قرآن حکیم اور ذکر مصطفی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

حافظ شکیل احمد طاہر

قرآن حکیم، فرقان مجید، صحیفہ آخرین، کتاب ہدایت، منزل من اللہ، پیغام سماوی سراپا نور و ہدایت ہے جس پہلو کا مطالعہ کریں اوراق نور صرف منزل کے نشان ہی نہیں دیکھاتے بلکہ ہاتھ تھام کے منزل مراد تک لے جاتے ہیں۔ کوئی الہام، اسقام اور ابہام فکر قرآن میں ہرگز نہیں۔ واضح، بین اور روشن ہے۔ حضور خواجہ کائنات، آقائے کونین، فاتح بدروحنین، جد حسنین، امام الحرمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر حسن و برکت، ذکر نور و نکہت، ذکر سعادت و نعمت اور نور مبین کا مرکزی و محوری موضوع ہے۔ 6666 آیات نور کا ہر کلمہ ذکرِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ یہ کوئی جذباتی غیر حقیقی امر نہیں حضرت شیخ محقق، محقق برحق، امام برحق، عبدالحق محدث دہلوی نے اپنے تذکرہ’’اخبارالاخیار‘‘ میں سر زمین ہند میں ایک تفسیر قرآن حکیم کا ذکر کیا ہے جس کا مخطوطہ آپ نے خود ملاحظہ فرمایا۔ اس کا ایک ایک حرف ذکرو نعت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نکات عظیمہ‘ مضامین عالیہ سے پرنور ہے۔ قرآن صاحب قرآن کی عظمتوں، رفعتوں، سطوتوں کے کیا کیا باب کھولتا ہے۔ اور ذہن پہ نور کی کیا کیا قوس و قزاح بکھیرتا ہے۔ محبتوں کی کون سی وادیاں کھولتا ہے۔ نظر کو کونسے افلاک عطا کرتا ہے۔ عقل و دانش کو کیا عظمتیں عطا کرتا ہے۔ آیئے رخ والضحٰی کی ضوفشانیاں اوراق قرآن میں دیکھیں۔ جبینِ والفجر کی تابانیاں سطور قرآن میں دیکھیں۔

1۔ عظمت و رفعت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

قرآن حکیم نے انبیاء و مرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمتوں اور رفعتوں کے ابواب رقم کئے۔ الہامی، سماوی کتب و صحائف میں آج صرف اور صرف قرآن عظیم نظر آتا ہے بلکہ محرف کتب کا تقابلی مطالعہ قرآنی عظمت کا بین ثبوت ہے۔ اسی سے تصور نبوت و رسالت کے اعليٰ، برتر، عظیم تر خدوخال اور نقوش واضح ہوتے ہیں اور جہاں تک آقائے ابد قرار، حضور حبیب کردگار کا ذکر پرعظمت، پررفعت، پرسطوت، پر منزلت، پرتمکنت ہے وہ اوج کمال پہ ہے۔ آیئے اپنے خودساختہ، خود پرداختہ تصورات سے تائب ہوں اور فکر قرآن کو دل و دماغ پہ رقم کریں اللہ تعاليٰ کا فرمان

وَکَانُواْ مِنْ قَبْلُ يَسْتَفْتَحُوْنَ عَلَی الَّذِيْنَ کَفَرُوْا

کے مطابق اے محبوب مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کے اس بزم گیتی میں آنے سے قبل اہل کتاب آپ کی عظمتوں کے شناسا تھے، آپ کی رفعتوں کے قصیدہ خواں تھے اور جب دوسری اقوام و ملل سے واسطہ پڑتا تو آپ کا نام نامی، اسم گرامی سے ہزار برکت لیتے اور بار الہ میں توسّل اسم محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پیش کرتے اور فتح و نصرت ان کے قدم چومتی، بلائیں راہ بدل لیتیں، مشکلیں حل ہوجاتیں، دقتیں کافور ہوجاتیں، شدائد ہوا ہوجاتے ان کا وجود باجود لاکھوں کرم نوازیوں کا باب کیوں نہ کھولے۔

جدالانبیاء حضرت ابراہیم علیہ السلام خانہ خدا کی تعمیر کے بعد خداوند دو عالم کے حضور دست بدعا ہوئے۔ مانگتے مانگتے جب نکتہ کمال پہ پہنچے تو نبی باکمال، ابن باکمال، مرسل باکمال کے لئے الفاظ مبارک کے پھول لبوں پہ سج سج گئے۔ عرض کی

رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيْهِمْ رَسُوْلاً

’’بار الہ، مجھے مصطفی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بابا بنادے۔‘‘

وَمِنْ ذُرِّيَتِنَا اُمَّةً مُسْلِمَةً لَّکَ

’’اور جب سلسلہ نسب و نسل جلوہ ا فروز ہو اس کے فرد فرد کو چادر حفاظت و طہارت عطا کر۔‘‘ قَلبِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں قبلہ براہیمی کی خواہش پہروں سے مچلتی تھی۔ لیکن جب آرزو مبارک بن کے دوران نماز آئی اور سوئے آسماں دیکھا تو دوران نماز پوری کردی گئی۔

اجابت کا سہرا عنایت کا جوڑا
دلہن بن کے نکلی دعائے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

ایک ہی مقام پہ خداوند دو عالم نے پندرہ مختلف پیراؤں، اسالیب، انداز ہائے کلام، میں فرمایا

’’فَولِّ وَجْهَکَ‘‘ فَوَلُّوْا وُجُو هَکُمْ‘‘

محبوب! چہرہ نور فزا، رخ والضحٰی، قبلۂ براہیمی کی طرف پھیر لیںکا حکم ہوا

وَيَکُونُ الرَّسُوْلُ عَلَيکُمْ شَهِيْدًا

میں وہ عظمت سے ہمکنار کیا، بہرہ یاب کیا کہ کائنات تحت و فوق دنیائے یمین و لیسار، عوالم سماوی و ارضی، اکوان مرئی و غیر مرئی کو اپنے محبوب محتشم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پہ آشکار کردیا۔ آپ ملاحظۂ کون و مکاں یوں فرمائیں جیسے ہتھیلی پہ رائی کا دانہ۔ آپ والی مدینہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمتوں اور رفعتوں کا عالم یہ ہے کہ کتب ماسبق، صحائف ماقبل میں جگہ جگہ آپ کی عظمتوں کے ابواب کے ابواب نازل فرمائے۔ امم ماضیہ، امم سابقہ کا فرد فرد کیوں نہ جانے قرآن گواہ ہے کہ

يَعْرِفُوْنَه‘ کَمَا يَعْرِفُوْنَ اَبْنَاءَ هُمْ

’’وہ یوں پہنچانتے جیسے ماں ہجوم میں اپنا بچہ پہچان لیتی ہے۔‘‘

فَلَا وَرَبِّکَ لَا يُوْمِنُوْنَ حَتّٰی يُحَکِّمُوکَ

محبوب پیارے، دو عالم تجھ پہ نثار بھلا اس کو ایمان سے واسطہ کیا جو تجھے حاکم و حکم نہ مانے۔ جو تیری حاکمیت مطلقہ کونہ مانیں۔ جو عقل قربان کن بپیشِ مصطفی کا قائل نہ ہو، اطاعت و تابعداری مصطفی کی دہلیز پہ ہاتھ باندھے نہ کھڑا ہو۔ آج جس کے دامن میں کوئی ٹکڑا ہے وہ ٹکڑا در مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ملا ہے۔

کُلاَّ نُمِدُّ هٰؤُلآءِ وَهٰوءُ لَاءِ مِنْ عَطَاءِ رَبِّکَ

منگتے تو ہیں منگتے مجھے شاہوں میں دیکھا دو
جس کو مری سرکار سے ٹکڑا نہ ملا ہو

لَعَمْرُکَ اَنَّهُمْ لَفِيْ سَکْرَتِهِمْ يَعْمَهُوْنَ

حسنین کے نانا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، فاطمۃ الزہراء کے بابا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تیری کتاب زندگی کے ورق ورق کی قسم، ہر نوری سطر کی قسم، فرمایا لَعَمْرُکَ تیری ساعت ساعت، گھڑی گھڑی، لمحہ لمحہ کی قسم آپ کی عظمتوں کا کیا احاطہ کہ آپ تشریف لائے ایسے ہی منفرد، ممیز اسلوب قرآنی میں فرمایا

لَقَدَْ منَّ اللّٰهُ عَلَی الْمُومِنِيْنَ اِذْ بَعَثَ فِيْهِمْ رَسُوْلًا

’’ضرور بضرور خداوند دو عالم نے تم پہ احسان عظیم، کرم عظیم، فرمایا کہ آپ پیارے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اے خاکیو، ناسیو، ارضیو، تم میں مبعوث فرمایا۔

 لَااُ قْسِمُ بِهٰذَا الْبَلَدْ

اے دعائے خلیل، اے مژدہ مسیح! جہاں تیرے نور بانٹتے قدم آئیں ان جگہوں کی قسم۔ اے سیاح لامکاں تو جن گلیوں میں چلے اس کے ذروں کی قسم، جو زمین تیرے قدم چومیں، جو فضائیں تیرے لب و رخسار چومیں اس کی قسم۔

خنک شہرے کہ آنجا دلبر است

لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِيْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ

اے والئی دارین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تیرے پیکر اتم، تیرے وجود مطہر کو نمونہ کمال، طریقہ اکمل بنایا۔ ہر راستی آپ کے قدموں سے چمٹ جانے میں ہے۔ آج ہم در بدر ٹھوکروں کی نظر کیوں؟قعرِ مزلّت ہمارا مقدر کیوں؟ اس طریقہ اعليٰ کو چھوڑ کے مغرب کی دہلیز پہ سجدہ ریز ہیں۔

وَلَوْ اَنَّهُمْ اِذْ ظَلَمُوْا اَنْفُسَهُمْ جَآءُ ؤکَ فَاسْتَغْفَرُاللّٰه واسْتَغْفَرًلُهُمْ الرَّسُوْلُ.

’’ارے اپنی جانوں پہ ستم کرنے والو، اپنی چادر پاکیزگی کو گناہ سے آلودہ کرنے والو، ظلمت اثم سے پراگندہ وجو دو۔ دنیا میں کھو جانے والو۔ آؤ در مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پہ آؤ۔ میرا رسول اگرسوئے فلک دیکھ لو تودفتروں کے دفتر تمہارے سیاہیوںکے دھل جائیں گے۔ ارے ابھی عظمت کے آفتاب کو نیم روز کی طرح دیکھ کے بھی ہم متردد ہیں۔

اَلنَّبِيُ اَوْلٰی بِالْمُوْمِنِيْنَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ

جان سے قریب تر ہونے کا ملکہ عظیمہ، قوت عظیمہ عطا فرمائی گئی۔ امتی کے احوال کا لمحہ لمحہ مکین گنبد خضريٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نگاہ غیوب داں میں ہے۔

امتی جو عرض کرے حال زار سے ممکن نہیں کہ خیرالبشر کو خبر نہ ہو

2۔ آداب بارگاہ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

قرآن حکیم نے ذکر مصطفی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم متنوع جہات اور مختلف پہلوؤں سے بیان کیا ہے۔ ذکر سرور کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ایک اہم ترین پہلو ذکر آداب بارگاہ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ ایسے آداب عظیمہ، آداب دقیعہ، آداب عالیہ، آداب رفیعہ ذکر فرمائے جو اولین و آخرین میں کسی کے لئے ذکر نہ ہوئے

لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا

راعنا مت کہو، لفظوں کے انتخاب کا ادب تعلیم فرمایا۔ ایسا لفظ جس کے کئی معانی ہوںاور کوئی سوئے ادب پہلو ہو تو ترک کردو۔ لفظ لفظ سوچو، غور وتعمّق کرو، فکر و تدبر کرو، صد بار سوچو، اب بولو۔

لَا تَجْعَلُوْا دُعَاءَ الرَّسُولِ کَدُعاَءِ بَعْضِکُمْ بَعْضَا.

میرے محبوب مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ بیکس پناہ میں حاضری دینے والو! سنو، پکارتے ہوئے ایسے مخاطب مت کرو جیسے بے تکلف ایک دوسرے سے کلام کرتے ہو۔ عزت بخاری نے کہا۔

ادب گاہیست زیر آسماں از عرش نازک تر
نفس گم کردہ می آید جنید و بایزید ایں جا

پکارتے ہوئے حسین لفظوں کا چناؤکرو۔ دنیا کے کسی ادبیات کے شعبہ کا مطالعہ کریں ہر ادب کہتا ہے ’’Proper Words in proper place‘‘ فارسی والے کہتے ہیں :

’’الفاظ متناسبہ بر جگہ متناسبہ استعمال کردن ادب است‘‘، تو گویا تخاطب مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ادب کا ہر جگہخیال رکھا جائے گاتو وہ لا محالہ ادب بن جائے گا۔

يَااَيُهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْا اَصْوَاتَکُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ.

آداب گفتگو میں آداب کلام میں یاد رکھو تمہاری آواز اونچی نہ ہوپائے، دم سادھ لو، اگر بات کرو تو سراپا ادب بن جاؤ۔

کہاں کی برابری؟ کہاں کی مثلیت؟ کہاں ہمسری، خداوند دو عالم تو آواز مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں برابری مطلقاً پسند نہیں کرتا۔ کیا یہ فکر فکرِ قرآن ہوسکتا، قرآن مجید جن کی عظمتوں کے زمزمے گنگنائے، قرآن مجید جن کی رفعتوں کا نغمہ خواں ہو اور فکر جدیدہ کے ریزہ خوار شخصیت پرستی کے فتنہ میں مبتلا ہیں۔ قرآن سے پوچھو؟ کہ تم کس فکر کے حاشیہ بردار ہو۔ قرآن کا روشن آئینہ تم پہ واضح کررہا ہے۔

لَاتَسْءَلُوْا عَنْ اَشْيَآءَ

کا حکم ادب بارگہ مصطفی تعلیم کررہا ہے کہ بے جا موشگافیاں چھوڑو، سوالاتِ بے جا ترک کرو، مطلق سوالات کا دروازہ بند نہیں۔ احادیث مبارکہ کے نور بکھیرتے اوراق اس بات کے شاہد ہیں، سوالات تو لاکھوںہوئے تو پھر سوالات کو منع کرنے کا حکم کس کے لئے ہے؟ غلط مسؤلیت کا دروازہ بند کردیا گیا۔ ادب شناس بارگاہ بن کے بیٹھو۔ حضور تاجدار کون و مکان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آرام فرمارہے ہوں تو حجرات مبارکہ کے باہر کھڑے ہوکے بلند آوازیں نہ کروتاکہ خلل انداز آرام محبوب مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہرگز نہ ہو۔

وَلَوْاَنَّهُمْ صَبَرُوْا حَتَّی يَخْرُجَ اِلَيْهِمْ لَکَانَ خَيْرًا لَهُمْ.

اے کاش وہ در مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پہ ادب باش ہوکے رک جاتے حتی کہ میرا پیارا تشریف لے آتا کتنا اچھا ہوتا۔ خدائے لم یزل ولایزال تو آپ کے آرام میں خلل پسند نہ کرے اور آداب عالیہ کی تعلیم فرمائے اور آج کے جدید فکر کے علم بردار گرداب شخصیت پرستی میں گم ہیں۔ پڑھو کہ قرآن مجید کس عالی ادب کو عطا کررہا ہے۔

يٰاَيُهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا اسْتَجِيْبُوْالِلّٰهِ وَلِلرَّسُوْلِ

ادب گریز، ادب انکار، ادب پرہیز، طبقہ کہاں سر چھپائے؟ دوران نماز آقا کے سلمان و بلال آواز سنیں تو نماز چھوڑدیں اور قدمین مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو چومیں اور ہاتھ باندھے حاضر ہو جائیں۔ نماز عبادت الہيٰ کا اعليٰ مقام ہے۔ لیکن مصطفی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آواز مبارک سنتے ہی ایک لمحے کی تاخیر مت کرو، بلکہ جب بھی پکاریں آ جاؤ کیونکہ مصطفےٰ کا پکارنا اللہ کے بلانے کی طرح ہے۔ اب خیال مبارک کا ڈھنڈورا پیٹنا اور بے ادبی کے گہرے گھڑے میں جاگرنا۔ کہاں ہے؟ کیا راہ فرار اب اس حکم واضح کے آنے بعد ہے؟ ہوش کے ناخن لو کہیں

اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَا لَُکُمْ

کا مژدہ جانفزا تمہارے لئے نہ ہو۔

لَا ُتقَدِمُّوْا بَيْنَ يَدَیِ اللّٰهِ وَرَسُوْلِهِ

آداب بارگاہ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں کیا کیا عظیم ادب تعلیم اورتلقین کئے گئے کہ تم مرے محبوب مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، مونس انس و جاں کے افعال مبارکہ، اعمال سعیدہ سے ہرگز پہل نہ کرو۔ یہ تقدم فعلی، تقدم عملی بارگاہ الٰی میں گوارا نہیں۔

3۔ نعم بے پایاں برمصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

قرآن حکیم، پیغام عظیم نے ذکر مصطفی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعدد پہلوؤں کو نمایاں کیا۔ ہر پہلو اپنے مقام پہ عظیم تر ہے۔ خداوند دو عالم نے جس ذات مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سر تاج محبوبیت کبريٰ، تاج مقربیت عظميٰ سجایا ہے اس پہ نعم بے پایاں، احسانات بے حساب، انعامات لاتعداد ہے۔

’’کُلاًّ نُمِدُّ هٰئُوْلآءِ وَهٰئُوْلآءِ مِنْ عَطَآءِ رَبِّکَ‘‘

بلکہ کائنات تحت وفوق، پست و بالا اور سماوی و ارضی میں جتنی کرم نوازیوں کی برکھا رت ہے سب پیارے محبوب تیرے و جود مکرم کی خیرات بٹتی ہے۔ مالک و متصرف کون و مکان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، ہادی انس و جان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود بھی تو فرمایا انما انا قاسم واللہ یعطی خزائن کل میری دست عطا میں ہیں دینے والا خدائے مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔

اِنَّا اَعْطَيْنٰکَ الْکَوْثَرْ

خدائے رحمن، خدائے بخشندہ نے اپنے محبوب مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کوثر عطا کی۔ اَعْطَيْنٰک میں عطاء اور تصرف کا یک جا اظہار فرمایا۔ الکوثر میں کثرت کی کثرت جمع کردی۔ منتہی الجموع کے بعد کسی کثرت کا تصور محال ہے۔ کثرت عطا، کثرت اولاد، کثرت مقامات، کثرت عنایات، کثرت سعادات، کثرت برکات، کثرت خزائن، کثرت زخارف، کثرت امت، کثرت معجزات، کثرت اولیاء ہر پہلو کثرتوں کا حامل لامحالہ زبان پہ آتا ہے۔ ’’تم ہو محبوب رب، تمہارا ہے سب تمہارا ہے سب۔‘‘

وَعَلَّمَکَ مَالَمْ تَکُنْ تَعْلَمْ وَکَانَ فَضْلُ اللّٰهِ عَلَيْکَ عَظِيْمًا

عطاء الہٰی میں ایک عظیم ترین عطا وھب ہے۔ جمیع انبیاء و مرسلین پہ اکرام الہٰی کی بارش ہوئی۔ صغر سن میں حضرت ابراہیم کو نعمت علم عظیم عطا ہوئی۔ حضرت اسماعیل ذبیح علیہ السلام کی صورت میں بیٹے کی بشارت کا ارشاد الہٰی ہوا۔ حضرت لقمان کو حکمت و دانائی سے بہرہ یاب کیا گیا۔ لیکن جب اپنے محبوب معظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پہ عطا کی باری آئی تو فرمایا :

مَالَمْ تَکُنْ تَعْلَمْ

’’محبوب ہم نے آپ کو علم بے پایاں، علم ناپیدا کنار سے بہرہ ور کیا‘‘ جمیع علوم و فنون کے بحرکھول دیئے۔ جمیع علوم کے خزانے آپ کے دامن مبارک میں ڈال دیئے گئے۔

خداوند دو عالم تو بے حساب عطا کرے اور آج ہم امت پیمانوں میں لانے کے لئے کوشاں ہوں۔ نہ جانے کیا کیا استدلالات کی قلابازیاں لگائی گئیں۔ نہ جانے کس داعیئے کی تسکین ہے اس امر میں؟

اَنَْيبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَاماًمّحْمُوْدَا

مقامات مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، عنایات برمصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں کیا کیا ذکر ہوا ہے۔ ہر چند کے جبکہ قرآن گواہ ہے دنیا میں آپ کی عظمتوں، رفعتوں کا لاکھوں بار اظہار ہوا ہے۔ لیکن بزم قیامت میں آپ کی عظمتوں کا وہ منظر حسین ہوگا جس کا آج تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ کرسی محمود پہ آپ بیٹھ جائیں گے۔ شفاعت کبريٰ کا پروانہ اپنے دست عطا میں ہوگا۔

آدَمْ وَمِنْ سِوَاهُ تَحْتَ لِوَالیِ

’’آدم اور ان کے سوا سب مرے جھنڈے تلے ہوں گے۔‘‘

الکرامة وَالمفاتيح يَوْمَءِذِِ بِيَدِیِ

سب بزرگیاں اور سب خزانوں کی چابیاں میرے ہاتھ میں ہوں گے۔

چو بازوئے شفاعت راکشائی برگناہ گاریاں مکن محروم جامی را در آں یارسول اللہ

وَلَسَوْفَ يُعْطِيْکَ رَبُّکَ فَتَرْضٰی

اور آپ پروردگار کل عطا آپ کو عطا کرتا جائے گا۔ رحمتوں کے در کھولتا جائے گا۔ سعادات کی وہ برسات ہوگی کہ آپ کے چہرہ قاسم نور کھل اٹھے گا۔

ہر غنچہ کہ گل گشت گہے غنچہ نہ گردرد
قربان زلب ہار گہے غنچہ گہے گل

اَلَّذَيْ اَسْرٰی بِعَبْدِهَ لَيْلًا

سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، غم خوار دو عالم پہ کرم نوازیوں میں اک عظیم ترین پہلو سیاحت لامکاں، قیام حریم دنی، زیارت و کلام باری شب معراج میں عطا فرمایا۔ بے حجاب زیارت الہيٰ سے نوازہ جانا خاصہ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قرار پایا۔ بعض نقاد نے حضرت جبرائیل امین کی زیارت دلقاء کو معراج مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قرار دینے کی لایعنی، مذموم کوشش کی۔ یہ عظمت ناشناسی ہے۔ یہ رفعت نادیدگی ہے، یہ منزلت عدم آگہی ہے، یہ مکانت نابلدی ہے۔

صد ہزاراں جبرئیل اندر بشر

حضرت رومی فرماتے ہیں کہ اگر آقائے کونین رخ عالم تاب سے ایک حجاب اٹھاتے تو کیا ہوتا۔

تاحشرجبرئیل ہوش نا ماند۔

وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰی اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْيَ يُوحْيٰ

اے پیارے محبوب، کائنات تیرے وجود کا طواف کرتی ہے، شجر و حجر تیرے حضورمجرابجا لاتے ہیں۔ چاند سورج تیری بارگاہ میں ہاتھ باندھے کھڑے ہیں۔ بحرو بر تیرے حکم مبارک کا انتظارکریں، پتھر زبان محبت میں سلام عرض کرتے ہیں۔ ہاں جب آپ زبان کن و فکاں وا کریں، جب آپ زبان کاشف اسرار کھولیں جب آپ زبان ہزار حکم کھولیں وہ وحی الہٰی ہے۔ ایک لفظ مبارک ارادہ ذات، منشائے ذات، خواہش ذات سے نہ ارشاد فرمائیں۔ کلام مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، کلام خدا ہے، زبان مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم زبان خدا ہے۔ یہی سبب ہے کہ کسی نبی مکرم اوررسول محتشم کا کلام مبارک یوں محفوظیت نہ پاسکا جیسا کلام حبیب خدا کو اعزاز حاصل ہوا۔

4۔ منفرد تخاطب مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

قرآن حکیم، فرقان مجید میں ذکر مصطفی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو متنوع، متفاوت اور مختلف پیراؤں میں مطالعہ کیجئے تو ایک امر بہت واضح، اظہر، بیّن نظر آتا ہے وہ منفرد طرز تخاطب، منفرد اسلوب کلام کا ہے۔ خداوند دو عالم، مالک ارضین و سموات ہے۔ انبیاء، مرسلین، مقربین، صالحین، ابرار، اخیار سب اس کے بندے ہیں۔ وہ جسے چاہے ان سے کلام کرے لیکن وہ اپنے محبوب محتشم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ جب مخاطب ہو وہ بالکل ممیز نظر آئے۔ تو کیا اسالیب کلام الہيٰ، اسالیب تخاطب ایزدی، معنی، حکمت اور دانش سے خارج قرار دیا جا سکتا ہے جبکہ فعل الحکیم لایخلوعن الحکمۃ۔ ’’حکمت والے کی کوئی بات حکمت سے خالی نہیں ہوتی۔‘‘

يَاَ يُهَا الْمُزَمِّلُ

اے کالی کملی اوڑھ کے آرام فرمانے والے پیارے، اس انداز تخاطب میں کیا ملاحت ہے، کیا عزوبت ہے، کیا مٹھاس ہے، کیا محبوبانہ اسلوب ہے، کیا عزت افزائی ہے، کیا پذیرائی ہے، کیا ردائے رحمت ہے، کیا پاس محبت ہے،

يَاَيُهَا الْمُدَثِّرُ

ایک ہی طرز استراحت کو دو مختلف تراکیب و الفاظ سے اظہار کرنا چہ معنی دارد؟ تعلیم ہمیں ہے کہ میرے محبوب مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تکرار لفظی سے مخاطب نہ کرو بلکہ نئے نئے الفاظ، جملات تراکیب، پیرائے، اسالیب، طرق، سبل ایجاد کرو۔ علم البیان، بیان و کلام، فصاحت و بلاغت کا علم کیا مالک نے اس لئے عطا کیا کہ اس کو ہر لغو، لا یعنی، مقصد گریز، تخریبی، منفی امور میں صرف کیا جائے اور جس کی عطا ہو اس کے محبوب مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منہ موڑا جائے، حکمتِ قرآن میں یہاں کیا معنی مراد ہو گا۔ ایک طرف دو پیراؤں میں اظہار کرنا۔ تعداد اسالیب تنوع اسالیب پہ دلالت کرتا ہے اور یہ الف تا ی ایک منفرد طرز اسلوب قرآن ہے۔

خداوند دو عالم نے قرآن حکیم میں بسم اللہ سے والناس تک جس نبی مکرم، رسول معظم، مرسل محتشم کو مخاطب کیا اس کا نام لیا اور مخاطب کیا۔

يَآدَمُ اسْکُنْ اَنْتَ وزَوْجُکَ الْجَنَّةَ

اے آدم! آپ اور آپ کی زوجہ جنت میں ٹھہریں۔

يَنُوْحُ اهْبِطْ بِسَلَامِ مِّنَا.

اے نوح آپ سلامتی کے ساتھ کنارے اتریئے۔

يٰدَاوُوْدَ اِنَّا جَعَلْنٰکَ خَلِيْفَةً فِی الْاَرْضِ.

’’اے داؤد! ہم نے آپ کے سر تاج خلافت سجایا۔‘‘ الغرض متعدد امثال و نظائر قرآنی موجود ہیں۔ اس طرز کلام کو طرز مالک و مملوک، طرز عبد و معبود کہا گیا۔ لیکن والئی کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مخاطب کیا تو تخاطب غیر اسمی فرمایا۔ 6666 آیات منورہ میں کوئی ایک مقام بھی ایسا نہیں کہ اسماً یا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مخاطب فرمایا ہو۔ آخر کیا سبب ہے کہ یہ’’تفاوت بین الاسالیب‘‘ کیا ہے۔ ’’فرق بین التخاطب‘‘ کیوں ہے؟ اور کوئی تعبیر موزوں آج تک مطالعات قرآن میں منظر پہ نہ آسکی سوائے’’تخاطب محبوبانہ‘‘ کے۔ یہاں ماجرا اور ہے یہاں معاملہ، ملاطفۂ خاص ہے۔ یہاں قصہ قصۂ محبت ہے کہیں’’يٰسین‘‘، اے سید کائنات، اے سردارِ دو عالم، کہیں’’طٰحہ‘‘، کہیں ’’والضحٰی‘‘ اے چاشت کی طرح روشن چہرے والے پیارے کہیں، ’’ن‘‘اے نور ازل کے عکس دلبرا، ’’یایھا المزمل‘‘ اے کالی کملی اوڑھ کے استراحت فرمانے والے، ’’عفاللہ عنک لم اذنت لہم‘‘، خداوند دوعالم نے تجھے چادر محبت میں لیا آپ نے ان بہانہ خوروں کو کیوں جانے دیا۔ ماکان اللہ لیعذ بہم وانت فیھم سوہنیا محبوبا! ان کی سیاہ کاریوں کی سزا کیا دیں کہ تیرا پیکر نور، وجودبا جود ان کے درمیان ہے۔ لَا تُحرِّکْ بَِلساَنَکَ لِتَعجَلَ بَہِ’’یہ کائنات آپ کی نوک پا پہ قربان آپ کیوں زحمت حفظ کرتے ہیں اِنَّا عَلَيْنَا جَمْعَہَ وَقرآنہٰ ہاں ہمارے ذمہ کرم پہ ہے۔ اس کو جمع کرنا اور اس کی قرات کروانا۔ کوربین اس میں زجرو توبیخ کے کیڑے نکالتے رہے۔ خبث باطن نہ جانے ان سے کیا کیا صادر کرواتا رہا۔ تفسیر قرآن کے نام سے تیرہ بختی مول لیتے رہے۔ ’’النبی‘‘، ’’الرسول‘‘ کے مبارک کلمات سے خطاب فرمایا۔ نام نہ لیا۔

تیرا ذکر کروں تیرا نام نہ لوں

مَا اَنْزَلْنَا عَلَيْکَ الْقُرْآنَ لِتَشْقٰی

ہم نے اس قرآن عظیم کو کیا اس لئے اتارا ہے کہ آپ مشقت میں پڑ جائیں اور اپنے وجود نازنین پہ بوجھ رکھیں، قیام اتنا فرمائیں کہ قدمین شریفین پہ بوجھ نہ آجائے۔ نہیں

وَمَا اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَةً لّلعالمين.

پیارے محبوب ہم نے آپ کے پیکر نوری کو ہر وصف عطا کیا، ہر صفت سے بہرہ یاب کیا، سب کمالات اپنے مقام پہ سب خوبیاں اپنے مقام پہ سب اوصاف اپنے مقام پہ لیکن وصف رحمت تیرا سہرا جبین نازنین ہے۔

يَاَيُهَاا النَّبِيُ اِنَّا اَرْسَلْنٰکَ شَاهِدًا وَّمُبِشِّرًا وَنَذِيْراً o وَ دَاعِياً اِلَی اللّٰهِ بَاِ ذْنِه وَسِرَاجاً مُّنِيْراً.

اے مخبر صادق اے غیب دان عوالم ہم نے آپ کو جہانوں کا ملاحظہ کرنے والا، شکستہ دلوں پہ مرحم رکھنے والا، ڈر سنانے والا، خدائے رحمان کی بارگاہ میں لانے والا، کائناتوں کو روشنیاں بکھیرنے والا، بناکے بھیجا۔

لَقَدْ جَاءَ کُمْ رَسُوْلٌِّمنْ اَنْفُسِکُمْ عَزِيْزٌ عَلَيْهِ مَاعِنِتُمْ حَرِيْصٌ عَلَيْکُمْ بِالْمُوْمِنِيْنَ رَؤفٌ رَّحِيْماًo

تحقیق تمہارے کار زار حیات میں رسول محترم تشریف لائے۔ کیا اسلوب محبت ہے۔ عزیز علیہ ماعنتم تم پہ جو تکلیفیںکلفتیں آتی ہیں وہ آپ پہ شاق گزرتی ہیں۔ حریص علیکم بالمومنین رؤف و رحیم ہم خاکیوں، ناسیوں، ظلمتوں کے خریداروں، غفلتوں میں گم گشتگان کے لئے آپ حریص ہیں کہ ہم راہ ہدایت پالیں۔

5۔ حکمی وحدت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

قرآن حکیم ہدی للعالمین ہے۔ قرآن حکیم ھدی للناس ہے۔ قرآن حکیم کتاب ہدایت ہے۔ قرآنی ہدایت کے لئے قلبی خلوص۔ طلب ہدایت ضروری ہے۔ قرآنی ہدایت صاحب قرآن کے ادب و اکرام کے بغیر کیسے ممکن ہے۔ قرآنی فکر کو قرآنی اصول، قرآنی اسالیب سے اخذ کریں تو تصورات روز روشن کی طرح واضح ہوجائیں گے۔ اپنے افکار کو قرآنی استدلالات کا جامہ پہنانا اور ہے قرآنی استدلالات سے تشکیل افکار کرنا اور ہے۔ اذکارِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، تذکار مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قرآن حکیم کے آئینہ میں دیکھیں تو ایک اور نمایاں پہلو حکمی وحدت کا نظر آتا ہے۔ آیئے مطالعہ کریں کہ افعال الہٰیہ اور اعمال خداوندی کو افعال مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قرار دیا گیا۔

يَدُاللّٰهِ فَوْقَ اَيْدِيْهِمْ

بیعتِ رضوان والے اصحاب شجرہ جنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دست برکت پہ بیعت کی وہ تو دست الہٰی ہے۔

وَمَارَمَيْتَ اِذْ رَمَيْتَ وَلَکِنَّ اللّٰهَ رَمٰی

وہ کنکریاں جو غزوہ حنین میں آپ والی کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ماریں وہ آپ نے کب ماریں وہ تو خدائے قہار نے ماریں۔

مَنْ يُحَادِ دِاللّٰهَ وَرَسُوْلَهُ

جس نے مخالفت الہٰی کی اس نے آپ کی مخالفت کی۔

’’مَنْ يُشَاقِقَ ا للّٰهَ وَرَسُوْلَهُ

جس نے تاجدار کون و مکان سے دشمنی کی بغض کمایا اس نے اللہ سے دشمنی لی۔

يُخَادِعُوْنَ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهْ

منافقین نے جودھوکہ آپ کو اپنے زعم باطل میں دینا چاہا وہ مخادعت الہٰی قرار پایا۔

وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰی اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْیٌ يُوْحيٰ

جو کلام مبارک آپکے نطق نازنین سے نکلا وہ آپ کا کب وہ تو کلام الہٰی ہے۔

مَنْ يَعْصِ اللّٰهَ وَرَسُوْلُهْ

ارے جس نے مرے پیارے کی نافرمانی کی، حکم سے سرتابی کی، ارشاد سے منہ موڑا وہ میرانافرمان ہے۔ یہی تو ملائک کہتے ہیں۔

من عصٰی محمداً فقد عصٰی الله، من عطيٰ محمداً فقد عطا الله، محمدٌ فرق بين الناس.

وَاللّٰهُ وَرَسُوْلُهُ اَحَقُّ اَنْ يُرْضُوْهُ

اللہ اور رسول مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حق دار ہیں کہ اسے راضی کیا جائے، خبر واحد میں رضائے الہٰی اور رضائے مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جمع کردیا۔ آج کے بے ضمیر کو یہ ضمیر واحد کیوں نظر نہیں آتی۔ اس ضمیر واحد میں پیغام واحد، حکم واحد ان کے ضمیر میں حرکت کیوں پیدا نہیں کرتا۔

اًلْاَنْفَالُ لِلّٰهِ وَلرِّسُوْلِ

غنائم اللہ اور رسول کے ہیں۔

لَا تَخُوُنُوا الله وَالرَسَوْلَ

خیانت، مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کریم سے، خیانت خدا ئے لم یزل سے ہے۔ لا تقد موا بین یدی اللہ ورسولہ۔ کے مطابق تقدم علی الرسول، تقدم علی اللہ ہے۔

سو اگر ہم تعصبات کی عینک اتار دیں، نفرتوں کے وضع کردہ سانچے توڑ دیں۔ خود ساختہ پیمانے دور پھینکیں، دامن دل ہدایت قرآن کے چشمہ صافی کے حضور وا کریں تو حقیقت رحمت رسالت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، حقیقت منزلت مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گل و سروو سمن صحن ہمارے دل و دماغ میں کھل کھل جائیں اور کہہ اٹھیں بقول مرشد گرامی حضرت اقبال

بمصطفی برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست
اگر باُو نرسیدی تمام بولہبی است

٭٭٭٭٭