ہمہ جہتی بیداریِ شعور کی ضرورت

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری

ترتیب و تدوین : جلیل اَحمد ہاشمی

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اس worldwide ورکرز کنونشن کے ذریعے چند انتہائی اہم چیزیں آپ کے گوش گزار کرنا چاہتا ہوں۔ پہلی بنیادی بات یہ کہ تحریک بیداریِ شعور کو جاری رکھنے کا اعلان کیا جاتا ہے۔ وطن عزیز میں بیداریِ شعور کی اس تحریک کا بھرپور طریقے سے باقاعدہ آغاز ایک سال قبل کر دیا گیا تھا تاکہ عوامی شعور کو اس ملک کے اَبتر حالات اور اس میں مروج دجالی نظام سے آگاہ کیا جائے جو سراسر دجل و فریب، ظلم و ناانصافی، خیانت و بددیانتی، کرپشن و لوٹ مار اور غریبوں کو اُن کے حقوق سے محروم رکھنے پر قائم ہے۔

’جمہوریت‘ یا ’مجبوریت‘

مملکتِ خداداد میں ’جمہوریت‘ کی بجائے ’مجبوریت‘ کا نظام نافذ ہے۔ جمہوریت تو در حقیقت کاروبارِ حکومت میں عوام کی شراکت کا نام ہے لیکن یہاں جمہوریت عوام کو کاروبار حکومت میں شراکت سے محروم اور دور رکھنے کی ایک ساز باز کا نام ہے۔ یہ جمہوریت ایک فیصد لوگوں کے لئے ان کی عیاشی اور کاروبار کا ذریعہ ہے۔ ملک کے تمام وسائل و ذرائع اور مال و دولت پر گنے چنے مخصوص لوگوں پر مشتمل مافیا قابض ہے۔ اس ملک کے غریب اٹھارہ انیس کروڑ عوام کے لئے نہ روزگار ہے نہ کوئی ذریعہ معاش، نہ وسائل نہ معیشت، نہ عدل و انصاف ہے، نہ جان و مال کا تحفظ۔ عوام کو یہاں حقوق حاصل ہیں نہ ان کی عزت و آبرو محفوظ ہے، حتی کہ ملک کے اٹھارہ کروڑ عوام کو جینے کا حق بھی حاصل نہیں رہا۔ ملکی حالات اس قدر گھمبیر و دگرگوں ہو چکے ہیں کہ لوگ اب یہ discuss کرنے اور سوچنے لگے ہیں کہ پاکستان کا قیام کہیں غلط فیصلہ تو نہیں تھا۔ معاذ اللہ! استغفر اﷲ! کیا یہ ملک عوام کی بجائے صرف خاص اشرافیہ اور ایک مخصوص طبقہ کے لئے بنایا گیا تھا؟ یہ صرف بڑے بڑے مال دار لوگوں کے تحفظ کے لئے بنا تھا یا اس ملک کا قیام اس ملک کے غریب اور پسے ہوئے مجبور لوگوں کے لئے بھی تھا؟ کیا مزدوروں، کسانوں، چھوٹے ملازمت پیشہ لوگوں اور ان کی اولادوں کو اس ملک میں جینے کا کوئی حق نہیں؟ کیا یہ ملک ان سفید پوش لوگوں کے لئے بھی ہے جو رزق حلال پر زندہ رہنا چاہتے ہیں؟ سوچنے کی بات ہے کہ کیا یہ ملک اٹھارہ کروڑ عوام کے لئے بنا ہے یا صرف ان چند ہزار خاندانوں کے لئے کہ مال و دولت، سیاست و معیشت، ذرائع و وسائل غرضیکہ ہر چیز پر ان کا قبضہ ہو اور اُن کے سوا اٹھارہ کروڑ عوام میں کسی کا کوئی حق نہ ہو؟ عوام کا حق صرف جل کے مر جانا یا سڑکوں پر ٹائر جلا کر احتجاج کرنا ہے۔ عوام کا حق صرف لٹتے رہنا اور مہنگائی و محرومیت کی آگ میں جھلستے رہنا ہے۔ یہ ساری زندگی عدالتوں کے دھکے کھاتے ہیں۔ مایوس اور بے بس نگاہوں کے ساتھ جلتے مستقبل کو دیکھتے رہنے کے سوا ان کے پاس کچھ نہیں ہے۔ نام نہاد سیاسی لٹیروں کا یہ کہنا کہ ہم عوام کے نمائندے ہیں اور عوام کے بھیجے ہوئے ہیں، سب فراڈ ہے؛ یہ سب ان کا دجل و فریب ہے، مکاری ہے، کذب بیانی ہے۔ یہ سارا دجالی نظام ہے جو ظلم و ستم، جبر و بربریت اور کرپشن پر قائم ہے۔ اس نظام میں شریف اور کم زور کی عزت و آبرو کے ساتھ زندہ رہنے کی کوئی گنجائش نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہاں ان کمزور عامۃ الناس کی کوئی جگہ ہی نہیں جو اس ملک کا مستقبل روشن دیکھنا چاہتے ہیں۔

حکمرانوں کی نا اندیشی

ملک کی صنعت اور انڈسٹری بند پڑی ہے۔ اس معاشی بد حالی کے باعث بے روزگاری نے مزدوروں، محنت کشوں کو روٹی کے نوالے تک کا محتاج کر دیا ہے۔ بد امنی عام ہے۔ طبقاتی کشمکش بڑھتی جا رہی ہے جس کے باعث قتل و غارت اور لوٹ مار کا بازار گرم ہے، امن و امان تباہ ہے لیکن ملکی حکمرانوں اور لیڈروں کو اس کی کوئی فکر نہیں۔ اس کے برعکس ہمسایہ ملک بھارت کو دیکھیں کہ ایک ہی وقت میں دو آزاد خود مختار ملک وجود میں آئے تھے۔ پاکستان کے برعکس بھارت کی معاشی ترقی کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ یورپ، انگلینڈ، امریکہ اور کینیڈا سمیت تمام مغربی دنیا نے اپنی پوری ٹیکنالوجی خاص طور پر IT technology انڈیا منتقل کر دی ہے۔ بنگلور پوری دنیا کا IT capital بن گیا ہے۔ ساری یورپی اور مغربی دنیا کی ٹیکنالوجی یونہی تو بھارت منتقل نہیں ہو گئی! اس کے کچھ اسباب ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ بھارت نے مسلسل جدوجہد سے دنیا بھر میں ٹیکنالوجی میں اپنا ایک نام پیدا کر لیا ہے۔ یہی حال دیگر شعبوں کا ہے۔

انڈیا کرپشن سے پاک ملک نہیں ہے وہاں بھی کرپشن ہے مگر وہاں کرپشن کی ایک حد ہو گی اگر کرپشن کرتے ہیں تو قوم پر بھی خرچ کرتے ہیں۔ قوم کو اتنا خوشحال بنایا کہ وہاں ایک عام سپاہی، کلرک، پرائمری ٹیچر کی تنخواہ پاکستانی کرنسی کے مطابق 50 ہزار روپے ماہانہ سے شروع ہوتی ہے۔ ماہانہ اخراجات کے بعد 2400 سے 2500 روپے تک ان کی ماہانہ savings ہیں۔ اعلی عہدوں پر تنخواہوں کے بنیادی اسکیل پاکستانی کرنسی کے مطابق ایک لاکھ سے ڈیڑھ لاکھ روپے سے شروع ہوتے ہیں، اس سے بھارت میں عوام کی معاشی ترقی کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اس کے برعکس پاکستان میں ساری کرپشن ہی کرپشن ہے، یہاں قوم کا نہ کوئی خیال ہے نہ حیا ہے نہ لحاظ، یہاں اقتدار پر قابض ہر شخص ہر وقت جھوٹ بولتا ہے حتی کہ اسمبلی کے فلور پہ بڑے سے بڑا ذمہ دار شخص بھی 24 گھنٹے جھوٹ بولتا ہے۔ ہر minister جھوٹ بولتا ہے۔ ہر statement جو Tv پر آتی ہے حقیقت اسکے بالکل برعکس ہوتی ہے۔ مختلف ٹی۔ وی چینلز پارلیمنٹ کے فلور پہ دی گئی statement کو اگلے ہی روز ننگا کر کے دکھا دیتے ہیں کہ یہ جھوٹ بولا گیا۔ بتایا کچھ اور گیا تھا، ہو کچھ اور رہا ہے؛ مگر مجال ہے کہ اس قوم کے کانوں پر جوں تک رینگے۔ کبھی کسی کے ماتھے پہ شکن نہیں آتی۔ جس ملک میں 24 گھنٹے جھوٹ بولا جائے، ہر ذمہ دار جھوٹ بولے، ہر شخص خیانت، بددیانتی اور کرپشن کرے، جہاں سپریم کورٹ فیصلے کر کر کے ہلکان ہو جائے اور کوئی پرواہ ہی نہ کرے تو اس کے سوا کیا کہا جا سکتا ہے کہ بحیثیت پاکستانی قوم ہمارا شعور ختم ہو چکا ہے اور ہماری آرزوئیں مٹ چکی ہیں! ہماری یہ حالت بنی اسرائیل کی غلام قوم سے مختلف نہیں ہے۔ لیکن اس سب کے باوجود قوم کبھی ٹس سے مس نہ ہوئی۔

موسوی اِنقلاب وقت کی ضرورت ہے

یاد رکھیں! جب قوم غلام بن جائے تو حکمران فرعون بن جاتے ہیں۔ اب اس قوم کے مقدر کو بدلنے کے لئے انقلاب موسوی چاہیے اور وہ اس وقت تک نہیں آئے گا جب تک یہ 18 کروڑ غلام خود موسوی پیغام کے ساتھ اُٹھ کھڑے نہیں ہو جاتے۔ ان فرعونوں کے خلاف بغاوت کیے بغیر حالات نہیں سنور سکتے۔ آپ نے by-elections دیکھے ہیں جو حال ہی میں ہوئے ہیں۔ ان ضمنی انتخابات میں کامیاب ہونے والے امیدواروں کو بعض جگہوں پر ستر ہزار سے نوے ہزار تک ووٹ ملے ہیں۔ مروجہ نظام پر راضی رہنے کا یہ status quo اُس مجموعی بے شعوری اور بے حسی کی خبر دے رہا ہے جس میں ساری قوم مبتلا ہے۔ یہ صوبہ پنجاب کا حال ہے۔ اگر آپ کراچی چلے جائیں تو وہاں ایک امیدوار کو لاکھ سے اوپر ووٹ ڈالے گئے ہیں۔ یہ آپ کو ایک comparison دیا ہے کہ اس قوم کا شعور یہ ہے۔

غلامانہ سوچ اور قومی بے حسی

جب قوم کا شعور گر جائے اور اس کی صحیح رہنمائی نہ کی جا رہی ہو اور قوم بے شعوری، بے خبری اور بے آگاہی کی وجہ سے اپنی ذاتی مشکلات اور مسائل میں اتنی الجھی ہوئی ہو کہ اس کی قومی سوچ ہی ختم ہو جائے تو ان حالات میں قوم کے اندر تبدیلی کی آرزو کلیتاً معدوم ہو جاتی ہے۔ یہ کسی قوم کی غلامی کی علامتیں ہوتی ہیں۔ آپ نے کبھی سوچا کہ قومیں طویل مدت یعنی صدیوں تک غلامی میں کیوں مبتلا رہتی ہیں؟ اس لئے کہ غلام کی پہچان ہی یہ ہوتی ہے کہ اس میں تبدیلی کی آرزو ہی نہیں رہتی۔ وہ مستقبل کو روشن کرنے کی آرزو ہی نہیں رکھتا۔ وہ سمجھتا ہے کہ یہ اُس کا حق ہے نہ اُس کے نصیب میں ہے۔ روشن مستقبل کو وہ اپنا right ہی نہیں سمجھتا۔ وہ صرف اُس وقت چیختا ہے جب اسے روٹی نہیں ملتی یا جب بجلی نہیں ملتی تو تب باہر نکلتا ہے۔ لوڈشیڈنگ کا دورانیہ جب بیس بیس گھنٹے تک پہنچ جاتا ہے تو غلام باہر نکلتے ہیں اور سڑکوں پر ٹائر جلاتے ہیں۔ اسی طرح پٹرول، ڈیزل اور گیس کے مہنگے ہونے پر غلام باہر نکلتے ہیں، سینہ کوبی کرتے ہیں، ٹائر جلاتے ہیں اور جب حکمران پٹرول، ڈیزل، گیس کو آٹھ نو روپے مہنگا کرنے کے بعد پھر ایک روپیہ کم کر دیتے ہیں تو وہ حکمرانوں سے مطمئن اور خوش ہو کر واپس گھروں کو چلے جاتے ہیں۔ فراعینِ وقت کو علم ہوتا ہے کہ غلاموں کی یہی نفسیات ہوتی ہے کہ ان پر ظلم و ستم جاری رکھا جائے اور جب بہت چیخیں تو تھوڑی سی تخفیف کردو تو خوش ہو جائیں گے کہ چلو کچھ تو مل گیا۔ یہی غلامانہ ذہنیت ہے۔ کیا یہ سلسلہ پاکستان میں جاری نہیں؟

یہاں کتنے قتل ہو رہے ہیں، اِنسانی جانیں تلف ہو رہی ہیں، قوم کبھی سڑکوں پہ as a whole نہیں نکلی تاکہ اس نظام کو challenge کریں کہ جان و مال کے محافظ کہاں مر گئے۔ اس ملک میں کتنی قتل و غارت گری ہو رہی ہے، عزتیں لٹ رہی ہیں، تیزاب پھینکے جا رہے ہیں، بیٹیاں اٹھائی جا رہی ہیں، خود کشیاں ہو رہی ہیں۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ قوم کبھی باہر نہیں نکلی۔ اس لئے کہ قوم بے حس ہو چکی ہے۔ محلے میں دائیں بائیں قتل ہو جاتے ہیں لیکن کسی کی آنکھ نہیں بھیگتی، آنسو نہیں گرتا۔ جب اس کی اپنی جان پر بنتی ہے اس کی اپنی گاڑی میں پٹرول نہیں ڈلتا، چولہا نہیں جلتا، گھر میں بجلی نہیں آتی یعنی ذاتی زندگی جب مشکل میں پڑتی ہے، روزگار بند ہو جاتا ہے، فیکٹری بند ہوتی ہے، نوکری سے نکالے جاتے ہیں؛ تب وہ چیختا ہوا باہر نکلتا ہے یا اس کے ساتھ چند باقی لوگ جو خود مضروب و مجروح اور مظلوم ہوئے انفرادی طور پر چیختے ہوئے باہر نکلتے ہیں لیکن قوم مجموعی طور پر ٹس سے مس نہیں ہوتی۔

کیا پاکستان آزاد ملک ہے؟

پوری قوم کی گاڑی میں تیل نہیں ہے، پوری قوم کا چولہا بند ہے، پوری قوم کی عزت لٹ رہی ہے، جان و مال محفوظ نہیں، قومی سالمیت بک چکی ہے۔ پاکستان اس وقت کالونی بن چکا ہے۔ اس کے پاس اب کوئی آزادی اور خود مختاری باقی نہیں رہی۔ حکمرانوں کی طرف سے یہ آزادی، خود مختاری کی باتیں سیاسی بیانات ہیں جو صرف جھوٹ، دجل فریب اور ایک مکاری ہے۔ یہ اس بد قسمت ملک کے سیاست دانوں کی عیاری ہے کہ قوم کو ہمیشہ دھوکے میں رکھیں اور لوگوں کو سبز باغ دکھا کر بہلاتے رہیں۔

انہوں نے یہاں دین کو بیچ دیا۔ اس کا نظریہ، اس کی نسلیں حتی کہ اس کے اپنے مستقبل کو بیچ دیا ہے- اب آپ کے پاس صرف یہ زمین ہے اور اس پر دیکھنے کو چند عمارتیں ہیں یا وہ رقوم ہیں جو غیر ملکی قرضوں اور امداد کی شکل میں آتی ہیں جسے کھانے والے کھا پی جاتے ہیں۔ اب ایک راستہ تو یہ ہے کہ اسی status quo پر گزارا کیا جائے اور اس طرح گزارا کرنے کا انجام پھر اور بدتر ہوتا ہے، اور دوسرا راستہ یہ ہے کہ لوگوں کو کم سے کم اس خوفناک وقوع پذیر ہونے والی حقیقت سے آگاہ کیا جائے جو مکمل قومی تباہی کے سوا کچھ نہیں۔

نظامِ سیاست اور دجالی پنجہ اِستبداد

حال ہی میں اِنقلاب کے لئے struggle کرنے والے ایک پارٹی لیڈر کا خط ہمیں ملا کہ ہم ملک میں انقلاب لانا چاہتے ہیں، نظام بدلنا چاہتے ہیں، آپ ہماری مدد کریں اور ہماری اس struggle میں باقاعدہ شریک ہوں۔ ان کا خیال ہے کہ اس نظام میں شریک ہوئے بغیر نظام کیسے بدلا جا سکتا ہے؟ نظام میں ہوں گے تو بدلیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم نے پندرہ سال اس نظام میں رہ کر تمام ممکنہ efforts کر کے دیکھ لیں۔ 1989ء سے لے کر 2004ء تک پندرہ سال تک ہم نے یہ عمل کر لیا ہے جو کچھ لوگ اب کرنے کے لئے نکلے ہیں؛ جب کہ کئی 60 سال سے اسی نظام میں رہ کر نظام کو بدلنے کے لیے کوشش کر رہے ہیں۔ مگر یاد رکھیں اس نظام کا حصہ بننے والے کبھی نظام کو بدل نہیں سکتے۔ نظام بہت بڑی طاقت ہے، یہ ایک اژدھا ہے۔ جو کوئی اس ملک کے موجودہ نظام کا حصہ بنے گا یہ نظام اُسے پیس کر رکھ دے گا، ایسے جیسے چکی میں گندم کے دانے پس جاتے ہیں یا چنے پس جاتے ہیں۔ اس نظام کا حصہ بن کے کبھی تبدیلی نہیں آ سکتی، اگر تبدیلی آ سکتی ہے تو اس نظام کے ساتھ ٹکرانے سے آئے گی۔ کسی کو اگر تبدیلی لانے کا شوق ہے تو وہ اس نظام سے ٹکرائے۔ اس نظام میں داخل ہو کر اس کو بدلنے کی آرزو کرنے والے میرے کلمات لکھ لیں کہ بس ایک الیکشن کے بعد ہی ان کو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی نظر آ جائے گا اور سمجھ آ جائے گی کہ نظام کیسے بدلتا ہے۔ کیونکہ اس نظام میں داخل ہو کر اس کو بدلنے کا کوئی راستہ ہی نہیں بچتا، آپ گورنمنٹ میں جائیں گے یا اپوزیشن میں رہیں گے۔ اپوزیشن بھی اسی نظام کا حصہ ہوتی ہے، اس کا ایک اپنا ایجنڈا ہوتا ہے، وہاں آپ الگ play نہیں کر سکتے۔ چونکہ اکثریتی گروپ کا ایک نمائندہ leader of opposition بن جاتا ہے۔ صرف وہی اپوزیشن کو officially represent کرتا ہے۔ اور اگر آپ تنہا اپنا ایک چھوٹا سا گروپ لے کر چلنا چاہیں تو چلتے رہیں سوائے status quo کو اپنانے کے کوئی دوسری راہ نہیں بچتی۔ چنانچہ سسٹم کو جڑوں سے اکھاڑ پھینکنے کی ضرورت ہے۔ اس کا دوسرا طریقہ یہ ہے کہ شعور بیدار کریں اور ہمارے پاس اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے اس کے علاوہ کوئی اور ذمہ داری نہیں کہ قوم کا شعور بیدار کریں۔

نصاریٰ کے تین نجات یافتہ فرقوں کا بیان

یہاں ایک حدیث مبارکہ quote کرتا ہوں جو بڑی relevant ہے اور ہمارے آج کل کے حالات پر اس کا کامل اطلاق ہوتا ہے۔ اسے حکیم ترمذی نے ’نوادر الاصول‘ میں بیان فرمایا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے دریافت فرمایا :

هل تدری أی الناس أعلم؟

’’کیا تمہیں معلوم ہے کہ سب سے بہتر جاننے والا (اور سمجھنے والا) آدمی کون ہے‘‘؟

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے عرض کیا :

اﷲ ورسوله أعلم.

’’اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بہتر جانتے ہیں‘‘۔

تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

فإن أعلم الناس أبصرهم بالحق، إذا اختلف الناس.

(حکيم ترمذی، نوادر الاصول فی أحاديث الرسول، 1 : 86)

’’سب سے بہتر جاننے والا وہ شخص ہے جو لوگوں میں اِختلافِ (رائے) کے وقت حق کی سب سے زیادہ بصیرت رکھنے والا ہو‘‘۔

یعنی جب لوگوں میں رائے بٹ جائے اور اِختلاف پیدا ہو اور کسی کو یہ پتا نہ چلے کہ حق کیا ہے، تو اُس وقت حق کو کامل بصارت اور بصیرت کے ساتھ دیکھنے، جاننے اور سمجھنے والا شخص ہی بڑا عالم ہو گا۔ یہ بات فرما کر آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

واختلف من کان قبلنا علی ثنتين وسبعين فرقة، نجا منهم ثلاث وهلک سائرها فرقة.

(حکيم ترمذی، نوادر الاصول فی احاديث الرسول، ج 1 : ص 87)

’’اور ہم سے پچھلے لوگ (نصاریٰ) بہتر فرقوں میں بٹ گئے تھے۔ ان میں سے تین فرقوں کو نجات ملی اور باقی سب ہلاک ہو گئے۔ ‘‘

72 فرقوں میں سے تین کو اللہ رب العزت نے بچا لیا۔ اس حدیث نبوی میں پاکستانی قوم کے لئے بہت important message ہے۔ وہ تین فرقے کون سے تھے؟ آقا علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا کہ اللہ کے ہاں سرخرو ہونے اور نجات پانے والا پہلا طبقہ وہ تھا جو ان حکمرانوں اور لیڈروں کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا جو قوم میں تباہی کرنے والے، دین کی قدروں کو مسمار کرنے والے، قوم کے حقوق پہ ڈاکہ زنی کرنے والے، قوم کو گمراہ کرنے والے، قوم کے اَخلاق و اَعمال کو برباد کرنے والے، قوم پر ظلم کرنے والے؛ غرضیکہ ہر لحاظ سے پوری society کو برباد کرنے والے تھے۔

اس حدیث مبارکہ کی روشنی میں ہم اپنے احوال کا جائزہ لیں تو ہماری معاشرتی، سماجی، معاشی، سیاسی، اخلاقی تباہی و ابتری کی ذمہ دار بھی یہی political leadership ہے۔ سو ایک طبقہ جس کو نجات ملی وہ وہ تھا جو دین عیسٰی علیہ السلام کو بچانے کے لئے ان حکمرانوں اور لیڈروں کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا یعنی اس طبقہ نے اپنے دین کی قدروں اور تعلیمات کو بچانے کے لئے جہاد کیا۔ یاد رہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کی تعلیمات زیادہ تر رحمت، اخلاقیات اور انسانی قدروں پر مبنی تھیں اور ان کے لئے شریعت کے احکام وہی تھے جو سیدنا موسی علیہ السلام پر نازل ہونے والی آسمانی کتاب تورات سے چلے آ رہے تھے۔ وہ طبقہ جو دین عیسٰی کو بچانے کے لئے اٹھ کھڑا ہوا حکمرانوں نے ان لوگوں کو قتل کر دیا کیونکہ ظالم اور جابر فراعین کبھی نہیں چاہتے کہ کوئی ان کے سامنے سر اٹھائے اور ان کے باطل کو باطل، ان کے جھوٹ کو جھوٹ کہے، ان کے ظلم کو ظلم کہے اور ان کے مکارانہ افعال پر انگلی اٹھائے۔ چنانچہ دینی قدروں کو بچانے پر وہ شہید کر دیے گئے۔ یہ وہ طبقہ تھا جسے اللہ تبارک و تعالیٰ نے نجات دے دی یعنی آخرت میں دوزخ میں جانے سے بچا لیا۔

پھر آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ دوسرا طبقہ وہ تھا کہ جن کے اندر اتنی طاقت نہیں تھی کہ وہ حکمرانوں سے ٹکرا سکیں ان سے جنگ لڑ سکیں اور حکمرانوں کے خلاف عملاً برسر پیکار ہو سکیں۔ وہ اپنی قوم پر ہونے والی نا انصافیوں اور مظالم کے خلاف ان کے مردہ قلوب و اَذہان میں شعور کو بیدار کرنے کے لئے بیداری شعور کا علم لے کر اٹھ کھڑے ہوئے۔ یہ وہ دوسرا طبقہ ہے جس میں آپ کو شامل کرنے کی دعوت دی جا رہی ہے۔ اس دوسرے طبقے نے قوم کو اللہ کے دین کی طرف بلایا، انہیں حق پر ثابت قدم رہنے اور انسانی واخلاقی قدروں کے احیاء کی جدوجہد میں شامل ہونے کی دعوت دی۔ امانت و دیانت اور سچائی پر اپنی زندگیوں کو استوار کرنے پر اُبھارا۔ اس دوسرے طبقے کے لوگ حکمرانوں سے تو نہیں لڑ سکے مگر عوام کے اندر ان کا شعور بیدار کرنے کے لئے دعوت اِلی الحق لے کر اُٹھ کھڑے ہوئے، انہوں نے اپنی طرف سے پوری efforts کیں مگر ان کی اس struggle کو بھی ان ظالم و جابر فرعون حکمرانوں نے برداشت نہ کیا اور اس دوسرے طبقے کو بھی شہید کر دیا۔ اس دوسرے طبقے کو بھی اللہ تعالیٰ نے نجات بخشی اور اُسے ہلاک ہونے یعنی آخرت میں ناکام ہونے سے بچا لیا۔

ہمارے لئے اس میں بہت بڑا message ہے۔ ہمارے حکمران ابھی اس قدر جبر و استبداد کرنے کے قابل نہیں ہوئے کہ قتل و غارت گری سے بیداریِ شعور کی مہم کو ناکام کر سکیں۔ عوام کا شعور بیدار کرنے کے لئے اٹھیں، عوام کو حق سے آگاہ کرنے کے لئے اور اس نظام کے دجل و فریب اور عیاری و مکاری کا پردہ چاک کرنے کے لئے پر اُمن طریقے کی struggle کریں۔ اگر ہم یونین کونسل لیول پر، تحصیلوں اور اَضلاع میں حسبِ قانون پُراَمن اجتماعات کے ذریعے protest کرتے ہیں، کوئی توڑ پھوڑ نہیں کرتے، کسی شخص کو گزند نہیں پہنچاتے، کسی بلڈنگ کو نقصان نہیں ہونے دیتے، کوئی تشدد کی کارروائی نہیں کرتے، سراپا اَمن بن کر پُراَمن احتجاج کرتے ہیں اور لوگوں کو حقائق سے آگاہ کرتے ہوئے ان کے شعور کو بیدار کرنے کی struggle کرتے ہیں، اس مقصد کے round table conferences کرتے ہیں، APC کرتے ہیں، سیمینار کرتے ہیں یا پمفلٹ شائع کرتے ہیں تو ابھی اس کا موقع ہے۔ یہ سارے وہ طریقے ہیں جن کو non-violent means کہتے ہیں یہ بیداری شعور کے لئے non-violent resistance ہے۔ ابھی صورت حال اس مقام پر نہیں پہنچی کہ پُراَمن جد و جہد کے سارے راستے مسدود کر دیے جائیں اور ایسا کرنے والوں کو قتل کر دیا جائے۔ مگر حدیث مبارکہ میں جس دوسرے طبقے کا ذکر کیا گیا جنہیں پُراَمن ہونے کے باوجود قتل کر دیا گیا تو اس کی وجہ یہ بنی کہ وہ اپنی جد و جہد میں بہت late ہو گئے تھے۔ شعور بیدار کرنے کی struggle شروع کرنے میں انہوں نے بڑی تاخیر کر دی تھی کیونکہ جب جابر و قاہر، فرعون و نمرود صفت حکمرانوں کا پنجہ استبداد مضبوط ہو جاتا ہے تو پھر ایسی اٹھنے والی آواز کو بھی ختم کر دیا جاتا ہے۔ ابھی وقت ہے کہ تحریک بیداریِ شعور کے لئے اٹھ کھڑے ہوں، ابھی مہلت ہے۔ پھر یہ بھی نہیں رہے گی اور ظلم و بربریت کا نظام آ جائے گا۔ ہم بتدریج اسی طرف بڑھ رہے ہیں۔ ہمیں democracy کے نام پر کچل دیا جائے گا اور کسی میں آواز اٹھانے کی بھی ہمت نہیں ہو گی۔ آپ کہیں گے : کیسے؟ یہ اس لئے کہ ہمارا ملک کالونی بن چکا ہے۔ بس اس ایک جملے میں سارا کچھ پنہاں ہے یعنی اب ہم آزاد نہیں رہے۔ ابھی بھی وقت ہے کہ اپنی آزادی کی جنگ لڑیں۔ ابھی سودے ہوتے پھرتے ہیں، کچھ ہو گئے کچھ ہو رہے ہیں اور اگر ایسے ہی لوگوں کے پاس قیادت رہی تو مزید سودے مکمل ہو جائیں گے۔

پھر آقا علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا کہ اس کے بعد ایک تیسرا طبقہ وہ تھا جن کے اندر یہ طاقت نہیں تھی کہ حکمرانوں کے سامنے اٹھ کر ڈٹ سکے یا عوام کے اندر کھڑے ہو کر حق بیان کرتے ہوئے ان کے شعور کو بیدار کرنے کی کوئی struggle کر سکے۔ اسی طرح وہ دین حق اور اس کی اقدار کو زندہ کرنے کے لئے دعوت و تبلیغ کی struggle بھی نہیں کر سکے۔ جب یہ دونوں کام نہیں کر سکے تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

فساحوا فی الجبال وتزهدوا فيها.

(حکيم ترمذی، نوادر الاصول فی احاديث الرسول، ج 1 : ص 87)

’’تو پھر وہ شہروں کو چھوڑ کر پہاڑوں (اور جنگلوں و غاروں) میں چلے گئے اور وہاں جا کے رہبانیت اختیار کر لی‘‘۔

وہ دنیا سے کٹ کر تنہا غاروں، جنگلوں اور پہاڑوں میں اللہ کی عبادت میں مشغول ہو گئے، آبادیوں سے کٹ گئے، یہی ان کا آخری انجام ہوا۔ اب اگر اپنا دین کسی کو بچانا ہو تو پھر تیسری option کے طور پر پھر وہ جنگلوں، پہاڑوں اور غاروں میں جائے گا۔ آقا علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا کہ یہ زمانہ میری امت پر بھی آئے گا۔ چنانچہ اس سے پہلے جو ہوتا ہے کر لو۔

قرآن حکیم میں رہبانیت اختیار کرنے والوں کا ذکر سورۃ الحدید میں ملتا ہے جہاں ان لوگوں کے لئے فرمایا گیا :

رَهْبَانِيَّةً ابْتَدَعُوهَا مَا كَتَبْنَاهَا عَلَيْهِمْ إِلَّا ابْتِغَاءَ رِضْوَانِ اللَّهِ فَمَا رَعَوْهَا حَقَّ رِعَايَتِهَا فَآتَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا مِنْهُمْ أَجْرَهُمْ وَكَثِيرٌ مِّنْهُمْ فَاسِقُونَ.

(الحديد، 57 : 27)

’’اور رہبانیت (یعنی عبادتِ الٰہی کے لیے ترکِ دنیا اور لذّتوں سے کنارہ کشی) کی بدعت انہوں نے خود ایجاد کر لی تھی، اسے ہم نے اُن پر فرض نہیں کیا تھا، مگر (انہوں نے رہبانیت کی یہ بدعت) محض اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے (شروع کی تھی) پھر اس کی عملی نگہداشت کا جو حق تھا وہ اس کی ویسی نگہداشت نہ کر سکے (یعنی اسے اسی جذبہ اور پابندی سے جاری نہ رکھ سکے)، سو ہم نے اُن لوگوں کو جو ان میں سے ایمان لائے (اور بدعتِ رہبانیت کو رضائے الٰہی کے لیے جاری رکھے ہوئے) تھے، اُن کا اجر و ثواب عطا کر دیا اور ان میں سے اکثر لوگ (جو اس کے تارک ہو گئے اور بدل گئے) بہت نافرمان ہیں‘‘۔

ان کے لئے قرآن مجید کی مذکورہ بالا آیت میں واضح کر دیا گیا کہ اللہ نے ان پر رہبانیت فرض نہیں کی تھی، انہوں نے خود یہ راستہ اپنا لیا۔ اس تیسرے طبقے کا قرآن و حدیث نے پورا پس منظر (background) بتا دیا کہ یہ راستہ انہوں نے اپنے طور پر اللہ کی رضا کے لیے اپنایا کہ چلو ہم اگر لوگوں کا شعور بیدار نہیں کر سکتے اور سوسائٹی میں دینی و انسانی اور اخلاقی قدروں کو زندہ رکھنے کی struggle میں عملی جد و جہد نہیں کر سکتے یعنی حکمرانوں سے ٹکر نہیں لے سکتے تو پھر اپنا دین بچانے کے لیے غاروں اور جنگلوں میں چلے جائیں۔ چنانچہ وہ راہب بن گئے۔ یہاں سے رہبانیت شروع ہوئی۔ تو جنہوں نے رہبانیت کے حقوق کما حقہ ادا کیے تو اللہ نے فرمایا : ہم نے ان کو بھی اجر عطا کر دیا، بیشک یہ ہمارا حکم نہیں تھا مگر چونکہ میری رضا کے لیے انہوں نے یہ راستہ اپنایا، تو ان کو بھی اجر دے دیا۔ لیکن جب اگلی نسلیں آئیں تو وہ اس کے حقوق ادا نہیں کر سکیں یعنی رسم رہ گئی اور حقیقت ختم ہو گئی اور وہ فسق و فجور کی طرف چل پڑے۔

یہ ایک راستہ ہے جو بیداریِ شعور کے سلسلے میں ہمیں اس حدیث مبارکہ سے ملتا ہے۔ آگاہ ہو جائیں کہ ہم اس دور میں داخل ہو چکے ہیں کہ اگر ہم قوم کے شعور کو بیدار کرنے کی struggle جاری نہیں رکھیں گے اور دعوت اِلی الحق کا فریضہ ادا نہیں کریں گے تو مجھے ڈر ہے کہ کہیں اللہ تعالیٰ ہمیں آخرت میں ناکام ہونے والوں میں شامل نہ فرما دے۔ (العیاذ باﷲ۔)