آئیے قرآن سیکھیں
حافظ محمد سعید رضا بغدادی

عرفان القرآن کورس
درس نمبر 46 آیت نمبر 95، 96، 97 (سورۃ البقرہ)
تجوید

مدَّات کا بیان

سوال : مدّ کسے کہتے ہیں؟ لغوی واصطلاحی تعریف کریں؟

جواب : مدّ کے لغوی و اصطلاحی معنی درج ذیل ہیں :

الف۔ مدّ کا لغوی معنی

’’کھینچنا، لمبا کرنا، دراز کرنا‘‘ ہے۔

ب۔ مدّ کی اصطلاحی تعریف

اصطلاحِ قُرّاء میں حروفِ مدّہ کو اپنی اصل مقدار سے زیادہ کھینچ کر پڑھنا ’’مدّ‘‘ کہلاتا ہے۔

سوال : سببِ مدّ کون سے ہیں؟

جواب : سببِ مدّ سے مراد ہمزہ (ء) جزم (-ْ) اور شدّ (-ّ) ہے۔

سوال : مقدارِ مدّ سے کیا مراد ہے؟

جواب : مقدارِ مدّ سے مراد ’’طول، توسّط اور قصر‘‘ ہے۔

سوال : طولکی مقدارِ مدّ کتنی ہے؟

جواب : طولکی مقدارِ لمبائی ’’چار الف‘‘ سے ’’پانچ الف‘‘ تک ہے۔

سوال : تَوَسُّطْ کی مقدارِ مدّ کتنی ہے؟

جواب : تَوَسُّطْ کی مقدارِ لمبائی ’’دو الف‘‘ سے ’’تین الف‘‘ تک ہے۔

سوال : قصر کی مقدارِ مدّ کتنی ہے؟

جواب : قصر کی مقدارِ لمبائی ’’ایک الف‘‘ سے ’’دو الف‘‘ تک ہے۔ ’’جواہر النقیہ‘‘

ترجمہ

وَلَنْ يَتَمَنَّوْهُ أَبَدًا

متن

وَ

لَنْ

يَتَمَنَّوْهُ

أَبَداً

لفظی ترجمہ

اور

 ہرگز نہیں

تمنا کرینگے اسکی

کبھی

عرفان القرآن

وہ ہرگز کبھی بھی اس کی آرزو نہیں کریں گے۔

بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيْهِمْ ط وَاللّٰهُ عَلِيْمٌ بِالظَّالِمِيْنَO وَلَتَجِدَنَّهُمْ

متن

بِمَا

قَدَّمَتْ

اَيْدِيْهِمْ

وَ

اللّٰهُ

عَلِيْمٌ

بِالظَّالِمِيْنَ

وَ

لَتَجِدَنَّهُمْ

لفظی ترجمہ

بسبب اسکے جو

آگے بھیجا ہے

ہاتھوں نے انکے

اور

اللہ

خوب جانتا ہے

ان ظالموں کو

اور

تو انکو ضرور پائیگا

عرفان القرآن

جو ان کے ہاتھ آگے بھیج چکے ہیں۔ اور اللہ ظالموں کو خوب جانتا ہے۔ اور آپ انہیں یقینا زیادہ مبتلاپائیں گے

أَحْرَصَ النَّاسِ عَلٰی حَيٰوةٍ وَّ مِنَ الَّذِيْنَ أَشْرَکُوْا يُوَدُّ أَحَدُهُمْ

متن

أَحْرَصَ

النَّاسِ

عَلٰی

حَيٰوةٍ

وَ

مِنَ

الَّذِيْنَ

أَشْرَکُوْا

يُوَدُّ

أَحَدُهُمْ

لفظی ترجمہ

زیادہ حریص

لوگوں سے

پر

 زندگی

اور

سے

جنہوں نے

شرک کیا

چاہتا ہے

ہر ایک انمیں سے

عرفان القرآن

سب لوگوں سے جینے کی ہوس میں‘ اور مشرکوں سے بھی زیادہ‘ ان میں سے ہر ایک چاہتا ہے۔

لَوْ يُعَمَّرُ أَلْفَ سَنَةٍ وَّمَا هُوَ بِمُزَحْزِحِه مِنَ الْعَذَابِ

متن لَوْ يُعَمَّرُ ألْفَ سَنَةٍ وَ مَا هُوَ بِمُزَحْزِحِهِ مِنَ الْعَذَابِ
لفظی ترجمہ کاش عمر دی جائے اسکو ہزار سال و نہیں وہ اسکوچھڑانیوالی سے عذاب
عرفان القرآن کہ کاش اسے ہزار برس کی عمر مل جائے‘ تو بھی یہ اسے عذاب سے بچانے والی نہیں ہو سکتی

أَنْ يُعَمَّرَ ط وَاللّٰهُ بَصِيْرٌ بِمَا يَعْمَلُوْنَO قُلْ مَنْ کَانَ

متن

أَنْ

يُّعَمَّرَ

وَاللّٰهُ

بَصِيْرٌ

بِمَا

يَعْمَلُوْنَ

قُلْ

مَنْ

کَانَ

لفظی ترجمہ

یہ کہ

عمردی جائے

اللہ

دیکھتا ہے

جو کچھ

وہ کرتے ہیں

فرما دیجئے

جو

ہے

عرفان القرآن

اگر اسے اتنی عمرمل بھی جائے اور اللہ ان کے اعمال کو خوب دیکھ رہا ہے۔ آپ فرما دیں جو شخص ہے۔

  عَدُوّاً لِّجِبْرِيْلَ فَإِنَّهُ نَزَّلَهُ عَلٰی قَلْبِکَ بِإِذْنِ اللّٰهِ مُصَدِّقًا

متن عَدُوًّا لِجِبْرِيْلَ فَاِنَّهُ نَزَّلَهُ عَلٰی قَلْبِکَ بِإِذْنِ اللّٰهِ مُصَدِّقًا
لفظی ترجمہ دشمن جبریل کا تو بیشک اسنے نازل کیا اسکو پر دل تیرے اذن سے اللہ کے تصدیق کرنیوالا
عرفان القرآن جبریل کا دشمن کیونکہ ا س نے (تو) اس (قرآن) کو آپ کے دل پر اللہ کے حکم سے اتارا ہے جو تصدیق کرنیوالا ہے

 لِمَا بَيْنَ يَدَيْهِ وَهُدًی وَبُشْرٰی لِلْمُؤمِنِيْنَO

متن

لِمَا

بَيْنَ

يَدَيْهِ

وَ

هُدًی

وَ

بُشْریٰ

لِلمُؤْمِنِيْنَ

لفظی ترجمہ

اس کی جو

درمیان

اسکے ہاتھوں

اور

ہدایت

اور

بشارت

مومنوں کیلئے

عرفان القرآن

اس کی جو اپنے سے پہلے (کی کتابوں) کی اور مومنوں کے لئے ہدایت اور خوشخبری ہے۔

 تفسیر

وَلَتَجِدَنَّهُمْ أَحْرَصَ النَّاسِ...الخ

1۔ یہود کا زندگی پر شدید حریص ہونا۔

2۔ زیادتی عمر عذاب سے نہیں بچا سکتی۔

فائدہ :

جو لوگ غفلت اور نفسانی خواہشات کے باعث اخروی مشاہدات اور الوہی مکاشفات سے مرحوم اور محجوب ہوتے ہیں وہ طویل عمر کی آرزو کرتے اور موت سے گھبراتے ہیں اور جو لوگ عشق الٰہی سے لذت آشنا ہیں وہ موت کو حجابات وحشت کے اٹھ جانے اور وصال الی اللہ کے نصیب ہونے کا سبب جانتے ہیں۔ اسی لیے ہر وقت موت اور آخرت کے مشتاق اور دیدار کے طالب ومنتظر رہتے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ’’مَن أَحَبَّ لِقَاءَ اللّٰهِ أَحَبَّ اللّٰهُ لِقَاءَه‘‘ (جو اللہ کی ملاقات کو محبوب جانے اللہ بھی اس کی ملاقات کو محبوب جانتا ہے۔)

عارف کی موت درحقیقت اس کی بیداری ہے جو موت سے محجوب رہا وہ ممیت سے محجوب رہا۔ اہل عشق کے لیے حیات حجاب ہے اور موت رفع حجاب۔

قُلْ مَنْ کَانَ عَدُوَّا لِّجِبْرِيْلَ... الخ

  1. قرآن مجید حضرت جبرائیل علیہ السلام لے کر نازل ہوئے۔
  2. قرآن حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قلب انور پر نازل کیا گیا۔ قرآن پہلی کتابوں کے لیے تصدیق، طالبان منزل کے لیے ہدایت اور اہل ایمان کے لیے خوشخبری ہے۔
  3. یہود حضرت جبرائیل علیہ السلام سے محض اس لیے دشمنی کرنے لگے کہ وہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر کیوں وحی لے کر آتے ہیں۔

فائدہ :

حسد کے باعث انسان عقل وشعور اور عدل وانصاف کی ہر حد کو توڑ دیتا ہے اور وہ حقائق ثابتہ کا بھی انکار کرنے لگتا ہے۔

 (تفسیر منہاج القرآن)

قرآن مجید کی صداقت اور ہمارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت کی دلیل

اس آیت میں قرآن مجید کی حقانیت اور ہمارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت پر دلیل ہے کیونکہ قرآن مجید نے پیش گوئی کی تھی کہ یہودی ہرگز موت کی تمنا نہیں کریں گے۔ اگر یہودی سچے تھے تو وہ موت کی تمنا کرتے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے آ کر کہتے : ’’ لو ہم نے موت کی تمنا کر لی ہے‘‘ اور یوں قرآن جھوٹا ہو جاتا اور آپ کی نبوت باطل ہو جاتی۔ یہ بڑی نازک اور خطرناک پیش گوئی تھی کہ یہ کبھی بھی موت کی تمنا نہیں کریں گے ان کے لیے بڑا آسان تھا کہ آپ کے دعوی نبوت کو باطل کرنے کے لیے موت کی تمنا کر لیتے لیکن ایسا نہ ہو سکا اور آپ کی نبوت کا صدق اور قرآن کی حقانیت ثابت ہو گئی جھوٹا نبی کبھی ایسے دعویٰ کی جرات نہیں کر سکتا۔ جس طرح مرزا غلام احمد قادیانی نے محمدی بیگم سے نکاح کی پیش گوئی کی لیکن اس کا نکاح مرزا سلطان محمد سے ہو گیا۔ پھر اس نے پیشین گوئی کی کہ سلطان محمد ڈھائی سال بعد مر جائے گا اور محمدی بیگم اس کے نکاح میں آ جائے گی لیکن غلام احمد مر گیا اور مرزا سلطان محمد اس کے بعد تادیر زندہ رہا۔ اسی طرح اس نے ایک عیسائی پادری آتھم کے متعلق پیش گوئی کی کہ وہ 5 ستمبر (1894ء) کو مر جائے گا لیکن وہ اس تاریخ کو نہیں مرا بلکہ وہ تندرست ہو گیا۔

(تفسیر تبیان القرآن)

حدیث

عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رضی الله عنه يَقُوْلُ : أَمَرَنَا رَسُوْلُ اﷲِصلی الله عليه وآله وسلم أَنْ نَتَصَدَّقَ فَوَافَقَ ذَلِکَ عِنْدِي مَالًا، فَقُلْتُ : الْيَوْمَ أَسْبِقُ أَبَابَکْرٍ إِنْ سَبَقْتُهُ يَوْمًا، قَالَ : فَجِئْتُ بِنِصْفِ مَالِي، فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : مَا أَبْقَيْتَ لِأَهْلِکَ؟ قُلْتُ : مِثْلَهُ، وَ أَتَی أَبُوْبَکْرٍ بِکُلِّ مَا عِنْدَهُ، فَقَالَ : يَا أَبَابَکْرٍ! مَا أَبْقَيْتَ لِأَهْلِکَ؟ قَالَ : أَبْقَيْتُ لَهُمُ اﷲَ وَرَسُوْلَهُ، قُلْتُ : وَاﷲِ! لَا أَسْبِقُهُ إِلَی شَيئٍ أَبَدًا.

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَبُوْدَاوُدَ.

’’حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں صدقہ کرنے کا حکم فرمایا۔ اتفاق سے اس وقت میرے پاس مال تھا، میں نے کہا : اگر میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے سبقت لے جا سکتا ہوں تو آج لے جاؤں گا۔ فرماتے ہیں کہ پھر میں نصف مال لے کر حاضر ہوا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اپنے گھر والوں کے لئے کیا چھوڑا ہے؟ میں نے عرض کیا : اس (مال) کے برابر ہی، اتنے میں ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سارا مال لے کر حاضر ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ابوبکر! گھر والوں کے لئے کیا چھوڑا ہے؟ عرض کیا : ان کے لئے اللہ عزوجل اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو چھوڑ آیا ہوں۔ میں نے (دل میں) کہا : بخدا! میں کبھی ان سے کسی (نیک) بات میں آگے نہیں بڑھ سکوں گا۔‘‘

٭٭٭٭٭