رحمتِ رسول (ص) کا دلنشیں تذکرہ اور مستشرقین کی غلط فہمیوں کا ازالہ

حافظ فرحان ثنائی، ریسرچ اسکالر فریدِ ملّت ریسرچ انسٹی ٹیوٹ

مصنف : شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری

ببول کے درخت کے سائے میں تقریباً 1400 صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین قطار اندر قطار موجود تھے اور ان کے جھرمٹ میں شمع رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جلوہ افروز تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت رضوان کرنے والے یہ جانثار پروانے درحقیقت از روئے قرآن، اللہ تبارک وتعالیٰ کے ہاتھ پر بیعت کررہے تھے۔ عروہ بن مسعود نے (جنہیں کفار و مشرکین نے اپنا جاسوس بناکر بھیجا تھا) بڑے بڑے بادشاہوں اور امراء کا تخت و تاج دیکھ رکھا تھا مگر بارگاہ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے جو حد درجہ تعظیم و تکریم، عشق و محبت اور اطاعت و وفاداری صحابہ کرام میں دیکھی تو دنگ رہ گئے وہ دیکھتے کہ یہ پروانے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وضو کے پانی کو حاصل کرنے کے لئے ٹوٹ پڑتے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موئے مبارک اور لعاب دہن کو زمین پر گرنے سے پہلے ہاتھوں کی زینت بنالیتے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گفتگو فرماتے تو صحابہ کرام ہمہ تن گوش ہوجاتے اور حد درجہ تعظیم کے پیش نظر نگاہ بھر کر بھی نہیں دیکھتے تھے۔ عروہ بن مسعود نے یہ سارا ماجرا اپنے ساتھیوں سے بیان کیا اور کہا خدا کی عزت کی قسم! آج تک دنیا میں کسی بڑے سے بڑے شہنشاہ کا اس کے دربار میں ایسا ادب نہیں دیکھا جیسا کہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ان کے صحابہ میں دیکھا ہے۔ انہیں مسلمانوں پر حملہ نہ کرنے نصیحت کرتے ہوئے کہا ’’تم تو کیا دنیا کی کوئی قوم بھی انہیں شکست نہیں دے سکتی‘‘۔

سوال یہ ہے کہ صحابہ کرام کا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس قدر محبت و وارفتگی اور تعظیم کا رویہ کیوں تھا؟ صحابہ کرام کا پیغمبر اسلام سے دین کی تعلیمات سیکھنا تو سمجھ میں آتا ہے مگر دین کے پیامبر سے یوں والہانہ محبت اور حد درجہ تعظیم و تکریم کی کیا وجہ تھی؟ اور وہ وجہ صرف یہ تھی کہ انہوںنے اپنے ایمان کا مرکز و محور ذات مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بنالیا تھا اور یہی وہ گُر تھا جس کی بناء پر دنیا کی کوئی طاقت انہیں گزند نہیں پہنچاسکتی تھی۔ ۔ ۔ ’’ایمان کا مرکز و محور ذات مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ‘‘ ایسی ہی خوبصورت اور ایمان افروز واقعات اور احادیث کے مجموعہ پر مشتمل کتاب ہے جنہیں قائد تحریک شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اسی حقیقی نسبت اور تعلق کو بحال کرنے کے لئے مدون کیا ہے۔

کتاب ہذا کل تین ابواب اور 132 صفحات پر مشتمل ہے۔ ذات مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایمان میں مرکزیت کے موضوع پر ہے۔ مرکز و محور کی پہچان کیا ہے؟ اس سلسلے میں قرآنی آیت

 ’’اُدْعُ اِلٰی سَبِيْلِ رَبِّکَ ‘‘

سے شیخ الاسلام نے ایک خاص نکتہ سمجھایا ہے وہ یہ کہ کہنے کو تو یوں بھی کہا جاسکتا تھا کہ اے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! لوگوں کو رب کی طرف بلا یارب کا راستہ دکھا مگر یہاں اپنی ربوبیت کی بات اپنے محبوب کی نسبت و اضافت کے ساتھ کی یعنی اس طرح کہ یہ تیرے ذریعے مجھ تک پہنچیں میری یاد انہیں تیری یاد سے اور میرا راستہ انہیں تیرے راستے سے ملے، میرا تعلق انہیں تیرے تعلق سے، میری نسبت، تیری نسبت سے اور میری بندگی انہیں تیری غلامی کے ذریعے ملے۔ پھر رب العزت ارشادفرماتا ہے :

فَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِهِ وَعَزَّرُوْهُ وَنَصَرُوْهُ وَاتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِىْ اُنْزِلَ مَعَهُ لا اُولئِکَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ.

(الاعراف، 7 : 157)

’’پس جو لوگ اس (برگزیدہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) پر ایمان لائیں گے اور ان کی تعظیم و توقیر کریں گے اور ان (کے دین) کی مدد و نصرت کریں گے اور اس نور (قرآن) کی پیروی کریں گے جو ان کے ساتھ اتارا گیا ہے، وہی لوگ ہی فلاح پانے والے ہیں‘‘۔

اس آیت کی روشنی میں تعلق بالرسالت کے چار عناصر بیان کئے گئے جنہیں شیخ الاسلام مدظلہ نے تعلق بالرسالت کے عناصر اربعہ یعنی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان، حد سے بڑھ کر ادب و تعظیم رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، نصرت دین رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور کامل اتباع رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے موسوم کیا ہے۔ ان چاروں عناصر میں شیخ الاسلام مدظلہ نے جو ایمانی اور روحانی لطائف و معارف بیان کئے ہیں اس کا اندازہ کتاب پڑھنے سے ہی لگایا جاسکتا ہے۔ آپ لکھتے ہیں کہ ’’بدقسمتی سے امت اس وقت کئی دھڑوں میں بٹ چکی ہے۔ ایک گروہ نے تعلق بالرسالت کی پہلی جہت (محبت اور تعزیر) کو تو تھام لیا ہے مگر باقی دو کی اہمیت سے صرف نظر کرلیا ہے اسی طرح دوسرے گروہ نے دوسری جہت (نصرت و اتباع) کو تو عملاً اپنا لیا مگر پہلی جہت سے صرف نظر کرلیا۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نسبت و تعلق کی چاروں شرائط کو بیک وقت پورا کیا جائے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات گرامی ہی ایمان کا مرکزو محور ہے۔ توحید کی پہچان بھی اسی سے ہے، الوہیت اور اللہ کی وحدانیت کی معرفت بھی اسی سے ہے۔ قرآن کا قرآن ہونا بھی اسی نسبت سے اور کعبہ کی پہچان بھی اسی سے ہے۔ یہاں تک کہ ہمارا دین و ایمان اور مسلمانی کی پہچان بھی اسی نسبت سے ہے۔ یہاں شیخ الاسلام مدظلہ نے متعدد صحابہ کرام کے واقعات نقل کئے ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ صحابہ کرام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حد درجہ تعظیم اور غایت درجہ تکریم کیا کرتے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس کے ساتھ جس قدر مضبوط و مستحکم تعلق ہوگا اسی قدر ایمان بھی مضبوط و مستحکم ہوتا چلا جائے گا۔ پس یہی ایک گر اور راز تھا جسے وہ سمجھ گئے تھے۔

ہم یہ سمجھتے ہیں کہ جس قدر نمازیں زیادہ ہوں گی اسی قدر ایمان مضبوط ہوگا، جس قدر حج زیادہ ہوں گے ایمان اسی قدر مضبوط ہوگا۔ یہ ساری عبادتیں اور ان کی فضیلتیں اپنی جگہ بجا لیکن یہ سب اعمال مل کر بھی تنہا ایمان کو مستحکم نہیں بناسکتے۔ ایمان فی الحقیقت اسی صورت میں مضبوط ہوسکتا ہے کہ حضور سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عشق و محبت والا تعلق مضبوط تر ہوجائے۔ پس اگر مرکز و محور کے ساتھ تعلق مضبوط تر ہوگیا تو پھر ایمان بھی کامل ہوجائے گا اور اعمال و عبادات بھی بامقصد و بامراد ہوجائیں گے یعنی یہ سب اعمال و عبادات کے کھاتے میں جائیں گے اور اگر یہ تعلق کمزور پڑ گیا یعنی محبت کم رہ گئی اور ادب ملحوظ و خاطر نہ رہا تو نصرت و اتباع اور اطاعت وغیرہ کوئی بھی شے ایمان کے کھاتے میں نہیں جائے گی پھر یہ سب کچھ محض ایک بوجھ ہوگا جو ہم اپنے کندھوں پر اٹھائے پھرتے ہوں گے۔

کتاب کا دوسرا باب ذات مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اعمال و افعال میں ذات الہٰی سے نسبت کے موضوع پر ہے جس میں اس حقیقت پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ اعتقادی و ایمانی اعتبار سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت و رسالت اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقام و مرتبے کی بابت ہمیں کس نوعیت کا عقیدہ رکھنا چاہئے تاکہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آفاقی اور دائمی رسالت کے فیضان سے مالا مال ہوسکیں۔ ارشاد خداوندی ہے :

مَنْ يُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰه

شیخ الاسلام نے اس آیت کی ذیل میں تین بنیادی نکات واضح فرمائے ہیں۔ نکتہ اولیٰ ’’الرسول‘‘ میں پوشیدہ ہے اس مقام پر ہر رسول کی بات نہیں کی جارہی بلکہ اس خاص رسول مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بات ہورہی ہے جس کی بعثت کا اللہ رب العزت نے مومنوں پر احسان فرمایا ہے۔ الرسول اس حقیقت کو آشکار کررہا ہے کہ اب قیامت تک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کی نبوت و رسالت کا سکہ جاری رہے گا اور کوئی زمانہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت و رسالت کے دائرے سے خارج نہیں ہوگا گویا حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تعلق غلامی استوار کرنے کی بنیادی شرط یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فیضان نبوت و رسالت کو ہمہ وقت اور ہمہ جہت جاری و ساری مانا جائے اور اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان خاتمیت کو بھی ہمہ وقتی اور دائمی حقیقت تصور کیا جائے۔ نکتہ ثانی ’’یطع‘‘ میں فعل مضارع استعمال کرنے کی حکمت بھی اسی مفہوم کی تائید ہے جو اوپر بیان ہوئی یعنی خطاب وہی رہا مگر قیامت تک آنے والے مخاطب بدلتے رہیں گے۔ نکتہ ثالث میں آیت ’’فقد اطاع اللہ‘‘ میں باری تعالیٰ کا اپنے حوالے سے صیغہ ماضی استعمال کرنے کی حکمت یہ ہے کہ اس میں بات کے ہوچکنے اور واقع ہوجانے کا یقین حاصل ہوجاتا ہے گویا رب تعالیٰ فرمارہا ہے کہ جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کی تو وہ کسی وہم یا تردد کا شکار نہ ہو بلکہ اس نے یقینا اللہ ہی کی اطاعت کی یعنی اگر کوئی رب العالمین کی کامل اطاعت و فرمانبرداری کرنا چاہے تو اسکا طریقہ یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غلامی کا پٹہ اپنے گلے میں ڈال لے۔

یہاں شیخ الاسلام مدظلہ نے قرآن و سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا باہمی تعلق نہایت احسن انداز سے بیان فرمایا ہے کہ بعض نام نہاد اور کوتاہ فکر مفکرین جو کہتے ہیں کہ ہم صرف قرآن کو مانتے ہیں، کسی اور شے کو ماننے کی ضرورت نہیں تو انہیں غورکرنا چاہئے کہ اس قرآن تک انہیں پہنچایا کس نے؟ قرآن کے قرآن ہونے کی خبر کس نے دی؟ یہ ذات مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی ہے جن کے بابرکت وسیلے سے دین، دین کامل ہوا۔ شیخ الاسلام مدظلہ نے یہاں مختلف احادیث کے ذریعے سے ثابت کیا کہ اساس ایمان نسبت و تعلق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ نطق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وحی الہٰی ہے، آیت ’’وَ َمارَمَيْتَ اِذْ رَمَيْتَ وَلٰکِنَّ اللّٰهَ رَمٰی‘‘  میں فعل رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو باری تعالیٰ کا اپنی طرف منسوب کرنا، ’’وَاللّٰهُ وَرَسُوْلُهُ اَحَقَّ اَنْ يُّرْضُوْهُ‘‘ میں مقام رضا پر اللہ کے ساتھ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت بھی عیاں ہے کہ ہُ ضمیر واحد کی لائی گئی ہے۔ گویا واضح ہوا کہ ذاتیں جدا جدا مگر ادب ایک ہے، ہستیاں تو بے شک الگ الگ ہیں لیکن قرب ایک ہے، ذاتیں الگ الگ ہیں لیکن قول ایک ہے، فعل ایک ہے، ذاتیں تو جدا جدا ہیں لیکن اثر ایک ہے، حکم ایک، رضا ایک اور محبت ایک ہے۔

باب سوم مقام مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بیان پر مشتمل ہے۔ شیخ الاسلام مدظلہ فرماتے ہیں کہ خود اللہ رب العزت نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقام کو متعین نہیں کیا

وَرَفَعْنَالَکَ ذِکْرَکْ.

 (الانشراح، 93:4)

اب کتنا ذکر بلند کیا اس کا کوئی پیمانہ نہیں۔ جب اللہ رب العزت نے مقام مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو متعین نہیں فرمایا تو ہماشما کس حیثیت کے مالک ہیں کہ جنہیں مقام مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نہ کچھ خبر ہے نہ کوئی ادراک لیکن مقام کو متعین کرنے لگے ہوئے ہیں۔ ہر ایک اپنی سمجھ اور بصیرت کے مطابق بشریت اور نورانیت کے پیمانوں میں الجھا ہوا ہے۔ حالانکہ آقائے نامدار شاہ کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :

يا ابابکر والذی بعثنی بالحق لم يعلمنی حقيقه غير ربی.

اے ابوبکر! قسم ہے اس ذات کی جس نے مجھے حق کے ساتھ مبعوث فرمایا میری حقیقت کو میرے رب کے سوا کوئی نہیں جانتا۔

(مطالع المسرات : 129)

غرضیکہ شان بشریت ہر ایک کو نظر آتی ہے مگر شان نورانیت کسی کسی کو لیکن حقیقت اللہ کے سوا کسی کو معلوم نہیں اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مقام بھی فقط اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے۔

چپ کر مہر علی ایتھے جاں نئیں بولن دی

حضور شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی مذکورہ تصنیف بار بار پڑھنے کے لائق ہے تاکہ ربط رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اصلی اور حقیقی جہت ہمارے قلوب و اذہان پر راسخ ہو۔ یہ اسی صورت ممکن ہے کہ ہم صحابہ کرام کی سیرت پر عمل کریں جنہوں نے اپنے دین و ایمان کا محور ذات مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بنالیا تھا۔ آج شیخ الاسلام مدظلہ کی دین و ملت کے حوالے سے تمام تر خدمات کا مقصد فقط یہ ہے کہ کاش! ہم اپنے ایمان کے مرکز و محور کی پہچان حاصل کرلیں۔ وما علینا الاالبلاغ۔