)

’’اے آدم! تم اور تمہاری بیوی اس جنت میںرہائش رکھو۔‘‘

اسی طرح حضرت نوح ں کو مخاطب کر کے فرمایا :

يٰا نُوْحُ اهْبِطْ بِسَلٰمٍ مِّنَّا.

(هود، 11 : 48)

’’اے نوح! ہماری طرف سے سلامتی اور برکتوں کے ساتھ (کشتی سے) اتر جاؤ۔‘‘

حضرت ابراہیم ں کا نام لیا تو فرمایا :

وَنَادَيْنٰهُ اَنْيٰ اِبْرٰهِيْمُ o قَدْ صَدَّقْتَ الرُّئْيَا.

(الصّٰفٰت، 37 : 104-105)

’’اور ہم نے اسے ندا دی کہ اے ابراہیم! واقعی تم نے اپنا خواب (کیا خوب) سچا کر دکھایا۔‘‘

حضرت داؤد ں کو پکارا تو فرمایا :

يٰا دَاودُ اِنَّا جَعَلْنٰکَ خَلِيْفَةً فِی الْاَرْضِ

(ص، 38 : 26)

’’اے داؤد! بے شک ہم نے آپ کو زمین میں (اپنا) نائب بنایا۔‘‘

حضرت عیسيٰ علیہ السلام سے خطاب کیا تو فرمایا :

يٰا عِيْسٰی اِنِّيْ مُتَوَفِّيْکَ وَرَافِعُکَ اِلَيَ

(اٰل عمران، 3 : 55)

’’اے عیسيٰ! بیشک میں تمہیں پوری عمر تک پہنچانے والا ہوں۔‘‘

حضرت زکریا ں کو بلایا تو فرمایا :

يٰا زَکَرِيَآ اِنَّا نُبَشِّرُکَ

(مريم، 19 : 7)

’’اے زکریا! بے شک ہم تمہیں خوشخبری سناتے ہیں۔‘‘

اسی طرح جب حضرت یحیيٰ علیہ السلام کو پکارا تو فرمایا :

يٰا يَحْيٰ خُذِ الْکِتٰبَ بِقُوَّةٍ

(مريم، 19 : 12)

’’اے یحیيٰ! (ہماری) کتاب (تورات) کو مضبوطی سے تھامے رکھو۔‘‘

مذکورہ بالا چند مثالوں سے معلوم ہوا کہ اﷲ تبارک و تعاليٰ نے دیگر انبیاء علیہم السلام کو جب بھی بلایا تو براہِ راست نام لے کر بلایا، مگر اَلحَمْد سے وَالنَّاس تک پورا قرآن گواہ ہے کہ جب اپنے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی باری آئی تو اﷲ تعاليٰ نے کہیں بھی آپ کو نام لے کر نہیں بلایا مثلاً :

1. اِنَّ اَوْلَی النَّاسِ بِاِبْرٰهِيْمَ لَلَّذِيْنَ اتَّبَعُوْهُ وَهٰذَا النَّبِيُ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْاط وَاﷲُ وَلِيُ الْمُؤْمِنِيْنَo

(آل عمران، 3 : 68)

’’بیشک سب لوگوں سے بڑھ کر ابراہیم کے قریب (اور حقدار) تو وہی لوگ ہیں جنہوں نے ان (کے دین) کی پیروی کی ہے اور (وہ) یہی نبی اور (ان پر) ایمان لانے والے ہیں، اور اﷲ ایمان والوں کا مددگار ہے۔‘‘

مذکورہ آیت میں ایک نبی کو جو جد الانبیاء ہیں کا نام لے کر پکارا ہے مگر نبی آخر الزماں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نام لے کر نہیں بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کہہ کر پکارا

اور ایک جگہ فرمایا :

2. يٰاَيُهَا النَّبِيُ اِنَّآ اَرْسَلْنٰکَ شَاهِدًا وَّمُبِشِّرًا وَّنّذِيْرًاo

(الاحزاب، 33 : 45)

’’اے نبِیّ (مکرّم!) بیشک ہم نے آپ کو (حق اور خَلق کا) مشاہدہ کرنے والا اور (حُسنِ آخرت کی) خوشخبری دینے والا اور (عذابِ آخر ت کا) ڈر سنانے والا بنا کر بھیجا ہے۔‘‘

3.  يٰاَيُهَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَيْکَ مِنْ رَّبِّکَ.

(المائده، 5 : 67)

’’اے (برگزیدہ) رسول! جو کچھ آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے (سب لوگوں کو) پہنچا دیجئے۔‘‘

4. يٰاَيُهَا الْمُزَّمِّلُ.

(المزمل، 73 : 1)

’’اے کملی کی جھرمٹ والے (حبیب!)‘‘

5. يٰاَيُهَا الْمُدَّثِّرُ.

(المدثر، 74 : 1)

’’اے چادر اوڑھنے والے (حبیب!)‘‘

پھر کہیں يٰسین اور کہیں طٰحٰہ کہہ کر پکارا۔ ہر جگہ اور ہر دفعہ نئے القاب استعمال کئے اور پیار بھرے ناموں سے پکارا۔ مگر ذاتی نام سے نہیں بلایا، جس سے معلوم ہوا کہ اللہ رب العزت نے ہمیں اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم و تکریم اور ادب و احترام کی تعلیم دی ہے، لہٰذا ہمیں چاہیے کہ ہم جب بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام لیں تو بڑی محبت و عقیدت اور ادب و احترام سے لیا کریں۔ نام سے پہلے سیدنا ومولانا ملا کر پڑھیں اس طرح نام کی برکت بھی ملے گی اور نام الاپنے کی برکت بھی نصیب ہو گی۔

ایک نہایت ہی اہم بات جو اس آیت مبارکہ سے سامنے آتی ہے۔ وہ یہ ہے کہ کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء علیہم السلام مبعوث فرمائے گئے، مگر کسی بھی نبی کی اُمت کو اپنے نبی کے لئے درود بھیجنے کا حکم نہیں دیا گیا۔ یہ پہلا حکم ہے جو اُمت محمدیہ کو اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجنے کے لئے دیا گیا ہے۔ اللہ تعاليٰ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رفعت و بلندی درجات کے لئے خود بھی ہمہ وقت درود بھیجتا رہتا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے امتیوں کو بھی ایسا کرنے کا حکم فرمایا۔

قرآن مجید کے بعد اب احادیث نبویہ سے درود و سلام کی فضیلت اجاگر کی جاتی ہے۔

(جاری ہے)