حافظ محمد سعید رضا بغدادی

عرفان القرآن کورس
درس نمبر 47 آیت نمبر 98 ت 101 (سورۃ البقرہ)
تجوید

اقسامِ مدّات کا بیان

سوال : مدّ کی کتنی قسمیں ہیں؟

جواب : مدّ کی دو قسمیں ہیں۔ 1۔ مدِّ اصلی 2۔ مدِّ فرعی

1۔ مدِّ اصلی کی تعریف مع امثال

مدِّ اصلی وہ ہے جو کسی سبب کی محتاج نہ ہو جیسے : ’’قَالَ، قَالُو، قِيْلَ‘‘

2۔ مدِّ فرعی کی تعریف مع امثال

مدِّ فرعی وہ مدّ ہے جو کسی سبب کی محتاج ہو جیسے : ’’جَآءَ، جِيْئَ، سُوءَ‘‘ میں مَدّ ’’ء‘‘ کے سبب ہے۔

سوال : مدِّ فرعی کی کتنی قسمیں ہیں؟

جواب : مدِّ فرعی کی چار قسمیں ہیں۔

  1. مدِّ متّصل
  2. مدِّ منفصل
  3. مدِّ عارض
  4. مدِّ لازم

ترجمہ

مَن كَانَ عَدُوًّا لِّلّهِ وَمَلآئِكَتِهِ وَرُسُلِهِ وَجِبْرِيلَ وَمِيكَالَ

متن مَنْ کَانَ عَدُوًّا لِلّٰهِ وَ مَلآئِكَتِهِ وَرُسُلِهِ وَ جِبْرِيْلَ وَ مِيْکَالَ
لفظی ترجمہ جو ہے دشمن اللہ کا اور اسکے فرشتوں اور اسکے رسول اور جبریل کا اور میکائیل کا
عرفان القرآن جو اللہ کا اور اس کے فرشتوں اور اس کے رسولوں اور جبریل اور میکائیل کا دشمن ہوا۔

فَإِنَّ اللّٰهَ عَدُوٌّ لِلْکَافِرِيْنَO وَلَقَدْ أَنْزَلْنَآ إِلَيْکَ آيَاتٍ

متن فَإِنَّ اللّٰهَ عَدُوٌّ لِلْکَافِرِيْنَ وَ لَقَدْ أَنْزَلْنَا إِلَيْکَ آيَاتٍ
لفظی ترجمہ تو بیشک اللہ دشمن ہے ایسے کافروں کا اور یقینا نازل کیں ہم نے تیری طرف آیتیں
عرفان القرآن تو یقینا اللہ (بھی ان) کا فروں کا دشمن ہے اور بے شک ہم نے آپ کی طرف آیتیں اتاری ہیں۔

بَيِّنَاتٍ وَّمَا يَکُفُرُ بِهَآ إِلَّا الفَاسِقُوْنَO أَوَکُلَّمَا عٰهَدُوْا

متن بَيِّنَاتٍ وَ مَا يَکْفُرُ بِهَآ اِلَّا الفَاسِقُوْنَ أَوَ کُلَّمَا عٰهَدُوْا
لفظی ترجمہ روشن اور نہیں انکار کرتے انکا مگر فاسق یہاں تک کہ جب کبھی انہوں نے عہد کیا
عرفان القرآن روشن اور ان کا سوائے نافرمانوں کے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ اور کیا جب بھی انہوں نے عہد کیا

عَهْداً نَّبَذَهُ فَرِيقٌ مِّنْهُم بَلْ أَكْثَرُهُمْ لاَ يُؤْمِنُونَO وَ

متن عَهْدًا نَبَذَهُ فَرِيْقٌ مِنْهُمْ بَل أکْثَرُهُمْ لَا يُؤمِنُوْنَ وَ
لفظی ترجمہ کوئی عہدہ پھینک دیا اسکو ایک گروہ ان میں سے بلکہ اکثر انکے نہیں ایمان رکھتے اور
عرفان القرآن تو ان میں سے ایک گروہ نے اسے توڑ کر پھینک دیا۔ بلکہ ان میں سے اکثر ایمان ہی نہیں رکھتے۔ اور

لَمَّا جَآءَ هُمْ رَسُوْلٌ مِنْ عِنْدِ اللّٰهِ مُصَدِّقٌ لِمَا مَعَهُمْ

متن لَمَّا جَآءَ هُمْ رَسُوْلٌ مِنْ عِنْدِ اللّٰهِ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَهُمْ
لفظی ترجمہ جب آیا انکے پاس ایک رسول سے پاس اللہ کے تصدیق کرنیولا اسکی جو انکے پاس ہے
عرفان القرآن جب ان کے پاس اللہ کی جانب سے رسول آئے جو اس کتاب کی تصدیق کرنے والے ہیں جو ان کے پاس موجود تھی

نَبَذَ فَرِيْقٌمِنَ الَّذِيْنَ اُوْتُوْا الْکِتَابَ ق کِتَابَ اللّٰهِ وَرَآءَ ظَهُوْرِهِمْ

متن نَبَذَ فَرِيْقٌ مِنَ الَّذِيْنَ اُوْتُوْا الْکِتَابَ کِتَابَ اللّٰهِ وَرَآءَ ظَهُوْرِهِمْ
لفظی ترجمہ پھینک دیا ایک گروہ نے سے جن کو دی گئی تھی کتاب کتاب کو اللہ کی پیچھے اپنی پیٹھوں
عرفان القرآن تو (انہی ) اہل کتاب میں سے ایک گروہ نے اللہ کی (اسی) کتاب (توراۃ) کو پس پشت پھینک دیا

کَأَنَّهُمْ لَا يَعْلَمُوْنَO

متن کَأَنَّ هُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ
لفظی ترجمہ گویا کہ وہ نہیں جانتے
عرفان القرآن گویا وہ (اس کو) جانتے ہی نہیں۔

تفسیر

اللہ‘ رسول اور فرشتوں سے دشمنی کا انجام

مَن كَانَ عَدُوًّا لِّلّهِ وَمَلآئِكَتِهِ.... الخ

(الْبَقَرَة ، 2 : 98)

اللہ تعالیٰ‘ اس کے رسولوں اور فرشتوں سے دشمنی کا انجام اللہ کی عداوت ہے۔

فائدہ :

یہ آیت اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے مقبول ومقرب بندوں کی دشمنی اللہ تعالیٰ کی عداوت کا باعث بن جاتی ہے۔ اس کی تصریح اس حدیث قدسی میں بھی ہے جس میں باری تعالی نے ارشاد فرمایا :

مَنْ عَادَ لِی وَلِيًّا فَقَدْ آذَنْتُهُ بِالْحَرْبِ

’’جس نے میرے کسی ولی سے عداوت کی میں اس کے ساتھ جنگ کا اعلان کرتا ہوں۔‘‘

وَلَقَدْ أنْزَلْنَا إِلَيْکَ.... الخ

حقانیت قرآن مجید کی نفی اور اس کی حکم عدولی کرنے والے ہی اصل منکر ہیں۔

وَلَمَّا جَآءَ هُمْ رَسُوْلٌ مِنْ عِنْدِ اللّٰهِ.... الخ

1۔ شان نبوت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نظر انداز کرنا یہودی ذہنیت کا خاصہ ہے۔

2۔ شان محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انکار خود کتاب اللہ کو پس پشت ڈالنے کے مترادف ہے۔ یہود پوری تورات کا انکار نہیں کرتے تھے بلکہ جہاں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت کا اظہار ہوتا اس حصے کو چھپاتے۔ گویا حضور کی شان کو چھپانا اور بقیہ عقائد کو ماننا خدا کے ہاں مقبول نہیں۔

(تفسیر منہاج القرآن)

شان نزول آیت کریمہ

ابن صوریا یہودی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یا حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے ایک دفعہ استفسار کیا کہ فرشتوں میں سے وحی کون لاتا ہے؟ فرمایا کہ جبرائیل۔ کہنے لگا وہ فرشتہ تو ہمارا دشمن ہے جو عذاب لے کر آتا رہا ہے۔ اگر میکائیل وحی لاتا ہے تو ہم ضرور ایمان لے آتے۔ کیونکہ وہ خوشحالی اور سلامتی کرنے والا فرشتہ ہے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔

(تفسیر جلالین)

الحدیث

عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ عَمْرٍو رضي اﷲ عنهما أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : أَرْبَعٌ مَنْ کُنَّ فِيهِ کَانَ مُنَافِقًا خَالِصًا وَمَنْ کَانَتْ فِيْهِ خَصْلَةٌ مِنْهُنَّ کَانَتْ فِيْهِ خَصْلَةٌ مِنَ النِّفَاقِ حَتَّی يَدَعَهَا : إِذَا اؤْتُمِنَ خَانَ، وَ إِذَا حَدَّثَ کَذَبَ، وَإِذَا عَاهَدَ غَدَرَ وَ إذَا خَاصَمَ فَجَرَ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

’’حضرت عبد اﷲ بن عمرو رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : چار باتیں جس میں ہوں وہ خالص منافق ہے اور جس کے اندر ان میں سے کوئی ایک ہو تو اس میں نفاق کی ایک خصلت ہے یہاں تک کہ اسے چھوڑ دے (وہ خصلتیں یہ ہیں) : جب امانت اس کے سپرد کی جائے تو خیانت کرے، جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے اور جب جھگڑے تو بیہودہ گوئی کرے۔‘‘