اسلامی تہذیب و ثقافت کا فروغ

ڈاکٹر ساجد خاکوانی

آدم و ابلیس کے کھنچاؤ سے ہی انسانیت کا آغاز ہوا، حضرت آدم علیہ السلام کے زمین پر اترتے ہی ابلیس بھی آن وارد ہوا اس مشن و مقصد کے ساتھ کہ وہ نسل آدم کو گمراہ و بدراہ کرے گا۔ چنانچہ مختلف اوقات میں ابلیس نے مختلف حربے آزمائے اور شرک، تکبر، جادو، ناپ تول میں کمی، ہم جنسیت اور فکری و عملی آوارگی کے دیگر ذرائع سے انسانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کی۔ اﷲ تعالی نے ہر موقع پر اپنے انبیاء علیھم السلام مبعوث فرمائے جنہوں نے انسانوں کی راہنمائی کا فریضہ سرانجام دیا۔ ایک وقت آیا کہ شیطان اپنے کام میں ماہر ہو گیا تب انسان کو بھی مقابلے کے لیے مکمل سامان، قرآن و سنت کی صورت میں فراہم کر دیا گیا۔ یہ قرآن و سنت اور تعلیمات انبیاء آج اسلامی تہذیب و ثقافت کی صورت میں موجود ہیں جبکہ ابلیس کے گزشتہ وموجودہ ’’کارہائے نمایاں‘‘کو سیکولر ازم نے اپنی چادر میں سمیٹ رکھا ہے۔

اسلامی تہذیب و ثقافت نے معاشرے کے سب طبقات کو فرائض کے نام پر اکٹھا کر دیا ہے جبکہ سیکولر مغربی تہذیب و ثقافت نے حقوق کے نام پر سب طبقات کو آپس میں لڑا دیا ہے۔ اسلام نے امیر اور غریب کو زکوۃ کی ادائیگی و وصولی میں جمع کیا، ایک محلے کے سب لوگوں کو نماز کی ادائیگی میں یک مصلی کر دیا، مظلوموں کو ظالم کے خلاف جہاد کے میدان میں صف آرا کر دیا اور دنیا بھر کے نمائندہ طبقات کوحج جیسی عبادت میں یک لباس کر دیا اور رمضان کے روزوں کے دوران غریب کی بھوک میں پورے معاشرے کو شریک احساس کر دیا۔ اسکے مقابلے میں سیکولر مغربی تہذیب و ثقافت نے حقو ق کے نام پر معاشرے کے تمام طبقات کو باہم لڑا دیا ہے، جمہوریت کے نام پر عوام کو حکمرانوں کے خلاف صف آرا کر دیا، لیبر تنظیموں کے نام پر مزدوروں کو مل مالکان سے لڑا دیا، سٹوڈنٹس یونین کے نام پر طلبا کو اساتذہ سے لڑا دیا اور عوام میں فرائض کا شعور بیدار کرنے کی بجائے یہ درس دیا کہ حقوق مانگ کر نہیں بلکہ چھین کر لیے جاتے ہیں۔

اسلامی تہذیب و ثقافت نے فردکو غلام بنانے کی اجازت دی لیکن قوموں کو غلام نہیں بنایا جبکہ سیکولر مغربی تہذیب و ثقافت نے قوموں کو انکی ناک تک غلامی میں جکڑ لیا۔ اسلام نے گردن میں طوق تو ڈالا لیکن ذہن اور فکر آزاد رہی اور غلامی کے معانی طلوع اسلام کے بعد بدل سے گئے لیکن سیکولر مغربی تہذیب و ثقافت نے بدن اگرچہ آزاد رکھے لیکن قوموں کو اپنا ذہنی غلام بنا لیا۔ ایک ہزار سال اسلامی تہذیب و ثقافت دنیا میں حکمران رہی لیکن مسلمانوں نے کسی دوسری قوم کو تہذیبی و ثقافتی و معاشی غلام نہیں بنایا لیکن گزشتہ تین سو سال کے عرصہ میں اس سیکولر مغربی تہذیب و ثقافت نے پوری دنیا کی اقوام کو اپنا تہذیبی و ثقافتی غلام بنا لیا ہے، انہیں ہر جگہ اپنا لباس اور اپنی ہی زبان نظر آنی چاہیے اور پوری دنیا کے وسائل کو ہتھیانے کے لیے سود پر مبنی استحصالی معاشی نظام کے ذریعے اس سیکولر مغربی تہذیب و ثقافت نے عالمی مالیاتی غلامی کا نظام مسلط کر رکھا ہے جس میں ہر ملک و قوم کے ہاتھ پاؤں اور گردنیں بری طرح جکڑ دی گئیں، اور اب نئی صدی کے آغاز کے ساتھ ہی اس تہذیب و ثقافت نے دفاعی غلامی، تعلیمی غلامی اور تکنیکی غلامی سمیت نہ معلوم کس کس طرح کی غلامیوں کے جال انسانوں پر پھیلا رکھے ہیں۔

اسلام نے عورت کو ماں، بہن، بیٹی، بہو، بیوی اور معلمہ کے محترم مقامات عطا کیے جبکہ سیکولر مغربی تہذیب و ثقافت نے عورت کی چادر پر گرل فرینڈ، سیکرٹری، کولیگ، سنگل پیرنٹ، سٹار، سنگر اور ماڈل گرل، کال گرل اور سیل گرل، جیسے داغ لگا کر اسکی نسوانیت اس سے چھین لی۔ اسلام نے نکاح کی کوکھ سے خاندان جیسے ادارے کو جنم دیا جس میں وہ مقدس رشتے عورت کو میسر آئے کہ جن کی پاکیزگی اور ٹھنڈک سے چاند کی چاندنی بھی شرما جائے اور دامن عصمت وحجاب کے نام پر اسلام نے طہارت فکر ونظر کا وہ مینارہ نور متعارف کرایا کہ جس کی پھوٹتی کرنوں کی تمازت سے آفتاب بھی اپنا چہرہ نقاب سے ڈھانک لے، لیکن تف ہے اس سیکولر مغربی تہذیب و ثقافت پر جس نے نوخیز وناتواں بچیوں کی مسکراہٹوں کو بھی بازارمیں گاہکی بڑھانے کے لیے مارکیٹنگ کا ذریعہ بنا لیا اور عورت کی فطرت کے خلاف اس سے وہ وہ کام لیے کہ شاید جنگل کے جانور بھی اپنی مادہ کا اتنا استحصال نہ کرتے ہوں، عورت سے گھر اور خاندان چھین کر اسے معاش پر لگا دیا، اسکا بچہ چھین کر اسے ٹائپ رائٹر اور فائلیں تھما دیں، اسکے بستر سے اسے جدا کر کے توپ بندوق اسکے ہاتھ میں تھما دی، اسکے شوہر سے محروم کر کے اسے سکرین کی زینت بنا دیا اور حد تو یہ کہ اسکی حیا کے عوض اسکے جسم اور فن کو پبلک پراپرٹی قرار دے دیا، حوس نفس وجنسیت اور خود غرضی و حیوانیت کو کتنے کتنے خوبصورت نام دے دیے اس ننگ انسانیت سیکولر مغربی تہذیب و ثقافت نے۔

سیکولر مغربی تہذیب و ثقافت کا خلاف فطرت انداز فکر یہاں تک پہنچا کہ فطرت نے مرد کو اسکے میدان کارکے تقاضوں کے باعث اسے کم لباسی کی اجازت دی ہے وہ محنت مزدوری کرتے ہوئے ستر کے علاوہ اپنے جسم سے لباس اتار سکتا ہے تاکہ اسکی کارکردگی میں بڑھوتری ہو سکے اور وہ کھل کر اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لا سکے جبکہ فطرت نے عورت کو معاش سے باز رکھ کر اور اس میں فطری کشش کے باعث اسے زیادہ سے زیادہ جسم ڈھانکنے کی ترغیب دی ہے کہ اسی میں اسکی صحت بھی ہے اور نسوانی حسن بھی۔ جبکہ سیکولر مغربی تہذیب و ثقافت نے مرد کو سر سے پیر تک مکمل ڈھانپ دیا ہے وہ ہیٹ پہنتا ہے، عینک لگاتا ہے، کوٹ اسکی کفوں تک کو چھپا دیتا ہے اور پتلون کے نیچے جرابیں اور بوٹ بھی اسکے جسم کا کوئی حصہ دیکھنے نہیں دیتیں جبکہ عورت کو اس سیکولر مغربی تہذیب و ثقافت نے جس انداز سے پیش کیا ہے قلم اسکی کیفیت لکھنے میں مغرب کی عریانت سے مستور ہے۔

اسلامی تہذیب و ثقافت میں انسان جیسے جیسے عمر رسیدہ ہوتا چلا جاتا ہے وہ قیمتی سے قیمتی تر ہوتا چلا جاتا ہے، جبکہ سیکولر مغربی تہذیب و ثقافت میں انسان بوڑھا ہونے کے ساتھ ساتھ بے کار، بے فائدہ اور بے مقصد ہوتا چلا جاتا ہے۔ اسلامی تہذیب و ثقافت میں بزرگ لوگ اپنے خاندان کا اثاثہ سمجھے جاتے ہیں، ہر چھوٹا بڑا فیصلہ انکی مرضی کے عین مطابق ہوتا ہے اور کیا جاتا ہے۔ حتی کہ مذہب جیسی قوت نے بھی جو اس تہذیب و ثقافت کی بنیاد ہے، جنت جیسے مقام کو بزرگوں کے قدموں تلے ڈھیر کر دیا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ بزرگوں کی دعائیں تقدیر کا رخ پھیر سکتی ہیں۔ اسلامی تہذیب و ثقافت بزرگوں کی شان میں مزید اضافہ کرتی ہے۔ جبکہ سیکولر مغربی تہذیب و ثقافت کے ہاں اولڈ ہاؤسز بنے ہیں جہاں وہ سال میں کسی ایک دن اپنے بزرگوں کو ملنے جاتے ہیں۔ کیا خود غرضی اور شامت اعمال ہے کہ جب تک کوئی چند بے حقیقت سکے کمانے کے قابل رہے تو وہ قیمتی ہے اور جب ذرا ڈھلنے لگے تو وہ بیکار ہو گیا، کیا اس سیکولر مغربی تہذیب و ثقافت کے پاس انسانوں کو تولنے کے لیے انسانیت نام کا کوئی پیمانہ نہیں ہے؟؟

ایک ہزار سال تک اس دنیا میں اسلامی تہذیب و ثقافت کی حکمرانی رہی اس دوران قوموں کے درمیان آزادانہ تجارت رہی، ایک ملک سے مال آزادانہ طور پر تاجر حضرات دوسرے ملک میں لے جاتے، بین الممالک سفر انتہائی آسان تھا اور حکمران ہمیشہ عوام کے درمیان رہتے تھے، کبھی دو قوموں کے درمیان بڑی جنگیں نہیں ہوئیں، کبھی دو ملکوں کے درمیان اسلحے کی دوڑ نہیں لگی اور طب، تعلیم، صحافت، ادب اور خدمت سب کچھ بلامعاوضہ فی سبیل اﷲ ہوا کرتا تھا۔ لیکن جب سے سیکولر مغربی تہذیب و ثقافت نے اس دنیا میں قدم جمائے آج بین الممالک تجارت سب سے مشکل کام ہے، ایک ملک سے دوسرے ملک جانے کے لیے سیروں کے حساب سے کاغذات اٹھانے پڑتے ہیں جن کی تیاری میں مہینوں صرف ہو جاتے ہیں، سالوں گزر جاتے ہیں عوام حکمرانوں کی شکل نہیں دیکھ پاتے، پہلی جنگ عظیم اور دوسری جنگ عظیم کے مکروہ تحفے اسی سیکولر مغربی تہذیب و ثقافت کی دین ہیں اور اسلحے کی نہ ختم ہونے والی دوڑ اور قوموں کی تقسیم در تقسیم سے سینکڑوں ممالک کا وجود اس تہذیب و ثقافت کے وہ شاخصانے ہیں جو آج کی انسانیت پر ناروا بوجھ بن چکے ہیں۔ کمرشل ازم اس تہذیب و ثقافت کا وہ مکروہ تحفہ ہے کہ طب، تعلیم اور خدمت جو جتنی مجبوری کے کام ہیں وہ اتنے ہی مہنگے تر کر دیے گئے ہیں۔

اسلامی تہذیب و ثقافت کم و بیش پوری دنیا میں پہنچی لیکن عربی غلامی کسی قوم پر مسلط نہیں کی گئی، عربی کھانے کسی قوم پرٹھونسے نہیں گئے اور عربی لباس کسی قوم پر تھونپا نہیں گیا۔ آج بھی پوری دنیا قرآن، نماز اور حج وغیرہ عربی زبان میں ہی ادا کرتے ہیں لیکن عربی سے مرعوبیت کہیں نہیں ہے لیکن سیکولر مغربی تہذیب و ثقافت جہاں جہاں بھی گئی اس نے تعلیم کے نام پر اپنی تہذیب و ثقافتی روایات کا ٹیکہ ہی لگایا اور مقامی روایات و ثقافت کی حوصلہ شکنی کی، اپنے کھانے اور اپنے لباس اور اپنی بود وباش کو مفتوحہ اقوام میں جاری و ساری کیا اور ہر جگہ ایک منصوبہ کے تحت ایسے طبقہ کی پرورش کی جس نے اپنوں سے غداری اور بدیسیوں سے وفاداری کا راگ الاپا۔ جو علم و فکر سے مرعوب ہو سکا اسے اسی طرح مرعوب کیا اور جو اس طرح دام میں نہ آ سکا اسے بندوق سے مرعوب کیا اور ہر صورت میں اپنی جگہ گیری اور بدمعاشی پوری دنیا پر قائم کی اور یہ سب کام انسانیت، جمہوریت، حقوق کی آگاہی اور آزادی افکار کے نام پر کیا جاتا رہا۔

اسلام نے جس جمہوریت کا تصور دیا ہے اس میں انسانوں کو تولا جاتا ہے، انکی رائے کو انکی تعلیم، تجربے اور تقوی کی بنیاد پر مقام دیا جاتا ہے لیکن سیکولر مغربی تہذیب و ثقافت نے جو تصور جمہوریت دیا ہے اس میں انسانوں کو گنا جاتا ہے اور ان میں کسی طرح کی کوئی تشخیص نہیں کی جاتی۔ تاریخ اپنے رازوں سے پردے ہٹاتی رہتی ہے جس کے بعد اب اندازہ ہوتا ہے کہ یہ جمہوری نظام دراصل دیگر اقوام میں غداروں کی پرورش کا ایک ذریعہ ہونے کے سوا اور کچھ نہیں۔ جہاں انہیں بغیرجمہوریت کے غدار میسر آ گئے وہاں اس سیکولر مغربی تہذیب و ثقافت نے آمریت، شخصی حکمرانی اور ملوکیت کو بھی قبول کر لیا اور جہاں خواہ جمہوریت کے راستے ہی کوئی محب وطن حکمران برسراقتدار آ گیا وہاں انہوں نے ایسا تیشہ چلایا کہ کیسی جمہوریت اور کیسی عوام؟؟ بس جو جو حکمران اپنی قوم کے خزانے اور فوجی اڈے ان کے لیے کھول دے وہ بہت اچھا ہے بصورت دیگر ایک لمبی فہرست ہے جنہیں مسند اقتدار سے سیدھا قبرستان پہنچا دیا گیا، کیا مکروہ پلندہ کذب و نفاق ہے یہ سیکولر مغربی تہذیب و ثقافت۔

دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنا، دلفریب نعروں سے اپنے مکروہ مقاصد حاصل کرنا اور سیاسی و مالی مفادات کے لیے دیگر اقوام کی غربت سے فائدہ اٹھا کر انہیں اپنے شیشے میں اتارنا اس سیکولر مغربی تہذیب و ثقافت کاخاصہ رہا ہے۔ آلودگی کا شور مچا کر دوسرے ملکوں کی صنعتیں بند کروانا یا انکی مصنوعات پر آلودگی کم کرنے کے پلانٹ لگا کر انکی مصنوعات مزید مہنگی کروانا تاکہ اس ملک کے لوگ یورپ کی ساختہ اشیاء خریدنے پر مجبور ہو جائیں کہاں کا انصاف ہے؟اپنے ملکوں میں جانوروں، پرندوں اور درختوں کی افزائش پر بے پناہ وسائل خرچ کرنا اور دوسرے ملکوں کو کہنا کہ اپنے انسان بھی کم پیدا کرو کہاں کی انسانیت ہے؟ ہزاروں میل دور دوسرے ملکوں میں اپنی افواج کے ذریعے شہریوں پر اندھا دھند کارپٹ بمباری کرنا اور پھر بھی امن پسند کہلانا اور اپنے ملک و قوم کی حفاظت کرنے والوں کو دہشت گرد کہنا کہاں کی عقل ہے؟ اپنا خاندانی نظام تباہ کر کے دوسری قوموں کے درپے ہو جانا اور نعرہ دینا عورت کی آزادی کا اور شور مچانا کہ ہائے عورت بچاری پٹ گئی اور چاہنا کہ انکا بھی خاندانی نظام تل پٹ ہو جائے کہاں کی شرافت ہے؟ آزادی صحافت کا نعرہ لگانا اور اپنے خلاف خبریں نشر کرنے والے اداروں پر میزائل فائر کر کے تباہ کر دینا، صحافیوں کو اغوا کر کے قتل کرا دینا، خفیہ ایجنسیوں کے ذریعے انہیں خوف و ہراس کا شکار کرنا اور بھاری رقوم دے کر ان کی زبان بند کرانا کیا کھلا تضاد نہیں؟ چائلڈ لیبر، ہیومن واچ، نشہ سے نجات، وائلڈ لائف اور نہ جانے کتنے کتنے خوبصورت ڈھونگ اس سیکولر مغربی تہذیب و ثقافت نے رچائے جن کے پس پردہ مقاصد پر مورخ جب قلم اٹھائے گا تو اس تہذیب و ثقافت کا اصل چہرہ دنیا کے سامنے بے نقاب ہو گا۔

سیکولر مغربی تہذیب و ثقافت ایک خاص علاقے اور ایک خاص رنگ و نسل کی تہذیب و ثقافت ہے جبکہ اسلامی تہذیب و ثقافت عالمگیر تہذیب و ثقافت ہے۔ سیکولر مغربی تہذیب و ثقافت ایک زمانے کی پیداوار ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ اپنے آخری سانس گننے والی ہے جبکہ اسلامی تہذیب و ثقافت ایک آفاقی تہذیب و ثقافت ہے۔ سیکولر مغربی تہذیب و ثقافت چند انسانوں کی پیدا کردہ ہے جن میں سے کوئی انسان کو جانور کی اولاد کہتاہے، کوئی انسان کومعاشرتی جانور کہتا ہے، کوئی معاشی جانور کہتاہے اور کوئی یہاں تک گر جاتا ہے کہ اسکے نزدیک انسان ایک جنسی جانور ہے جبکہ اسلامی تہذیب و ثقافت انبیاء علیھم السلام کا ورثہ و ترکہ ہے جنہوں نے انسان کو خالق کائنات کا نائب اور اشرف المخلوقات کا مقام عطا کیا ہے۔ سیکولر مغربی تہذیب و ثقافت خود فراموشی وخدا فراموشی کی تہذیب و ثقافت ہے جو انسان کو پیٹ اور پیٹ سے نیچے کی خواہش کا پجاری بناتی ہے جبکہ اسلامی تہذیب و ثقافت خود شناسی و خدا شناسی کی تہذیب و ثقافت ہے جو انسان کو ایک خدا کا بندہ بناتی ہے۔ انسانیت کو بالآخر اسلامی تہذیب و ثقافت کی طرف ہی پلٹنا ہو گا، اس دنیا میں امن عالم کا خواب جینوا کارڈ کے بس کی بات نہیں، دنیا میں امن و آشتی، پیار ومحبت اور فروغ انسانیت صرف ایک ہی ذریعہ سے ممکن ہے اور وہ ذریعہ محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کاخطبہ حجۃ الوداع ہے۔ اسلام شروع میں شریعت تھا اور آخر میں حقیقت بن جائے گا، سائنس و ٹیکنالوجی رینگتی ہوئی اسلام کی گود میں ہی آن گریں گی، سنت رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک ابدی حقیقت بن جائے گی اور قرآن کی حقانیت پوری دنیا پر ثابت ہو جائے گی ان شاء اﷲ تعالی۔

ممکن ہے ان خیالات کو جذباتیت سمجھ لیا جائے اور اس سے انکار بھی نہیں ہے، جس سینے میں ختم نبوت، اہلِ بیت اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی نسبت محبت کی لازوال دولت موجود ہو وہ جذبات سے کیونکر خالی ہو سکتا ہے لیکن آج جس تہذیب و ثقافت کا انجام انسانیت اپنی آنکھوں سے دیکھنا چاہ رہی ہے اسے تہذیبی و ثقافتی تصادم کے پہلے مشاہدہ نگار نے ان الفاظ میں تاریخ بند کر دیا تھا کہ :

تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی
جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائدار ہو گا

(اقبال)

٭٭٭٭٭