شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری

مغربی جمہوری ملکوں کا جائزہ لیں تو وہاں کسی ایم این اے اور ایم پی اے کو ڈویلپمنٹ کے لئے کوئی پیسہ نہیں دیا جاتا اور نہ یہ کام ان کی ذمہ داری میں شامل ہوتا ہے بلکہ یہ کام لوکل گورنمنٹ کے تحت کونسل کرتی ہے جبکہ ایم این اے اور ایم پی اے کا کام قانون سازی کرنا اور قانون کے دائرہ میں رہ کر اپنے حلقے کے لوگوں کی مدد کرنا ہوتا ہے۔ اس پر انہیں صرف تنخواہ اور الاؤنسز ملتے ہیں۔ وہ کسی پولیس افسر، کمشنر، ریویو افسر، پبلک آفیسر کی تقرری کر سکتا ہے نہ کروا سکتا ہے اور نہ مداخلت کر سکتا ہے۔ جمہوری ملکوں میں نہ تھانہ عوامی نمائندے کے تحت ہوتا ہے اور نہ کچہری بلکہ وہ مستحق ووٹر کو صرف لیٹر دے سکتا ہے جس میں وہ اپنا ریفرنس دیتا ہے یا ان کی داد رسی کیلئے ان کے ساتھ جاتا ہے۔ اگر وہ قانون کے دائرے سے باہر ان کی معاونت و سفارش کرتا ہے تو پولیس اس کے خلاف کیس کر دیتی ہے۔ وہ اپنے Tenure میں جائیدادیں نہیں بنا سکتا، ملیں نہیں لگا سکتا، بینک بیلنس نہیں بنا سکتا۔ اگر تھوڑا سا بھی قانون کی حد سے باہر جائے تو ادارے اس کی گرفت کر لیتے ہیں، اُس کے خلاف کیسز بنتے ہیں۔ بالآخر اُسے مستعفی ہونا پڑتا ہے۔

ہمارے ہاں ہر چیز کا پیمانہ جدا ہے۔ ہم نے ظلم، جبر، خیانت، کرپشن اور زیادتی کا نام جمہوریت رکھا ہوا ہے۔ اب پریس اور میڈیا کی بات کرتے ہیں جو ملک میں آزاد ہے مگر فوجی ڈکٹیٹرشپ میں آزاد نہیں ہوتا۔ فوجی آ کر پریس اور میڈیا کی زبان کھینچ لیتا ہے اور اسے بولنے کی اجازت نہیں دیتا۔ ایک وقت تھا جب ایک اداریہ لکھا جاتا تھا تو حکومت کے وزیر مستعفی ہو جاتے تھے۔ اب کروڑ ادارئیے لکھ ڈالیں ان کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہ آج ہمارے ہاں میڈیا کی آزادی کا مطلب ہے کہ جو چاہیں بولیں حکومت کی صحت پر کوئی فرق نہیں پڑتا جبکہ دوسری طرف مغربی جمہوری ملکوں میں کسی ایم این اے یا ایم پی اے کے خلاف ایک سٹوری چھپ جائے یا کسی ٹی وی چینل پر خبر آ جائے تو اسی وقت انکوائری ہوتی ہے۔ اور اگر الزام ثابت ہو جائے تو عہدے سے فارغ کر دیا جاتا ہے۔ اس کو میڈیا کی آزادی کہتے ہیں جس کا اثر بھی ہو اور اگر اثر نہیں ہوتا تو اس آزادی سے کیا حاصل؟ دوسری اہم بات کہ تمام مغربی ملکوں نے جمہوریت کا سفر تدریجاً دو صدیوں میں طے کیا ہے اور آج اِس مقام پر پہنچے ہیں کہ انہوں نے اپنی قوم کو تعلیم دی ہے، شعور دیا ہے اور قومی مسائل کو سمجھنے کی صلاحیت دی ہے۔ اس طرح لوگ جمہوری بنے ہیں۔ انسٹی ٹیوشنز بنے ہیں۔ ادارے مستحکم، فعال اور مضبوط ہوئے ہیں۔ ان کی آئینی و قانونی حکمرانی بحال ہوئی ہے۔ Rule of Law ہوا ہے۔ لوگوں کو صحیح آزادی کا مفہوم سمجھ میں آیا ہے۔ تمام طاقتور طبقات کے اثرات ختم ہوئے ہیں۔ یہ ان تمام مغربی ملکوں میں جن میں جمہوریت بحال ہوئی ہے ان کا دو صدیوں میں ارتقائی سفر طے ہوا ہے جبکہ ہمارے ہاں بدقسمتی سے ساٹھ سال سے زائد عرصہ گزر گیا مگر ان میں سے ایک قدم بھی نہیں اٹھایا۔ نہ تعلیم پر خرچ کیا ہے نہ صحت پر۔ عوام کو نہ آزادی دی نہ شعور دیا، نہ Democracy دی نہ Rule of Law لائے، نہ قانون میں برابری لائے، ہمارے سارے طور طریقے جابرانہ اور ظالمانہ ہیں جبکہ ہم نے نام جمہوریت رکھ دیا ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے موٹر کار میں ہوائی جہاز کا انجن فٹ کر دیا جائے اور پھر اڑنے کی امید رکھیں۔ یاد رکھ لیں جمہوریت ماحول کے جمہوری ہوئے بغیر نہیں پنپتی۔ اگر معاشرہ جمہوری نہ ہو تو جمہوریت نہیں بنتی۔ جمہوریت گھر سے شروع ہوتی ہے۔ یہ ایک رویہ ہے ماں باپ کا اولاد کے ساتھ، ٹیچرز کا سٹوڈنٹس کے ساتھ، بچوں کا بچوں کے ساتھ۔ یہ کلچر Develop ہو تب جمہوریت نتائج دیتی ہے۔ مگر شوہر بیوی بچوں کو قتل کر رہا ہو، بات بات پر خون بہائے جا رہے ہوں، دہشت گردی ہو، خوف و ہراس ہو، جہالت ہو، بیروزگاری ہو، محتاجی ہو وہاں کیسی جمہوریت۔

ہمیں جمہوریت کو اصل حال میں بحال کرنا ہو گا اور خدا کی قسم موجودہ سیاسی اور انتخابی نظام اس حقیقی جمہوریت کو بحال نہیں کر سکتا۔ اگر ساٹھ سال میں حقیقی جمہوریت عوام کے ہاتھ میں نہیں آئی تو اگلے پانچ سال میں بھی نہیں آ سکتی کیونکہ ہم نے جمہوریت کے ابتدائی تقاضے پورے نہیں کئے۔ اپنی زمین کو جمہوریت کیلئے تیار نہیں کیا۔ باہر سے درخت لا کر اس میں ڈال دیا ہے اور پھل کی امید لگا کے بیٹھے ہیں۔

جمہوریت کو مضبوط کرنے کے تین طریقے ہیں۔ اولاً آئینی اور قانونی روایات ہیں اور وہ روایات اتنی مضبوط ہوتی ہیں کہ اگر کسی پر الزام لگ جائے یا کوئی واقعہ پیش آ جائے تو وزیر اعظم اور وزراء خود مستعفی ہو جاتے ہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کوئی خود بھی مستعفی ہو۔ پوری قوم چیخ اُٹھے مگر کسی کے چہرے پر شرم و حیا کا اثر کبھی نہیں دیکھا۔ دوسری صورت یہ ہوتی ہے کہ اوپر آئینی، قانونی، انتظامی، جمہوری اور سیاسی چیک اینڈ بیلنس اتنے سخت ہوں کہ کوئی بچ کے جا نہ سکے۔ عدالتوں تک معاملہ لے جانے کی ضرورت نہ پڑے۔ جبکہ ہمارے ملک میں طاقتور لوگوں کیلئے کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں ہے۔ طاقتور آدمی جو چاہے کر لے یا کروا لے اس پر کوئی گرفت نہیں۔ اداروں کے ہیڈ بھی انہی کے لگوائے ہوئے ہیں لہذا کوئی عدالت گرفت نہیں کر سکتی۔ اگر وہ گرفت کرنے لگے تو جنگ شروع ہو جاتی ہے۔ پھر تیسری صورت یہ ہے کہ عدلیہ کو سپریم بنا دیا جائے۔ بعض جمہوری ملکوں نے عدلیہ کو اتنا طاقتور بنا دیا ہے وہ پارلیمنٹ کے پاس کئے ہوئے ایکٹ کو بھی رد کر سکتی ہے۔ اس سلسلے چند ملکوں کی مثال دوں گا۔ جیسے آپ ہر چیز امریکہ سے لیتے ہیں۔ ڈرون حملے، پالیسیاں، پیسے، قرضے، اجازتیں وغیرہ جب ہر چیز امریکہ سے مانگتے ہیں تو جمہوریت، جمہوری قدریں اور آئینی طور طریقے بھی امریکہ سے لیں۔ یہ اچھائی کی بات وہاں سے کیوں نہیں لیتے؟ امریکہ میں یہ قانون ہے کہ وہاں اگر پارلیمنٹ کوئی قانون پاس کر دے تو امریکی سپریم کورٹ کو جوڈیشل ریویو کا حق حاصل ہے۔ حالانکہ امریکہ کا آئین اس بات کو بیان نہیں کرتا اور آئین میں کوئی آرٹیکل یہ اختیار سپریم کورٹ کو نہیں دیتا مگر دو سو سال کی تاریخ اور آئینی روایات اور عدالتوں کے فیصلے کی بنیاد پر سپریم کورٹ نے یہ اختیار از خود لے لیا ہے۔ کئی مرتبہ امریکی صدر اور کانگریس کے ایکٹ کو امریکی سپریم کورٹ نے Invalid قرار دے دیا اور آج تک امریکہ کی پارلیمنٹ نے سپریم کورٹ کی Judgement کو چیلنج نہیں کیا۔ اس طرح ادارے مضبوط ہوتے ہیں اور پھر ملک میں نظام چلتا ہے۔ یہی پوزیشن جرمنی کی ہے۔ جرمنی کی فیڈرل کونسل اور جوڈیشل کورٹس کو پارلیمنٹ کے اوپر سپری میسی کے وہی اختیارات حاصل ہیں جو امریکہ کی سپریم کورٹ کو حاصل ہیں بلکہ امریکہ کی سپریم کورٹ سے بھی زیادہ اختیارات حاصل ہیں۔ سپریم کورٹ یہ طے کرتی ہے کہ کوئی فیصلہ آئین کی اصل روح کے خلاف تو نہیں ہے۔ جرمنی کے قانون اور عدلیہ نے ڈیموکریسی کو محفوظ رکھنے میں شاندار کردار ادا کیا ہے۔ یہی حال ناروے اور ڈنمارک کا ہے جہاں عدلیہ کو پارلیمنٹ پر Supremacy حاصل ہے۔

عدلیہ جمہوریت کی حفاظت کی ضامن ہوتی ہے تاکہ سیاسی جماعتیں اپنی خواہش کے مطابق آئین اور ملک کو کسی اور راستے پر نہ چلا سکیں۔ اس سے ادارے مضبوط ہوتے ہیں۔ فرانس کی جمہوریت میں سپریم کورٹ کی بجائے ایک اور کورٹ ہے جس کا نام Constitutional Council ہے۔ وہ پارلیمنٹ کی Resolution کو بھی مسترد کر سکتی ہے۔ یہ قانون 200 سال کی کوشش کے بعد 2010ء میں نافذ کیا گیا۔ میں بتانا یہ چاہتا ہوں ہم جن جمہوری ملکوں کی بات کرتے ہیں ان میں ادارے طاقتور ہیں اور حکومتیں اور پارلیمان سپریم کورٹ کے آگے سر تسلیم خم کرتے ہیں اور کسی ملک میں لڑائی کبھی نہیں دیکھی۔ جبکہ یہاں ادارے لڑتے ہیں، جماعتیں لڑاتی ہیں۔ ایک دنگا فساد ہے۔ ایک تماشا ہے۔ ایک ڈرامہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک یہاں صحیح طریقے سے جمہوریت پنپ نہیں سکی جس کے نتیجے میں پورا ملک معاشی طور پر انتہائی بربادی کا شکار ہو گیا ہے۔ آج پاکستان کی حیثیت اقتصادی اعتبار سے یہ ہے کہ پاکستان بین الاقوامی برادری میں کرپشن میں 117 نمبر پر چلا گیا ہے۔ کرپشن کا نمبر جتنا بڑھتا چلا جائے اس کا مطلب ہے کرپشن کا درجہ اتنا بڑھتا چلا گیا۔ اس حوالے سے تھوڑا تقابل کرتے ہیں۔ سارک ممالک میں ایک چھوٹا سا ملک بھوٹان ہے جو غیر ترقی یافتہ ہے مگر اس کا کرپشن میں ریٹ اور درجہ 29 ہے۔ انڈیا میں کرپشن کا درجہ 70 ہے۔ سری لنکا کا 74 ہے، منگولیہ کا 92 بنگلہ دیش، نائیجیریا اور زمبابوے کا 108 ہے۔ یہ سارے چھوٹے بڑے ملک پیچھے رہ گئے اور پاکستان کا نمبر 117 پر جا پہنچا۔ اس میں فوجی آمروں کا بھی دور شامل ہے اور سیاسی نام نہاد جمہوری حکومتوں کا بھی دور شامل ہے۔ مسلسل کرپشن بڑھتی جا رہی ہے چونکہ ڈیمو کریسی اور ٹرانسپیرنسی نہیں ہے، اکاؤنٹی بیلٹی نہیں ہے، عوام کی شراکت نہیں ہے اور مواخذہ نہیں ہے۔ ہمارا افراط زر مسلسل بڑھتا جا رہا ہے جو 2004ء اور 2005ء میں تقریباً 8 فیصد تک تھا۔ اب 2011ء میں 16 فیصد سے زیادہ ہو چکا ہے۔ آج 2004ء کے مقابلے میں چار گنا زیادہ افراطِ زر میں اضافہ ہو چکا ہے یہ ایشین بینکنگ کی رپورٹ ہے۔ 1997-1996-1995 کے جو جمہوری دور تھے ان میں جی ڈی پی کا بالترتیب 1.1، 1.2، 1.5 حصہ تھا جبکہ مشرف صاحب کے دور میں اس سے بھی نیچے چلا گیا تھا اور آج 2011 ء میں پھر 1.6 پر کھڑا ہوا ہے۔ یعنی ہماری جو پوزیشن 1996-1995-1994 میں تھی وہی آج ہے۔ دنیا کے ہر ملک کا جی ڈی پی کا گراف بڑھتا گیا جبکہ پاکستان کا پندرہ سال سے نہیں بڑھ سکا اور بربادی کا شکار رہا۔ اس طرح بجٹ کا خسارہ مارچ 2010ء تک 8160 ارب روپیہ تھا جو ہمارے جی ڈی پی کا 56 فیصد تھا۔ جس میں آئی ایم ایف کا قرضہ شامل نہیں ہے۔ اگر اسے شامل کر لیں تو 9 کھرب روپے کا خسارہ ہے جو ہمارے اوپر قرض ہے۔ اور یہ جی ڈی پی کا 60 فیصد بنتا ہے۔ یہ بجٹ 2010ء اور 2011ء کی صورت حال ہے۔ تباہی کی اور کونسی حد ہے جسے ہم سننا چاہتے ہیں۔ بیرونی قرضوں کا حجم 1999ء میں 3200 ارب تھا۔ جب جنرل مشرف کا دور ختم ہوا تو 3200 سے بڑھ کر 6668 ارب روپے ہمارے بیرونی قرضے کا حجم ہو گیا۔ بعد ازاں یہ 11300 ہوا اور اب آج جب میں آپ سے بات کر رہا ہوں تو اس سے بڑھ کر 12000 کے قریب پہنچ چکا ہے۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ کیونکہ باہر کی انویسٹمنٹ نہیں ہوتی۔ قرضے کرپشن میں جاتے ہیں۔ مواخذہ اور احتساب نہیں ہے۔ پالیسی شفاف نہیں ہے۔ اختیارات لوگوں کے ہاتھ میں ہیں قانون کے پاس نہیں۔ فوری انصاف نہیں ملتا اور جو ماحول ہے وہ قرض لانے والے کو سہولت نہیں دیتا اور امن نہیں ہے۔ دہشت گردی ہے۔ دہشت گرد دندناتے پھرتے ہیں۔ ملک کی تقدیر دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کے ہاتھ میں ہے۔ جس کو چاہیں جب چاہیں اڑا دیں۔ بیروزگاری میں بھی پاکستان کا گراف بہت نیچے جا رہا ہے۔ 2010ء سے ہمارے ملک میں ٹوٹل بیروزگاری 15.4% ہے۔ جبکہ بنگلہ دیش کی بیروزگاری 5.1 فیصد ہے۔ ہماری بیروزگاری کا گراف بنگلہ دیش سے تین فیصد بڑھ چکا ہے۔ بھوٹان جو سارک کا چھوٹا سا ملک ہے اس میں بیروزگاری 4 فیصد ہے۔ سری لنکا میں 5.8 فیصد ہے۔ منگولیہ میں 11.5 فیصد، قازقستان میں 5.8 فیصد، افریقہ کے گھانا میں 11 فیصد، نائیجیریا میں 8.9 فیصد ان سات ملکوں کی Average دیکھ لیں ہم بیروزگاری میں ان سے بھی گئے گزرے ہو گئے۔ وجہ کیا ہے؟ اس ملک میں بے تحاشا عیاشی ہے۔ کوئی مواخذہ کرنے والا نہیں۔ کسی دور میں بھی تعلیم پر خرچ نہیں کیا گیا۔ آج 2011ء میں ہمارے جی ڈی پی کا صرف 2.7 فیصد تعلیم پر خرچہ ہے اور آج سے پندرہ سال پہلے بھی یہی تھا۔ اس کا مقصد ہے کہ تمام فوجی اور سیاسی لیڈر قوم کو تعلیم نہیں دینا چاہتے۔

دوسری طرف افریقہ کے تیسری دنیا کے ممالک اپنی تعلیم پر پاکستان سے تین چار گنا زیادہ خرچ کر رہے ہیں۔ جب ہم اپنی تعلیم پر خرچ نہیں کرنا چاہتے تو حقیقی جمہوریت کہاں سے آئے گی؟ صحت پر ہمارا جی ڈی پی کا صرف دو اعشاریہ 6 فیصد ہے اس لئے لوگ صحت سے محروم ہیں اور مر رہے ہیں۔ پندرہ سال سے یہی چلا آ رہا ہے۔ بنگلہ دیش کا صحت پر خرچ ہم سے زیادہ 3.4 فیصد ہے۔ نیپال کا 5.8 فیصد، بھوٹان کا 5.5 فیصد، سری لنکا کا 4 فیصد، مالدیپ کا 5.6 فی صد، منگولیہ کا 9 فی صد، قازقستان کا 9.3 فیصد، کینیا کا 12.2 فی صد، گھانا کا 10.6 فی صد، اتھوپیا (حبشہ) کا 3.6 فیصد۔ اس سے آپ اندازہ کر لیں افریقہ جسے پسماندہ ملک کا تعلیم اور صحت اور ملک کو ترقی دینے پر خرچہ ہم سے زیادہ ہے۔ جبکہ ہمارے خرچ عیاشیوں پر کئے جاتے ہیں، کرپشن، اثاثہ جات بڑھانے اور ہر قسم کے کھانے اڑانے پر کئے جاتے ہیں۔

اب ایک دلخراش بات سنیں۔ اس سال افغانستان کی ایکسپورٹ اور امپورٹ گروتھ 6.9 فی صد ہے۔ جبکہ ہماری 12.9 ہے۔ ہمیں شرم سے ڈوب مرنا چاہئے کہ ان کی ہم سے تین چار گنا زیادہ ہے۔ اس سے پاکستان کی معاشی اور اقتصادی حالت معلوم کی جا سکتی ہے۔

خدارا! یہ نظام جمہوریت نہیں ہے۔ اس انتخابی نظام کے ذریعے ملک کی تقدیر کو نہیں بدلا جا سکتا۔ اگر عوام اور سیاسی لیڈر مخلص ہیں تو آج قومی حکومت قائم کریں جو Non-political ہو۔ اسے وقت دیا جائے تاکہ وہ قوم کے ٹوٹے ہوئے اداروں کی مرمت کر کے اسے ٹریک پر چلائے اور جمہوریت کے تقاضے پورے کر کے اس قوم کو قابل کرے اور باشعور بنائے۔ (جاری ہے)

٭٭٭٭٭